حضرت مصلح موعود ؓ

مفوّضہ دینی کام کو مرتے دم تک کرو (قسط اوّل)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۰؍اکتوبر۱۹۱۹ء)

حضور نے تشہدوتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ مَیں آج آپ لوگوں کو ایک نہایت اہم معاملہ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ قادیان کے لوگوں کے لئے تو یہ بات نہایت ضروری ہے ہی لیکن باہر کے لوگوں کے لئے بھی اس کی ضرورت میں شُبہ نہیں۔

آسمانی سلسلوں کی ترقی کے ساتھ ان کے کاموں میں ترقی ہوتی ہے

اور پھر اسی طرح کام کرنے والوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دُنیاوی سلسلوں اور حکومتوں میں حکومت نیچے سے اُوپر کو جاتی ہے۔ اس لئے اصل حاکم اور مختار رعایا ہوتی ہے اور رعایا کے افراد کا حق ہوتا ہے کہ جس کام میں چاہیں حصّہ لیں اور جس میں چاہیں نہ لیں۔ نہ انہیں کوئی مجبور کر سکتا ہے نہ ان کے کام میں حصّہ نہ لینے پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے مگر باوجود اس کے بعض وقت ایسے ہوتے ہیں کہ افراد کی آزادی خطرے میں ہوتی ہے اس وقت کے لئے ہمیشہ سے یہ قانون چلا آیا ہے کہ اس وقت افراد کی آزادی کی پروا نہیں کی جاتی بلکہ اس وقت جبری حکومت کی جاتی ہے۔ جیسے پچھلی جنگ میں جبکہ آزادی خطرے میں تھی۔ اس وقت اگر مقابلہ کرنے والی سلطنتیں انتظام نہ کرتیں تو جرمن فتح یاب ہو جاتا۔ اس لئے وہ آزادی جو سینکڑوں برس سے افراد کو حاصل تھی مِٹا دی گئی۔حکومت کو تمام افراد پر کُلی اختیار دیا گیا۔ جتنے لوگ کام کے اہل تھے ان کی زندگیاں غلاموں کی طرح کر دی گئیں۔ جو فوج کے قابل تھا اسے جبراً فوج میں داخل کیا گیا۔ جو مزدورپیشہ تھا اُسے جبراً مزدوری کے کاموں پر لگایا گیا۔ جو حفاظت کے کاموں کے قابل تھے ان کو مختلف دفاتر میں کلرکوں کی طرح لگادیا گیا، جو صنعت و حرفت میں کام دے سکتے تھے انہیں جبراً وہاں لگایا گیا۔ جو زراعت پیشہ تھے ان کو جبراً زراعت کے کاموں پر لگایا گیا۔ اس میں نہ بڑے کا سوال تھا نہ چھوٹے کا۔ شہزادے تھے تو ان کی۔ اور اگر عوام تھے تو ان کی آزادی قُربان کر دی گئی تھی اور قانون کے ماتحت سب کی آزادی چھین کر گورنمنٹ کو دی گئی تھی۔ تو ایسے مواقع پر ایسا ہی کرنا پڑتا ہے۔ مگر دینی حکومت اس کے خلاف ہے یہ حکومت نیچے سے اوپر کو نہیں بلکہ اُوپر سے نیچے کو جاتی ہے۔ دینی حکومت میں درخواست نہیں کی جاتی حکم دیا جاتا ہے۔

خدا کی طرف سے حکم آتا ہے کہ یہ کام کرو، وہاں حکم دیا جاتا ہے کہ اس طرح کرنا ہو گا

خدا کا فرمان ہے کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اس لئے ایسا کرو۔ تمہارا فرض ہے کہ مانو۔ ہم نے تمہیں ہی نہیں تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا پس تم ہمارے اس حکم کو مانو اور ہمارے حکم پر ایمان لاؤ۔ ہم تمہیں رزق دیتے ہیں تمہاری حفاظت کرتے ہیں۔ اور تمہاری دیگر ضروریات کو مہیا کرتے ہیں۔ پھر تمہاری آئندہ نسلوں کو پیدا کریں گے۔ ان کی حفاظت کریں گے۔ تمہاری پیدائش ہمارے قبضہ میں ہے۔ تمہاری زندگی ہمارے قبضہ میں ہے اور تمہارا مَرنا بھی ہمارے قبضہ میں ہے اور پھر مرنے کے بعد بھی تم ہمارے قبضہ سے باہر نہ ہو گے اور تمہارا ہمیں سے تعلق رہے گا۔ پس کیا بلحاظ حسن کے اور کیا بلحاظ احسان کے ہم جس طرح تمہیں حکم دیں اسی طرح تمہیں کرنا ہو گا اور ہم جس طرح چاہیں تم سے سلوک کریں۔ سوال کے طور پر نہیں اور عرض کی شکل میں نہیں۔ بلکہ مالکانہ اور خالقانہ رنگ میں اعلان ہوتا ہے کہ اس کی فرمانبرداری اور اطاعت اختیار کرو۔

