سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

انگشتری اور اس کانگینہ کب بنایاگیا

(گذ شتہ سے پیوستہ)یہ وہ خط ہے غالباً جس پربنیادبناتے ہوئے ایک سرکاری ریکارڈ کے طور پر سمجھا جاتاہے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ۱۸۷۶ء میں ہوئی ہوگی۔

اس خط کے مندرجات پرغورکیاجائے توایک بات توواضح ہے کہ اس خط میں براہ راست حضرت مرزاصاحب کی تاریخ وفات کاذکرنہیں ہے۔بلکہ ان کی وفات پر اظہار تعزیت ہے۔جو اگرخط میں لکھی جانے والی تاریخ درست ہے تو ۲۹؍جون ۱۸۷۶ء کو یہ تعزیت سرکارکی طرف سے کی جارہی ہے۔اسی خط کاتنقیدی جائزہ لیاجائے تو یہ سوالات پیداہوسکتے ہیں کہ

الف: صاحبزادہ مرزاغلام قادرصاحب کی طرف سے جوخط لکھاگیاہے وہ کوئی ۲؍جون کاخط تھا جس کایہ جواب ہے۔اوراسی مہینے کی ۲؍تاریخ،گویا۲؍جون ۷۶ء کوخط لکھا گیا۔اب کیلنڈردیکھاجائے تو ۲؍جون ۱۸۷۶ء کوجمعہ کادن تھا۔جبکہ حضرت مرزاصاحب کی وفات بروزہفتہ بعدازغروب آفتاب ہوئی تھی۔توایک بہت بڑاسوال یہ ہے کہ وفات سے ایک یادودن پہلے ہی مرزاغلام قادرصاحب اپنے والدکی وفات کاخط کیسے لکھ سکتے تھے۔

ب: کیایہ ممکن ہے کہ حکومت کی طرف سے چنددنوں یعنی بیس پچیس دنوں کے اندراندر تعزیت کاخط بھی موصول ہوجائے۔کیونکہ حضرت مرزاصاحب بہرحال کوئی بہت بڑے سرکاری عہدے پرتوفائزنہ تھے۔

ج: اس کالازمی نتیجہ ہے کہ خط کی عبارت جوکہ خط کاعکس نہیں ہے بلکہ متن کو کاتب نے دوبارہ لکھا ہےاور کاتب کی طرف سے سنہ لکھنے میں غلطی کا امکان بعید از قیاس نہیں۔

د: کچھ قرائن جواوپربیان ہوچکے ہیں ان کی روشنی میں یہ ثابت ہورہاہے کہ ان کی وفات ۱۸۷۴ء یا ۱۸۷۲ء میں ہوئی تھی۔ خاکسار کی تحقیق کے مطابق ۱۸۷۲ء زیادہ قرین قیاس ہےاوروفات کی تاریخ یکم جون تھی اورہفتہ کادن تھا۔ سواس کے مطابق ۲؍جون کوخط لکھاجانا عین قرین قیاس ہوسکتاہے۔ سو ممکن ہے کہ مرزاغلام قادرصاحب نے خط ۲؍جون کوہی لکھاہوگا البتہ سنہ لکھنے میں کاتب سے غلطی ہوئی ہوگی۔نہیں تو یہ امکان ہوسکتاہے کہ کسی موقع پرفنانشنل کمشنرپنجاب نےبعد میں تحریری طور پرتعزیتی چٹھی لکھی ہو گی۔ جو ۱۸۷۶ء کا سنہ تھا۔وگرنہ زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ چٹھی جون ۱۸۷۲ء کی مرقومہ ہو گی۔

بہرحال خاکسار کی تحقیق کے مطابق حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کی تاریخ وفات کی بنا ۱۸۷۶ء قراردینا واحد رابرٹ ایجرٹن کی چٹھی ہی ہے۔اس کے علاوہ اورکوئی متعارف شائع شدہ دستاویز نہیں ہے۔جواس سنہ کے لیے بنیادبنائی گئی ہو۔

