خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ اکتوبر 2023ء

ہمارے پاس تو دعا ہی کا ہتھیار ہے اسے ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر استعمال کرنا چاہیے

حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے بعد فرمایا تم مجھے رؤیا میں دو مرتبہ دکھائی گئی قبل اس کے کہ میں تم سے شادی کرتا۔ میں نے فرشتے کو دیکھا اس نے تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھایا ہوا تھا

اصولی بات یہ ہے کہ عائشہؓ کی جب شادی ہوئی تو عمر کے اعتبار سے کسی بھی قسم کی کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان کوئی سوال یا اعتراض پیدا ہوتا

’’حضرت عائشہ ؓکا نو سالہ ہونا تو صرف بے سروپا اقوال میں آیا ہے۔ کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ میری سب بیٹیوں سے زینب افضل ہے کہ اس کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی

اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں، بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا اور اس بات کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے ہدایت بھی فرمائی ہے

اگر حقیقی انصاف قائم کیا جاتا تو یہ باتیں نہ ہوتیں۔ اگر بڑی طاقتیں اپنے دوہرے معیار نہ رکھتیںیا نہ رکھیں تو اس قسم کی بدامنی اور جنگیں دنیا میں ہو ہی نہیں سکتیں۔ پس ان دوہرے معیاروں کو ختم کرو تو جنگیں خود بخود ختم ہو جائیں گی

ایسے حالات میں مسلمان ملکوں کو کم از کم ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اپنے اختلافات مٹا کر اپنی وحدت کو قائم کرنا چاہیے

ایک ہوں گے، وحدت ہو گی تو آواز میں بھی طاقت ہو گی ورنہ معصوم مسلمانوں کی جانوں کے ضائع ہونے کے یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے، مسلمان حکومتیں ذمہ دار ہوں گی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے اور یہ ان طاقتوں کا کام ہے رکھیں کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی شادی کی حکمت، شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کا تنقیدی جائزہ، حضرت زینبؓ بنت رسول اللہ ﷺکی ہجرتِ مدینہ کے واقعہ کی تفصیلات

اسرائیل، فلسطین جنگ کے تناظر میں دعاکی تحریک اور عالمی راہنماؤں کو نصائح

مکرم ڈاکٹر بشير احمد خان صاحب آف یوکے کی نماز جنازہ حاضر اور مکرمہ وسيمہ بيگم صاحبہ اہليہ ڈاکٹر شفيق سہگل صاحب (سابق امیر ضلع ملتان) کا جنازہ غائب، مرحومین کا ذکرِ خیر

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 13؍اکتوبر2023ء بمطابق 13؍اخاء 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض واقعات جو بدر کے موقع پر یا اس کے فوری بعد کےتھے ان کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ ان واقعات میں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عائشہؓ سے شادی

کا بھی ذکر ہے۔ اس لیے یہاں یہ بیان کر دیتا ہوں۔ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓکی وفات کے بعد ایک دن حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی خولہ بنت حکیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ!کیا آپؐ شادی نہیں کرنا چاہتے۔ آپؐ نے پوچھا کس سے؟ کہتی ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو کنواری سے بھی کر سکتے ہیں اور آپؐ کا ارادہ بیوہ سے شادی کا ہو تو ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ کنواری کون ہے؟ تو بتایا گیا کہ عائشہ بنت ابوبکر۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ بیوہ کون ہے؟ عرض کی کہ وہ سودہ بنت زمعہ ہے۔ وہ آپؐ پر ایمان لا چکی ہیں اور آپؐ کی اتباع بھی اختیار کر چکی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہؓ سے فرمایا: جاؤ اور ان دونوں کے گھر والوں سے میرے متعلق بات کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت ملنے پر حضرت خولہؓ وہاں سے نکلیںاور پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر حضرت عائشہؓ کے رشتے کی بات کرنے کے لیے گئیں۔ گھر پر حضرت ابوبکرؓ تو موجود نہیں تھے البتہ ان کی اہلیہ حضرت ام رومانؓ موجود تھیں۔ حضرت خولہؓ نے ان سے بات کی اور مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہنے لگیں کہ ام رومان! اللہ عزّوجل نے آپ کو کتنی زبردست خیرو برکت سے نوازا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ خیرو برکت کیا ہے؟ حضرت خولہؓ نے بتایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے نکاح کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔ ام رومان نے کہا کہ پھر ابوبکرؓ کے آنے کا انتظار کرو۔ کچھ دیر انتظار کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ گھر تشریف لے آئے تو حضرت خولہؓ ان سے بھی وہی کچھ کہتی ہیں جو ام رومان سے کہا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے استفسار کیا کہ خولہ یہ تو بتاؤ کہ وہ خیر و برکت ہے کیا؟ حضرت خولہؓ نے بتایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے۔ میں آپؐ کی طرف عائشہ سے نکاح کا پیغام لے کر آئی ہوں۔ یہ سن کے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا کہ کیا عائشہ سے آپؐ کا نکاح ٹھیک ہے؟ آپؐ کے بھائی کی بیٹی ہے۔ ان کو خیال آیا تو حضرت خولہؓ واپس گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی یہ بات عرض کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس جا کے ان سے کہو میں اسلام میں تمہارا بھائی ہوں اور تم میرے بھائی ہو۔ تمہاری بیٹی سے میرا نکاح ہو سکتا ہے۔ شرعا ًتو اس میں کوئی عذر نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت خولہؓ واپس گئیں اور حضرت ابوبکرؓ سے یہ بات کی تو انہوں نے کہا کہ انتظار کرو۔

