مکتوب

مکتوب نیوزی لینڈ

(مبارک احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل نیوزی لینڈ)

(بابت ماہ نومبر ۲۰۲۳ء)

نیشنل الیکشن اور نئی حکومت کا قیام

خاکسار نے قارئین الفضل کی خدمت میں چند ماہ قبل نیوزی لینڈ میں ایم ایم پی طرز الیکشن کے بارے میں لکھا تھا۔ اب جبکہ الیکشن ہو چکا ہے اور ۴۰؍ دنوں کے لمبے بحث مباحثہ کے بعد نیشنل پارٹی دو اَور پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے اور نیشنل پارٹی کے لیڈر کرسٹوفر مارک لکسن (Christopher Mark Luxon) اب ملک کے نئے پرائم منسٹر بن گئے ہیں۔

یہ حکومت کیسے بن سکی اور ایم ایم پی کے تحت کیا مشکلات سامنے آئیں ان سب کا ذکر آپ کے علم کے لیے پیش کروں گا۔

ہمارے قارئین شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ الیکشن تو سبھی ممالک میں ہوتے ہیں اور پھر اگلے دن جیتنے والی پارٹی حکومت بنا لیتی ہے۔ تو پھر نیوزی لینڈ میں حکومت کے قیام میں چالیس دن کیوں لگے؟ اس کی وجہ ایم ایم پی یعنی Mixed Member Proportional طر ز الیکشن ہے۔ اس طرز کے الیکشن میں جیتنے والی پارٹی کو ۱۲۲؍ سیٹوں میں سے کم از کم ۶۲؍ سیٹیں حاصل کرنا ہوتی ہیں۔ نیشنل پارٹی نے اس الیکشن میں صرف ۴۸؍ سیٹیں حاصل کی تھیں۔ اس لیے یہ پارٹی خود اکیلے حکومت نہیں بنا سکتی تھی بلکہ اسے دوسری چھوٹی پارٹیوں سے مل کر حکومت بنانے کے لیے اتحاد کرنا پڑا اور اسی بحث مباحثہ میں ضرورت سے زیادہ وقت لگ گیا۔

وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن(Christopher Luxon)

نیوزی لینڈ میں الیکشن ۱۴؍اکتوبر کو ہوئے لیکن اس سے دو ہفتہ قبل پورے ملک میں عوام کی سہولت کے لیے جگہ جگہ پولنگ سٹیشن کھولے گئے تا کہ الیکشن کے روز زیادہ رش نہ ہو اور عوام زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈال سکیں۔ انہی دنوں غیر ممالک میں رہنے والے نیوزی لینڈ کے باشندوں نے بھی ووٹ ڈالے۔ الیکشن سے ایک روز قبل تمام پارٹیوں نے اپنے بل بورڈز اتار لیے اور ہر قسم کی سیاسی سرگرمیاں روک دیں۔ ۱۴؍اکتوبر بروز ہفتہ صبح ۶بجے سے الیکشن بوتھ کھل گئے اور عوام اپنے اپنے علاقے میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکل آئے۔ رات ۹ بجے الیکشن بوتھ بند ہو گئے اور ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ٹی وی سٹیشن الیکشن کے نتائج کا ساتھ ساتھ اعلان کر رہے تھے۔ جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ نیوزی لینڈ میں ہر شخص دو ووٹ دیتا ہے۔ ایک امیدوار کو اور دوسرا اس کی پارٹی کو۔ ٹی وی پر الیکشن کے نتائج لائیو نشر کیے جا رہے تھے۔ ٹی وی امیدوار کی کامیابی کے ساتھ یہ بھی بتاتے تھے کہ کس پارٹی کو کتنے فیصد ووٹ ملے ہیں۔ چند گھنٹوں کے اندر ہی واضح ہو گیا کہ نیشنل پارٹی جیت جائے گی۔ لیبر پارٹی کے لیڈر کرس ہپکنز نے نیشنل پارٹی لیڈر کرسٹوفر لکسن کو فون کر کے مبارک باد دی۔ نیشنل پارٹی نے اگرچہ توقع سے زیادہ سیٹیں جیت لی تھیں لیکن ایم ایم پی نظام میں حکومت بنانے کے لیے یہ نمبر کافی نہیں تھا۔ ۱۲۲؍ سیٹوں میں سے نیشنل پارٹی نےصرف ۵۰؍سیٹیں جیتی تھیں۔ اب سب پارٹیوں کی نظر ہزاروں سپیشل ووٹوں پر لگی تھی جو گیم بدلنے کے لیے کافی تھے۔

