حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نَو بیلجیم کی (آن لائن) ملاقات

مورخہ۱۹؍نومبر۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نوبیلجیم کی آن لائن ملاقات منعقد ہوئی۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز سے رونق بخشی جبکہ واقفات نو بچیوں نے بیلجیم کے دارالحکومت برسلز (Brussels) شہر کی اُکل (Uccle) کونسل میں واقع مسجد بیت المجیب سے آن لائن شرکت کی۔اس ملاقات کا آغاز تلاوت، حدیث اور نظم سے ہوا۔

بعدازاں حضور انور نے سیکرٹری صاحبہ واقفات نو کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروائی کہ سیّدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس بھی پیش کرنا چاہیے تھا، اگرچہ مختصر یا ایک پیراگراف(paragraph) پر مشتمل ہی اقتباس کیوں نہ ہوتا، یہ ایک یاد دہانی کا کام کر سکتا ہے کہ اس دَور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے اورآپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ حضور انور نے مزید ہدایت فرمائی کہ اقتباسات حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو پروگراموں میں شامل کرنا چاہیے نیز حدیث کے بعد اقتباس بھی پیش کیا جانا چاہیے۔

مزید برآں حضور انور نے شاملین کی لوکیشن(location) کی بابت دریافت فرمایا تو عرض کیا گیا کہ وہ مسجد بیت المجیب برسلز سے شریک ہیں نیز بتایا گیا کہ ہال میں ۸۳ واقفات نو موجود ہیں جن کی عمر سات تا بیس سال کے درمیان ہےجبکہ بیلجیم میں واقفات نو ممبرات کی کل تعداد ۱۶۲ہے۔

اس موقع پر واقفات نو کو حضور انور سےمختلف موضوعات پر مشتمل کے متفرّق سوالات پوچھنے اور ان کی روشنی میں راہنمائی حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔

ایک واقفۂ نو نے نیک تمنا کا اظہار کرتے ہوئےعرض کیا کہ دعا ہے کہ دنیا میں جنگ نہ ہو، لیکن خدانخواستہ اگر جنگ ہو جاتی ہے تو جنگ کے بعد ہمیں کون سی فصل اگانی چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جنگ کے بعد جو حکومت تمہیں کہے گی کہ یہ فصلیں اگاؤ وہی، جو ہر علاقے، ہر ملک میں وہاں کے مخصوص حالات کے مطابق فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ ہر فصل ہر جگہ تو نہیں ہو سکتی۔ یورپ میں سردیاں ہوتی ہیں یہاں چاول نہیں کاشت ہو سکتا اور بعض فصلیں ایسی ہیں جو گرم علاقوں میں نہیں ہو سکتیں، تو ہر علاقے میں ان کے حالات کے مطابق فصلیں اگائی جاتی ہیں۔

جو بھیstaple food(بنیادی خوراک) ہے اس کو اگانے کی کوشش کریں گے، جنگ کے بعد ہو یا جنگ سے پہلے وہی لگاؤ گے جو لوگ وہاں کھاتے ہیں۔ جو ان کاstaple foodہے، وہی روزمرہ کا جو کھانا ہے، اسی کو انہوں نے کھانا ہے۔ اس لیے وہی اگائیں گے اور اس کے لیے اگر حکومت قائم ہے تو حکومت خود ہی راہنمائی کر دے گی کہ کیا اگائیں اور زمینداروں کو خود ہی پتا ہوتا ہے۔

بعض دفعہ حکومت پالیسیاں نہیں بناتی تو زمیندار خود اپنے حالات کے مطابق فصلیں اگانی شروع کر دیتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد رشیا (Russia)میں بڑی تباہی ہوئی تھی تو روس کے زمیندار خود اپنی اپنی فصلیں لگاتے تھے اور پھر وہ فصلیں شہر میں لے کر آتے تھے۔ شہر والوں کو کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا تووہ شہر کی بنی ہوئی چیزیں بارٹر(barter) کے طور پر ایکسچینج (exchange) کرتے تھے، وہاں کرنسی پھر کام نہیں آتی تھی، وہ جنس لے کے آئے اور یہاں بازار سے اس کے بدلے میں چیزیں لے کے چلے گئے جو شہروں میں ملتی تھیں۔

جب اس طرح کے حالات ہوتے ہیں تو انسان پھر ایڈجسٹ (adjust) کر لیتا ہے اور جو کھانے پینے کی چیزیں ہیں وہی اکثر آپ لوگوں کو کھانے کی عادت ہوتی ہے، وہی کھانے مقامی لوگ کھاتے ہیں، وہی آپ لگائیں گے، وہی اگائیں گے اور وہی فصلیں وہاں بہتر ہو سکتی ہیں۔

ایک واقفۂ نو نے عرض کیا کہ بیلجیم میں ٹیچر کو اپنے مذہب کو ظاہری طور پر دکھانا منع ہے۔ میں ٹیچر بن رہی ہوں اور میرا سوال یہ ہے کہ میں پڑھاتے ہوئے اپنی مذہبی ویلیوز(values) کو کیسےincorporate(شامل)کر سکتی ہوں تا کہ میں اپنے سٹوڈنٹس اورco-fellowsکو اپنا مذہب بہتر سمجھا سکوں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ظاہر ہے جب کلاس میں ٹیچر پڑھا رہی ہو تو اس کو اپنا چہرہ دکھانا پڑے گا، اس کے بغیر تو ان کو سمجھ نہیں آئے گی۔ دریافت فرمانے پر موصوفہ نے عرض کیا کہ انہوں نے پرائمری سکول میں پڑھانا ہے، جس پر آپ حضورانور مزید راہنمائی فرمائی کہ وہاں تو ویسے ہی بچے ہوتے ہیں اس لیے ان کے سامنے تو ویسے ہی کھلے ہو کر بغیر پردہ کیے آنا پڑے گا تاکہ ان کو سمجھ آئے اور ان کو سمجھانا بھی پڑے گا۔