وہ باہر نکل گئے۔ حضرت ام رومانؓ نے کہا مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے کا عائشہ کے لیے ذکر کیا تھا۔ اللہ کی قسم! ابوبکر نے کبھی کوئی عہد نہیں کیا جس کی انہوںنے عہد شکنی کی ہو۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ مطعم بن عدی کے پاس گئے اور اس کے پاس اس کی بیوی ام الفتیٰ بھی تھی۔ اس خاتون نے کہا اے ابن قحافہ! اگر ہم تمہارے ہاں اپنے بیٹے کی شادی کر دیں تو ہو سکتا ہے کہ تم اسے اپنے اس دین میں داخل کر لو جس میں تم ہو۔ حضرت ابوبکرؓ نے مطعم بن عدی سے کہا کہ کیا تم بھی اس طرح کہتے ہو؟ میاں بیوی دونوں سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ جیسا اس نے کہا ہے وہی میں بھی کہتا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ مطعم کے پاس سے آئے اور اللہ نے ان کے دل سے اس وعدہ کے بارے میں سب انقباض دُور کر دیا۔ جب اس نے یہ بات کر دی کہ ہمارا بیٹا اب مسلمان تو نہیں ہو سکتا تو پھر وہ رشتہ ختم ہو گیا اور یہ انقباض دُور ہو گیا۔ جس کا وعدہ کیا تھا کہ اگر تم رشتہ بھیجو گے تو ہم کریں گے۔ وہ بات بھی ختم ہو گئی۔ پھر انہوں نے حضرت خولہؓ سے کہا میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام پہنچا دو۔ چنانچہ حضرت خولہؓ نے آپؐ کو پیغام پہنچایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے شادی کی۔ یہ واقعہ مسند احمد بن حنبل میں درج ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 409-410 مسند عائشہؓ حدیث 26288 عالم الکتب بیروت 1998ء)

(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد5صفحہ442-443)

حضرت عائشہؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے بعد فرمایا

تم مجھے رؤیا میں دو مرتبہ دکھائی گئی قبل اس کے کہ میں تم سے شادی کرتا۔ میں نے فرشتے کو دیکھا اس نے تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھایا ہوا تھا۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا کہ یہ آپؐ کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ کپڑا ہٹاؤ۔ اس نے کپڑا ہٹایا تو کیا دیکھا کہ وہ تم ہو۔ میں نے خیال کیا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے پورا کر دے گا۔ پھر تم مجھے رؤیا میں دکھائی گئی وہ تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے تھا۔ میں نے کہا کپڑا اٹھاؤ تو اس نے کپڑا ہٹایا۔ کیا دیکھا کہ وہ تم ہو۔ پھر میں نے یہی کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اسے پورا کر دے گا۔ یہ روایت بخاری میں د رج ہے حضرت عائشہؓ کے حوالے سے۔

(صحیح البخاری کتاب التعبیر باب کشف المراۃ فی المنام ، حدیث7011)

(صحیح البخاری کتاب التعبیر باب ثیاب الحریر فی المنام، حدیث7012)

صحابہؓ کے حالات پر مشتمل کتاب الاستیعاب میں حضرت عائشہؓ کی ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنی اہلیہ کی رخصتی کیوں نہیں کرا لیتے۔ عائشہ سے رشتہ تو ہو گیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے خود عرض کیا کہ رخصتی کیوں نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہر کی رقم کی وجہ سے۔ حضرت ابوبکرؓ نے آپؐ کو ساڑھے بارہ اوقیہ دیا۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مال یعنی مہر ہمارے ہاں بھجوا دیا۔

(السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ167 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت )

شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں

بھی مؤرخین اور سیرت نگاروں اور بعد کے راویوں کے بیان کی وجہ سے اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور غیر بھی اس سے بڑے اعتراضات اٹھاتے رہتے ہیں وگرنہ

