حاصل مطالعہ

اسلامی جنگوں کی ضرورت اور آداب

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ؓ نے اپنی کتاب ’سیرت خاتم النبیینﷺ‘ میں اسلامی جنگوں کی ضرورت اور آداب پر کافی سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’جہاد بالسیف کا مسئلہ جس کے ماتحت مسلمانوں کی تلوار نیام سے باہر آئی باوجود درحقیقت ایک بہت صاف اورسادہ مسئلہ ہونے کے ان متضادخیالات کی وجہ سے جو بدقسمتی سے خودبعض مسلمانوں کی طرف سے اس کے متعلق ظاہر کئے گئے ہیں اورنیز بعض غیر مسلم مؤرخین کی تحریرات کی وجہ سے جوانہوں نے مؤرخ کی حیثیت سے ہٹ کرایک متعصب مذہبی مناظرکی حیثیت میں لکھی ہیں ایک نہایت پیچ دار مسئلہ بن گیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسلام نے ابتداء ًتلوارکے سایہ کے نیچے پرورش پائی جوہراس شخص کے سرپراُٹھتی تھی جواسلام لانے سے انکار کرتا تھا اورمسلمانوں کایہ مذہبی فرض مقرر کیاگیا تھا کہ وہ تلوار کے زور سے لوگوں کومسلمان بنائیں۔یہ خیال حقیقت سے کس قدر دوراورصحیح تاریخی واقعات کے کس قدرخلاف ہے؟اس کا جواب ذیل کے اَوراق میں ملے گا۔حقیقت حال یہ ہے اوراس حقیقت کے شواہد ابھی ظاہر ہوجائیںگے کہ اس ابتدائی زمانہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ نے ابتداءًجوکچھ کیا وہ دفاع اور خود حفاظتی میں کیا اوروہ بھی اس وقت کیا جبکہ قریش مکہ اوران کی انگیخت پردوسرے قبائل عرب کی معاندانہ کارروائیاں اس حد کوپہنچ چکی تھیں کہ ان سے مقابلہ میں مسلمانوں کاخاموش رہنااوراپنی حفاظت کے لئے ہاتھ نہ اٹھاناخود کشی کے ہم معنی تھاجسے کوئی عقل مند نظراستحسان سے نہیں دیکھ سکتا اورپھرآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دفاعی جنگ کے دوران جوجوکارروائیاں فرمائیں وہ حالات پیش آمدہ کے ماتحت نہ صرف بالکل جائز اوردرست تھیں بلکہ جنگی ضابطہ اخلاق کاجو معیار آپ ؐنے قائم فرمایاوہ آج بھی دنیا کے واسطے ایک بہترین نمونہ ہے جس سے زیادہ سختی اورسزا کی طرف مائل ہونا عدل اوررحم کے منافی ہے اورجس سے زیادہ نرمی اوررعایت کاطریق اختیار کرنا دنیا کے امن کے لئے سم قاتل۔ درحقیقت اسلام کادعویٰ ہے کہ وہ فطرت کامذہب ہے اس لئے نہ تو وہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہرصورت میں ہرگناہ اورہرجرم کی سزا ہونی چاہئے اورنہ وہ یہ سکھاتا ہے کہ کسی حالت میں بھی بدی کامقابلہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ ہر دو تعلیمات افراط وتفریط کی راہیں ہیںاوران پر عمل کرنے سے کبھی بھی امن قائم نہیں رہ سکتااورنہ اقوام وافراد کے اخلاق کی اصلاح ہوسکتی ہے‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ ۳۲۳،۳۲۲)

’’یہ اسلامی جنگیں سب ایک قسم کی نہ تھیں بلکہ مختلف قسم کے اسباب کے ماتحت وقوع میں آئی تھیں مثلاًبعض لڑائیاں دفاع اورخود حفاظتی کی غرض سے تھیں یعنی ان میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کامنشاء یہ تھا کہ اسلام اورمسلمانوں کوکفار کے مظالم اورتباہی سے بچایا جاوے۔بعض قیام امن کے لئے تھیں یعنی ان کا مقصد ملک میں فتنہ کودور کرنااورامن کوقائم کرنا تھا۔بعض مذہبی آزادی کے قائم کرنے کی غرض سے تھیں۔بعض تعزیری رنگ رکھتی تھیںیعنی ان کی غرض وغایت کسی قوم یاقبیلہ یاگروہ کوان کے کسی خطرناک جرم یاظلم وستم یادغابازی کی سزادینا تھی۔بعض سیاسی تھیں یعنی ان کا مقصد کسی معاہد قبیلہ کی اعانت یااس قسم کاکوئی اورسیاسی تقاضا تھا اوربعض ایسی بھی تھیںجن میںان اغراض ومقاصد میںسے ایک سے زیادہ اغراض مدّنظر تھیں مثلاًوہ دفاعی بھی تھیں اورتعزیری بھی یاسیاسی بھی تھیں اور قیام امن کی غرض بھی رکھتی تھیں۔وغیرذالک۔یہ ایک بڑا ضروری علم ہے جس کے نہ جاننے کی وجہ سے بعض مؤرخین نے ساری لڑائیوں کوایک ہی غرض کے ماتحت لانے کی کوشش کی ہے اور پھر ٹھوکر کھائی ہے۔اس جگہ یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ اوپر کی بحث میں ہم نے عام طورپر صرف دفاع اور خود حفاظتی کی غرض کاذکر کیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد کی ابتداء زیادہ تراسی غرض کے ماتحت ہوئی تھی جیسا کہ ابتدائی قرآنی آیت سے ظاہر ہے اورباقی اغراض بعد میں آہستہ آہستہ حالات کے ماتحت پیدا ہوتی گئیں۔‘‘ (سیرت خاتم النبیین صفحہ۳۵۶،۳۵۵)