یہ وہ بادشاہ نہیں جس کو تم منتخب کرتے ہو بلکہ وہ جب سے بادشاہ ہے کہ تم نہ تھے، وہ جب سے بادشاہ ہے جب تمہارے باپ دادا نہ تھے، وہ جب سے بادشاہ ہے جبکہ تمہارے باپ دادا ہی نہیں ابو البشر آدمؑ بھی پیدا نہ ہوا تھا۔ وہ بادشاہ ہے جب سے زمین نہ تھی۔ وہ بادشاہ ہے جبکہ وہ باریک ذرے بھی نہ تھے جن سے زمین پیدا ہوئی ہے۔ پھر اس کی حکومت ہمارا منتخب ہونے کی وجہ سے نہیں اور وہ ہمارا نائب ہو کر ہم پر حکومت نہیں کرتا۔

ہم نے جو کچھ حاصل کیا اِسی سے حاصل کیا اِس لئے اس کے حکم مقتدرانہ ہوتے ہیں کہ ہم یہ حکم نازل کرتے ہیں اس کی اطاعت کرو

پس یہ رنگ اَور ہے اور وہ اَور۔ دُنیاوی حکومتوں میں خواہ کام جبراً لئے جائیں خواہ مرضی سے، لیکن عرفاً اور عقلاً وہ حکومت ہوتی رعایا کی ہے۔ حکومت کو جس قدر اختیارات ملتے ہیں وہ سب کے سب نیچے سے ہی ملتے ہیں۔ خواہ ان کی حقیقی اور دلی مرضی سے خواہ ظاہری سے۔ مگر بہرحال وہ حکومت لوگوں کی رضا کے ماتحت نہیں ہوتی ۔اگر سب کے سب لوگ انکار کر دیں تو کوئی بادشاہ ان سے اپنی حکومت نہیں منوا سکتا۔ کونسی حکومت ہے جو ایسے لوگوں پر حکومت کر سکے لیکن خدا کی حکومت کی یہ حالت نہیں۔

اگر سب کے سب لوگ اس کی خدائی ماننے سے انکار کر دیں تو وہ اپنی خدائی کو نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ کہے گا تم انکار کرتے ہو، میں تم سے منواتا ہوں۔

دُنیا نے انکار کیا۔ اس نے کہا کہ منوا کے چھوڑوں گا۔ وہ اپنی حکومت کی شان کو بڑھانے کے لئے لوگوں میں سے ہی ایک شخص کو بھیج دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں اس شخص کے ذریعہ اپنی حکومت منواؤں گا۔ وہ لوگ اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ہم سے ادنیٰ ہے، ذلیل ہے، نہ اس کے پاس دولت ہے نہ جتھا ہے، نہ حکومت ہے، خدا کہتا ہے کہ ہاں مَیں اسی کے ذریعہ منواؤں گا اور بالآخر دُنیا کو اس کی اطاعت قبول کرنی پڑتی ہے اس لئے کہ وہ قدیم و قدیر اور خالق و مالک شہنشاہ کی طرف سے بادشاہ ہوتا ہے اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے اس لئے اس کے احکام کے آگے بھی نہیں نہیں سُنی جاتی۔

جسمانی اور رُوحانی حکومتوں میں یہ فرق ہوتا ہے۔ رُوحانی احکام کے نیچے ’’نہیں‘‘ نہیں سنا جاتا لیکن دُنیاوی معاملات میں ’’نہیں‘‘ کہا جاسکتا ہے۔

