متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ دوم)

Pfungstadt میں مسجد کا سنگِ بنیاد

۲۸؍اگست ۲۰۱۶ء کی شام حضورِانور نے ایک نئی مسجد کا Pfungstadt میں سنگ بنیاد رکھا جو فرینکفرٹ سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔

ایک خوبصورت تبصرہ

میری ملاقات شاہد لطیف صاحب نیشنل سیکرٹری ضیافت جماعت جرمنی سے ہوئی۔ گذشتہ چند سالوں میں حضورِ انور نے جماعت احمدیہ جرمنی کو اپنی مہمان نوازی کو بہتر بنانے کی بابت توجہ دلائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضورِانور کے توجہ دلانے سے قبل مہمان نوازی کافی کمزور تھی۔ اکثر مہمانوں کو جن میں سے بعض کافی دُور سے آئے ہوتے ہلکی پھلکی ریفریشمنٹ یا کچھ مٹھائی پیش کی جاتی۔ تاہم حضورِانور کی راہنمائی کے باعث اب مہمان نوازی بہت بہتر ہوئی اور اب مہمانوں کو باقاعدہ کھانا پیش کیا جاتا ہے جس میں گوشت اور سبزی دونوں موجود ہوتے ہیں۔ شاہد صاحب نے مجھے بتایا کہ جس وقت وہ ہیڈ ٹیبل پر کھانا پیش کر رہے تھےتوحضورِانور نے مہمان نوازی میں بہتری کا تذکرہ فرمایا۔شاہد صاحب کے عرض کرنے پر کہ اَب ہم اپنے وسائل کے مطابق بہترین مہمان نوازی پیش کر رہے ہیں،حضورِانور نے نہایت خوبصورت تبصرہ فرمایا کہ وسائل بہت ہیں، اصل بات ہے کہ دل بڑا کریں۔

میں نے حضورِانور کے تبصرہ پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ حضور کا تبصرہ کس قدر پُر حکمت تھا۔ مہمان نوازی میں دراصل کھانے پینے کی اشیاء سے زیادہ اخلاص معنے رکھتا ہے۔ اگر کوئی اچھی مہمان نوازی کرنا چاہتا ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے وسائل کیا ہیں وہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ دوسروں کی اچھی خدمت ہو اور یہی اسلامی روح ہےجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے وقت سے ہماری جماعت کی روایت ہے۔

احمدیوں کے جذبات

۲۹؍اگست ۲۰۱۶ء کو حضورِانور نے درجنوں احمدی فیملیز سے ملاقات فرمائی۔ جب وہ حضورِانور کے دفتر سے ملاقات کے بعد نکل رہے تھے تو میری ملاقات ایسے چند احباب ہوئی جن کے تجربات سے میں فائدہ اٹھایا۔

میری ملاقات فہمیدہ احمد صاحبہ سے ہوئی جن کا تعلق مشرقی جرمنی سے تھا۔ ان کی پہلی مرتبہ حضورِانور سے ملاقات ہو رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ حضورِانور سے ذاتی ملاقات کرنا حضور کو ٹی وی پر دیکھنے سے بالکل مختلف ہے۔آپ کے چہرے کا نور اور روحانیت ناقابل یقین ہے اور آپ کی شفقت اور محبت کا کوئی ثانی نہیں۔جب آپ حضورِانور کو دیکھتے ہیں تو آپ کو پتا چلتا ہے کہ خلافت اللہ تعالیٰ کا ایک تحفہ اور عظیم الشان خزانہ ہے۔

میری ملاقات ایک احمدی محمد سرور صاحب( عمر ۴۶؍سال )اور ان کی اہلیہ آسیہ پروین صاحبہ سے ہوئی، جو ۲۰۱۲ء میں جرمنی شفٹ ہوئے تھے۔ محمد سرور صاحب نے بتایا کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں اور اپنے تئیں کچھ نہیں سمجھتا مگر پھر بھی مجھے تین مہمانوں کو جلسہ میں لانے کی توفیق ملی تاکہ وہ حضورِانور کا خطاب سن سکیں۔ میں نے یہ کوشش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے خلیفہ کو خوش کرنے کے لیے کی ہےاور یہ خلافت کی برکت کی ایک مثال ہے کہ اَن پڑھ اور جاہل لوگ بھی خلافت کی دعاؤں کی برکت سے ایسے ٹارگٹ حاصل کر سکتے ہیں۔

ان کی اہلیہ آسیہ صاحبہ نے حضورِانور سے پہلی مرتبہ ملاقات کا شرف پایا تھا اور جس دوران ہم بات کر رہے تھےان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ چند لمحات کے بعد وہ بولتے بولتے خاموش ہو جاتیں پھر طبیعت بحال ہونے پر دوبارہ اپنے جذبات کا اظہار کرتیں۔ آسیہ صاحبہ نے بتایا کہ میں نے اپنی ساری زندگی اس موقع کی تلاش میں گزاری ہے۔ جب میں پاکستان میں تھی تو سوچا کرتی تھی کہ کیا مجھے بھی کبھی ایسا موقع ملے گا لیکن کبھی گمان نہ تھا کہ میری ایسی دلی خواہش بھی پوری ہو سکے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میرے کچھ بچے ابھی پاکستان میں ہیں اور ایک بچہ جو وقف نَو میں ہے وہ یونان میں ہے۔میری یہی خواہش ہے کہ وہ بھی یہاں آجائے تا کہ وہ اس عہد کو پورا کرسکے جو اس کی پیدائش سے بھی پہلے ہم نے کیا تھا۔

