متفرق مضامین

وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

سمندری اور دریائی تغیرات کے متعلق قرآن کریم کی حیرت انگیز پیشگوئی

لغت دیکھنے سے جو معانی سامنے آئے ہیں ان کے لحاظ سے آیت مذکورہ کے بھی نئے پہلو سامنے آئے ہیں جن کی گواہی موجودہ زمانے نے واقعاتی طور پر دے دی ہے۔ ان معانی اور موجودہ زمانے میں رونما ہونے والے سمندری اور دریائی تغیرات کی مطابقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ لاریب قرآن کریم عالم الغیب ہستی کی کتاب ہے جو ایسی باتیں بیان کرتی ہے جو اُس زمانے میں ایک ذی علم اور ماہر انسان بھی نہیں کہہ سکتا تھا کُجایہ کہ ایک اُمّی نبی اپنی طرف سے بیان کرتا

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حال ہی میں اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ ۲۲؍ستمبر ۲۰۲۳ء بمقام مسجدمبارک ٹلفورڈ، اسلام آباد، یوکے، میں احباب جماعت کو قرآن کریم کی صداقت کی طرف توجہ کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ’’بعض نوجوان اور جوانی میں قدم رکھنے والےبچے بھی پوچھتے ہیں … کہ کس طرح ہمیں پتا چلے کہ اسلام سچا مذہب ہےاور آنحضرت ﷺ بھی سچے نبی ہیں … یہاں کے ماحول نے ان پر یہ اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے، ان کو شک پڑنا شروع ہوگیا ہے اسلام کی سچائی کے بارے میں … والدین خود بھی قرآن کریم پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی دکھائیں، پیشگوئیاں دکھائیں کہ کس طرح یہ اسلام کی سچائی پر ایک دلیل ہیں۔ اسلام کی سچائی کے ثبوت تو ہزاروں ہیں پس اپنے علم کو بڑھانے کی ضرورت ہے، والدین کو بھی اور نوجوانوں کو بھی۔ صرف سوال کر دینا کافی نہیں ہے، اگر سوال کرنا ہے تو خود علم حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اور اسی طرح جو ہماری تنظیمیں ہیں اُن کو بھی اس بارے میں بھی ان کو علم دینا چاہیے …‘‘ (خطبہ جمعہ ۲۲؍ستمبر ۲۰۲۳ء مسجدمبارک ٹلفورڈ، اسلام آباد۔ یوکے)

قرآن کریم خدائے علیم و خبیر کی کتاب ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جیسے اُمی نبی پر نازل ہوئی، اس کی صداقت میں جہاں دیگر کئی دلائل ہیں وہاں آئندہ کے متعلق پیشگوئیاں بھی ایک بھاری اور حیرت انگیز ثبوت ہیں خاص طور پر آج کے دَور میں رُونما ہونے والے واقعات اور تغیرات کا ذکر بھی انسان قرآن کریم میں موجود پاتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح آج سے قریباً پندرہ سو سال قبل عرب کے ایک اُمی پر وہ باتیں نازل ہوئیں جو بظاہر ناممکن اور احاطہ قیاسِ انسانی سے باہر تھیں لیکن آنے والے وقت نے ان باتوں کی حقیقت سے پردہ اٹھایا۔ جس نے ایک طرف تو مومنوں کے ازدیاد ایمان کے سامان کیے اور دوسری طرف معترضین کو قرآنی صداقت کے قائل ہونے پر مجبور کیا۔ ایسی باتوں میں سے کچھ کا ذکر سورۃ التکویر میں ہوا ہے جن میں سے ایک بات وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَ ت کے الفاظ میں بیان ہوئی ہےجس کا سلیس ترجمہ ہے ’’اور جب سمندر پھاڑے جائیں گے‘‘ لیکن الفاظ کے مختلف المعانی ہونے کے اعتبار سے یہ آیت دیگر مضامین بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف میں بھی بہت سی آیات ہیں جو اپنے اپنے موقعہ پر جُدا مطابقت رکھتی ہیں اگرچہ ظاہر الفاظ ایک ہی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۳۲۱، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)