اصولی بات یہ ہے کہ عائشہؓ کی جب شادی ہوئی تو عمر کے اعتبار سے کسی بھی قسم کی کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان کوئی سوال یا اعتراض پیدا ہوتا۔

اگر حیرت انگیز طور پر کوئی غیرمعمولی بات ہوتی تو منافقین یا مخالفین ضرور اعتراضات کی بھرمار کر دیتے لیکن کسی بھی کتاب میں کوئی ایسا اعتراض مذکور نہیں ہے۔ جن کتب میں حضرت عائشہؓ کی عمر غیر معمولی چھوٹی کر کے بیان ہوئی ہے اس کے بارے میں حکم و عدل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ان کو بےسروپا اقوال قرار دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ

’’حضرت عائشہؓ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سروپا اقوال میں آیا ہے۔ کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں۔‘‘

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 64)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حضرت عائشہؓ کی رخصتی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہؓ کے ساتھ شادی فرمائی تھی۔ یہ سنہ نبوی کا دسواں سال اور شوال کا مہینہ تھا۔ اور اس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر‘‘ جب رشتہ کیا تھا ’’سات سال کی تھی۔مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نشوونما اس وقت بھی غیرمعمولی طور پر اچھا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ خولہ بنت حکیم کو جو اُن کے نکاح کی محرک بنی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے لیے ان کی طرف خیال جاتا لیکن بہرحال ابھی تک وہ بالغ نہیں ہوئی تھیں، اس لیے اس وقت نکاح تو ہوگیا مگر رخصتانہ نہیں ہوا اور وہ بدستور اپنے والدین کے پاس مقیم رہیں، لیکن اب ہجرت کے دوسرے سال جب کہ ان کی شادی پر پانچ سال گذر چکے تھے‘‘ نکاح پہ ’’اور ان کی عمر بارہ سال کی تھی وہ بالغ ہو چکی تھیں، چنانچہ خود حضرت ابو بکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر رخصتانہ کی تحریک کی۔ جس پر آپؐ نے مہر کی ادائیگی کا انتظام کیا … اور ماہ شوال ؁۲ھ میں حضرت عائشہؓ اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 423 )

یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تحقیق ہے لیکن بعض مؤرخین کے نزدیک اس سے زیادہ عمر بھی بیان کی جاتی ہے۔ شادی کے وقت ’’حضرت عائشہؓ کی والدہ مدینہ کے مضافات میں ایک جگہالسُّنحنامی میں مقیم تھیں۔ چنانچہ انصار کی عورتوں نے وہاں جمع ہو کر حضرت عائشہؓ کو رخصتانہ کے لیے آراستہ کیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود وہاں تشریف لے گئے اور اس کے بعد حضرت عائشہؓ اپنے گھر سے رخصت ہو کر حرمِ نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 429-430)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت عائشہؓ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’باوجود…صغر سنی کے‘‘ چھوٹی عمر ہونے کے ’’حضرت عائشہؓ کا ذہن اور حافظہ غضب کا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کے ماتحت انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ حیرت انگیز طور پر ترقی کی۔ اور دراصل اس چھوٹی عمر میں ان کو اپنے گھر میں لے آنے سے آپؐ کی غرض ہی یہ تھی کہ تا آپؐ بچپن سے ہی اپنے منشاء کے مطابق ان کی تربیت کر سکیں اور تا انہیں آپؐ کی صحبت میں رہنے کالمبے سے لمبا عرصہ مل سکے اور وہ اس نازک اور عظیم الشان کام کے اہل بنائی جاسکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی پر عاید ہوتا ہے۔ چنانچہ آپؐ اس منشاء میں کامیاب ہوئے اور حضرت عائشہؓ نے مسلمان خواتین کی اصلاح اور تعلیم و تربیت کا وہ کام سرانجام دیا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں نہیں ملتی۔ احادیثِ نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور بہت ضروری حصہ حضرت عائشہؓ ہی کی روایات پر مبنی ہے حتی ٰکہ ان کی روایتوں کی کل تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے۔ان کے علم و فضل اور تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ ان کا لوہا مانتے اور ان سے فیض حاصل کرتے تھے۔ حتی ٰکہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہؓ کو کوئی علمی مشکل ایسی پیش نہیں آئی کہ اس کا حل حضرت عائشہؓ کے پاس نہ مل گیا ہو اور عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ میں نے کوئی شخص علم قرآن اور علم میراث اور علم حلال و حرام اور علم فقہ اور علم شعر اور علم طِب اور علم حدیثِ عرب اور علم انساب میں عائشہؓ سے زیادہ عالم نہیں دیکھا۔ زہد و قناعت میں ان کا یہ مرتبہ تھا کہ ایک دفعہ ان کے پاس کہیں سے ایک لاکھ درہم آئے انہوں نے شام ہونے سے پہلے پہلے سب خیرات کر دیئے۔ حالانکہ گھر میں شام کے کھانے تک کے لئے کچھ نہیں تھا۔ انہی اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے جن کی جھلک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی نظر آنے لگ گئی تھی آپؐ انہیں خاص طور پر عزیز رکھتے تھے … ایک دفعہ فرمایا‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’کہ مردوں میں تو بہت لوگ کامل گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کاملات بہت کم ہوئی ہیں۔ پھر آپؐ نے آسیہ اہلیہ فرعون اور مریم بنت عمران کا نام لیا اور پھر فرمایا کہ عائشہ کو عورتوں پر وہ درجہ حاصل ہے جو عرب کے بہترین کھانے ثرید کو دوسرے کھانوں پر ہوتا ہے۔ ایک دفعہ بعض دوسری ازواج مطہرات نے کسی اہلی امر میں حضرت عائشہؓ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کہی مگر آپؐ خاموش رہے، لیکن جب اصرار کے ساتھ کہا گیا تو آپؐ نے فرمایا ’’میں تمہاری ان شکایتوں کا کیا کروں۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ کبھی کسی بیوی کے لحاف میں مجھ پر میرے خدا کی وحی نازل نہیں ہوئی مگر عائشہ کے لحاف میں وہ ہمیشہ نازل ہوتی ہے۔ اللہ اللہ! کیا ہی مقدس وہ بیوی تھی جسے یہ خصوصیت حاصل ہوئی اور کیا ہی مقدس وہ خاوند تھا جس کی اہلی محبت کا معیار بھی تقدّس و طہارت کے سوا کچھ نہیں تھا!! … احادیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ آخری ایام میں حضرت سودہ بنت زمعہؓ نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دیدی تھی اور اس طرح حضرت عائشہؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہونے کا دوہرا موقعہ میسر آگیا تھا … چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال تھا اور وہ اپنی عمر اور حالات کے لحاظ سے اس قابل تھیں کہ ان پر خاص توجہ صرف کی جاوے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باری کے متعلق سودہ ؓکی تجویز منظور فرمالی ۔مگر اس کے بعد بھی آپؐ حضرت سودہؓ کے پاس باقاعدہ تشریف لے جایا کرتے تھے اور دوسری بیویوں کی طرح ان کی دلداری اور آرام کا خیال رکھتے تھے۔

حضرت عائشہؓ کے خواندہ ہونے کے متعلق اختلاف ہے۔‘‘ پڑھے لکھے ہونے کے بارے میں ’’مگر بخاری کی ایک روایت سے پتہ لگتا ہے کہ ان کے پاس ایک نسخہ قرآن شریف کا لکھا ہوا موجود تھا۔ جس پر سے انہوں نے ایک عراقی مسلمان کو بعض آیات خود املاء کرائی تھیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ کم از کم خواندہ ضرور تھیں اور اغلب ہے کہ انہوں نے اپنے رخصتانہ کے بعد ہی لکھنا سیکھا تھا لیکن جیساکہ بعض مؤرخین نے تصریح کی ہے وہ غالباً لکھنا نہیں جانتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کم و بیش اڑتالیس سال زندہ رہیں اور ؁۵۸ھ کے ماہِ رمضان میں اپنے محبوب حقیقی سے جا ملیں۔ اس وقت ان کی عمر قریباً اڑسٹھ سال کی تھی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 430 تا 432)

پھر

ایک واقعہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بدر کے فوری بعد ہوا وہ آپؐ کی بیٹی حضرت زینبؓ کا ہے

جو مکّے میں تھیں اور پھر وہ مدینہ تشریف لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص بن ربیع بھی غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ قید ہوئے۔ ان کی بیوی

حضرت زینبؓ مکّےمیں تھیں۔ انہوں نے وہ ہار اپنے شوہر کے فدیہ میں بھیجا جو ان کی والدہ حضرت خدیجہؓ نے ان کی شادی کے موقع پر بیٹی کو پہنایا تھا۔

یہ فدیہ لے کر آنے والا ابوالعاص کا بھائی عمرو بن ربیع تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ہار دیکھا تو آپؐ بہت زیادہ دلگیر اور آبدیدہ ہو گئے۔ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا۔ اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کے قیدی کو رہا کر دو اور اس کا یہ ہار بھی واپس کر دو۔ صحابہؓ نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہؐ! چنانچہ ابوالعاص کو رہا کر دیا گیا۔ حضرت زینبؓ کا ہار بھی لوٹا دیا گیا مگر