ایک دوسراحل طلب سوال ایک روایت ہے جوسیرت المہدی میں موجود ہے۔ جواصل میں اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی انگوٹھی کے نگینہ کے متعلق ہے۔چونکہ خاکسار اس نگینہ پرایک تحقیق پیش کررہاہے۔اس لیے مناسب ہے کہ اس روایت کوبھی سامنے رکھاجائے جوایک شبہ پیداکرسکتی ہے۔اوران شاء اللہ اس روایت کے بعد اس کاتجزیہ بھی پیش کیاجائے گا۔یہ روایت سیرت المہدی میں ہے حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں:’’مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی جھنگلاں نے مجھ سے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا حضرت صاحب نے فرمایاکہ چلو ذرا سیر کر آئیں۔چنانچہ حضرت صاحب بڑے بازار میں سے ہوتے ہوئے اس طرف تشریف لے گئے جہاں اب ہائی سکول ہے۔جب سیر کرتے کرتے واپس شہر کو آئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے یُنْجِیْکَ مِنَ الْغَمِّ وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًااور آپ نے فرمایا کہ ہمیں خدا کے فضل سے غم تو کوئی نہیں ہے شاید آئندہ کوئی غم پیش آئے۔جب مکان پر آئے تو ایک شخص امرتسر سے یہ خبر لایا کہ آپ کا وہ نگینہ جو اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ لکھنے کے واسطے حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا وہ گم ہو گیا ہے اور نیز ایک ورق براہین احمدیہ کا لایا جو بہت خراب تھا اور پڑھا نہیں جاتا تھا۔یہ معلوم کر کے آپؑ کو بہت تشویش ہوئی اور فرمایا کہ حکیم محمد شریف ہمارا دوست ہے اور اس کو دل کی بیماری ہے نگینہ گم ہو جانے سے اسے بہت تشویش ہوئی ہوگی اور اندیشہ ہے کہ اس کی بیماری زیادہ نہ ہو جاوے اور کتاب کے ورق کے متعلق فرمایا کہ بہت ردی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب بالکل خراب چھپتی ہے۔ اس طرح لوگ اسے نہیں پڑھیں گے اور ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں کہ دوبارہ اچھی کر کے چھپوائیں۔ المختصر حضرت صاحب اسی وقت بٹالہ کی طرف پاپیادہ روانہ ہو گئے اور میں اور دو اور آدمی جو اس وقت موجود تھے ساتھ ہو لئے۔جب ہم دیوانیوال کے تکیہ پر پہنچے تو حضورؑ نے فرمایا کہ نماز پڑھ لیں اور حضور نے خاکسار کو فرمایا کہ رحیم بخش تو نماز پڑھا۔چنانچہ میں نے ظہر اورعصر کی نماز جمع کرائی جس کے بعد ہمارے ساتھی تو علیحدہ ہو گئے اور حضرت صاحب اور یہ خاکسار بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہو کر امرتسر پہنچے۔ جب حکیم صاحب کے مکان پر پہنچے تو حکیم صاحب نے بہت خوش ہو کر کہا کہ یہ آپ کا نگینہ گم ہو گیا تھا مگر ابھی مل گیا ہے اور جب مطبع میں جاکر کتاب دیکھی تو وہ اچھی چھپ رہی تھی جس پر آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پہلے سے بشارت دے دی تھی کہ ہم تجھے غم سے نجات دیں گے سو وہ یہی غم تھا۔اس کے بعد آپ نے فرمایا رحیم بخش چلو رام باغ کی سیر کر آئیں۔ شہر سے باہر سیر کرتے کرتے خاکسار نے عرض کیا مرزا جی جو ولی ہوتے ہیں کیا وہ بھی باغوں کی سیر کیا کرتے ہیں ؟ وہ تو عبادت الٰہی میں رات دن گذارتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ باغ کی سیر منع نہیں ہے پھر ایک قصہ سنایا کہ ایک بزرگ تھے وہ عمر بھر عبادت الٰہی کرتے رہے اور جب آخر عمر کو پہنچے تو خیال آیا کہ اپنے پیچھے کچھ نیکی چھوڑ جائیں چنانچہ ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا مگر کتاب لکھنے بیٹھے تو چونکہ دنیا کا کچھ بھی دیکھا ہو ا نہیں تھا کوئی مثال نہیں دے سکتے تھے کہ کس طرح نیکی اور بدی پر جزا سزا کا ہونا وغیرہ سمجھائیں۔ آخر ان کو دنیا میں پھر کر دنیا کو دیکھنا پڑا اور پھر انہوں نے میلے وغیرہ بھی دیکھے۔پھر آپ نے مجھ سے مسکراتے ہوئے فرمایا رحیم بخش ! ہم نے بھی براہین میں گلاب کے پھول کی مثال دی ہوئی ہے۔(یہ روایت بیان کرنے کے بعد حضرت قمرالانبیاء صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ فرماتے ہیں)خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ واقعہ ۱۸۸۲ء یا۱۸۸۳ء یا ۱۸۸۴ء کا معلوم ہوتا ہے۔کیونکہ براہین کی طبع کا یہی زمانہ ہے لیکن یہ بات حیرت میں ڈالتی ہے کہ اس روایت میں اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والے نگینہ کی تیاری کا زمانہ بھی یہی بتا یا گیا ہے۔حالانکہ حضرت صاحب کی تحریرات سے ایسا معلوم ہوتا ہے ( گو اس معاملہ میں صراحت نہیں ہے ) کہ جب ہمارے دادا صاحب کی وفات ہوئی اور اس سے قبل حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا تو اسی زمانہ میں حضرت صاحب نے یہ انگوٹھی تیار کروالی تھی۔سو یا تو اس روایت میں جو نگینہ کی تیاری کا ذکر ہے یہ کوئی دوسرا واقعہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید یہ نگینہ دو دفعہ تیار کرایا گیا ہے اور یا اس کی پہلی تیاری ہی بعد میں براہین احمدیہ کے زمانہ میں ہوئی ہے یعنی الہام ۱۸۷۶ء میں ہوا ہے۔جبکہ داداصاحب کی وفات ہوئی اور انگوٹھی چند سال بعد میں تیار کرا ئی گئی ہے۔اور اس روایت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی مؤخر ا لذکر صورت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے۔ وَاللّٰہ اَعْلَمُ۔‘‘ (سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۴۵۳)

