یادِ رفتگاں

مکرم عبدالرحمٰن بٹ صاحب مرحوم

(ڈاکٹر طارق انور باجوہ۔ لندن)

میرے خسر محترم عبدالرحمٰن بٹ صاحب ۱۴؍اپریل ۲۰۲۳ء بروز جمعہ ۲۳؍رمضان المبارک کی شب ۹۴؍سال کی عمر میں ایک مختصر علالت کے بعد سینٹ جارجز ہسپتال میں وفات پا گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

مرحوم دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رضاکارانہ خدمت بجا لاتے تھے اور اپنی ریٹائرمنٹ سے لے کر تا دمِ آخر باقاعدگی سے یہ خدمت بجا لاتے رہے۔

سیّدنا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰؍اپریل ۲۰۲۳ء کو بارہ بجے اسلام آباد میں اپنے دفتر سے باہر تشریف لا کر از راہِ شفقت ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔نماز کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے ان کے بیٹوں سے مختصر گفتگو فرمائی۔ ان سے استفسار کے بعد کہ وہ کہاں رہتے ہیں حضور نے ان کے ابا کے متعلق فرمایا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے وہ ہر روز بڑی باقاعدگی سے دفتر آتے تھے۔ نیز فرمایا “اب آپ نے ان کی نیکیوں کو جاری رکھنا ہے ‘‘۔ اس کے بعد مجھے مخاطب ہو کر فرمایا کہ “اپنی بیوی ڈاکٹر ریحانہ سے بھی میری طرف سے تعزیت کر دیں۔”

مکرم عبدالرحمٰن بٹ صاحب مرحوم ۸؍اگست ۱۹۲۸ء کو کڑیانوالہ گجرات میں پیدا ہوئے۔ان کے والد، محترم فقیر محمد لال خان، رئیس محمد بخش صاحب آف کڑیانوالہ ( جن کی مالی مشکلات دور ہونے کے لیے دعا کی درخواست پر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے مشہور نظم ’اک نہ اک دن پیش ہو گاتُو فنا کے سامنے ‘تحریر فرمائی تھی ) کے چچا زاد بھائی تھے اور ان ہی کی وساطت سے ۱۹۱۵ء میں دورِ خلافتِ ثانیہ میں بیعت کر کے جماعتِ احمدیہ میں شامل ہوئے۔

محترم فقیر محمد لال خان صاحب کاروباری آدمی تھے۔ ۱۹۳۰ء میں اپنے ایک بھتیجے کی تلاش میں کینیا گئے تو وہاں حالات کاروبار کے لیے سازگار دیکھ کر کاروبار شروع کر دیا جو بہت کامیاب ہوا اور پھر انہوں نے اپنے باقی خاندان کو وہیں بُلا لیا اور وہیں کے ہو رہے۔

کینیا میں انہوں نے اپنے خاندان کو جماعت سے وابستہ رکھا اور مالی قربانیوں میں خاص طور پر پیش پیش رہے ۔ ایک موقع پر جب انہوں نے اپنے ایک ساتھی دکاندار سے سنا کہ وہ اُس عمارت کی نیلامی پر جا رہے ہیں جو جماعت کی عمارت تھی اور رقم ادا نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ سے جانے کا خدشہ تھا تو نیلامی رکوا دی اور مبلغ محترم شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم سے کہا کہ وہ اپنے خاندان کی طرف سے ساری رقم ادا کر دیں گے۔ بعد میں اسی جگہ مسجد کی تعمیر پر ایک دفعہ سولہ ہزار اور دوسری دفعہ اٹھارہ ہزار شلنگ کی خطیر رقم پیش کر دی۔ غرض ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔

مکرم عبد الرحمٰن بٹ صاحب بھی اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ اپنے والد کے کاروبار میں شریک تھے اور اللہ تعالیٰ نے مالی کشادگی عطا فرمائی تھی۔ محترم شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم کی وساطت سے ان کی شادی قادیان کی ایک بزرگ شخصیت مکرم عبدالکریم ڈار صاحب کی صاحبزادی سارہ رحمٰن صاحبہ سے ہوئی۔