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص کو اس شرط پر رہا کیا کہ مکّہ جاتے ہی وہ حضرت زینبؓ کو اجازت دیں گے کہ وہ مدینہ کو ہجرت کر سکیں۔

(ماخوذ از السیرۃ الحلبیۃ جلد2 صفحہ264-265، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رہائی کے بعد ابوالعاص جب مکہ پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہؓ اور ایک انصاری کو بھیجا کہ تم بَطنِ یأجَجْ میں ٹھہرو۔ (بَطنِ یأجَج مکے سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔) یہاں تک کہ زینب تمہارے پاس سے گزرے تو تم اس کے ساتھ ہو جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ۔ چنانچہ وہ فوراً روانہ ہو گئے۔ یہ واقعہ غزوۂ بدر کے قریباً ایک ماہ بعد رونما ہوا۔

ابوالعاص نے مکے پہنچ کر حضرت زینبؓ کو آپؐ کے پاس جانے کی اجازت دے دی تو وہ زادِ راہ تیار کرنے لگیں۔ حضرت زینبؓ بیان کرتی ہیں کہ میں زادِ سفر کی تیاری میں مصروف تھی کہ ہند بنت عتبہ نے مجھے کہا اے بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تُو اپنے والد کے پاس جانا چاہتی ہے تو میں نے اسے طرح دیتے ہوئے ٹال دیا۔ یہ سن کر اس نے کہا اے بنت عم! ایسا وطیرہ اختیار نہ کر۔ اگر تمہیں سامان کی ضرورت ہے جو سفر میں تمہارے کام آئے یا مال کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ سے تُو اپنے باپ کے پاس پہنچ جائے تو میرے پاس تیری ضرورت کا سارا سامان موجود ہے مجھ سے انقباض نہ رکھو۔ خواتین کے دلوں میں وہ رنج و ملال نہیں ہوتا جو مردوں کے دلوں میں ہوتا ہے۔ حضرت زینبؓ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اس نے یہ بات خلوص سے کہی تھی مگر میں اس سے خائف تھی اس لیے میں نے اسے طرح دے دی۔ بہانہ کر دیا۔ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ حضرت زینبؓ نے سفر کی تیاری کی اور جب وہ اپنے سفر کی تیاری سے فارغ ہو گئیں تو ابوالعاص کے بھائی کِنَانہ بن ربیع نے سواری پیش کی۔ آپؓ سوار ہو گئیں اور کِنَانہ نے اپنی کمان اور ترکش ساتھ لے لیا اور ان کو دن کی روشنی میں اس حال میں لے کر چل پڑا کہ حضرت زینبؓ اپنے ہودج میں تھیں۔ قریش میں یہ بات جب موضوع بحث بنی تو وہ ان کی تلاش میں چل پڑے اور چلتے چلتے ذِی طُوٰی میں ان کو پالیا۔ ذِی طُوٰی بھی مکہ کی ایک مشہور وادی ہے اور مسجد حرام سے نصف میل کے فاصلے پر ہے۔ بہرحال سب سے پہلے ان کی طرف ھَبَّارْ بن اَسْوَد فِھْرِیآیا اور اس نے نیزے سے سواری کو ڈرا دیا اور حضرت زینبؓ جو کہ حاملہ تھیں ان کا حمل ضائع ہو گیا اور ان کا دیور تیر نکال کر بیٹھ گیا اور اعلان کر دیا جو میرے قریب آئے گا ان تیروں کا نشانہ بنے گا۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ ھَبَّارْ نے سواری کو نیزہ چبھویا تو اس سے حضرت زینبؓ ایک پتھر پر گر گئیں جبکہ وہ حاملہ تھیں۔ اس طرح ان کا جنین ساقط ہو گیا۔ بہرحال یہ واقعات دیکھ کے لوگ ان کے پاس سے لوٹ آئے۔ پھر ابوسفیان اور رؤسائے قریش آئے اور اس کو کہا کہ جوان! تیر مت چلا حتی کہ ہم تم سے بات چیت کر لیں۔ چنانچہ وہ تیر اندازی سے رک گئے اور ابوسفیان نے کہا تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ کھلے عام خاتون کو لے کر چلا ہے حالانکہ تو ہماری جان کی مصیبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کارنامے کو خوب جانتا ہے۔ جب تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی کو علانیہ اور کھلے عام لے جائے گا تو لوگ سمجھیں گے یہ ہماری ذلت اور رسوائی کا موجب ہے اور ہماری کمزوری اور ناتوانی کا باعث ہے۔ کہنے لگا کہ مجھے زندگی کی قسم !ہمیں اس کو روکنے کی قطعا ًکوئی ضرورت نہیں اور اس کے خلاف کوئی جوش اور جذبہ بھی نہیں لیکن اچھی صورت یہ ہے کہ تم اس کو واپس لے چلو۔ جب حالات بہتر اور پرسکون ہو جائیں اور لوگ سمجھیں کہ ہم نے اس کو واپس لوٹا لیا ہے تو اس کو چپکے سے اس کے باپ کے پاس لے جاؤ۔ پھر کِنَانہ نے اس منصوبے پر عمل کیا۔ بقول ابن اسحاق حضرت زینبؓ دو چار روز مکّے میں مقیم رہیں یہاں تک کہ جب چہ میگوئیاں ختم ہو گئیں تو رات کو چپکے سے حضرت زینبؓ کو حضرت زیدؓ اور ان کے ساتھی کے سپرد کر دیا۔ وہ حضرت زینبؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں رات کی تاریکی میں لے آئے۔