حیا دار کپڑے ہونے چاہئیں اور سر ڈھکا ہونا چاہیے اور اس کے بعد جس طرح مرضی پڑھاؤ اور کہہ دو کہ یہ لباس ایسا ہے جو حیا دار ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ اپنی حیا کوقائم کرنے کے لیے میں اس کو پہنوں قطع نظر اس کے کہ مذہب کیا کہتا ہے۔ اور میرامذہب بھی مجھے یہی سکھاتا ہے کہ حیا دار رہو اور یہ آج کا مذہب نہیں ہے، یہ تو ہمیشہ سے ہر مذہب کی تعلیم ہے کہ حیا قائم رکھو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنے علاقےسے ہجرت کر کے مدین گئے تھے تو وہاں جب دو لڑکیاں کھڑی تھیں، وہ حیا کی وجہ سے اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لیے مردوں میں نہیں جا رہی تھیں۔ ان میں حیا تھی اور انہوں نے کہا کہ جب تک یہ مرد نہ ہٹیں ہم پانی نہیں پلا سکتیں، ہم ان میں مکس(mix) نہیں ہو سکتیں۔ تو حضرت موسیٰؑ نے پھر ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا اور وہ اپنے جانور لے کر چلی گئیں۔ اس کے بعد پھر آگے قرآن شریف میں ذکر ہے کہ ایک ان میں سے حیا سے شرماتی ہوئی آئی اور اس نے کہا کہ میرا باپ تمہیں بلا رہا ہے اور وہاں بھی حیا کا ذکر ہے۔

اس کا مطلب ہے عورت میں حیا ہونی چاہیے، یہ جس کوmodestyکہتے ہیں اور اسی میں اس کیdignityہے، اسی میں اس کا وقار ہے، یہ قائم رکھنے کے لیے ہر مذہب نے اسی کی تعلیم دی ہے، صرف اسلام کی بات نہیں۔اور اسی کو قائم کرنے کے لیے تم عیسائی لوگ کہتے ہو، توعیسائیوں میں حضرت مریم ؑ حیا دار لباس نہیں پہنتی تھیں؟ یا جن کو تم ننیں(nuns) کہتےہو کہ ہماری خاص تعلیم دینے کے لیے ہیں وہ بھی حیا دار لباس پہنتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تمہارے ہاں حیا کاایک تصور ہے کہ نیک عورت حیا میں رہے اور حیادار لباس پہنے اور جس کی وجہ سے یہ میرا حیا دار لباس ہے جومیں پہنتی ہوں اور یہی میری تعلیم ہے، یہی میرا مذہب بھی ہے اور میری اپنی پسند بھی ہے کیونکہ میں نے جب مذہب کو قبول کیا ہے تو پھر مجھے ضروری ہے کہ میں اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش بھی کروں۔ یا تو میں مذہب کو نہ مانوں، پھر ٹھیک ہے۔

اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہیں کوئی جبر نہیں کہ مذہب کو ضرور مانو، مسلمان ہو۔ ہاں! اگر تم نے اسلام کومان لیا تو اسلام کی تعلیم پر عمل بھی کرنا ہوگا، اس میں کسی کمپلیکس (complex)کی ضرورت ہی کوئی نہیں، کھل کے بات کرو اور ہمیشہ ان کی مثالوں سے بھی ان کو مثال دیا کرو۔ تمام نبیوں، حضرت موسیٰؑ سے لے کے نیچے آؤ۔ کہتے ہیں ہمارا اِبراہیمی مذہب ہے۔ یہودیوں کو بڑا فخر ہے کہ ابراہیمؑ میں سے سب سے پہلے موسیٰؑ کا مذہب چلا تھا تو اس لیے ہماری زیادہ supremacyقائم ہے۔اس کے بعد عیسائی اور مسلمان آتے ہیں، تو ٹھیک ہے پھر عمل بھی کریں۔

ہم تو اپنے مذہب پرعمل کرنے والے ہیں، کوئی کمپلیکس (complex) نہیں ہے، جرأت پیدا کرو اور کھل کے بتایا کرو۔ ہاں! اگر تمہارے عمل وہ نہیں ہیں جو تمہارا مذہب کہتا ہے تو پھر تمہیں شرم آنی چاہیے۔

اگر پانچ وقت نمازیں نہیں پڑھتی، اگر اچھے اخلاق نہیں ہیں، لوگوں سے اچھے طور پر نہیں ملتی، لوگوں کا حق نہیں ادا کرتی اور اپنے جو فرائض ہیں ان کو صحیح طرح انجام نہیں دیتی تو اس پر تو شرم آنے والی بات ہے۔ مذہب کے اظہار پر تو شرمانا نہیں چاہیے۔ اگر اچھی ٹیچر ہو، بچے خوش ہیں، اچھے اخلاق ہیں، تمہارے فیلو سٹاف ممبر (fellow staff member)تم سے خوش ہیں تو پھر تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔

ایک سوال کیا گیا کہ بعض اوقات انسان کو کسی دوسرے انسان سے بہت سخت تکلیف پہنچتی ہے اور اس کو اسے معاف کرنے میں مشکل محسوس ہوتی ہے، اس صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آدمی کو اپنے جذبات پر کنٹرول (control)ہونا چاہیے۔ اگر اللہ سے تعلق ہے اور ایک احمدی مسلمان بچی، بچے اور ہرشخص کا اللہ سے تعلق ہونا چاہیے تو پھر اگر کوئی تکلیف پہنچاتا ہے تو اس کو پیار سے سمجھاؤ کہ یہ تم نے بات غلط کی ہے۔ اگر پھر بھی وہ ضد کرے تو پھر اس جگہ سے علیحدہ ہو جاؤ۔ اور پھر جہاں تک معاف کرنے کا سوال ہے، اگر دیکھ لو کہ اس کی اصلاح ہو گئی ہے تو پھر معاف کرو، پھر دل میں کینہ نہ رکھو، جتنی مرضی کسی نے تکلیف پہنچائی ہو۔ اور اگر کوئی اپنی اصلاح نہیں کرتا تو پھر بہتر ہے کہ اس سے distanceرکھو اور اپنی اچھی سہیلیوں اور اچھی دوستوں میں بیٹھتی رہو۔

اصل گناہ یہ ہے کہ دل میں اس تکلیف کا احساس پیدا کر کےجو اس نے پہنچائی ہے پھر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا۔ جو ہمدرد انسان ہے، ہم جو نعرہ لگاتے ہیں کہ نفرت کسی سے نہیں، تو نفرت کسی سے نہیں کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں دل میں اس سے نفرت نہیں ہے۔ اس کے عمل سے نفرت ہے، جو اس نے بات کی ہے اس سے نفرت ہے، جو اس کے عمل ہیں ان سے نفرت ہے اور اس کی اصلاح کرنے کی ہم نے کوشش کرنی ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور ایک دوسرے سے ہمدردی کرو اور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچاؤ، تو ہم نے اس کو فائدہ پہنچانے کے لیے اور اس کو گناہ سے بچانے کے لیے کوشش کرنی ہے کہ وہ بچ جائے۔ اس کو سمجھایا جائے، نہیں تو اس کے لیے دعا کی جائے۔ ہاں! اگر وہ ایسا ہی بداخلاق ہے کہ مستقل تمہارے اعصاب پرسوار ہو گیا ہے تو اس کی مجلس چھوڑ دو، اس سے فاصلہ اختیارکر لو لیکن پھر بھی اس کے لیے دعا کرتی رہو۔

ایک واقفۂ نو کی جانب سے قرآنی وعدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہ مقدس زمین راستبازوں اور نیک لوگوں کو ملے گی، دریافت کیا گیا کہ اس وقت فلسطین کے لوگوں پر بہت ظلم ہورہا ہے، آپ کے خیال میں کب تک یہ زمین راستباز اور نیک لوگوں کو ملے گی اور حقیقی امن قائم ہو گا؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب لوگ راستباز ہو جائیں گے، عباد الصالحین بن جائیں گے تو یہ ہو جائے گا، اگر احمدی بڑی تعداد میں ہو جائیں۔

اگر سورۂ بنی اسرائیل کا پہلا رکوع پڑھو تو اس میں بھی اس بات کے متعلق تفسیر لکھی ہوئی ہے اور یہی اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ یہودیوں کو زمین دو دفعہ ملے گی۔ پہلی دفعہ ملے گی، پھر یہ لوگ بیہودہ حرکتیں کریں گے، بغاوت کریں گے، اللہ تعالیٰ کے حکموں سے پرے ہٹ جائیں گے، ظلم کریں گے تو ان سے زمین چھن جائے گی اور پرانے زمانے میں وہ زمین چھینی گئی، ایک بادشاہ نے اس کو چھین لیا۔ پھر دوبارہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وہاں آباد کر دیا، دوبارہ آباد اس طرح کر دیا کہ یہودیوں کو اس طرح براہ راست زمین تو نہیں ملی لیکن رومن امپائر (Roman Empire)کے ذریعہ سے وہاں زمین مل گئی۔ وہاں رومن امپائر میں عیسائی بھی تھے، ان میں یہودی بھی تھے اور وہ توریت کو ماننے والے تھے، اس کے بعد پھر زمین ان کے ہاتھ سے نکل گئی، پھر مسلمانوں کے قبضہ میں آ گئی، پھر دوبارہ ان کو مل گئی۔

تو اب اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی عبادالصالحین پیدا ہونے والے ہیں، اس لیے پہلے تو ہمیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا ایسا بندہ بنانا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں صالحین ہوں، اپنے آپ کو ہم خود نہ سمجھیں کہ ہم تقویٰ پرچلنے والے بہت نیک ہیں۔ ہم نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لیا تو ہمارا حق بن گیا کہ اب ہر چیز جو اللہ تعالیٰ نے کہا ہے ہمیں ملے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمارے سے بھی اس وقت ہیں جب تک ہم نیک عمل کریں گے، اللہ تعالیٰ کا حق ادا کریں گے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حق ادا کریں گے اور جو اس کے حکم ہیں اس کے اوپر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔

تو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسی لیے بھیجا تھا کہ وہ اسلام کی تعلیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے، اس کو یہ مسلمان بھول بیٹھے ہیں اور اس پرعمل نہیں کر رہے، اس کو صحیح طرح لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ تم لوگ اسلام کی صحیح تعلیم پرعمل کرو اور ایک جماعت قائم کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سےایک جماعت قائم کی اوراس آنےوالےمسیح اور مہدی کے زمانے کی پیشگوئی قرآن شریف میں سورۂ جمعہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے حدیث میں بھی فرما دی۔

