سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی تاریخ وفات

(گذشتہ سے پیوستہ )حضورؑ کے ایک سوانح نگار حضرت مولانا عبدالرحیم دردصاحبؓ نے حضرت اقدسؑ کی تاریخ پیدائش کی تعیین کےلیے ایک تحقیقی مضمون لکھا جوکہ الفضل ۳؍ستمبر ۱۹۳۳ء میں شائع ہوا اور یہی مضمون من وعن حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحبؓ نے سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۷۶۳ کے شمارمیں شائع فرمایا۔یہ روایت موجودہ ایڈیشن جس میں کہ سیرت المہدی کے تینوں حصص اکٹھے شائع ہوئے ہیں اس کے صفحات ۶۹۸تا ۷۰۶پرموجود ہے۔ اس کے صفحہ ۷۰۳ پرحضرت مولاناعبدالرحیم صاحب دردؓ کے مضمون کاایک پیراگراف یہ ہے :’’حضرت مرزابشیراحمدصاحب نے اپنی تصنیف سیرت المہدی حصہ دوم روایت نمبر ۴۷۰میں آپ کے والدبزرگوار کے انتقال کو۱۸۷۶ء میں قراردیاہے۔لیکن جہاں تک مجھے علم ہے۔ اس واقعہ کے متعلق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ایک تحریر فیصلہ کن ہے اور وہ یہ ہے۔کہ نزول المسیح صفحہ ۱۱۷-۱۱۸ پرآپ تحریر فرماتے ہیں۔’’آج تک جو دس اگست ۱۹۰۲ء ہے۔ مرزاصاحب مرحوم کے انتقال کو۲۸ برس ہوچکے ہیں۔‘‘ گویایہ واقعہ ۱۸۷۴ء کاہے۔‘‘( سیرت المہدی جلداول روایت نمبر۷۶۳)

گویامحترم عبدالرحیم درد صاحبؓ کے نزدیک آپؑ کے والدصاحبؒ ۱۸۷۴ء میں فوت ہوئے تھے۔ البتہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمد صاحبؓ کومولانادردصاحبؓ کی اس تحقیق سے اتفاق نہیں تھااسی لیے وہ اس مضمون کومن وعن درج کرتے ہوئے آخر پر تحریر فرماتے ہیں : ’’دردصاحب نے جوہمارے داداصاحب کی تاریخ وفات ۱۸۷۴ء لکھی ہے۔یہ بھی میری تحقیق میں درست نہیں بلکہ صحیح تاریخ ۱۸۷۶ء ہےجیساکہ حضرت صاحب نے سرکاری ریکارڈ کے حوالہ سے کشف الغطاء میں لکھی ہے۔لیکن ایسے تحقیقی مضامین میں رائے کااختلاف بھی بعض لحاظ سے مفیدہوتاہے۔اس لئے باوجوداس مضمون کے نتیجے اور اس کے بعض حصص سے اختلاف رکھنے کے میں نے مکرمی دردصاحب کے اس محققانہ مضمون کوبعینہٖ درج کردیاہے۔‘‘(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر۷۶۳)

خاکسارعرض کرتاہے کہ حضورؑ کی تحریرات وملفوظات میں جوتاریخی واقعات اور سنین مذکور ہیں ان پربنیادرکھتے ہوئے کسی واقعہ کاسن متعین کرنا واقعی آسان نہیں اور دوسرایہ کہ کسی ایک اقتباس کولے کرکسی واقعہ کاسن متعین کرنا تواَوربھی مشکل بات ہے۔کیونکہ ان تمام تحریرات میں موجود سن ایک حدتک تخمیناً اور قیاساً بیان ہوئے ہیں۔

مثال کے طورپریہی وفات کاواقعہ حضوراقدسؑ نے ایک سے زائدمقامات پر بیان فرمایاہے۔جیسے تریاق القلوب میں فرماتے ہیں : ’’باوجوداس کے کہ میرے والدصاحب مرحوم کے انتقال کو چوبیس برس آج کی تاریخ تک جو ۲۰؍اگست ۱۸۹۹ء اور ربیع الثانی ۱۳۱۷ھ ہے گزرگئے…‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۹۹)

پھرحضرت اقدسؑ اپنی ایک تصنیف ’’ قادیان کے آریہ اورہم‘‘ میں بیان کرتے ہیں :’’مختصربیان یہ ہے کہ میرے والدصاحب کے فوت ہونے کی خبران الفاظ سے خداتعالیٰ نے مجھے دی تھی کہ وَالْسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ …تب یہ الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ …چنانچہ اس الہام کے مطابق غروب آفتاب کے بعد میرے والدصاحب فوت ہوگئے……انہیں دنوں میں جن پرپینتیس۳۵ برس کاعرصہ گزرگیا ہے میں نے اس الہام کویعنی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کومہرمیں کھدوانے کے لئے تجویزکی…یہ الہام قریباً پینتیس۳۵ یاچھتیس۳۶ برس کاہے۔‘‘(قادیان کے آریہ اورہم،روحانی خزائن جلد۲۰ صفحہ۴۲۳-۴۲۴)