امام بیہقی نے حضرت عائشہؓ سے حضرت زینبؓ کے مکہ سے آنے کا واقعہ بیان کر کے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ ؓکو اپنی انگوٹھی دے کر مکہ روانہ کیا کہ زینب کو اپنے ہمراہ لے آئے۔ چنانچہ اس نے اپنی حکمت و دانائی سے یہ انگوٹھی ایک چرواہے کو دی اور اس نے حضرت زینبؓ کو پہنچا دی۔ حضرت زینبؓ یہ انگوٹھی دیکھ کر پہچان گئیں تو اس سے پوچھا: تجھے یہ کس نے دی ہے؟ اس نے بتایا مکے سے باہر ایک آدمی نے مجھے دی ہے۔ چنانچہ حضرت زینبؓ رات کو مکے سے باہر آئیں اور اس کے پیچھے سوار ہو گئیں اور وہ آپؓ کو مدینہ لے آئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ

میری سب بیٹیوں سے زینب افضل ہے کہ اس کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی۔

(السیرۃ النبویۃ ﷺ لابن کثیر جلد2 صفحہ516 تا518 دار المعرفہ بیروت1976ء)

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 445حاشیہ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)

(فرہنگ سیرت صفحہ59، 180 مطبوعہ زوار اکیڈمی کراچی)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں یہ تفصیل اس طرح لکھی ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد فدیہ کے قائم مقام ابوالعاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکہ میں جاکر زینب کو مدینہ بھجوادیں اوراس طرح ایک مومن روح دارِکفر سے نجات پاگئی۔ کچھ عرصہ بعد ابوالعاص بھی مسلمان ہوکر مدینہ میں ہجرت کرآئے اوراس طرح خاوند بیوی پھراکٹھے ہو گئے۔ حضرت زینبؓ کی ہجرت کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ جب وہ مدینہ آنے کے لیے مکہ سے نکلیں تومکہ کے چند قریش نے ان کو بزور واپس لے جانا چاہا۔ جب انہوں نے انکار کیا توایک بدبخت ھَبَّار بن اسود نامی نے نہایت وحشیانہ طریق پران پرنیزے سے حملہ کیا جس کے ڈر اورصدمہ کے نتیجہ میں انہیں اسقاط ہو گیا۔ بلکہ اس موقع پر ان کو کچھ ایسا صدمہ پہنچ گیا کہ اس کے بعد ان کی صحت کبھی بھی پورے طورپر بحال نہیں ہوئی اور بالآخر انہوں نے اسی کمزوری اورضعف کی حالت میں بے وقت انتقال کیا۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ368-369)

اس وقت اس کو اتنا ہی بیان کروں گا۔

آجکل کے دنیا کے حالات جو ہیں ان کے بارے میں اس وقت میں ایک دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔

گذشتہ چند دنوں سے حماس اور اسرائیل کی جنگ چل رہی ہے جس کی وجہ سے اب دونوں طرف کے شہری عورتیں، بچے، بوڑھے بلا امتیاز مارے جا رہے ہیں یا مارے گئے ہیں۔

اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصّہ نہ لینے والوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا اور اس بات کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے ہدایت بھی فرمائی ہے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین حدیث 2614)

دنیا یہ کہہ رہی ہے اور حقائق بھی کچھ ایسے ہیں کہ اس جنگ میں پہل حماس نے کی اور اسرائیلی شہریوں کے بلا امتیاز قتل کے مرتکب ہوئے۔

قطع نظر اس کے کہ اسرائیلی فوج پہلے اس طرح کتنے معصوموں کو فلسطینیوں کو قتل کرتی رہی ہے مسلمانوں کو بہرحال اسلامی تعلیم کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