اس آیت میں لفظ الْبِحَارُاور سُجِّرَتْ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ بالا فرمان کی عمدہ مثال ہیں۔ لفظ الْبِحَارُکے معنی المنجد میں یوں درج ہیں: بَحرٌ: خلاف البرّ (یعنی بحر کا لفظ خشکی کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے) کُل نھر عظیم کالنیل مثلًا (ہر بڑا دریا جیسا کہ دریائے نیل) البَحرۃ ج: بِحَارو بُحْر: مستنقع الماء و مجتمعہٗ / البِرْکَۃ (پانی کے جمع ہونے کی جگہ) البُحیرۃ: تصغیر البحرۃ، مجتمع الماء متسع تحیط بہ الارض من کل جھات (جھیل)۔ اور لفظ سَجَرَکے معانی میں لکھا ہے: (۱) سَجَّرَ الْمَآءَ: فَجَّرَہٗ (اس نے پانی کو پھاڑا) (۲) سَجَرَ المَآءُ النَّھْرَ: مَلَأَہٗ (پانی نے دریا کو بھر دیا) (۳) سُجَّرَ الْبَحْرُ: ھَاجَ و ارْتَفَعَتْ اَمْوَاجُہٗ (سمندر چڑھ گیا اور بلند موجوں والا ہوگیا) (۴) سَجَّرَ التَّنُّوْرَ: مَلَأَہٗ وَقُوْدًا و احْمَاہُ (تنور کو لکڑیوں سے بھر دیا تا کہ اُس کو گرم کرے) (۵) الْمَسْجُوْر: (مفع) السَّاکِنُ و الْمُمْتَلِیُٔ مَعًا۔ الفَارِغُ (ضد) (بھرا ہوا۔ خالی اضداد معنی رکھتا ہے) (۶) سَجَرَ الْکَلْبَ: شَدّہٗ بِالسَّاجُوْرِ۔ (اس نے کتے کے گلے میں لکڑی ڈالی) السَاجُوْرُ ج سَوَاجِیْر: خُشْبَةٌ تُعَلَّقُ في عُنُق الْكَلْب ( ساجور اُس لکڑی کو کہتے ہیں جو کتے کے گلے میں ڈالی جاتی ہے) فِی أَعْناقِھِم سَوَاجِر (ان کی گردنوں میں طوق ہیں)

صحیح تفسیر کے لیے سات معیار درج کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پانچویں معیار میں فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کر دیے ہیں کہ چنداں لغات عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں ہاں موجب زیادتِ بصیرت بے شک ہے بلکہ بعض اوقات قرآن کریم کے اسرار مخفیہ کی طرف لغت کھودنے سے توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے۔‘‘(برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد ۶صفحہ ۱۹)

Aral Sea بائیں طرف ۱۹۸۹ء میں اور دائیں طرف ۲۰۱۴ء میں (بشکریہ وکی پیڈیا)

پس لغت دیکھنے سے جو معانی سامنے آئے ہیں ان کے لحاظ سے آیت مذکورہ کے بھی نئے پہلو سامنے آئے ہیں جن کی گواہی موجودہ زمانے نے واقعاتی طور پر دے دی ہے۔ ان معانی اور موجودہ زمانے میں رونما ہونے والے سمندری اور دریائی تغیرات کی مطابقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ لا ریب قرآن کریم عالم الغیب ہستی کی کتاب ہے جو ایسی باتیں بیان کرتی ہے جو اُس زمانے میں ایک ذی علم اور ماہر انسان بھی نہیں کہہ سکتا تھا کُجایہ کہ ایک اُمّی نبی اپنی طرف سے بیان کرتا۔ اب بیان شدہ معانی کے لحاظ سے آیت مذکورہ کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے:۔