حضرت مولوی رحیم بخش صاحب کی اس روایت سے قاری کاذہن فوری طورپر ایک دفعہ ادھرچلاجاتاہے کہ وہ انگوٹھی جس پر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ لکھاگیا تھا وہ جیسے اس زمانے میں بنوائی گئی کہ جب براہین احمدیہ کی طباعت ہورہی تھی یعنی ۱۸۸۰ء سے لے کر۱۸۸۴ء تک کے کسی عرصہ میں۔لیکن خاکسارکی رائے میں یہ خیال ایک بعید از قیاس خیال ہے۔

حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ نے جس الہام کاذکراس روایت میں کیاہے وہ الہام تذکرہ یاحضرت اقدسؑ کی تحریرات میں دیکھیں تو ایک الہام براہین احمدیہ حصہ چہارم میں موجودہے۔ چنانچہ حضورؑ بیان فرماتے ہیں :’’ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یکدفعہ بعض امور میں تین طرح کا غم پیش آگیا تھا جس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ اور بجز حرج و نقصان اٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی اسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا اور اس وقت ہمراہ ایک آریہ ملا وامل نامی تھا جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ۔ پھر دوبارہ الہام ہوا نُنَجِّیْکَ مِنَ الْغَمِّ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔ یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے ضرور نجات دیں گے کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ چنانچہ اُسی قدم پر جہاں الہام ہوا تھا۔ اُس آریہ کو اس الہام سے اطلاع دی گئی تھی اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔‘‘(براہینِ احمدیہ صفحہ،روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۵۹۔ ۶۶۰ حاشیہ درحاشیہ نمبر۴)

حضرت مولوی رحیم بخش صاحب کی روایت میں جوالہام ہے وہ تذکرہ کے … ایڈیشن چہارم کے صفحہ ۶۴۵-۶۴۶پردرج کردیاگیاہے۔

بظاہرنظربراہین احمدیہ میں موجود الہام اور سیرت المہدی میں مذکور یہ دونوں ایک ہی واقعہ کی طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے۔ اورممکن ہے کہ براہین احمدیہ میں اسی واقعہ کو قدرے اختصارکے ساتھ بیان کیاگیاہواورحضرت مولوی صاحبؓ نے اس کی تفصیلات سمیت واقعہ کوبیان کردیا ہو۔ لیکن الہام کے الفاظ میں فرق،سیرکے وقت کافرق اور افراد کی موجودگی وغیرہ ایسے امورہیں کہ یہ دونوں واقعات الگ الگ ہی سمجھنے پڑیں گے۔

البتہ اس روایت کی رُوسے یہ مانناپڑے گا کہ اس روایت میں جس نگینہ کے بنوانے کاذکرہے وہ ۱۸۸۳ء کے لگ بھگ کاہے۔گویاالہام اگر۱۸۷۶ء میں ہواتو اس کے سات یاآٹھ سال کے بعد اور اگریہ الہام ۱۸۷۲ء میں ہواتو اس کے ۱۳ برس کے بعد انگشتری میں کھدوایاگیا۔