اسرائیلی فوجوں نے جو کیا، وہ ان کا فعل ہے اور اس کےحل کرنے کے اَور طریقے تھے۔

اگر کوئی جائز لڑائی ہے تو فوج سے تو ہو سکتی ہے، عورتوں بچوں اور بےضرر لوگوں سے نہیں۔ بہرحال اس لحاظ سے حماس نے جو غلط قدم اٹھایا وہ غلط تھا۔ اس کا نقصان زیادہ ہوا فائدہ کم۔

یہ جو بھی تھا اس کی سزا یا اس سے جنگ حماس تک ہی محدود رہنی چاہیے تھی۔ اصل جرأت اور بہادری تو یہ ہے کہ یہ ردّ عمل ہوتا

لیکن اب جو اسرائیل کی حکومت کر رہی ہے وہ بھی بہت خطرناک ہے اور یہ معاملہ اب لگتا ہے کہ رکے گانہیں۔ کتنی بے حساب جانیں معصوم لوگوں اور عورتوں اور بچوں کی ضائع ہوں گی اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیلی حکومت کا تو یہ اعلان تھا کہ ہم غزہ کو بالکل مٹا دیں گے اور اس کے لیے بےشمار، بے تحاشا بمبارمنٹ (bombardment)انہوں نے کی۔ شہر راکھ کا ڈھیر ہی کر دیا۔ اب نئی صورت یہ پیدا ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک ملین سے زیادہ لوگ غزہ سے نکل جائیں۔ کچھ اس میں سے نکلنے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ اس پر

شکر ہے کہ مری مری آواز سے ہی سہی لیکن کچھ آواز تو یواین (UN)والوں کی طرف سے نکلی ہے کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے اور یہ غلط ہو گااور اس سے بہت مشکلات پیدا ہوں گی اور اسرائیل کو اپنے اس حکم پہ سوچنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ سختی سے اس کو کہیں کہ یہ غلط ہے۔ ابھی بھی درخواست ہی کررہے ہیں۔

بہرحال ان معصوموں کا کوئی قصور نہیں جو جنگ نہیں کر رہے۔

اگر دنیا اسرائیلی عورتوں بچوں اور عام شہری کو معصوم سمجھتی ہے تو یہ فلسطینی بھی معصوم ہیں۔

ان اہل کتاب کی تو اپنی تعلیم بھی یہ کہتی ہے کہ اس طرح قتل و غارت جائز نہیں ہے۔ مسلمانوں پر اگر الزام ہے کہ انہوں نے غلط کیا تو یہ لوگ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ بہرحال

ہمیں بہت دعا کی ضرورت ہے۔

فلسطین کے سفیر نے یہاں ٹی وی میں غالباً بی بی سی کو انٹرویو دیا اور سوال کرنے والے کے جواب میں کہا کہ حماس ایک militantگروپ ہے، حکومت نہیں ہے اور فلسطین کی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا اور ان کی یہ بات درست ہے کہ

اگر حقیقی انصاف قائم کیا جاتا تو یہ باتیں نہ ہوتیں۔ اگر بڑی طاقتیں اپنے دوہرے معیار نہ رکھتیںیا نہ رکھیں تو اس قسم کی بدامنی اور جنگیں دنیا میں ہو ہی نہیں سکتیں۔ پس ان دوہرے معیاروں کو ختم کرو تو جنگیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔یہی باتیں میں اسلام کی تعلیم کی روشنی میں ایک عرصےسے کہہ رہا ہوں لیکن سامنے تو یہ کہتے ہیں ٹھیک ہے ٹھیک ہے لیکن عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

اب تمام بڑی طاقتیں یا مغربی طاقتیں انصاف کو ایک طرف کر کے فلسطینیوں پر سختی کے لیے اکٹھی ہو رہی ہیں اور ہر طرف سے فوجوں کے بھجوانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور مظلوموں کی تصویریں دکھائی جاتی ہیں کہ اس طرح ظلم ہو رہا ہے۔ غلط سلط رپورٹیں میڈیا میں دکھائی جاتی ہیں اور آجاتی ہیں، ایک دن یہ خبر آتی ہے کہ اسرائیلی عورتوں اور بچوں کا یہ حشر ہو رہاہے، ان کی یہ بُری حالت ہو رہی ہے۔ اگلے دن پتہ چلتا ہے کہ وہ اسرائیلی نہیں تھے وہ تو فلسطینی تھے لیکن اس کی میڈیا میں کوئی معذرت نہیں ہوتی اور کوئی ہمدردی کا لفظ ان کے لیے نہیں کہا جاتا۔

یہ لوگ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت ہے ان کے آگے ہی انہوں نے جھکنا ہے۔