سپیشل ووٹوں کی گنتی کا طریق کافی لمبا اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ ہر سپیشل ووٹ کو پہلے اپنے متعلقہ علاقے میں بھیجا جاتا ہے۔جب سب ووٹ اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں تو گنتی شروع ہوتی ہے۔ اس دفعہ فائنل ریزلٹ کا اعلان تین ہفتہ بعد مورخہ ۳؍نومبر ۲۰۲۳ء کو ہوا۔ اس کے مطابق نیشنل پارٹی کی دو سیٹیں اور کم ہو گئیں۔ ان کو ۱۲۲؍ سیٹوں میں سےصرف ۴۸؍ سیٹیں ملیں۔ ایم ایم پی اصول کے مطابق ان کو حکومت کرنے کے لیے ۶۲؍ سیٹوں کی ضرورت تھی۔ نیشنل پارٹی کے لیے یہ صورت حال بہت پریشان کن ہو گئی تھی۔ ان کو حکومت کرنے کے لیے چھوٹی پارٹیوں سے الحاق کرنا ضروری ہو گیا۔ اس وقت جن پارٹیوں سے نیشنل پارٹی الحاق کر سکتی تھی وہ تھیں ایکٹ پارٹی اور نیوزی لینڈ فرسٹ پارٹی جن کے پاس ۱۱؍ اور ۸؍ سیٹیں تھیں۔ ان سے الحاق کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں متحدہ حکومت کو اکثریت حاصل ہو سکتی تھی۔ مگر مشکل یہ تھی کہ نیشنل پارٹی کے لیے ان سے مذاکرات کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ ان سب کے منشور ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ نیشنل اور ایکٹ پارٹیوں کے منشور قدرے ملتے جلتے ہیں، لیکن نیوزی لینڈ فرسٹ ان کےلیے کافی مشکلات پیدا کرتی رہی۔ اس کے لیڈر ونسٹن پیٹر کافی منجھے ہوئے پرانے سیاست دان ہیں اور ماضی میں کئی دفعہ کنگ میکر کا رول ادا کر چکے ہیں اور اپنی مرضی کی اعلیٰ وزارتیں حاصل کر چکے ہیں۔ ان کو علم تھا کہ نیشنل پارٹی ان کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتی۔اس لیے انہوں نے اعلیٰ منسٹریوں کے مطالبات کرنا شروع کر دیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نیشنل پارٹی کی پریشانیاں بڑھنے لگیں۔ ان تینوں پارٹیوں نے الیکشن کے دوران عوام سے کچھ اہم وعدے کیے ہوئے تھے۔ اب اس الحاق میں ان پارٹیوں کو اپنے بعض وعدوں سے دستبردار ہونا پڑا۔یہی سوچ کر ہر پارٹی کوشش کر تی رہی کہ وہ ایسا معاہدہ کرے جس سے وہ اپنے ووٹروں کو خوش رکھ سکے۔

وقت گزرنے کے ساتھ میڈیا اور عوام جلد نئی حکومت نہ بننے کی وجہ سے سوال اٹھانے لگے جن کے نیشنل پارٹی کے لیڈر کے پاس سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ ہم کسی معاہدہ پر پہنچنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور جلد گورنمنٹ کا اعلان کر دیں گے۔ عجیب صورت حال تھی کہ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول پارٹی اس ایم ایم پی نظام کے تحت ملک کی چھوٹی سی پارٹی، جس کے پاس صرف ۸؍سیٹیں ہیں اور وہ ملک میں صرف ۶؍ فیصد ووٹ حاصل کر سکی ہے،کے سامنے بے بس ہے اور ہاتھ جوڑے اس کی شرائط ماننے پر مجبور ہے۔

ایم ایم پی تشکیل دینے والوں کی خواہش بھی یہی تھی کہ کسی وقت بھی کوئی مقبول پارٹی الیکشن جیتنے پر اپنی من مانی نہ کر سکے۔ چھوٹی پارٹیوں کو بھی حکومت کا حصہ بننے کا موقعہ ملنا چاہیے اور یہ حکومت کا حصہ بن کر حکومت کو من مانی نہ کرنے دے۔ ایک طرف حزب اختلاف حکومت کی کڑی تنقید کرتا ہے اور دوسری طرف اندر سے یہ چھوٹی پارٹی حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے اس کی اجارہ داری میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔

الیکشن کو چالیس دن گزرنے کے بعد کہیں جاکر نیشنل پارٹی ان دو چھوٹی پارٹیوں سے الحاق کرنے کے قابل ہوئی ۔ نیشنل پارٹی کو اپنے منشور کےکئی حصوں میں تبدیلیاں کرنی پڑیں۔ کئی اہم وزارتیں بھی چھوٹی پارٹیوں کو دینی پڑیں۔ آخر کار حکومت کا اعلان ہوا تو اس کے مطابق وزیراعظم نیشنل پارٹی کے کرسٹوفر لکسن بنے ہیں۔ نیشنل پارٹی غیرملکی پراپرٹی خریدار ٹیکس سکیم کو ختم کرنا پڑا، ماوٴری قوم سے سو سالہ پرانے معائدہ میں تبدیلی پر کام کرنے پر راضی ہونا پڑا، وغیرہ

نائب وزارت عظمیٰ دونوں چھوٹی پارٹی کے لیڈر ڈیڑھ ڈیڑھ سال کے لیے شیئرکریں گے۔ونسٹن پیٹر (نیوزی لینڈ فرسٹ پارٹی) پہلے ڈیڑھ سال اور پھر آخری ڈیڑھ سال ایکٹ پارٹی کے لیڈر ڈیوڈ سیمور ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایکٹ پارٹی کوتین وزارتیں اور نیوزی لینڈ فرسٹ پارٹی کو تین وزارتیں بھی مل گئیں۔

کرسٹوفر لکسن کی پیدائش نیوزی لینڈ کے جنوبی جزیرے میں کرائس چرچ شہر میں ۱۹۷۰ء میں ہوئی لیکن آپ نے آکلینڈ میں پرورش پائی۔ آ پ نے کینٹربری یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ کئی بین الاقوامی عہدوں پر کام کرنے کے بعد، کینیڈا میں یونی لیور کے صدر بنے۔ کافی سال غیر ممالک میں کام کرنے کے بعد ایئر نیوزی لینڈ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ چند سالوں میں یہ ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ ۲۰۲۰ء میں انہوں نے نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اپنی اعلیٰ شخصیت اور مقبولیت کے باعث جلد پارٹی کے لیڈر منتخب ہو گئے اور اب ۲۰۲۳ء میں ملک کے نئے وزیر اعظم بن گئے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button