یادِ رفتگاں

پیارے ابا جان محمد سلیم صاحب مرحوم کا ذکر خیر

(ابو مسعود۔ برطانیہ)

دنیابھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے

گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے

اُذْکُرُوْامَحَاسِنَ مَوْتَاکُمْ ترجمہ :تم اپنے وفات یافتگان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا کرو۔

عمومی تعارف

خدا تعالیٰ کی سنت مستمرہ کے مطابق خاکسار کےوالد محترم محمد سلیم صاحب ابن منشی محمد یعقوب صاحب ننگلی (سابق روزنامہ الفضل نویس ) مورخہ ۲۲؍مئی ۲۰۱۸ء بروز منگل ۸۴ سال کی عمرمیںکھرڑیانوالہ ضلع فیصل آباد میں مختصر علالت کے بعد اپنےخالق حقیقی سے جاملے۔اناللہ وانا الیہ راجعون

بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

آپ ۱۹۳۴ءمیں قادیان دارالامان کے قریبی گاؤں ننگل باغباناں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کانفوذ آپ کے دادا محترم رحیم بخش صاحب کے ذریعہ سے ہوا،جنہوں نے ۱۹۱۸ء میں حضرت مصلح موعودؓ کےہاتھ پر بیعت کرکےاحمدیت جیسی عظیم الشان نعمت پائی۔اس طرح خداکے فضل سے آپ پیدائشی احمدی تھے۔پاک وہند کی تقسیم کے بعد لاہور منتقل ہوئے۔ کچھ عرصہ وہاں قیام کےبعد فیصل آبادکے ایک قصبہ جو اُس وقت ایک چھوٹا سا گاؤں تھا میں سکونت اختیار کی اور پھر تا دمِ وفات وہیں پر مقیم رہے۔

محترم والد صاحب دعاگو، تہجد گزار، پنجوقتہ نماز باجماعت کے پابند، بے نفس، خوش مزاج وملنسار اور شجاع انسان تھے۔جب سے خاکسار نے ہوش سنبھالی کبھی اپنے والدین کو نماز تہجد میں ناغہ کرتے نہیں دیکھا۔والد صاحب خود بھی مسجد میں جاکر نماز باجماعت کی پابندی فرماتے اور بچوں کوبھی اس کی تلقین کرتے۔اگر ہم بہن بھائیوں میں سے کوئی نماز کی ادائیگی میں سستی کرتا تو ناراضگی کا اظہار فرماتے یہاں تک کہ ڈانٹ بھی پلادیتے۔ ایک وقت میں ہمارے گھر کے قریب کوئی اَور احمدی گھر نہیں تھا۔آپ قریبی مسجد میں جاتے اوراگر کوئی اَور نمازی نہ ہوتا تو اکیلے ہی اقامت کےبعد نماز شروع کردیتے۔ اس سے قبل جب مسجد ہمارے گھر سے تقریباًایک کلومیٹر کے فاصلہ پر تھی اور وہاں جمعہ ادا کیاجاتا تھا تو والد صاحب ہم بھائیوں کوساتھ لے کر پیدل وہاں جاتے اور راستہ میں ہر گزرنے والے کواونچی آواز سے ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘کہتےاور ہمیں بھی تلقین کرتے کہ ہر واقف و ناواقف کو سلام کرنےمیں ہمیشہ پہل کرنی چاہیے۔آپ چلتے پھرتے ذکر الٰہی میں مصرو ف رہتے۔چھوٹی چھوٹی باتوں میں بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے۔عموماً دیکھنےمیں آتا ہے کہ اگر کسی کی امانت یا قرض واپس کرنا ہوتو اس میں سستی کی جاتی ہے لیکن ابا جان اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جاتے ہوئے ایک دکان کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ابا جان نے خاکسار (جو اس وقت چھوٹا بچہ تھا) کو چونّی (چارآنے کا سکہ )دی اور کہا کہ اس دکان دار کو دے آؤ اورساتھ بتایا کہ یہاں سے میں نےکچھ خریداری کی تھی اور یہ سکہ قابل ادائیگی تھا۔مجھے اچھی طرح یادہے کہ دکان دار یہ دیکھ کربہت حیران ہوا کہ اتنے معمولی پیسوں کوبھی آپ کے ابا نے یاد رکھا اور اس کی واپسی کا انتظام کیا۔ اس بات کا یقیناً اس دکان دار پر بھی گہرا اثر ہوا۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دراصل اباجان کاہمیں سمجھانے کا یہ ایک انداز تھا کہ اگر کسی کی کوئی چیز دینی ہو توخواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