(۱) سَجَّرَ بمعنی پھاڑنا

جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے سَجَّرَ الْمَآءَ کا ایک مطلب ہے فَجَّرَہٗ: اس نے پانی کو پھاڑا۔ یہ معنے خود قرآن کریم نے بھی بیان کیے ہیں۔ چنانچہ سورۃ الانفطار میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ۔(الانفطار: ۴) یعنی جب سمندر پھاڑے جائیں گے۔ انسان نے اپنی ترقی کے لیے ہمیشہ پانی سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے خاص طور پر پچھلی دو صدیوں میں پانی نے ملکوں کی ترقی میں انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ یہ انقلابی کردار سمندروں اور دریاؤں کو پھاڑنے اور اُن سے نہریں نکالنے کی صورت میں ہی رونما ہوا ہے اور یہ انتظام Canal System کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نہروں کے نکالنے کے تین بڑے مقاصد ہیں: آبپاشی کی نہریں یعنی فصلوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے، انسانی آبادی تک پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے اور آبی گذرگاہوں کے طور پر یعنی سفراور تجارتی سامان کی نقل و حمل کے لیے۔ پچھلی دو صدیوں میں ان تینوں اغراض کی خاطر دنیا بھر میں نہروں اور راج بہا (نہر (canal) سے نکلنے والی چھوٹی نہر) اور نالیوں کا جال بچھایا گیا، نہروں کا یہ جال قرآنی پیشگوئی ’’جب سمندر/ دریا پھاڑے جائیں گے‘‘ کی تکمیل کا واشگاف اعلان ہے۔ سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں کو نہروں کے ذریعہ آپس میں ملایا گیا ہے۔ نہر سویز (Suez Canal) اور نہر پانامہ (Panama Canal) جیسی ناقابل یقین نہروں سمیت دیگر کئی بڑی بڑی نہریں قرآنی صداقت کا عظیم الشان اظہار ہیں۔دنیا میں بنائی جانے والی نہروں میں ہزاروں نام ہیں جن میں سے چند بڑی نہروں کے نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:

۱۔ نہر سویز (Suez Canal) بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔

۲۔ نہر پانامہ (Panama Canal) جو بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس کو آپس میں ملاتی ہے۔

۳۔ کورنتھ نہر (Corinth Canal) یونان

۴۔ نہر مٹل لینڈ (Mittelland Canal) جرمنی

۵۔ وولگا ڈون کینال ( Volga-Don Canal) روس

بعض مفسرین نے ان معنوں میں آگے مزید تفصیل بھی بیان کی ہے مثلاً علامہ القرطبی لکھتے ہیں: وقيل: أرسِل عَذْبها على مالحها، ومالحها على عذبها، حتى متلأت. عن الضحاك ومجاهد: أي فُجرت فصارت بحرًا واحدًا. (تفسير الجامع لاحكام القرآن/ القرطبي سورۃ التکویر: ۶) یعنی (اس آیت کے معنوں میں) یہ بھی کہا گیا ہے کہ میٹھے پانی کو کھارے پانی اور کھارے پانی کو میٹھے پانی پر ڈالا جائے گا یہاں تک کہ وہ بھر جائیں گے۔ پھر ضحاک اور مجاہد کے مطابق اس کا مطلب ہے پھاڑے جائیں گے یہاں تک کہ ایک ہی سمندر بنا دیے جائیں گے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ اور جس وقت دریا چیرے جاویں گے یعنی زمین پر نہریں پھیل جائیں گی اور کاشتکاری کثرت سے ہوگی۔‘‘ (شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۱۸) حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر میں بیان فرماتے ہیں: ’’…. یہ بھی ہو رہا ہے کہ دریاؤں میں سے نہریں نکالی جاتی ہیں بلکہ بعض جگہ وسیع نہریں نکالنے کے لیے ایک دریا کا پانی دوسرے دریا کے پانی میں ملا دیتے ہیں … اور چونکہ بحر کے معنی اَلْمَاءُ الْمِلْحُ کے بھی ہیں یعنی صرف دریا مراد نہیں بلکہ اس کے معنے سمندر کے بھی ہیں اس لیے اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ سمندر آپس میں ملا دیے جائیں گے جیسے نہر سویز کے ذریعہ سے قلزم اور روم کو یا نہر پانامہ کے ذریعہ سے دو امریکن سمندروں کو آپس میں ملا دیا گیا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۸ صفحہ ۲۱۱۔ تفسیر سورۃ التکویر)