انہوں نے ۱۹۷۴ء میں نیروبی سے مع اہلِ خانہ ہجرت کی اور مسجد فضل کے قریب گھر خریدا تاکہ خود بھی اور بچوں کو بھی مسجد سے وابستہ رکھ سکیں۔ اپنے تمام بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے ساتھ جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ پنج وقتہ نماز باقاعدگی سے مسجد فضل میں ادا کرتے اور ہمیشہ صفِ اوّل میں نظر آتے۔ تہجد گزار، روزوں کے پابند تھے اور عمرہ ادا کرنے کی بھی توفیق پائی۔ مالی قربانیوں میں پیش پیش رہے۔ خلافت سے محبّت، احترام اور کامل اطاعت کا تعلق تھا۔ ان کی اہلیہ لجنہ اماءاللہ کے کاموں میں مصروف رہتیں تو ان کا بھی بھر پور ساتھ دیتے۔بلکہ ایک موقع پر حضرت خلیفة المسیح الرّابع رحمہ اللہ نے مذاقاً ان کا تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ یہ سارہ رحمٰن کے میاں ہیں۔

وہ اکاؤنٹنٹ تھے اور لندن آنے کے بعد گریٹر لندن کاؤنسل میں ملازمت کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد افسر حفاظتِ خاص میجر محمود احمد صاحب کی تحریک پر اپنے آپ کو رضاکارانہ خدمت کے لیے پیش کر دیا اور تا دمِ آخر اس ذمہ داری کو وقف کی روح کے ساتھ نبھایا۔

حضرت خلیفة المسیح الرّابع رحمہ اللہ کی لندن تشریف آوری کے بعد ابتدائی طور پر مختصر جماعت ہونے کے باعث کارکنان کی کمی تھی۔ اس دوران عام خدّام کی طرح وقارِ عمل اور ڈیوٹیاں دینے میں فخر محسوس کرتے۔ انتہائی ملنسار، خوش اخلاق اور پیار کرنے والی شخصیت تھے۔ لیکن جہاں تربیت کی ضرورت محسوس کرتے بلا جھجک کہہ دیتے۔ منکسر المزاج لیکن خود دار طبیعت تھی۔ ہمیشہ اپنا کام خود کرنے کو ترجیح دیتے۔ خلافت سے اتنی محبّت تھی کہ ان کے ایک نواسے کا نکاح پڑھاتے ہوئے حضور انور ایّدہ اللہ نے ان کا ذکر فرمایا تو خوشی سے سب کو بتاتے رہے کہ حضور نے میرا بھی ذکر فرمایا ہے۔

اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے علاوہ دوسرے بچوں سے بھی شفقت کا سلوک کرتے ان میں چاکلیٹ اور ٹافیاں جو اس غرض سے جیب میں رکھی ہوتیں تقسیم کرتے۔سب کو محبّت سے گلے لگا کر ملتے۔

محترم امیر صاحب یو کے رفیق احمد حیات صاحب نے بتایا کہ نیروبی میں جب وہ چھوٹے تھے تو مغرب سے پہلے وہ سڑک پر کھڑے ہو جاتے اور مکرم عبدالرحمٰن بٹ صاحب، سب بچوں کو اپنی کار میں بٹھا کر مسجد لے جاتے اور عشاء کے بعد واپس بھی لے آتے۔اور اب بھی انہیں بڑے پیار سے گلے لگا کر ملتے اور کہتے کہ “ آپ میرے بیٹے ہیں۔‘‘

وقت کے بہت پابند تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ محترم امام بشیر احمد رفیق مرحوم کے صاحبزادے منیر احمد رفیق صاحب نے بتایا کہ ان کے ابّا بعض دفعہ حضرت چودھری ظفر اللہ خاں صاحب رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام کا کھانا کھایا کرتے۔ ایک دفعہ چودھری صاحب نے محسوس کیا کہ ابا جلدی جلدی کھانا کھا کر اٹھ گئے ہیں تو پوچھا کہ کیا وجہ ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ میں نماز پر لیٹ پہنچوں تو بٹ صاحب دو دفعہ گھڑی دیکھتے ہیں۔ چودھری صاحب بہت محظوظ ہوئے اور بعد میں انہیں خود کہہ کہ دیا کرتے جلدی جائیں بٹ صاحب انتظار میں ہوں گے۔