دُنیاوی معاملات میں ایک حد تک افراد کی آزادی میں حکومت دخل نہیں دے سکتی مگر رُوحانی حصّہ میں کسی شخص کو اختیار نہیں کہ انکار کرے۔ کیونکہ روحانی حکومت اوپر سے آتی ہے۔ دُنیا کے بادشاہ حقیقی بادشاہ نہیں، لیکن خدا حقیقی بادشاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا میں دیکھتے ہیں کہ کوئی حکومت جب کسی شخص کو کسی کام پر مقرر کرتی ہے۔ وہ کہہ دیتا ہے کہ مَیں نہیں مانتا، قانون بنا کر لاؤ۔ یہ حکم محض شخصی ہے اور یہ شخصی سوال ہے اس لئے نہیں مانتے۔ پھر کام کرتے کرتے استعفیٰ پیش کر دیتے ہیں یا کہہ دیتے ہیں۔ جاؤ۔ ہم نہیں کر سکتے۔ استعفیٰ کے معنے طلبِ عفو کے ہیں کہ مجھے معاف فرما ئیے لیکن دُنیاوی حکومتوں میں استعفیٰ کے معنے وہ نہیں ہوتے جو عربی میں ہیں بلکہ پنجابی معنے ہوتے ہیں کہ ’’جامیاں معاف کر‘‘۔ عربی میں تذلل کا مفہوم اس کے معنوں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن پنجابی یا اُردو میں اس کے یہ معنے نہیں بلکہ اِس کے معنے ہوتے ہیں کہ ’’ہم ایسا نہیں کر سکتے جاؤ سر نہ کھاؤ۔ معاف کرو۔ بس اب زیادہ پریشان نہ کرو۔ ہم کام چھوڑ کر چلے جائیں گے‘‘۔

اس کے مقابلہ میں شرعی حکومت میں استعفیٰ کا قانون نہیں

حکومت کے ماتحت وہ کام کرتے ہیں جو ان کو پسند ہوتے ہیں لیکن شریعت میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ کام کریں جو لوگوں کو پسند ہو بلکہ وہ کرنا پڑتا ہے جس کا شریعت حکم دے اور اس شخص کا حق نہیں ہوتا کہ وہ جواب دے۔

رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسامہ ؓکو کمانڈر انچیف مقرر کیا۔ یہ نہیں کہ وہ اہلیت زیادہ رکھتے تھے بلکہ وہ ایک حکم تھا جس کی اطاعت اسامہ ؓپر فرض تھی۔ اسامہ ؓنے بھی انکار نہیں کیا اور اسامہ ؓکے ماتحت عمر ؓاور عمروبن العاص ؓجیسے شخصوں کو کر دیا۔ جن کے نام سے ایشیاء کے لوگ تھرا اُٹھتے تھے اسامہؓ ان سے بڑا نہ تھا۔ نہ اپنی سپاہیانہ قابلیت میں ان لوگوں سے بڑا تھا کہ وہ اس لحاظ سے اس عہدے کا مستحق تھا۔ اس کو تو اپنے نفس میں فکر ہو گی کہ یہ اتنے بڑے بڑے لوگ کیوں میری بات ماننے لگے۔

وہ تو اُسے ایک ابتلاء اور آزمائش خیال کرتا ہو گا مگر وہ اس کو ردّ نہ کر سکتا تھا نہ اس نے کیا کیونکہ اس حکم کی بجا آوری اس کی جان کے ساتھ وابستہ تھی۔

نا واقف لوگ سمجھتے ہیں اور منافقوں نے رسولِ کریم صلی اﷲعلیہ وآلہٖ وسلم کے وقت میں سمجھا کہ اسامہ ؓ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لے پالک کا بیٹا ہے اس کو ناجائز طور پر افسری دے دی، لیکن نادان نہیں جانتے کہ اسامہ ؓتو اس کو اپنی شہادت خیال کرتا تھا مثلاً آج ہم تبلیغ کے لئے کوئی وفد بھیجیں اور زید یا بکر کو جو ایک چھوٹے درجہ کا آدمی ہو اور کوئی علمی قابلیت اپنے اندر نہ رکھتا ہو۔اس کے ماتحت مولوی سیّد سرور شاہ صاحب۔ حافظ روشن علی صاحب۔ قاضی سیّد امیر حسین صاحب کو کر دیں تو کیا ایسا شخص جس کو ان پر افسر کیا جائے۔ اس افسری پر خوش ہو سکتا ہے اور فخر کر سکتا ہے؟ یقیناً وہ تو اسے آزمائش خیال کرے گا اور جانے گا کہ مجھ پر امتحان کا وقت آرہا ہے۔(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button