جماعتی خدمات

والد صاحب کو لمبا عرصہ جماعت احمدیہ کھرڑیانوالہ میں بطور سیکرٹری مال اور زعیم انصار اللہ خدمات بجالانے کی توفیق ملی۔آپ اللہ کے فضل سے پانچ بھائی تھے۔آپ کے بڑے بھائی مولوی محمد صدیق صاحب ننگلی مبلغ سلسلہ تھے جن کی ستمبر ۲۰۰۲ء میں بعمر۷۳؍ سال وفات ہوئی۔پانچوں بھائیوں نے اپنے والدین کے نام پر ۲۰؍ مرلہ کا ایک مشترکہ قطعہ زمین،مسجد اورر مربی ہاؤس کے لیے وقف کیا جس پراب محض خدا کے فضل سے ایک شاندار اور وسیع وعریض مسجد اور مربی ہاؤس تعمیر ہو چکا ہے۔الحمدللہ علیٰ ذالک

خدمت خلق

محترم والد صاحب کو خدمت خلق کے بہت سے کام کرنے کی توفیق ملی جن میں سے ایک کام یہ ہے کہ آپ نے سینکڑوں کی تعداد میں بلاتفریق مذہب لوگوں کے رشتے کروائے۔جب آپ کے ذریعہ کوئی رشتہ طے پاتا تو آپ بہت خوشی محسوس کرتے۔کیونکہ غیر احمدی احباب کا رشتہ کرواتے ہوئے آپ انہیں اپنی جماعت کا تعارف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام بھی پہنچا دیتے تھےاور اس طرح مسلسل تبلیغ کا کام کرتے۔

عیدین یا دیگرخوشی کےمواقع پرمستقل غرباء کے پاس جا کر ان کی مدد کرتے۔آخری سالوں میں جب خود نہ جاسکتے تھے تو مستحق افراد سے پہلے ہی درخواست کی ہوتی تھی کہ بےتکلفی سےآکر اپنا حصہ لے جایاکریں۔

اسی طرح بعض غرباء کی باقاعدگی سے ہر ماہ مدد کرتے تھے جس کا کسی کو علم نہیں ہوتا تھا۔

ہمارا گھر کھرڑیانوالہ میں بس سٹاپ کےبالکل نزدیک واقع ہے۔ایک صبح والد صاحب حسب معمول نماز تہجد کی ادائیگی کےبعد اورفجر کی نماز سے قبل مکان کے اوپر والے حصہ میں صلِّ علیٰکررہے تھے اور خوش الحانی کے ساتھ بلند آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےاشعار پڑھ رہے تھے کہ اچانک دروازہ پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا توکافی تعداد میں مرد و زن باہر کھڑے تھے جودراصل ایک بارات کے مسافر تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم احمدی ہیں،رات بھر سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں اور ابھی منزل مقصود تک پہنچنے میں کچھ سفر باقی ہے کہ اب ہم تازہ دم ہونے اور تیاری وغیرہ کے لیےرکےہیں اور کسی مناسب اور محفوظ جگہ کی تلاش میں تھے کہ آپ کی آواز سنائی دی تو ہمیں پتاچل گیاکہ آپ احمدی ہیں۔ چنانچہ ہم نے اطمینا ن کے ساتھ بلا دریغ آپ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ والدصاحب نےان کے اپنے آپ کو احمدی کہنے پر بغیر کسی تامل کے بڑی فراخ دلی کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے کھول دیے اور ان کو اپنی تیاری وغیرہ کےسلسلہ میں حتی المقدور سہولیات فراہم کیں۔اس پر وہ تازہ دم ہونے کے بعد،اپنے احمدی ہونے پر خد اکا شکر بجالاتے ہوئے رخصت ہوئے۔

ہماری رہائش گاہ کےبس سٹاپ کے قریب ہونے کی وجہ سے کئی مرتبہ احمدی مسافر رات گزار نے کے لیےہمارے ہاں رک جاتے تو آپ ان کے قیام وطعام کا انتظام فرماتے۔