ایک اور جوڑا جن سے میری ملاقات ہوئی عرفان سیف (عمر ۳۵؍سال )اور ان کی اہلیہ طیبہ عرفان صاحبہ تھیں جو ۲۰۱۵ء میں پاکستان سے جرمنی آئے تھے۔میں ان سے ملا جب وہ کچھ ہی دیر قبل پہلی بار حضورِانور سے ملاقات کرکے آئے تھے۔ حضورِانور سے ملاقات کے متعلق عرفان صاحب نے بتایا کہ میں واقعتاً ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ یہ میرے لیے اور میری فیملی کے لیے زندگی بدل دینے والالمحہ تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے حضورِانور سے ملاقات کے دوران میں کسی دوسری دنیا میں تھا۔ دراصل یہ بیان بھی کافی نہیں ہے…مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی دوسری کائنات میں ہوں۔

طیبہ صاحبہ نے بتایا کہ میرے شوہر کی طرح میرے لیے بھی حضورِانور کی موجودگی میں بولنا ممکن نہ تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے لیے اور اپنی دونوں بہنوں کے لیے خاص دعاؤں کی درخواست کر نا چاہتی تھی کیونکہ ہم تینوں شادی شدہ ہیں لیکن کسی کے ہاں اولاد نہیں ہے (لیکن بول نہیں سکی)۔یوں اگر آپ کو کبھی موقع ملے تو آپ سے درخواست ہے کہ میری دعا کی درخواست حضورِانور کی خدمت میں پیش کر دیں۔

احمدیوں کے جذبات

اس دن پچھلے پہر حضورِانور نے درجنوں فیملیز سے ملاقات کی۔ حضورِانور نے Ohio امریکہ سے آئے ہوئے ایک دوست ناصر ملک صاحب (عمر ۶۷؍سال )سے ملاقات کی۔ ناصر صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس نے خلیفۃ المسیح کے دل میں احباب جماعت کی اس قدر محبت بھر دی ہے کیونکہ حضورِانور کی محبت سے ہمیں سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ جہاں باقی دنیا بڑھتی چلی جانے والی مشکلات اور مصائب میں گھری ہوئی ہے، وہاں ہم احمدیوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہے۔ خلافت کی برکات کی وجہ سے میں پوری دیانتداری سے محسوس کرتا ہوں کہ ہم احمدی باقیوں کے مقابل پر ایک الگ دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔

میری ملاقات ایک اور احمدی دوست سید خالد صاحب سے ہوئی ان کا تعلق بھی امریکہ سے تھا۔انہوں نے بتایا کہ جب آپ خلیفۂ وقت کو دیکھتے ہیں،جب آپ ان کو سنتے ہیں، جب ان کے قرب میں ہوتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ پوری دنیا کے روحانی بادشاہ ہیں۔ دنیا کی مال و دولت کی جملہ وجاہت آپ کے مقابل پر ماند پڑ جاتی ہے اور خلافت احمدیہ کے ساتھ جڑی ہوئی روحانی برکات کے مقابل پر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے ایک احمدی غلام احمد مقصود صاحب (عمر ۳۹؍سال ) نے پہلی مرتبہ عالمی بیت میں شامل ہونے کے تجربہ کو یوں بیان کیا کہ عالمی بیعت میں شمولیت ایک یکسر منفرد تجربہ تھا اور میں نے پہلے کبھی ایسے پُرجوش جذبات اور اپنے ایمان سے وابستگی محسوس نہیں کی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر قوم اور نسل کے لوگ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کے لیے اسلام کے جھنڈے تلے موجود تھے۔جب بیعت کا اختتام ہوا اور ہم سب نے حضورِ انور کے ساتھ سجدۂ شکر ادا کیا تو یہ ایک نہایت غیر معمولی لمحہ تھا۔ میں(سجدے سے) اٹھنا نہیں چاہتا تھا اور اس لمحے کے لامتناہی ہونے کا خواہاں تھا۔

حضورِانور سے چند منٹ قبل اپنی ملاقات کے بارے میں غلام صاحب نے بتایا کہ جونہی میں حضورِانور کے دفتر میں داخل ہوا اور آپ کا مبارک چہرہ دیکھا تو ایسا لگا جیسے میری زندگی رُک گئی ہو اور وقت تھم گیا ہو۔ جب آپ حضورِانور کی صحبت میں ہوں دنیا کی جملہ چیزوں کی کوئی حیثیت یا وقعت نہیں ہوتی۔ خلافت احمدیہ ہماری کامیابی کا ذریعہ اور ہماری امیدوں اور امن اور سلامتی کا مرکز ہے۔

(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button