جبکہ اس الہام اورالہام کونگینہ میں کھدوانے کے متعلق حضرت اقدسؑ کی تحریرات کے اقتباسات درج کیے جاچکے ہیں۔جن کی روشنی میں ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ الہام کے کچھ دنوں بعد،کچھ ہفتوں بعد یازیادہ سے زیادہ مہینہ دومہینہ کے بعد وہ نگینہ تیارکروالیاگیاتھا۔لیکن ان اقتباسات کی یہ توجیہ ممکن نہیں کہ کئی سالوں کے بعد وہ نگینہ تیارکیاگیاہواوراس نگینہ کوحضورؑ یہ کہہ کرپیش فرمارہے ہوں کہ انہی دنوں میں وہ نگینہ تیارکروایاگیایاتیس سال سے زائد یاچھتیس سال سے وہ انگوٹھی موجودہے…

سوحضرت اقدس علیہ السلام کی ان مذکورہ بالاتحریرات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتاہے کہ یاتواس روایت میں راوی کوسہوہواہے اوروہ دوواقعات کوملاجلارہے ہیں یایہ امکان ہے کہ ایک اورنگینہ۱۸۸۴ء کے قریب زمانے میں بھی تیارکروایاگیاہو۔

علاوہ ازیں ایک تیسراامکان بھی موجودہے اوروہ یہ کہ اسی نگینہ کوجوکہ دراصل الہام ہونے کے کچھ ہی دیربعد تیارہوچکاتھااس کومرمت کی غرض سے یادوبارہ لکھائی کی غرض سے بھیجاگیاہو۔اوراس کی تائیداسی روایت میں موجودیہ فقرہ کرتاہے۔جہاں یہ لکھا ہواہے کہ آپ کا وہ نگینہ جو اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہ لکھنے کے واسطے حکیم محمد شریف صاحب کے پاس امرتسر بھیجا ہوا تھا وہ گم ہو گیا ہےگویاجونگینہ گم ہواہے وہ حضرت صاحبؑ نے ہی حکیم صاحب کے پاس امرتسربھیجاتھا۔وگرنہ پہلی بار جب نگینہ تیار کروایا گیاہے تو اس وقت کوئی نگینہ نہیں بھیجاگیاتھا بلکہ اس وقت توپانچ روپے بھیجے گئے تھے کہ اس کانگینہ وغیرہ بنوادیاجاوے۔اور حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ کی اس روایت سے یہ قیاس کیاجاسکتاہے کہ اب اسی نگینہ کو کسی مرمت وغیرہ کے لیے بھیجا گیا تھا۔اوریوں اس روایت میں کوئی تضادیااختلاف نہیں رہتا۔واللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ

اس قدرمجھ پرہوئیں تیری عنایات وکرم!

جیساکہ ابھی بیان ہواہے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؓ کی تاریخ وفات کے ضمن میں اس انگوٹھی کوبھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ جو الیس اللّٰہ بکاف عبدہٗ کا الہام ہونے پرتیار کروائی گئی تھی۔اوروہ انگوٹھی ایک سو تینتالیس سال ہونے کوآئے کہ ابھی تک محفوظ ہے اورخداکے پیارے مسیح کے ہاتھ سے اب خلیفۃ المسیح کے ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلتے چلتے اب اس کے پانچویں خلیفہ کے ہاتھ میں ہے۔

خاکسارکی یہ خواہش اور آرزوتھی کہ کاش میں اس انگوٹھی کودیکھ پاؤں اور اس پرلکھی ہوئی عبارت اور تاریخ کوحق الیقین کے طورپرخوددیکھنے کی سعادت پاسکوں۔لیکن ایسی باتوں کی خواہش ہی ہوسکتی ہے۔تمناہی کی جاسکتی ہے۔سوچاہی جاسکتاہے۔ایسے خواب کب شرمندۂ تعبیرہوں گے صرف سوچ کرہی شرمندگی ہوتی ہےکہ کہاں راجہ بھوج کہاں گنگوتیلی!