اب اگران کو دوبارہ حکومت ملی اور وہ ظلم کر رہے ہیں تو یہ تو ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان سے حکومت چھن جائے گی، مگر کب، یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کب عبادالصالحین پیدا ہوں گے اور عبادالصالحین ہم میں سے جب ہوں گے تو ہمیں وہ ملے گی۔ اور عبادالصالحین کا مطلب یہ ہے کہ دعائیں کرنے والے اور نیک عمل کرنے والے لوگ ہوں گے، تلواروں کے ذریعہ سے نہیں ملے گی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے کے بعد آپؑ نے جنگ اور جدال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی، حدیث کے مطابق بند کر دی۔

اس کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ہم دعا کریں گے، اپنے عمل نیک کریں گے، اللہ تعالیٰ کا حق ادا کریں گے، اس کے بندوں کے حق ادا کریں گے تو پھر ان ظالموں سے بھی ہمیں نجات مل جائے گی۔ تو فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کو بھی، ہمیں، سب کو سوچنا ہو گا کہ عبادالصالحین کس طرح بننا ہے اور زمانے کے امام کو مان کے اس کے پیچھے چلنے سے بننا ہے یا کم از کم اتنی تو حالت پیدا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے عمل پسند آنے لگ جائیں۔

زمین تو واپس ملے گی! لیکن یہ جو ظلم کر رہے ہیں، یہ تو ظاہر ہے کہ ان سے ایک وقت میں یہ زمین چھن جائے گی، کب چھنے گی، یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور پھر جو نیک لوگ ہوں گے ان کو ملے گی اور نیک لوگ وہی ہوں گے جو اللہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے اور اس زمانے میں مَیں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے زیادہ اکثریت ان کی ہو گی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے۔

یہ ظلم جو فلسطینیوں پر ہو رہا ہے، یہ ظلم ان کو لے بیٹھے گا، یہ تو میں ان کو مختلف ذریعہ سے کئی دفعہ پیغام بھیج چکا ہوں۔ زبور میں بھی یہ بات لکھی ہے اور زبور کی باتیں ہی ہیں جو سورة الانبیاء میں بیان کی گئی ہیں اور اس کی تفسیر اگر تمہیں اردو پڑھنی آتی ہے تو تفسیر کبیر میں پڑھ لو۔ سورة الانبیاء میں بھی اور سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں دو آیتیں ہیں، اس میں تفصیل سے تمہیں پتا لگ جائے گا اور اس میں بائبل کے حوالے بھی تمہیں مل جائیں گے کہ بائبل نے یہودیوں کو کیا کہا تھا ؟

کیونکہ اس وقت تو وقت نہیں، وہ لمبا بیان ہے،اور دونوں حصے پڑھ لینا سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں دو آیات اور سورۃ الانبیاء کی ایک آیت۔ اور اتفاق سے ان دونوں سورتوں کی ان آیات کی تفسیر حضرت مصلح موعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے بڑی اچھی کی ہوئی ہے۔ بلکہ لجنہ کو چاہیے کہ اس کی آیتیں نکال کے بلکہ جماعتی طور پر بھی ان دونوں سورۂ بنی اسرائیل کی دو آیات اور سورۂ انبیاء کی ایک آیت کی تفسیر نکال کے لوگوں میں تقسیم کریں، آجکل کے حالات کے مطابق یہ بڑیcontemporaryہے۔ انگلش، اردو، دونوں میں مل جائے گی۔

ایک سوال کیا گیا کہ جن بچوں کے ماں باپ چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ ان بچوں کو آزمائش میں کیوں ڈالتا ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ تمہیں کیا پتا اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح اور انعام بخشتا ہے؟ ہر بچہ تمہارے پاس تو بتانے کے لیے نہیں آتا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کتنا انعام دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت ہے۔ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے، بخار ہوتاہے یا ایکسیڈنٹ(accident) ہوتا ہے یا کوئی اور وجہ بنتی ہے، ایک دن تو انسان نے مرنا ہے تو وہ وجہ بن جاتی ہے اور اکثر جو اس طرح کی حادثاتی باتیں ہوتی ہیں اس میں عمومًا انسانوں کی غلطیاں ہوتی ہیں۔ تو جب انسان کی غلطیاں ہوتی ہیں، اس کے نتیجہ میں اس کو نقصان پہنچتا ہے تو یہ قانون قدرت ہے، لاء آف نیچر (law of nature)یہی ہے۔

اسی لیے اسلام کہتا ہے کہ تم لوگوں پر فرض ہے کہ جو یتیم بچے ہیں ان کو سنبھالو، ان کی پرورش کرو۔ اگر ماں باپ بچپن میں فوت ہو جاتے ہیں تو ان کو سنبھالو اور ان کی پرورش کرو، ان کو پڑھاؤ، ان کی تعلیم کا خیال رکھو۔ اگر ان کی جائیدادیں ہیں تو قرآن شریف میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان کی جائیدادوں کا خیال رکھو اور جب وہ صحیح عمر کو پہنچ جائیں، جب اپنی جائیداد، اپنے ماں باپ کی پراپرٹی(property) سنبھال سکیں تو ان کے سپرد کر دو اور ان کی پرورش کرتے ہوئے، ان کے بڑے ہونے سے پہلے پہلےاتنا نہ کھاؤ کہ کہو ہم ختم کر دیں۔

بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی پرورش کرنے والا قیامت کے دن اس طرح ہوں گے، دوانگلیوں کو ملا کے بتایا کہ ہم ایک جگہ ہوں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کی پرورش کرنے والے کو اتنا بڑا مقام دیا۔