آپ نے ایک اور بہت بڑی سہولت بلا تفریق مذہب مسافروں کو مستقل فراہم کی ہوئی تھی جس کا صحیح اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔اور وہ سہولت یہ تھی کہ قریبی تین چار گاؤں کے لوگ اپنی سائیکل،موٹرسائیکل یا بعض اَور امانتیں بڑے بھروسے اور اطمینان کے ساتھ ہمارے گھر میں رکھ کر بذریعہ بس فیصل آباد یا دوسرے شہروں کو چلے جاتے تھے اورپھر بعض لوگ تو دودو، تین تین، روز کے بعد واپس آ کر اپنی امانت واپس لیتے یا بعض لوگ قریبی شہروں میں کام کرنے کی وجہ سے روزانہ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے۔ اس حوالہ سے خاکسار کے بڑے بھائی جان نے ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا جو محترم ابا جان کی ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ نے بتایا کہ ایک مرتبہ اسی طرح ایک صاحب جس نے کسی قریبی گاؤں میں جانا تھا کے پاس سامان زیادہ تھا جو اس کےسائیکل پر پورا نہیں آرہا تھا۔لہٰذا اس نے ایک وزنی تربوز یا اس قسم کا کوئی پھل ہمارے ہاں رکھ دیا اور کئی دن گزرنے کے بعد بھی واپس نہ آیا۔ کافی دنوں کے بعد والد صاحب نے اسے دیکھا تو بلا کر اس کی امانت اس کے حوالہ کی جس پر وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ میں تو یہ سمجھا تھا کہ آپ نےاسے استعمال کرلیا ہوگا۔

اب گھر میں چھوٹے بچے بھی تھے کھانے والی چیز سے بچوں کو یہ کہتے ہوئے روکنا کہ یہ کسی کی امانت ہے اور پھر واپسی تک اس کی نگرانی کرنا یہ واقعۃً آپ کی اعلیٰ درجہ کی ایمانداری کو ثابت کرتاہے۔

قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات اورسچی خوابیں

محترم والد صاحب دعا گو انسان تھے۔ اکثر غیر از جماعت بھی آپ کو دعا کے لیے کہا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی قبولیت دعا کے بہت سارے واقعات خاکسار کو بتائے جن میں سے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔

۱۔ خاکسار کے بڑے بھائی مکرم خلیل احمد صاحب مقیم جرمنی کے ہاں بچہ کی ولادت متوقع تھی ڈاکٹروں نےبتایا کہ جڑواں بچیاں ہیں۔بھائی صاحب نےاباجان کو خوشخبری سناتے ہوئے دعا کی درخواست کی۔اباجان نےبتایامیں نے دعا کی کہ اے خدا!بیٹیاں بھی تیری رحمت ہیں اور تو اس بات پر بھی طاقت اور قدرت رکھتا ہے کہ بیٹا اور بیٹی سے نوازے۔چنانچہ مولا کریم نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ اور بھائی صاحب کے ہاں بیٹی(مہ نور)اور بیٹے( شہروز) کی ولادت ہوئی۔

۲۔ ایک مرتبہ والد صاحب اپنے بچوں سے ملنےپاکستان سے جرمنی گئے۔بچوں نےاصرار کیاکہ اگر آپ کچھ عرصہ جرمنی میں رک جائیں تو آپ کو جرمن پاسپورٹ مل سکتاہے، پھرآپ بے شک واپس پاکستان چلے جائیں۔لیکن والد صاحب کا جرمنی میں جی نہیں لگتا تھا اورآپ پاکستان واپس جانا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ نےکسی کوبتائے بغیر واپسی کے لیے دعا کرنا شروع کردی۔اور ایک روز آپ نے بچوں کو بتا بھی دیا کہ مجھے خواب میں آگاہی مل گئی ہے کہ مجھےجرمن پاسپورٹ نہیں ملے گا۔ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ یہی فیصلہ موصول ہو ا اور آپ کچھ ہی دنوں میں پاکستان واپس چلے گئے۔

ایک مرتبہ محترم والد صاحب نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نےمجھے خواب میں جنت کا نظارہ بھی کروایا ہوا ہے۔

اسی طرح محترم والد صاحب نے اپنی زندگی میں بہت ساری ایسی خوابیں دیکھیں جو من وعن پوری ہوئیں۔

۱۔ خاکسار کے بڑے بھائی جان مکرم محمد شفیق صاحب (مقیم جرمنی) کی جب شادی ہوئی تووالد صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ان دونوں میاں بیوی کےدرمیا ن میں ایک خوبصورت لڑکا بیٹھا ہے۔چنانچہ کہتے ہیں کہ دل میں دعا کے لیے تحریک پیدا ہوئی۔ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹے کی نعمت سےنوازا۔ بعدازاں جب والد صاحب جرمنی گئے تو انہوں نے بتایا کہ وہ بیٹا (عتیق احمد)عمر کے اسی حصہ میں ملا جتنا بڑا خواب میں دیکھا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے میری وہ خواب بھی پوری کی۔