حضرت اقدسؑ اپنی تصنیف ضمیمہ تحفہ گولڑویہ میں فرماتے ہیں: ’’اور نیز الہام اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ جومیرے والدصاحب کی وفات پر ایک انگشتری پرکھوداگیا تھا…اورجیساکہ انگشتری سے ثابت ہوتاہے یہ بھی چھبیس برس کازمانہ ہے۔‘‘( ضمیمہ تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن جلد۱۷صفحہ۴۳) ’’اورنیزالہاماَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ جومیرے والدصاحب کی وفات پر ایک انگشتری پر کھودا گیا تھا…اورجیساکہ انگشتری سے ثابت ہوتاہے یہ بھی چھبّیس برس کازمانہ ہے۔‘‘(اربعین نمبر۳ ۷،روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۹۳)

اپنی ایک تصنیف کتاب البریہ میں والدماجدؒ کی وفات کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجدتعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے۔ اور وصیّت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عزّوجلّ کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے۔ اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنة۔ آمین۔ قریباً اسی ۸۰یا پچاسی ۸۵ برس کی عمر پائی…میری عمر قریباً چونتیس یا پینتیس برس کی ہوگی جب حضرت والد صاحب کا انتقال ہوا۔ مجھے ایک خواب میں بتلایا گیا تھا کہ اب ان کے انتقال کا وقت قریب ہے۔ میں اس وقت لاہور میں تھا جب مجھے یہ خواب آیا تھا۔ تب میں جلدی سے قادیاں میں پہنچا اور ان کو مرض زحیر میں مبتلا پایا۔ لیکن یہ امید ہرگز نہ تھی کہ وہ دوسرے دن میرے آنے سے فوت ہو جائیں گے کیونکہ مرض کی شدت کم ہوگئی تھی اور وہ بڑے استقلال سے بیٹھے رہتے تھے دوسرے دن شدت دوپہر کے وقت ہم سب عزیز اُن کی خدمت میں حاضر تھے کہ مرزا صاحب نے مہربانی سے مجھے فرمایا کہ اس وقت تم ذرہ آرام کرلو کیونکہ جون کا مہینہ تھا اورگرمی سخت پڑتی تھی۔ میں آرام کے لئے ایک چوبارہ میں چلا گیا اور ایک نوکر پیر دبانے لگا کہ اتنے میں تھوڑی سی غنودگی ہوکر مجھے الہام ہوا وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِق یعنی قسم ہے آسمان کی جو قضا و قدر کا مبدء ہے اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد نازل ہوگا اور مجھے سمجھایا گیا کہ یہ الہام بطور عزا پُرسی خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اور حادثہ یہ ہے کہ آج ہی تمہارا والد آفتاب کے غروب کے بعد فوت ہوجائے گا…

اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب مجھے حضرت والد صاحب مرحوم کی وفات کی نسبت اللہ جلّ شانہٗ کی طرف سے یہ الہام ہوا جو میں نے ابھی ذکر کیا ہے تو بشریت کی وجہ سے مجھے خیال آیا کہ بعض وجوہ آمدن حضرت والد صاحب کی زندگی سے وابستہ ہیں پھر نہ معلوم کیا کیا ابتلا ہمیں پیش آئے گا تب اسی وقت یہ دوسرا الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندے کو کافی نہیں ہے… اور میرے والد صاحب اسی دن بعد غروب آفتاب فوت ہوگئے… میں نے اس الہام کو ان ہی دنوں میں ایک نگینہ میں کھدوا کر اس کی انگشتری بنائی جو بڑی حفاظت سے ابتک رکھی ہوئی ہے۔ غرض میری زندگی قریب قریب چالیس برس کے زیر سایہ والد بزرگوار کے گذری۔‘‘(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۱-۱۹۵، حاشیہ)

ایک اورتصنیف حقیقۃ الوحی میں فرمایا:’’عرصہ تخمیناً تیس برس کا ہوا ہے کہ جب میرے والد صاحب خدا اُن کو غریق رحمت کرے اپنی آخری عمر میں بیمار ہوئے تو جس روز اُن کی وفات مقدر تھی دوپہر کے وقت مجھ کو الہام ہوا۔ وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِق اور ساتھ ہی دل میں ڈالا گیا کہ یہ اُن کی وفات کی طرف اشارہ ہے… بعد اس کے عین اس وقت جب کہ آفتاب غروب ہوا وہ اس جہان فانی سے انتقال فرماگئے اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ…

جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اِس خبر کے سننے سے درد پہنچا اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ اُنہیں کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف سے پنشن پاتے تھے اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے۔ جو اُن کی حیات سے مشروط تھی۔ اِس لئے یہ خیال گذرا کہ اُن کی وفات کے بعد کیا ہوگا اور دل میں خوف پیدا ہوا کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گذر گیا تب اُسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے…

غرض جب مجھ کوالہام ہوا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ تو میں نے اُسی وقت سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا تب میں نے ایک ہندو کھتری ملاوا مل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اُس کو سُنایا اور اُس کو امرتسر بھیجا کہ تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اس کو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے اور میں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے محض اِس غرض سے اختیار کیا کہ تا وہ اس عظیم الشان پیشگوئی کا گواہ ہو جائے اور تا مولوی محمد شریف بھی گواہ ہو جاوے۔ چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ طیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی جو اَب تک میرے پاس موجود ہےجس کا نشان یہ ہے۔ ‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ ۲۱۸-۲۲۰)

حقیقۃ الوحی کے عربی حصہ جوکہ الاستفتاء کے نام سے لکھاگیااس میں فرمایا:’’وکما ذکرت،کان ذالک الوقت وقتَ العُسرِ و أنواعِ الحاجات، وبشّرنی ربّی بتسہیل أموری و تیسیر مناہجی،وتکفُّلِہ بکلّ حوائجی۔ فعند ذالک وفی زمنٍ أبعد مِن أمنٍ أمرت أن یُصنَع خاتمٌ فیہ نقوش ہٰذہ الأنباء، لیکون عند ظہورہا آیة للطُّلباء، وحُجّة علی الأعداء۔ والخاتم موجود وہذا نقشہٗ: یا أہل الآراء۔ ثم فَعَلَ اللّٰہ کما وَعَدَ ومَطَرَ سحابُ فضلہ کما رَعَدَ، وجعل اللّٰہُ حبّةً صغیرة أشجارًا باسقة و أثمارًا یانعة۔ ولا سبیلَ إلی الإنکار، ولو اتّفق فِرَق الکفّار۔‘‘(الاستفتاء ضمیمہ حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۶۴۹)ترجمہ:’’اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے یہ وقت بڑی تنگی اور طرح طرح کی حاجات کا وقت تھا۔ (ایسے وقت میں) میرے رب نے میرے تمام امور اور میری راہوں میں سہولت اور آسانی پیدا کرنے کی اور میری تمام ضرورتوں کا خود کفیل ہونے کی مجھے بشارت دی۔ سو اس وقت اور امن سے دور زمانےمیں مجھے حکم دیا گیا کہ ایک ایسی انگوٹھی بنائی جائے جس میں ان پیشگوئیوں کے نقوش ہوں تا کہ وہ ان (خوشخبریوں) کے ظہور کے وقت متلاشیان حق کے لئے ایک نشان اور دشمنوں پر حجت ہو۔ اے اہل رائے!یہ انگوٹھی موجود ہے اور یہ اس کا نقش ہے پھر اللہ نے اپنے وعدہ کے موافق کیا اور اس کے فضل کا بادل جیسے گرجا ویسے ہی برسا اور اللہ نے چھوٹے سے بیج کو اونچے درخت اور پکے ہوئے پھل بنا دیا اور اس سے کوئی جائے انکار نہیں خواہ کافروں کے تمام فرقے باہم متحد ہو جائیں‘‘(اردوترجمہ الاستفتاء صفحہ۶۸۔۶۹)اوراس کے حاشیہ میں فرمایا: ’’قد مضی علی صُنْعِ ہٰذا الخاتم أزیَدُ من ثلاثین سنةً، وما ضاع إلی ہذا الوقت فضلًا من اللّٰہ ورحمۃ۔ وما کان فی ذالک الزمن أثرٌ من عزّتی، ولا ذکرٌ من شہرتی، وکنتُ فی زاویة الخمول، محروما من الإعزاز والقبول۔‘‘(الاستفتاء،ضمیمہ حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۶۴۹، حاشیہ)ترجمہ: ’’اس انگوٹھی کو بنے ہوئے تیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں اور وہ اب تک خدا کے فضل اور رحمت سے ضائع نہیں ہوئی۔اور اس زمانہ میں میری عزت کا کوئی نشان اور میری شہرت کا کوئی ذکر تک نہ تھا اور میں گمنامی کے گوشہ میں اعزاز اور قبولیت سے محروم تھا۔‘‘(اردوترجمہ الاستفتاء صفحہ ۶۸ حاشیہ، شائع کردہ نظارت اشاعت)(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button