ماں باپ اگر کسی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں اور بچے یتیم ہو جاتے ہیں تو معاشرے، سوسائٹی(society) اور جماعت کا کام ہے کہ ان یتیم بچوں کو سنبھالے، پڑھائے، ان کی بڑھوتری کرے۔ اگر ان کے پاس وسائل، ذرائع نہیں ہیں تو ان کو پوری طرح وسائل مہیاکر کے ان کی تربیت کے سامان پیدا کرے اور اگر ان کی جائیدادیں ہیں تو اس میں سے ان کو بھی سنبھال کے رکھے اور جب بڑے ہوں تو ان کے سپرد کر دے اور اگر کوئی پرورش کرنے والا ایسا ہے جس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ صحیح طرح ان کی پرورش کر سکے تو پھر مناسب طور پر ان کی جائیداد میں سے تھوڑا تھوڑا اِن کے اوپر خرچ کرتے رہو جس طرح ان کے ماں باپ نے خرچ کرنا تھا اور پھر جب وہ بڑے ہوجائیں تو ان کے سپرد کر دو، یہی ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

اور یتیم کو پالنے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن شریف میں کئی جگہ اس کا حکم ہے کہ یتیم کی پرورش کرو، اس کو سنبھالو۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے جس طرح دو انگلیاں ہوتی ہیں، تو یہ مقام ملتا ہے۔ تو اس بچے کوجس کے ماں باپ فوت ہو گئے ہم نے بالکل چھوڑ ہی نہیں دیا، بلکہ اسلام نے، الله تعالیٰ نے بڑی سخت ڈیوٹی(duty) لگا دی کہ ایسے بچے جو ماں باپ کے بغیر ہیں، ان کی پرورش کرنا تمہارا فرض ہے اور تمہیں اس کا ثواب ہے اور اگر نہیں کرتے تو تمہیں اس کا گناہ ہے۔

تو ایک قانون قدرت کے تحت اگر وہ مر جاتے ہیں، فوت ہو جاتے ہیں توان کی نسل کو سنبھالنا ہمارا کام ہے۔ اس لیے جماعت احمدیہ میں یتامیٰ فنڈ بھی قائم ہے اور اس لیے ہم یتیموں کو سنبھالتے ہیں، خرچ دیتے ہیں، پڑھاتے ہیں اور دارالیتامیٰ بھی بنایا ہوا ہے۔ یہاں بھی، افریقہ میں بھی اور ملکوں میں بھی بنایا ہے تو اسی لیے تا کہ یتیموں کی بہتر پرورش ہو اور ان کو اچھی طرح پالا جائے۔

ایک سوال کیا گیا کہ مرد حج یا عمرہ کے دوران ٹوپی کیوں نہیں پہنتے؟

اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے استفسار فرمایا کہ آپ نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ انہوں نے اپنا معمول کا لباس کیوں اتار دیا اور اس کی بجائے صرف احرام باندھا، کیایہ صرف ٹوپی نہ پہننے کا معاملہ ہے؟

وہ اپنے بال بھی منڈواتے ہیں، حج کے دوران مرد اپنا سر منڈواتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی طبّی بیماری ہو جو انہیں ایسا کرنے سے روکتی ہو اور ایسی صورتوں میں صدقہ اور روزے قابل قبول متبادل ہیں۔ لہٰذا حج اور عمرہ ایسی روحانی کیفیت پیدا کرتا ہے کہ جہاں انسان اپنی فطری حالت میں واپس لَوٹ جاتا ہے اور اللہ کے حضور کھڑا ہوتا ہے۔ حضورانور نے مزید وضاحت فرمائی کہ دنیاوی آداب ایسے ہیں کہ لوگ کسی سے ملتے وقت اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور مثال دیتے ہوئے بیان فرمایا کہ کس طرح یورپین(european) لوگ کسی سے ملتے وقت اپنی ٹوپی سر سے اتار کر یا بغیر اتارے اس کی نوک ادب کے لیے جھکاتے تھے، حالانکہ اب یہ عام رواج نہیں رہا۔دین اسلام سکھاتا ہےکہ گھر سے نکلتے وقت مناسب لباس پہننا چاہیے، سر ڈھانپنا چاہیے، اسی میں اپنی عزت اور وقار کو برقرار رکھنے کی حکمت ہے۔

جب نماز پڑھنےکے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں تو حکم دیا گیا ہے کہ عورتیں اپنے سر ڈھانپیں اور مردوں کو بھی ایسا ہی کرنا ہے، یہ عبادت کی ایک اور شکل ہے۔ تاہم حج عبادت کے انتہائی درجہ کی نمائندگی کرتا ہے، انسانوں کی فطری حالت کا عملی اظہار اس کے ذریعے کیا جاتا ہےاور جس کی وجہ سے سر منڈوایا جاتا ہے۔

یہ تصور مختلف مذاہب میں موجود ہے۔ مثال کے طور پربدھ مت یا ہندو راہبوں(monks) میں، بہت سے لوگ اپنے سر کے بال کٹوانےیا مکمل طور پرسر منڈوانے کا انتخاب کرتے ہیں جو کہ ایک ہی مشترکہ تصور کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہر مذہب انتہائی عاجزی کا تصور پیش کرتا ہے، جیسے کہ اپنے بال منڈوانا اور خود کو بکلی خُدا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس کا مطیع ہونا۔ لہٰذا حج اور عمرہ کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے جہاں انسان انتہائی عاجزی کے ساتھ خدا کی طرف رجوع کرتا ہے، اس لیے نہ ٹوپی پہنی جاتی ہے اور نہ ہی سر منڈوایا جاتا ہے اور مرد احرام باندھتے ہیں، البتہ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو وہ اپنے معمول کے کپڑے پہنتی ہیں۔