(۲) سَجَّرَ بمعنی بھرنا، سمندر کا چڑھنا اور موجوں میں تلاطم آنا

پھر عربی لغت میں اس لفظ کے ایک معنی یوں بیان ہوئے ہیں: سَجَّرَ النَّهْرَ: مَلأَهُ (القاموس المحیط) یعنی اس نے دریا کو بھر دیا۔ المنجد میں ہے سَجَرَ الْمَآءُ النَّھْرَ : مَلَأَہٗ یعنی پانی نے دریا کو بھر دیا۔ اسی طرح المنجد میں سُجَّرُ الْبَحْرُ کے ایک معنی ھَاجَ و ارْتَفَعَتْ اَمْوَاجُہٗ بیان ہوئے ہیں یعنی سمندر کی لہروں میں تلاطم آگیا اور وہ اونچی ہوگئیں۔ ان دونوں معنوں کا ظہور بھی موجودہ زمانے میں حیرت انگیز طور پر پورا ہوا ہے۔ فی زمانہ Global Warming کا بہت شور ہےاور ماہرین موسمیات نے اس کو انتہائی قابل فکر بتایا ہے۔ اسی گلوبل وارمنگ یا عالمی حرارت کا اثر سمندروں کو بھرنے اور اس کی موجوں میں تلاطم کا باعث بن رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۱۸۸۰ء سے لے کر اب تک سمندری پانی کی سطح میں ۹،۸ انچ اضافہ ہوا ہے اور پچھلی کچھ دہائیوں میں یہ اضافہ فکر انگیز حد تک بڑھا ہے یہاں تک کہ بعض چھوٹے غیر آباد جزیرے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں اور بعض آباد جزیروں کے معدوم ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے، دنیا کی مشہور خبر رساں ایجنسی Reuters بحر الکاہل میں واقع جزیرہ طوالو [Tuvalu] کے بارے میں رپورٹ کرتے ہوئے لکھتی ہے:

t…the tiny country is forecast to be submerged by the end of the century.

یعنی صدی کے آخر تک اس چھوٹے سے ملک کے ڈوب جانے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ یہی صورتحال جزیرہ کری باتی (Kribati) کی ہے جسے بھی drowning paradise کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ اس موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سمندری ساحلوں پر واقع دنیا کے بڑے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی بھی ان شہروں کی غرقابی کا خطرہ بنی ہوئی ہے۔ میڈیا میں Sinking Cities کے تحت دنیا کے کئی اہم شہروں کو اس لسٹ میں دکھایا گیا ہے۔ بہر کیف یہ سب تغیرات وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ کے معنی ’’جب سمندر پانی سے بھر جائیں گے اور ان کی موجوں میں طغیانی آجائے گی‘‘ کے الفاظ میں صدیوں سے قرآن کریم میں مذکور ہیں۔

سمندر میں نصب ایک Oil Rig (بشکریہwww.istockphoto.com)