بے شمار احباب نے ان سے محبت کے تعلق کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر نوید الظفر صاحب ریجنل امیر ہارٹفرڈ شائر نے بتایا کہ جب ان کے والد بیمار ہوئے تو باوجود بڑھاپے کے، سفر کر کے ان کی تیمارداری کے لیے نارتھمپٹن آئے۔

ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی مسجد سے محبّت تھی آخری دنوں میں جب ٹانگوں میں کمزوری آ گئی تھی گرتے پڑتے بھی مسجد پہنچ جاتے اور نماز باجماعت ادا کرتے۔غرض بے شمار خوبیوں کے مالک انسان تھے۔

ان کی اہلیہ کا ۱۹۹۹ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ پسماندگان میں ان کے تین بیٹے، دو بیٹیاں، پندرہ پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں اور ان کے پانچ بچے بھی شامل ہیں۔

ان کے بیٹے انجم رحمان بٹ، شکیل رحمان بٹ اور خلیل رضوان بٹ ہیں۔

انجم بٹ نے ایک لمبا عرصہ رضاکارانہ طور پر MTA ٹرانسمیشن میں خدمت کی توفیق پائی ہے۔شکیل بٹ یوکے نیشنل عاملہ میں محاسب کے عہدے پر رہے ہیں۔

ان کی بڑی بیٹی ڈاکٹر ریحانہ رحمٰن بٹ صاحبہ کو حضرت خلیفة المسیح الرّابع رحمہ اللہ اور پھر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ کی فیملی ڈاکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

چھوٹی بیٹی رخسانہ رحمٰن بٹ صاحبہ صدر لجنہ کرالی جماعت رہ چکی ہیں اور اس کے بعد مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق پا رہی ہیں۔

خاکسار ڈاکٹر طارق انور باجوہ ان کا بڑا داماد ہے اور مجھے بھی حضور انور ایدہ اللہ کا فیملی ڈاکٹر ہونے کی سعادت ملی ہے اور بطور نیشنل سیکرٹری تحریکِ جدید خدمت کی تو فیق مل رہی ہے۔

ان کے دوسرے داماد ناصر محمود بٹ صدر جماعت کرالی کے علاوہ نائب سیکرٹری امورِ خارجہ رہ چکے ہیں ۔

ان کا ایک نواسہ کاشف احمد ظفر باجوہ واقفِ نو واقفِ زندگی ہے اور اسے MTA انٹرنیشنل میں بطور گرافک ڈیزائنر خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ فالحمدللہ

ان کی وفات کے موقع پر بے شمار لوگوں نے تعزیت کر کے ان سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ خاکسار ان کے اہلِ خاندان کی جانب سے ان سب کا شکر گزار ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے، اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مکرم عبد الرحمٰن بٹ مرحوم

(۸؍ اگست ۱۹۲۸ء – ۱۴؍ اپریل ۲۰۲۳ء)

اک جوانمرد، صاحبِ کردار

چاق و چوبند ہر گھڑی ہشیار

مسجدِ فضل کی صفِ اوّل

اس کو پاتے وہیں پہ سب ہر بار

ہو گیا مستعد ڈیوٹی پر

اس کو دفتر نے دی صدا اک بار

خدمتِ دین میں کٹا جیون

تھا خلافت کا ایسا تابعدار

وقت پر کام اس کا شیوہ تھا

کام سمجھا نہیں کوئی دشوار

غیرتِ دین ایسی رکھتا تھا

خوف کھاتے تھے، رعب سے اغیار

سارے لوگوں سے پیار اپنوں سا

جس کا ہوتا تھا ہر گھڑی اظہار

اس کو محبوب تھا خدا کا گھر

وہ تھا مسجد تھی یا تھی راہ گزار

ربّ کا تھا ایک بندۂ رحمٰن

پُر وقار اور مہرباں، خوددار

ہے دعا جا کے اپنے ربّ کے حضور

اُس کو مل جائے خلعتِ دربار

جنت اُس کی رضا کی مل جائے

وہ جو شامل کرے مَعَ الابرار

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button