ایک سوال پوچھا گیا کہ کچھ لوگ مخصوص پاپ گروپس (pop groups)کےfan [پرستار] ہوتے ہیں، کیا کمروں میں ان کے پوسٹرز (posters) لگائے جا سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے واضح فرمایا کہ اس کی آپ کو اجازت نہیں ہے چاہے وہ کوئی پاپ گروپ(pop group) ہو یا کوئی اَور ہو، ایسی چیزیں دنیاداروں کے لیے ہیں، ہمارے لیے نہیں ہیں۔

فارماسیوٹیکل سائنس(pharmaceutical science) کی ایک طالبہ نے سوال کیا کہ اجتماعات اور تعلیمی کیریئر (career)کے دوران بعض اوقات ہم اپنا ٹارگٹ(target) پورا نہیں کر پاتے، ایسی صورتحال میں جب ہمdiscourageہو رہے ہوں تو ہمیں اس سے کیسے ڈیل (deal)کرنا چاہیے؟

اس پر حضورانور نے استفسار فرمایا کہ آپ لوگوں کا کیا ٹارگٹ (target) ہے، مجالس کی حاضری پوری نہیں ہے؟ موصوفہ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا کہ یہ بھی ہے۔حضور انورنے مزید فرمایا: یا ان کا تعلیمی معیار پورا نہیں ہے، جو انہیں پڑھنا چاہیے تھا، وہ نہیں ہے؟تو ہمارا کام تو کوشش کرنا ہے، ان کو سمجھاتے رہیں۔ باقی جہاں تک اپنے تعلیمی کیریئر(career) کا سوال ہے وہاں محنت کریں اور دعا کریں۔ جس فیلڈ(field) میں بھی آپ پڑھ رہے ہیں، الله تعالیٰ اس کو سمجھنے اور زیادہ محنت کرنے کی بھی توفیق دے۔ تو discourageہونے کا تو سوال ہی کوئی نہیں، دعا کرو اور محنت کرو۔ پھر بھی اچھے نمبر نہیں آتے تو پھر اللہ کی رضا پر راضی ہو جاؤ، تم نے جو اپنی کوشش کرنی تھی پہلے کر لو۔

ایک سوال کیا گیا کہ کیا ایک واقفۂ نو کو سٹوڈنٹ جاب(student job) کرنی چاہیے؟

اس پر حضور انور نے تلقین فرمائی کہ جب تک کوئی معقول وجہ نہ ہو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر کام کرنا چاہتے ہیں تو چاہیے کہ رضاکارانہ طور پر کام کریں اور جماعت کے لیے وقت وقف کریں تاکہ دینی علم میں اضافہ کر سکیں اور خدا کو خوش کر سکیں۔ حضور انور نے مزید زور دے کر فرمایا کہ اگر کسی کو حقیقی ضرورت ہو اور وہ بھوکا مر رہا ہو تو پھر اگر وہ کام کر بھی لے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

ایک سوال کیا گیا کہ ہم موبائل فون ایڈکشن (addiction)سے کس طرح بچ سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی کی جیب میں فون ہو تو اسے نکال کر دیوار کی طرف پھینک کےتوڑ دے تو addiction ختم ہو جائے گی۔ بات یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی addiction نہیں ہونی چاہیے، ہر چیز کی addiction سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

ہاں! addictionاگر کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کیaddictionہونی چاہیے، دین کی خدمت کیaddiction ہونی چاہیے۔ پانچ نمازیں توجہ سے پڑھو، یہ تمہاری addiction ہونی چاہیے کہ میں نے توجہ سے نماز پڑھنی ہے، تم نماز تو جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو۔ اگر ماں باپ نے کہہ دیا کہ نماز پڑھو اور اس کے بعد فون کھولتے ہو، سیل فون (cell phone)یا آئی پیڈ(iPad) یا اینڈرائڈ(android) جو بھی تمہارے پاس ٹیبلٹ(tablet) وغیرہ ہوتا ہے، اس کو کھول کےاس پر فوری دیکھنے لگ جاتے ہو یا ٹی وی (TV)کے اوپر بیٹھ جاتے ہو۔ اب تو ٹی وی کے اوپر بھی یوٹیوب(YouTube) پر سب کچھ آ جاتا ہے، اس میں دیکھنے لگ جاتے ہو تو یہ چیزیں غلط ہیں۔ نماز کو وقت پر ادا کرو اور اچھی طرح ادا کرو، قرآن شریف پڑھواور اچھی طرح پڑھو۔

واقفات نو کا تو خاص طورپر فرض ہے، اپنے آپ کو وقف کیا، ماں باپ نے اس لیے وقف کیا کہ دین کی خدمت کریں گی۔ پندرہ سال کے بعد تو آپ لوگ اس بات پر وقف کریں گی کہ ہم اپنے اس بانڈ(bond) کوrenewکرتی ہیں، پھر اکیس سال کی عمر میں جا کے دوبارہ اس لیے renewکریں گی تا کہ ہم دین کی خادمہ بنیں اور دین کی خادمہ بننے کے لیے پہلی ضروری بات اللہ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ اللہ سے تعلق پیدا کرنے کے لیے نمازیں اچھی طرح پڑھنا ضروری ہے، پھر قرآن شریف پڑھنا ضروری ہے، قرآن شریف کو سمجھنا ضروری ہے اور جب سمجھو گی تو اس کی تعلیم پر تم عمل کرنے کی بھی کوشش کرو گی، اچھے اخلاق ہونے چاہئیں۔