(۳) الْمَسْجُوْر بمعنی خالی ہونا

ایک اور معنی المنجد نے الفَارِغُ (ضد) کے بھی دیے ہیں گویا یہ لفظ اضداد میں سے ہے یعنی ایسے الفاظ میں سے ہے جو عربی زبان کے مطابق ایک ہی وقت میں ایک معنی کے علاوہ اس کے متضاد معنی کے بھی حامل ہوں۔پس جہاں اوپر سَجَرَ کے معنی بھرجانے کے بیان ہوئے ہیں وہاں اضداد میں سے ہونے کے لحاظ سے اس کا مطلب الفَارِغُ بھی ہے یعنی خالی۔ لسان العرب لکھتی ہے: المسجور يكون المَمْلُوءَ ويكون الذي ليس فيه شيء کہ مسجور بھری ہوئی چیز کو بھی کہتے ہیں اور اس کو بھی جو خالی ہو۔ امام راغب نے غیضت مِیاھُھا (یعنی اُن کا پانی خشک ہوگیا) کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ بعض مفسرین نے بھی یہ معنی بیان کیے ہیں۔ چنانچہ علامہ الطبری اپنی تفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: وقال آخرون: بل عني بذلك أنه ذهب ماؤها…… عن قتادة ( وإذا الْبِحارَ سُجِّرَتْ) قال: ذهب ماؤها فلم يبق فيها قطرة. (جامع البیان فی تفسیر القرآن للطبری) یعنی بعض نے اس کا مطلب لیا ہے کہ جب دریاؤں کا پانی ختم ہوجائے گا۔ چنانچہ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ وَإذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ کا مطلب ہے کہ جب اس کا پانی چلا جائے گا اور اس میں ایک قطرہ بھی باقی نہیں رہے گا۔ مشہور مفسر علامہ ابن عطیہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’قال قتادة والضحاك معناه: فرغت من مائها وذهب حيث شاء اللّٰه وقال الحسن: يبست ‘‘(تفسير المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز/ ابن عطية (سورۃ التکویر:۶) علامہ ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں ان معنوں کو درج کیا ہے۔ ان معنوں کے لحاظ سے یہ پیشگوئی سمندروں کی نسبت جھیلوں اور دریاؤں کے ساتھ زیادہ تعلق رکھتی ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں کو پھاڑ کر نہریں نکالنے کے نتیجے میں اور پانی کی ضرورت کی وجہ سے دریاؤں کا رخ موڑنے کی وجہ سےدریاؤں اور جھیلوں کے پانی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پھر دریاؤں پر ڈیم بنانے کی وجہ سے بھی پانی کی ترسیل میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں بہت سی مثالیں ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں واقع مشہور بحیرہ مردار (Dead Sea ۔۱۹۰۳ء )میں ایک ہزار پچاس سکوائر کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا جو اب سکڑ کر ۶۰۰؍ سکوائر کلو میٹر رہ گیا ہے، ماہرین نے اس کے مزید سکڑنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔ پھر وسط ایشیا میں واقع بحیرہ ارال (Aral Sea) بھی اس کی بڑی مثال ہے۔ اس کے علاوہ Lake Poopo (بولیویا)، Lop Nur (چین)، Lake Faguibine (مالی)، Lake Amik (ترکی)، Owens Lake (کیلیفورنیا، امریکہ)، Lake Hula (اسرائیل) وغیرہ قرآنی بیان وَإذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ بمعنی جب بحار کا پانی چلا جائے گا اور یہ خالی ہوجائیں گے، کی صداقت کی زندہ مثالیں ہیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں: ’’حضرت قتادہؓ سے سُجِّرَتْ کےمعنے منقول ہیں کہ دریاؤں کا پانی خشک ہو جائے گا۔ کینال ڈیپارٹمنٹ نے بڑے بڑے دریاؤں سے نہریں نکال کر ان کو تقریباً ایسا ہی کردیا، گویا کہ (دریا) سوکھ گئے ہیں۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ ۳۳۲۔ سورۃ التکویرآیت ۷)