۲۔اللہ کے فضل سے ہم دس بہن بھائی ہیں (پانچ بہنیں،پانچ بھائی)۔محترم والد صاحب نے بتایا کہ ہر بچہ کی پیدائش سے قبل دعا کے نتیجہ میں خواب میں خاکسار کو آگاہی مل جاتی تھی۔جس پر آپ ہمیشہ خدا کے حضور سربسجود رہتے۔ بلکہ اس حوالہ سے آپ نے مجھے بتایا کہ جب خاکسار کے چار بچےتھے ایک دن بچوں کی مذکورہ بالا تعداد کے حوالہ سے دل میں دعا کی تحریک پیدا ہوئی تو میں پسرم (محمد شفیق) جو کہ ابھی چھوٹا بچہ تھا کو اپنےساتھ کھڑا کرکے نوافل ادا کرنےلگا…پھر بتاتے ہیں کہ مولا کریم نے نہ صرف میری دعا من وعن قبول کی بلکہ اس کی قبولیت سے مجھے اس طرح آگاہ بھی کیاکہ جب ہمارے ہاں آخری بچے کی پیدا ئش ہوئی تو ایک روز خواب میں بہت زور سے ان الفاظ میں آواز آئی کہ ’’لو اُس وقت تم نے جو دعا کی تھی وہ آج ہم نے پوری کردی۔‘‘؎

سب کام تُو بنائے لڑکے بھی تجھ سے پائے

سب کچھ تیری عطا ہےگھر سے تو کچھ نہ لائے

۳۔ ایک مرتبہ والد صاحب کے ہاں چوری ہوگئی۔ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے خواب میں آپ کو چور دکھا دیے اور مسروقہ مال کی واپسی کا سامان کردیا جوکہ اس وقت بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔

تبلیغ ودعوت الی للہ

جب ایم ٹی اے کا آغاز ہو ااور والد صاحب نے اپنے گھر میں ڈش انٹینالگوایا تو آپ کثرت سے غیر از جماعت احباب کو گھر میں بلا کر خطبہ جمعہ سناتے۔اور موسم کی مناسبت سے ان کی تواضع کا اہتمام بھی کرتے۔

محترم والد صاحب کو خوش الحانی وراثت میں ملی تھی۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا آپ روزانہ باقاعدگی سے نماز تہجد کے بعد مکان کی اوپر والی منزل پر چڑھ کرصلِّ علیٰکرتے جس کی آواز سے اردگرد کے لوگ، کیا احمدی اورکیا غیر احمدی بیدار ہوتے۔ اگرکبھی آپ کے شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے صلِّ علیٰ نہ ہوتا تو اکثر لوگ اس دن سوئے ہی رہ جاتے اور بعدمیں ملاقات کر کے صلِّ علیٰ نہ ہونے کی وجہ دریافت کرتےاور بعض سادہ مزاج غیراحمدی تو یہ کہہ کر پوچھتے کہ آج آپ نے بانگ(اذان) کیوں نہیں دی۔غیر از جماعت احباب اصرار کرکے صلِّ علیٰکرواتے۔ایک مرتبہ ایک غیر احمدی مولوی نے آپ کے خلاف تھانہ میں درخواست دی جس میں لکھا تھا ’’محمد سلیم بلند آواز سے درود شریف پڑھتا ہے اور صلِّ علیٰکرتا ہےجس سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔اسے روکا جائے‘‘۔چنانچہ آپ کو تھانے میں بلا کر صلِّ علیٰکرنے سے روکاگیا۔ جب دوسرے غیر ازجماعت احباب جو آ پ کی آواز پر بیدار ہوتے تھے کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اس مولوی کو بہت ملامت کی اور اسے درخواست واپس لینے پر مجبور کیا۔ چنانچہ اس نے درخواست واپس لی اور آپ کو دوبارہ تھانہ میں بلا کر کہا گیا کہ آپ صبح سویرے جو درود شریف وغیرہ پڑھتے ہیں وہ جاری رکھ سکتے ہیں۔والد صاحب نے بتایا کہ ننگل قادیان میں بھی ہم صلِّ علیٰکیا کرتے تھے اور یہ عادت مجھے اس وقت سے پڑی ہوئی تھی۔

چونکہ والد صاحب صبح صلِّ علیٰ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار بھی بلند آواز سے خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے اس لیےکئی دفعہ دن کے وقت ملنے والے غیراز جماعت دوست متاثر ہوکر پوچھتے کہ آپ صبح کے وقت جو اشعار پڑھتے ہیں وہ کس کے ہیں تو والد صاحب ان کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت کا تعارف کرواتے اور اس طرح آپ چلتے پھرتے تبلیغ کرتے رہتے۔