حضرت مصلح موعودؓ جنگی اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:؛قرآن کریم کی اِن آیات کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مزید تعلیمات مسلمانوں کو دیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ کسی صورت میں مسلمانوں کو مثلہ کرنے کی اجازت نہیں، یعنی مسلمانوں کو مقتولین جنگ کی ہتک کرنے یا اُن کے اعضاء کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔(مسلم کتاب الجھاد والسیر باب تامیرالامام الامراء علی البعوث)

۲۔ مسلمانوں کو کبھی جنگ میں دھوکا بازی نہیں کرنی چاہئے۔ (مسلم کتاب الجھاد والسیر باب تامیرالامام الامراء علی البعوث)

۳۔ کسی بچے کو نہیں مارنا چاہئے اور نہ کسی عورت کو۔(مسلم کتاب الجھاد باب تحریم قتل النساء والصبیان فی الحرب)

۴۔ پادریوں،پنڈتوں اور دوسرے مذہبی رہنمائوں کو قتل نہیں کرنا چاہئے۔ (طحاوی کتاب الجھاد باب فی قتل النساء والصغار)

۵۔ بڈھے کو نہیں مارنا چاہئے، بچے کو نہیں مارنا چاہئے، عورت کو نہیں مارنا چاہئے اور ہمیشہ صلح اور احسان کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین)

۶۔ جب لڑائی کے لئے مسلمان جائیں تو اپنے دشمنوں کے ملک میں ڈر اور خوف پید انہ کریں اور عوام الناس پر سختی نہ کریں۔ (مسلم کتاب الجہاد باب فی امرالجیوش بالتیسر و ترک التنفیر)

۷۔ جب لڑائی کے لئے نکلیں تو ایسی جگہ پر پڑائو نہ ڈالیں کہ لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہو اور کوچ کے وقت ایسی طرز پر نہ چلیں کہ لوگوں کیلئے رستہ چلنا مشکل ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سختی سے حکم دیا ہے کہ فرمایا جو شخص اِن احکام کے خلاف کرے گا اُس کی لڑائی اُس کے نفس کے لئے ہو گی خدا کے لئے نہیںہو گی۔(ابوداؤد کتاب الجہاد باب مایؤمرمن انضمام العسکر)

۸۔ لڑائی میں دشمن کے منہ پر زخم نہ لگائیں۔

۹۔ لڑائی کے وقت کوشش کرنی چاہئے کہ دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچے۔

۱۰۔ جو قیدی پکڑے جائیں اُن میں سے جو قریبی رشتہ دار ہوں اُن کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جائے۔ (ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی التفریق بین الصبی)

۱۱۔ قیدیوں کے آرا م کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا جائے۔ (ترمذی ابواب السیر)

۱۲۔ غیر ملکی سفیروں کا ادب اور احترام کیا جائے۔ وہ غلطی بھی کریں تو اُن سے چشم پوشی کی جائے۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الرسل)

۱۳۔ اگر کوئی شخص جنگی قیدی کے ساتھ سختی کر بیٹھے تو اس قیدی کو بِلا معاوضہ آزاد کر دیا جائے۔

۱۴۔ جس شخص کے پاس کوئی جنگی قیدی رکھا جائے وہ اُسے وہی کھلائے جو خود کھائے اور اُسے وہی پہنائے جو خود پہنے۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہی احکام کی روشنی میں مزید یہ حکم جاری فرمایا کہ عمارتوں کو گرائو مت اور پھلدار درختوں کو کاٹو مت۔ (مؤطا امام مالک کتاب الجہاد باب النھی عن قتل النساء والوالدان فی الغزو)

اِن احکام سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام نے جنگ کے روکنے کے لئے کیسی تدابیر اختیار کی ہیں اورر سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس عمدگی کے ساتھ اِن تعلیمات کو جامہ پہنایا اور مسلمانوں کو اِن پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ موسیٰؑ کی تعلیم اِس زمانہ میں عدل کی تعلیم کہلا سکتی ہے نہ وہ اِس زمانہ میں قابل عمل ہے اور نہ مسیحؑ کی تعلیم اِس زمانہ میں قابلِ عمل کہلا سکتی ہے اور نہ کبھی عیسائی دنیا نے اِس پر عمل کیا ہے۔ اسلام ہی کی تعلیم ہے جو قابل عمل ہے اور جس پر عمل کر کے دنیا میں امن قائم رکھا جا سکتا ہے۔

…پس اِس وقت تک دنیا کا تجربہ ہے اور عقل جس حد تک انسان کی راہنمائی کرتی ہے ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی طریقہ صحیح تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۲۸۵،۲۸۳)

(مرسلہ:سید طفیل احمد شہباز مربی سلسلہ نشر و اشاعت قادیان)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button