(۴) سَجَّرَ بمعنی ایندھن بھرنا اور گرم کرنا

لفظ تسجیرکے بیان شدہ معنوں میں مَلَأَہٗ وَقُوْدًا و احْمَاہُ (یعنی اس نے کسی چیز کو ایندھن سے بھر دیا اور اسے گرم کر دیا) بڑے واضح ہیں، ان معنوں کے لحاظ سے آیت وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ کا ترجمہ بنتا ہے کہ جب سمندروں کو ایندھن سے بھر دیا جائے گا اور گرم کیا جائے گا۔ دسویں صدی کے مفسر علامہ ابو السعود اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: من سجَّر التنورَ إذا ملأَهُ بالحطبِ ليحميَهُ۔(تفسير إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم/ ابو السعود) یعنی جب تندور کو گرم کرنے کے لیے اُسے لکڑیوں سے بھر دیا جائے۔ دیگر مفسرین نے بھی انہی معنوں کو بیان کیا ہے اور نہ صرف یہ کہ مفسرین نے ان معنوں کو اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے بلکہ موجودہ زمانے میں ان معنوں کے واقعاتی طور پر پورا ہونے نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ ان معنوں کا ایک ظہور تو بحری جنگوں کی صورت میں ہوا ہے۔ گو کہ بحری جنگوں کی تاریخ کافی پرانی ہے لیکن پچھلی تین صدیوں سے دھماکا خیز اور بارودی مواد سے بھرے ہتھیاروں نے سمندر کو ایک قسم کی آگ کی لپیٹ میں لیا ہے۔ آبدوزوں اور آبی گولوں (torpedo)سمیت انتہائی تباہ کن بارودی اور آتش گیر مواد سے بھرے ہتھیار سمندر کو ایندھن سے بھرنے کا ہی ایک نقشہ ہیں۔ دوسرا ان معنوں کا وقوع میں آنا موجودہ زمانے میں تیل یا خام تیل (petroleum) اور قدرتی گیس (natural gas) کی دریافت کے لحاظ سے بھی ہے جس کا ایک خاطر خواہ حصہ سمندر سے نکلتا ہے جسے عرف عام میں offshore drilling کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا میں تیل یا گیس کے ستّر فی صد کنویں زمین پر اور تیس فی صد کنویں سمندر میں ہیں۔پس پٹرولیم اور قدرتی گیس (سی این جی، ایل پی جی) جیسا آتشگیر قدرتی مادہ بھی تسجیر بحار کی ہی ایک صورت ہے۔ پھر اس کی ترسیل یعنی دوسرے ملکوں کو برآمدکرنے کا بڑا ذریعہ بھی سمندری راستے ہیں جہاں ٹینکر جہازوں (tanker ships) سے تیل یا خام تیل کے حادثاتی طور پر بہ جانے کی وجہ سے بھی کئی مرتبہ سمندری حصوں میں ان آتشگیر مادوں کی آمیزش ہوئی ہے جو کئی آبی مخلوقات کی ہلاکت کا باعث ہوئی ہے۔ جولائی ۲۰۲۱ء میں Gulf of Mexico میں تیل کی پائپ لائن پھٹنے کی وجہ سے حقیقی طور پر سطح سمندر پر آگ لگ گئی جس پر پانچ گھنٹوں کی بڑی تگ و دو کے بعدقابو پایا گیا۔ علامہ القرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے ويحتمل أن تكون تحت البحر نار (تفسیر جامع البیان للقرطبی۔ سورۃ التکویر:۶) یعنی سمندر کے نیچے آگ ہونے کا احتمال موجود ہے۔ اُس زمانے میں تو اس کی حقیقت سمجھ نہیں آ سکتی تھی لیکن موجودہ دور میں اس حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے اور یہ معنی بھی آشکار ہوچکے ہیں۔

(۵) سَاجُوْربمعنی طوق، قید

اوپر چھٹے نمبر پر سَجَرَ الْکَلْبَ: شَدّہٗ بِالسَّاجُوْرِ۔ (اس نے کتے کے گلے میں لکڑی ڈالی) معنی بیان ہوئے ہیںجس کا مطلب ہے اُس کو قابو میں رکھنے کے لیے۔ اسی طرح فِی أَعْناقِھِم سَوَاجِر (ان کی گردنوں میں طوق ہیں) سے بھی یہی مراد ہے۔ لسان العرب اور تاج العروس دونوں نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حجاج نے اپنے ایک گورنر کو لکھا أَنِ ابْعَثْ إِليَّ فلانًا مُسَمَّعًا مُسَوْجَرًا أَي مُقَيَّداً مغلولًا یعنی فلاں بندے کو میری طرف قیدی بنا کر اور طوق ڈال کر بھیج دو۔ علامہ الزمخشری اپنی لغت کی کتاب اساس البلاغہ میں اس لفظ کے معانی دیتے ہوئے لکھتے ہیں: و فِی أَعْنَاقِھِمْ السَّوَاجِیْر أی الْأَغْلَال۔ (أساس البلاغۃ لعلامہ الزمخشری زیر مادہ سَجَرَ) اس آیت میں لفظ ساجور کے انہی معنوں کو مفسرین نے بھی اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ علامہ الطبری اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’عن ابن عباس في قوله: ( وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ ) يقول: المحبوس. یعنی حضرت ابن عباس سے وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ کے معنی یہ بھی مروی ہوئے ہیں کہ دریا قید یا قابو میں کر لیے جائیں گے۔ (تفسیر الطبری۔ سورۃ الطور آیت نمبر ۶ – وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ) علامہ ابن عطیہ تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ويحتمل أن يكون المعنى مُلِكت، وقِيد اضطرابُها ….. (تفسير المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز/ ابن عطية)یعنی یہ بھی احتمال موجود ہے کہ وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ کےمعنی ہیں کہ سمندروں یا دریاؤں کو ملکیت یا غلام بنا لیا جائے گا اور اس کے تلاطم کو قید کر لیا جائے گا۔