یہ ساری باتیں جب تم کرو گی تو پھر تمہیں تھوڑا سا وقت موبائل فون دیکھنے کا ملے گا۔ موبائل فون دیکھنے کا جب وقت ملے تو اس میں اچھی اچھی چیزیں دیکھو، آج کل تو موبائل فونوں پرانتہائی فضول، لغواور بیہودہ قسم کی چیزیں آ جاتی ہیں، اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بچوں کی نظر علیحدہ خراب ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ چودہ، پندرہ سال تک تو بچوں کو ویسے ہی ایک گھنٹے سے زیادہ سکرین پرنہیں بیٹھنا چاہیے۔ اب تو سکولوں میں بھی سکرین پر بٹھا دیتے ہیں، گھر آ کے بھی سکرین پر بیٹھتے ہو تو کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ نظریں خراب ہو جاتی ہیں، ہر ایک کو عینکیں لگی ہوتی ہیں، تم بڑی خوش قسمت ہوتمہیں عینک نہیں لگی ہوئی۔ اس لیے ان چیزوں سے بچنا چاہیے۔

ایک واقفۂ نو نے ذکر کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مصلوب ہونے سے بچ گئے تھے اور ہجرت کر گئے تھےنیزاس ضمن میں دریافت فرمایا کہ اس بارے میں کوئی ذکر کیوں نہیں کیا جاتا، حالانکہ اس کے بعدانہوں نےطویل زندگی بسر کی؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ واقعات تو دستیاب ہیں، ضرورت صرف یہ ہےکہ ان کو پڑھا جائے، اب تو لوگوں نے بھی اس موضوع پر کتابیں لکھنا شروع کر دی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو تفصیل سےاس بارے میں اپنی تصنیف ’مسیح ہندوستان میں‘ میںتحریر کیا اور فرمایا ہے کہ بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ ہجرت کر کے کہاں گئے، کہاں مقیم رہےاور آخر کار وہ کشمیر کیسےپہنچے جہاں انہیں دفن کیا گیا۔

ایک سوال کیا گیا کہ الله تعالیٰ کی بہت سی صفات کیوں ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں لامحدود ہیں، اللہ کی صفات اس سے کہیں زیادہ ہیں جن سے ہم واقف ہیں۔

ایک سوال کیا گیا کہ ہم کیسے اپنے نفس سے لڑ کر خدا کی رضا میں راضی ہو سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ پرایمان پیدا کرو۔ حضور انور نے دریافت کیا کہ تمہیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے، نماز پڑھتی ہو اور کبھی تمہاری نماز میں یا ویسے دعا قبول ہوئی ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ نے تمہاری خواہش کے مطابق تمہاری خواہش پوری کی ہے، تمہیں یقین ہو کہ یہ چیز مجھے نہیں ملنی اور پھر اچانک ایسے سامان پیدا ہو جائیں کہ مل جائے ؟ ان تمام سوالات کاموصوفہ نے اثبات میں جواب دیا۔

اس پرحضور انور نے مزید فرمایا کہ میں بہت سارے واقعات چندوں کے بارے میں بھی سناتا ہوں اور اس میں بچوں کے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں ہوتاتھا، ہم نے چندہ دیا، یا ہم نے فلاں نیک کام کیا تو اللہ میاں نے ہمیں اس طرح سے نوازا۔ تمہارے ساتھ بھی اس طرح ہوا ہو گا۔

تو دیکھو! جب اللہ تعالیٰ اتنا پیار کرنے والا ہے، اتنی ساری چیزیں کرتا ہے تو پھر ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی بات مانیں اور اگر کبھی کسی وقت اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی چیز نہیں دیتا تو اس کی رضا پرراضی ہو جائیں۔ ہر وقت اپنی بات نہ منوائی جائیں۔ selfish نہ بنیں کہ ہم نے اپنی ہی بات منوانی ہے، اللہ میاں ہمارا کوئی نوکر تو نہیں ہے، وہ تو مالک ہے، وہ ہمیں پیدا کرنے والا بھی ہے، اس لیے وہ بہتر جانتاہے کہ کیا چیز میرے بندے کے فائدے کے لیے ہے اور کیا چیزمیں نے اس کو دینی ہے، کیا نہیں دینی۔ کبھی تو اس لیے نہیں دیتا کہ اس کا نقصان ہو سکتا ہے، بندے کو اس کے نتائج کا پتا نہیں، کبھی اس لیے نہیں دیتا کہ میں دیکھوں کہ بندہ میرا پھر بھی شکر ادا کرتاہے کہ نہیں۔ کوشش کرو کہ اللہ میاں جب مجھے اتنی اچھی اچھی چیزیں دے رہا ہے تو اگر ایک دفعہ میری بات نہیں مانی یا بعض چیزیں مجھے نہیں دیں تو مجھے الله تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا چاہیے۔

حضور انورنے ایک واقعہ بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ تھا، اس کے دربار میں ایک آدمی اس کا بہت چہیتا اور بادشاہ کی ہر بات مانا کرتا تھا۔ ایک دن گاؤں سے بادشاہ کے لیے کوئی پھل تحفہ لے کر آیا اور بادشاہ نے اس بندے کو کہا کہ پہلے تم کھاؤ جو اس بادشاہ کا بہت پیارا تھا، اس بندے نے کھایا، بادشاہ نے کاٹ کے اس کو دیا تھا۔ خربوزے کی طرح کی چیز تھی، اس نے اس کی بہت زیادہ تعریف کی کہ بڑا اَچھا ہے۔ تو بادشاہ نے سمجھا کہ واقعی بڑا اچھا ہے تو بادشاہ نے خود بھی اس کا ایک لقمہ جب منہ میں ڈالا تو بڑا کڑوا تھا، بادشاہ اس سے بڑا غصہ ہوا کہ تم کہہ رہے ہو بڑا اَچھا ہے، اس میں کیا اچھائی ہے؟

