حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حکمت اور اچھی نصیحت سے تبلیغ کا کام

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍ستمبر ۲۰۱۷ء)

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَالۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَجَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ(النحل: 126) اس آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا رب ہی اسے جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک کی جماعتوں نے اپنی مجالس شوریٰ میں اس تجویز کو رکھا اور اس پر بڑی اچھی بحث کی اور ہر جماعت کی مجلس شوریٰ نے اپنا لائحہ عمل بھی تجویز کیا کہ کس طرح ہم تبلیغ کے کام کو اور اسلام کا حقیقی پیغام اپنے ملک کے ہر طبقہ میں پہنچانے کے کام کو وسعت دے سکتے ہیں یا اسے بہتر بنیادوں پر قائم کر سکتے ہیں۔ جماعت احمدیہ برطانیہ نے بھی اس سال اپنی مجلس شوریٰ کے ایجنڈے میں اس تجویز کو رکھا ہوا تھا۔ اس پر مجلس شوریٰ نے بڑی سیر حاصل بحث کی اور بحث کر کے اپنا لائحہ عمل تجویز کر کے مجھے منظوری کے لئے بھجوایا۔ لیکن ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ چاہے یہ تبلیغ کے کام کے لئے منصوبہ بندی ہے یا کسی اور کام کی منصوبہ بندی۔ مجلس شوریٰ جب کوئی بھی منصوبہ بندی کرتی ہے، تو ممبران شوریٰ کی مختلف آراء سامنے آتی ہیں اور پھر ایک رائے قائم ہوتی ہے یا ممبران کی اکثریت کی ایک رائے قائم ہوتی ہے اور پھر اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل تجویز ہو کر خلیفہ وقت کے پاس منظوری کے لئے بھجوایا جاتا ہے اور جب منظوری ہو جاتی ہے تو اس پر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور طاقتوں کے ساتھ عمل درآمد کرنا اور کروانا ممبران مجلس شوریٰ کی بھی ذمہ داری ہے اور ہر سطح کے جماعتی عہدیداران کی بھی ذمہ داری ہے۔

پس تبلیغ کے کام کو بہتر کرنے یا اسے وسعت دینے کے لئے یہ جو تجویز مجلس شوریٰ برطانیہ میں زیر بحث آئی اور اس پر فیصلے ہوئے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں اس پر مشورے ہوئے اور خلیفہ وقت سے منظوری کے بعد عمل درآمد کے لئے جماعتوں کو بھجوائے گئے۔ اس پر عمل درآمد کرنے اور کروانے کے لئے ہر ممبر مجلس شوریٰ اور ہر سطح کے عہدیداران کو اب بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ صرف یہ نہ سمجھیں کہ کیونکہ تبلیغ سے متعلق ایک تجویز ہے اس لئے صرف سیکرٹری تبلیغ ہی اس کا ذمہ دار ہے کہ کام کرے یا اگر کوئی تجویز کسی بھی دوسرے شعبہ سے متعلق ہے تو متعلقہ سیکرٹری ذمہ دار ہے۔ یقیناً اس پر عمل درآمد کرنے کے لئے متعلقہ سیکرٹریان ہی ذمہ دار ہیں لیکن خاص طور پر تبلیغ اور تربیت کے شعبے ایسے ہیں کہ اس میں جماعت کے ہر عہدیدار کا، ہر سطح کے عہدیدار کا شامل ہونا اور اپنا نمونہ دکھانا ضروری ہے۔

اس وقت مَیں چونکہ تبلیغ کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں اس لئے اس حوالے سے مَیں ہر عہدیدار کو توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ وہ اپنے سیکرٹریان تبلیغ سے اس تجویز پر جماعتوں میں عمل درآمد کروانے کے لئے مکمل تعاون کریں۔ خود اس کا حصہ بن کر افراد جماعت کے لئے اپنا نمونہ پیش کریں۔ کوئی بھی عہدیدار ہو کسی نہ کسی رنگ میں تبلیغ میں حصہ لے سکتا ہے اور اگر عہدیدار حصہ لے رہے ہوں تو افراد جماعت کے سامنے نمونے قائم ہو رہے ہوں گے اور بہت سے احمدی ایسے ہوں گے جو بغیر کہے، بغیر خاص توجہ دلائے خود بخود ان نمونوں کو دیکھ کر اس لائحہ عمل کو پورا کرنے کے لئے اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی کوشش میں شامل ہو جائیں گے۔ بعض سیکرٹریان کے پاس ویسے بھی اپنے شعبہ کا اتنا کام نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ وقت بھی دے سکتے ہیں۔ صرف نیت اور ارادے کی ضرورت ہے۔ بہرحال نیشنل سیکرٹری تبلیغ کا کام ہے کہ جو لائحہ عمل بھی بنایا گیا ہے یہ ہر مقامی جماعت کے سیکرٹری تبلیغ تک پہنچنا چاہئے اور پھر اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ اس لائحہ عمل کا افراد جماعت سے متعلقہ حصہ جو ہے اور جو حصہ انتظامی نہیں ہے بلکہ افراد جماعت سے تعلق رکھتا ہے وہ وہاں کی جماعت کے ہر فرد تک پہنچ جائے۔

لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے جو ہماری رہنمائی فرمائی ہے اسے سمجھیں اور اس کے مطابق ہر سیکرٹری تبلیغ عمل کرے۔ ہر عہدیدار عمل کرے۔ داعیانِ خصوصی عمل کریں۔ داعیانِ خصوصی کا مَیں نے خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ ان لوگوں نے خود اپنے آپ کو پیش کیا ہے کہ ہم باقی افراد جماعت کی نسبت زیادہ وقت تبلیغ کے لئے دیں گے۔ وہ اگر اپنا وقت بھی دیں اور علم بھی ہو لیکن ان باتوں کی طرف توجہ نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں تو پھر اس میں وہ برکت نہیں پڑ سکتی، بہتر نتائج نہیں نکالے جا سکتے جو نکل سکتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اس میں سب سے پہلے حکمت ہے۔ پھر موعظۃ الحسنہ ہے۔ یعنی اچھی نصیحت۔ پھر فرمایا بحث میں ایسی دلیل استعمال کرو جو بہترین ہو۔ آجکل کے نام نہاد علماء نے اور دہشتگرد گروہوں اور تنظیموں نے اپنے جنونی پن اور بغیر حکمت، عقل اور بے دلیل باتوں سے اسلام کو اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ غیر مسلم دنیا سمجھتی ہے کہ اسلام حکمت سے عاری اور دلائل سے عاری مذہب ہے اور بے عقلوں اور بیوقوفوں کا مذہب ہے۔ نعوذ باللہ۔ اور صرف شدت پسندی ہی اس کی تعلیم ہے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق تبلیغ کرنی اور تبلیغی رابطے کرنے ہر احمدی کی ایک بہت اہم ذمہ داری ہے۔ پس اس اہمیت کو سب سے پہلے تو ہر سطح کے عہدیداروں کو سمجھنا چاہئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button