سمندروں کو ملکیت بنانے کا رجحان بھی موجودہ زمانے میں رونما ہوا ہے۔ عالمی قانون کے مطابق کسی بھی ملک کی سمندری حد اس کے ساحل سے ۱۲ بحری میل (nautical miles) سمندر کے اندر تک ہوتی ہے جہاں ماہی گیری، قدرتی وسائل کی دریافت اور حصول وغیرہ صرف اسی کا حق ہوتا ہے دوسرے ملکوں کے بحری جہازوں کو باجازت وہاں سے گذرنا ہوتا ہے، اس نظام کو بہتر طور پر چلانے کے لیے United Nations Convention on the Law of the Sea جیسا عالمی معاہدہ وضع کیا گیا ہے۔ اس UNCLOS معاہدہ کے باوجود ۳۹؍ فی صد سمندری حدود ابھی تک غیر حل شدہ ہیں اور جن کی ملکیت کے دعویدار ایک سے زیادہ ممالک ہیں جس کی ایک مثال the South China Sea ہے جہاں چین، تائیوان اور فلپائنز میں آئے دن چھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

حضرت ابن عباسؓ کے بیان کردہ معنی المحبوس (یعنی قید کیا ہوا یا روکا گیا) دریاؤں پر ڈیم (Dam) بنانے کے ذریعہ بھی پورے ہوئے ہیں جس کے ذریعے پانی کو روک لیا جاتا ہے یا بالفاظ دیگر پانی کو محبوس کر لیا جاتا ہےجس سے نیچے پانی چھوڑنا ڈیم والے ملک یا صوبے یا علاقے کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پانی کو محبوس کرنے والے یہ ڈیم ملکوں میں وجہ نزاع بنے ہوئے ہیں، موجودہ دور میں اس کی بڑی مثال ایتھوپیا کا دریائے نیل پر Grand Ethiopian Renaissance Dam بنانا ہے جس کی وجہ سے مصر اور سوڈان کے ایتھوپیا کے ساتھ تعلقات نہایت کشیدہ ہیں۔ چین نے the Mekong river پر۲۰۲۰ء تک گیارہ ڈیمز تعمیر کیے جن سے میانمار، لاؤس، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویتنام جیسے ملک متاثر ہوئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ پانی کا اس طرح روکا جانا ملکوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے بلکہ ایک ہی ملک میں صوبوں کے درمیان بھی الجھاؤ پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ اس کی مثال ہے۔ اسی طرح بھارت کے دریائے کاویری Cauvery River کی وجہ سے بھارتی صوبہ تامل ناڈو اور کرناٹکا کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ غرضیکہ وَإذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ کے معنی ’’جب دریا محبوس کر دیے جائیں گے‘‘ بھی متحقق ہو چکے ہیں۔

پس سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں میں رونما ہونے والا یہ تغیر و تبدّل قرآن کریم میں پہلے سے مذکور ہونا اس کی صداقت پر دلیل ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن شریف کے ایک معنے کے ساتھ اگر دوسرے معنے بھی ہوں تو ان دونوں معنوں میں کوئی تناقض پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہدایتِ قرآنی میں کوئی نقص عائد حال ہوتا ہے بلکہ ایک نور کے ساتھ دوسرا نور مل کر عظمت فرقانی کی روشنی نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے اور چونکہ زمانہ غیر محدود انقلابات کی وجہ سے غیر محدود خیالات کا بالطبع محرک ہے لہٰذا اس کا نئے پیرایہ میں ہوکر جلوہ گر ہونا یا نئے نئے علوم کو بمنصۂ ظہور لانا نئے نئے بدعات اور محدثات کو دکھلانا ایک ضروری امر اس کے لئے پڑا ہوا ہے۔ اب اس حالت میں ایسی کتاب جو خاتم الکتب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اگر زمانہ کے ہر یک رنگ کے ساتھ مناسب حال اس کا تدارک نہ کرے تو وہ ہرگز خاتم الکتب نہیں ٹھہر سکتی اور اگر اس کتاب میں مخفی طور پر وہ سب سامان موجود ہے جو ہر یک حالتِ زمانہ کے لئے درکار ہے تو اس صورت میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ قرآن شریف بلا ریب غیر محدود معارف پر مشتمل ہے اور ہر یک زمانہ کی ضروراتِ لاحقہ کا کامل طور پر متکفل ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۵۹ تا ۲۶۱)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button