وہ کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! ساری عمر میں نے آپ سے فائدہ اٹھایا، آپ نے بہت ساری اچھی اچھی چیزیں مجھے دیں اور مجھے فائدہ پہنچتا رہا اور مجھے آپ نے انعامات بھی دیے۔ آج مجھے اگر آپ نے کڑوی چیز کھلا دی ہے، کوئی بری چیز دے دی ہے تو اس کا مطلب ہے میں ناشکرا بن جاؤں اور اس کا آپ کو کہہ دوں کہ یہ کڑوی ہے، مجھے کیا دے دیا! تو میں نے اس کو بھی اس لیے صبر سے کھا لیا تھا۔

تو اس طرح شکر گزاری ہونی چاہیے۔ یہ ایک مثال ہے دنیا داروں کے لیے کہ صبر کرو اور اچھی اچھی چیزیں جب اللہ میاں دیتا ہے اس کا شکر کرتے ہو تو کبھی اللہ تعالیٰ جب امتحان لیتا ہے تو اس وقت بھی اس کا شکر کرو اور اللہ تعالیٰ سے کہو اللہ تعالیٰ مزید امتحان میں نہ ڈالے اور جب شکر گزاری کرو گے تواللہ کہتا ہےکہ میں اپنے انعامات کو اور بڑھاؤں گا، اس لیے شکر کی عادت ڈالو۔

ایک واقفۂ نو نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ سورة البقرہ آیت ۲۷۲میں فرماتا ہے کہ تم اگر صدقات کو ظاہر کرو تو یہ بھی عمدہ بات ہے اور اگر تم انہیں چھپاؤ اور انہیں حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، موصوفہ نے دریافت کیا کہ صدقات کو ظاہر کرتے ہوئے دینے میں کیا حکمت ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ لوگ بعض دفعہ بالکل دکھاوے کے لیے چندہ یا صدقہ دیتے ہیں یا کسی غریب کی مدد کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو پتا لگے کہ ہم بہتgenerous [سخی] ہیں، ہم لوگوں کو بہت دینے والے ہیں تو اس لیے ایسے لوگوں کو الله تعالیٰ نے کہا کہ تم چھپا کر دو، خاموشی سے دو تو زیادہ اچھی بات ہے۔

بعض لوگ اتنی خاموشی سے دیتے ہیں کہ دوسرے کو پتا بھی نہیں لگتا۔ بعض دفعہ، بعض معاملات میں چندہ دینے سے دوسرے کو تحریک پیدا ہوتی ہے۔ مثلًا تم نے چندہ یا صدقہ دیا یا کسی غریب کی مدد کی، یتامیٰ فنڈ ہے اس میں پیسے دیے، جس طرح ابھی میں نے ذکر کیا تھا، پھر یتیموں کی مدد کی تو دوسروں کو بھی خیال پیدا ہو گا، تحریک پیدا ہو گی کہ ہم بھی دیں۔ تو تمہارے ظاہر ہو کے دینے سے دوسرے کے اندر نیکی پیدا ہوتی ہے۔

اگر تم کسی کو صدقہ دیتی ہو یا چیریٹی(charity) دیتی ہو تو جو تمہاری سہیلی ہے اس کو بھی خیال پیدا ہو گا کہ میری سہیلی نے دیا تو میں بھی دوں، ا گر تم چھپ کے دیتی تو اس کو پتا نہ لگتا، تم نے ظاہرً اجب دیا تو اس کو پتا لگ گیااور اس نے بھی دیا تو اس کو بھی ثواب ہو گیا۔ تو اس طرح نیکی کی تحریک کرنے کے لیے دینا اچھا ہے، اگر صرف یہ دکھاوے کے لیے ظاہر کرنا ہے تو وہ منع ہے، لیکن اگر اس لیے ظاہر کرنا ہے کہ دوسرے کو نیکی کی تحریک پیدا ہو جائے، میری وجہ سے دوسرے بھی نیک کام کریں تو یہ اچھی بات ہے، یہ اللہ تعالیٰ کو بھی پسند ہے، اس لیے فرمایا کہ ظاہر کر کے دو تو یہ بھی تمہارے لیے اچھا ہے۔

اس لیے میں لوگوں کے چندوں کے بہت سارے واقعات سناتا رہتا ہوں، وہ اس لیے سناتا ہوں کہ لوگوں کے یہ واقعات سن کے دوسروں کو بھی تحریک پیدا ہو کہ انہوں نے اگر چندہ دیا اور ان پراللہ کا فضل ہوا تو ہم بھی چندہ دیں، ہم پربھی اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ یا صدقہ دیں یا خیرات دیں یا یتیموں کے لیے دیں یا مریضوں کے لیے دیں یا اور کسی کی مدد کے لیے دیں، کسی چیریٹی(charity) میں دیں، تو جب ہم اس طرح دیتے ہیں تو دوسروں کو بھی تحریک پیدا ہوتی ہے، دوسروں کو بھی خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی اس نیکی میں حصہ لیں۔

اس لیے یہ حکمت ہے کہ بتا کے بھی دینا چاہیے تاکہ دوسروں کو نیکی کی تحریک پیدا ہو لیکن اگر دینے والا اس نیّت سے دے رہا ہے کہ میری تعریف ہو تو وہ غلط ہے۔

ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم و رحمۃ الله کہا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button