لیکن جب راجے مہاراجے عطاوبخشیش پرمائل بہ کرم ہوں تو پھرسارے خواب حقیقت بن جایاکرتے ہیں ہاں وہ الگ بات ہے کہ میرے جیسے اس حقیقت بھری جنت سے لوٹنے کے بعد پھربھی سوچتے رہتے ہیں کہ کہیں خواب ہی تونہ تھا جودیکھاتھا اور افسانہ ہی تونہیں تھا جوسنا تھا۔کیونکہ کچھ ایسی ہی کیفیت۱۶؍ستمبر۲۰۱۴ء کوایک صبح کی تھی کہ کوئی ساڑھے گیارہ بجے کے قریب حضورانورکے پرائیویٹ سیکرٹری استاذی المحترم منیر جاوید صاحب کافون آیاکہ حضورانورنے طلب فرمایاہے، فوری طورپرپہنچو۔خاکساراپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ایک شاپنگ سٹورمیں تھا۔اس کوکہاکہ مجھے ابھی واپس چھوڑآؤ اور آتے آتے بہرحال ۱۵/۲۰منٹ ہوگئے۔دفترمیں حاضر ہوا۔حکم ہواکہ انتظار ہو رہا ہے اندرچلے جاؤ۔ دربارِخلافت کے قدموں میں پہنچاتو فرمایاکہ ساتھ ہی تو گھرتھااورآنے میں اتنی دیرلگادی۔[مسجدفضل کے سامنے ہی رہائش تھی چھوٹے بھائی کے گھرمیں اور ایک منٹ سےبھی کم فاصلہ تھا۔] خاکسارنے کانپتے ہوئے عرض کیاکہ حضورمیں بازارمیں تھا تو بہت ہی پیارسے فرمانے لگے کہ اوہو! پھررہنے دیتے ہمارے پاس تو وقت تھا پھر کبھی بلا لیتا۔پھرپیاربھری نوازشات کاجوسلسلہ شروع ہوا۔میری حالت اس گناہ گارجیسی تھی کہ جس کوحشر کے روزخدانے کہاتھا کہ اپناکوئی گناہ بتاؤ تو وہ مارے خوف اور ڈرکے کچھ بھی بتانانہیں چاہتاتھالیکن جب اس کے خدانے خود ہی اس کےایک گناہ کابتایاتو مارے خوف و ندامت کے اقرارکرلیاجس پراس رحیم وکریم نے کہا کہ اچھا اس ایک گناہ کے بدلے جنت کے ایک درجے میں تمہیں بھیجتاہوں۔گناہوں کے بدلے ان نوازشات پراس بندے کوحوصلہ جوہوا تو پھرتو وہ خوداپنے گناہوں کااقرارکرنے لگا……تویہی کیفیت اس وقت میرے دل کی تھی۔میرے سامنے ’’وہ بادشاہ ‘‘ تھا اور میں اپنی داغ دریدہ جھولی کوپھیلائے ہوئے ان عطایاونوازشات کوسمیٹنے میں مصروف کہ جوایک کے بعد ایک کی صورت میں ہورہی تھیں۔اس پرمیراحوصلہ کچھ بڑھاتوعرض کیاکہ حضورمیں الیس اللہ والی انگوٹھی کودیکھناچاہتا ہوں اورساتھ اس کایہ ساراپس منظربھی عرض کیا۔تووہ گھڑی تو تھی ہی نوازشات کی فوراً شرف قبولیت پاگئی اور انگوٹھی کے اوپرجوٹرانسپیرنٹ(Transparent) ٹیپ چڑھائی ہوئی تھی وہ اتاری۔اس کوغورسے حضورنے ملاحظہ فرمایا، مجھے کئی بار دکھایاپھر Maginfying Glass کے نیچے اس کورکھ کے خودپڑھنے کی کوشش کی، مجھے دکھایا۔ اس پرجودوحصوں میں ہجری شمسی سنہ لکھاہواتھاوہ صحیح پڑھانہیں جارہاتھا۔پھراپنا ویڈیو کیمرہ نکالا۔خاکسارنے وہ مقدس ومتبرک انگوٹھی جوسچ مچ اس وقت حجراسود ہی معلوم ہوتی تھی، اس کواپنے ہاتھ میں پکڑا۔بلکہ اپنی انگلی میں ڈال کرکیمرے کے آگے کیاتاکہ حضوراس کو Zoomکرکے دیکھ سکیں۔ مجھے انگوٹھی کو انگلی میں ڈال کرہاتھ آگے کرتے ہوئے دیکھ کر پیار سے فرمایا بڑے ذہین ہو! بہرحال اس کوپڑھنے کے بعد پھر حضورِانور نے محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کوبلایااور چھوٹے سائز کے نوٹس کے ساتھ سٹیمپ پیڈ بھی منگوایا اور انگوٹھی کے نگینے سے مہرلگائی کہ وہ ہندسہ پڑھا جائے۔ بہرحال لطف وعنایات کاکوئی ایک گھنٹہ پرمشتمل یہ سلسلہ ختم ہواتوخاکسارنے عرض کیاکہ جس کاغذپرآپ نے مہر ثبت فرمائی ہے وہ کاغذتبرکاً مجھے عنایت فرمادیں وہ خاکسارکودیاتو عرض کیاکہ حضور انور اگر اس پر اپنے دستخط مبارک بھی فرمادیں۔جس پر حضور انور نے ازراہِ شفقت اس پر اپنے دستخط فرمائے۔ (دستخط کے نیچے تاریخ استاذی المحترم منیر جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے خاکسار کی درخواست پر ڈالی)۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button