نظم خوانی اور بزرگان سلسلہ کی صحبت سے فیض یابی

جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ والد صاحب کوخوش الحانی وراثت میں ملی تھی۔ اس لیے جب بھی اپنی جماعت یا قریبی جماعتوں میں جلسے منعقد ہوتے تو آپ کوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ترنم سے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوتی۔ آپ نے خاکسار کوبتایا کہ نوجوانی کی عمر میں، ایک دن میں کام کاج میں مصروف تھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ )از رہ شفقت تشریف لائے اور فرمایا آج بہوڑو( قریبی جماعت) میں جلسہ ہے آپ وہاں جانے کے لیے جلدی سے تیار ہوجائیں کیونکہ آپ نے وہاں نظمیں پڑھنی ہیں۔والد صاحب کہتے ہیں یہ بات سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔؎

یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے

چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس

چنانچہ کہتے ہیں میں جلدی جلدی تیار ہوکرآپ کے ساتھ ہولیا۔راستہ میں حضرت میاں صاحب نے نظموں پر نشان لگا کر دیے اورتلفظ وغیرہ کی درستی کرواکے تیاری کروائی۔ وہاں پہنچ کرخاکسار نےحسبِ ارشاد نظمیں پڑھیں۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے واپسی پر گاڑی میں باقی دوستوں کے سامنے خوشنودی کا اظہار فرمایا جو کہ خاکسار کے لیے بہت ہی باعث مسرت وصد افتخار ہوا۔

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

آپ کی شخصیت کا غیر از جماعت افراد پر اثر اور نصرت الٰہی

ایک دلچسپ واقعہ والد صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک سرکاری ملازم آیا اور اس نے اپنی کسی ضرورت کا اظہار کیا تو آپ نے اسے کچھ رقم دےدی تاکہ وہ اپنی ضرورت پوری کرسکے۔کہتے ہیں کہ اگلی صبح کو ہی وہ شخص واپس آیا اوریہ کہتے ہوئے پیسے واپس کرگیا کہ’’میں نے ساری رات بہت بے چینی میں گزاری ہے، میں آپ کے پیسے نہیں رکھ سکتا۔‘‘

اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ آپ نے بتایا کہ ایک مرتبہ بازار میں خاکسار کو ایک سرکاری ملازم ملا۔گرمی کا موسم تھا۔ خاکسار نے اس کو مشروب کی پیشکش کی تو اس نے بتایا کہ میں اکیلا نہیں بلکہ میرے ساتھ کچھ اور دوست بھی ہیں۔ والد صاحب نے سب کی خواہش کے مطابق مشروبات سےان کی تواضع کی۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ وہی ملازم آیا اور پیسے واپس کرتے ہوئے کہا:’’جب سے ہم تھانےپہنچے ہیں میرے ساتھیوں نے میرا جینادوبھر کررکھاہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس نے درود شریف پڑھنے والے بزرگ سے پیسے دلوائے ہیں لہٰذا وہ لوگ مجھے اس وقت سکون کا سانس لینے دیں گے جب میں آپ کے پیسے واپس کردوں گا۔‘‘

محترم والد صاحب سب سے حسن سلوک سے پیش آتے جس کی وجہ سے غیر از جماعت دوست بھی آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔جس وقت آپ کی وفات ہوئی اور نماز جنازہ ادا کی گئی تو باوجود فرقہ کے اختلاف کےبہت سارے غیر از جماعت احباب نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔جنہوں نے نماز جنازہ ادا نہیں کرنی تھی انہوں نےبھی اپنے کاروبار اور دکانیں وغیرہ بند کرکے گہرے غم اوردکھ کا اظہار کیا۔

نمازجنازہ وتدفین

کھرڑیانوالہ میں مقامی مربی صاحب اور ربوہ میں مکرم ومحترم ناظر صاحب اعلیٰ وامیر مقامی نےآپ کی نماز جنازہ حاضرادا کروائی اور بعد ازاں بہشتی مقبرہ طاہرہ آباد ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔

اے خدا برتربت او ابر رحمت ہا ببار

داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم

محترم والد صاحب کی خوش نصیبی ہےکہ پیارےآقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ ۸؍جون ۲۰۱۸ء بروز جمعۃ المبارک عصر کی نماز سے قبل مسجد فضل لندن کے سامنے ایک جنازہ حاضر کے ساتھ آپ کی نماز جنازہ غائب بھی ادا کروائی۔اسی طرح جرمنی میں بھی آپ کی نماز جنازہ غائب ادا کی گئی۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محترم والد صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جملہ پس ماندگان جن کی تعداد ۷۵؍ کے قریب ہے کو صبر جمیل دے اور ہمیں آپ کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button