اگر جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جنگ بھڑکانے پر تُلی ہوئی ہیں بجائے اس کو ٹھنڈا کرنے کے۔ یہ لوگ جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد جنگوں کے خاتمے کے لیے بڑی طاقتوں نے لیگ آف نیشنز بنائی لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اپنی برتری قائم رکھنے کی وجہ سے یہ ناکام ہو گئی اور دوسری جنگ عظیم ہوئی

اور کہتے ہیں سات کروڑ سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔

اب یہی حال یواین (UN)کا ہو رہا ہے۔ بنائی تو اس لیے گئی تھی کہ دنیا میں انصاف قائم کیا جائے گا اور مظلوم کا ساتھ دیا جائے گا۔ جنگوں کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی لیکن ان باتوں کا دُور دُور تک پتہ نہیں۔

اپنے مفادات کو ہی ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔

اب جو اس بے انصافی کی وجہ سے جنگ ہو گی اس کے نقصان کا تصور ہی عام آدمی نہیں کر سکتا اور یہ سب بڑی طاقتوں کو پتہ ہے کہ کتنا شدید نقصان ہو گا

لیکن پھر بھی انصاف قائم کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے اور توجہ دینے پر کوئی تیار بھی نہیں ہے۔

ایسے حالات میں مسلمان ملکوں کو کم از کم ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اپنے اختلافات مٹا کر اپنی وحدت کو قائم کرنا چاہیے۔

اگر مسلمانوں کو یہ ہدایت اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے دی ہے کہ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (آل عمران:65) اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو مسلمان جن کا کلمہ مکمل طور پر ایک ہے کیوں اختلافات ختم کرکے اکٹھے نہیں ہو سکتے؟ پس

سوچیں اور اپنی وحدت کو قائم کریں اور یہی دنیا سے فساد دُور کرنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے

اور پھر ایک ہو کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہر جگہ مظلوم کے حقوق قائم کرنے کے لیے بھرپور آواز اٹھائیں۔

ایک ہوں گے، وحدت ہو گی تو آواز میں بھی طاقت ہو گی ورنہ معصوم مسلمانوں کی جانوں کے ضائع ہونے کے یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے، مسلمان حکومتیں ذمہ دار ہوں گی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے اور یہ ان طاقتوں کا کام ہے رکھیں کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔

(صحیح البخاری کتاب المظالم بَابُ اَعِنْ اَخَاکَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُوْمًا حدیث 2443)

پس اس اہم بات کو سمجھیں۔

اللہ تعالیٰ مسلمان حکومتوں کو بھی عقل اور سمجھ دے اور وہ ایک ہو کر انصاف قائم کرنے والے بنیں اور دنیا کی طاقتوں کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ دنیا کو تباہی میں ڈالنے کی بجائے دنیا کو تباہی سے بچانے کی کوشش کریں اور اپنی اناؤں کی تسکین کو اپنا مقصد نہ بنائیں۔

ہمیشہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تباہی ہو گی تو یہ طاقتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ بہرحال

ہمارے پاس تو دعا ہی کا ہتھیار ہے اسے ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر استعمال کرنا چاہیے۔

غزہ میں بعض احمدی گھرانے بھی گھرے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی محفوظ رکھے اور سب معصوموں مظلوموں کو وہ جہاں بھی ہیں محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ حماس کو بھی عقل دے اور یہ لوگ خود اپنے لوگوں پر ظلم کرنے کے ذمہ دار نہ بنیں اور نہ کسی پر ظلم کریں۔ اسلامی تعلیم کے مطابق جو حکم ہے اس کے مطابق اگر جنگیں کرنی بھی ہیں تو اس طرح کریں۔

کسی قوم کی دشمنی بھی ہمیں انصاف سے دُور کرنے والی نہ ہو یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔

اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ دونوں طرف انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے امن قائم کرنے والی بنیں۔ یہ نہیں کہ ایک طرف جھکاؤ ہو جائے اور دوسری طرف کا حق مارا جائے۔ ظلم و زیادتی میں بڑھنے والی نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دنیا میں امن و سلامتی دیکھنے والے ہوں۔

نماز کے بعد میں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک

جنازہ حاضر

ہے۔ جنازہ حاضر جو ہے وہ

ڈاکٹر بشیر احمد خان صاحب

کا ہے۔ یہاں یوکے میں ہی حلقہ مسجد فضل میں رہتے تھے۔ گذشتہ دنوں بانوے سال کی عمر میں ان کی وفات ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ حضرت میر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کے نواسے اور حضرت قاضی محمد یوسف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق امیر جماعت صوبہ سرحد کے داماد اور محمد خواص خان صاحب آف پشاور کے بیٹے تھے۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند، خلافت سے گہرا عقیدت کا تعلق رکھنے والے، غریب پرور، نیک اور مخلص بزرگ تھے۔ نصرت جہاں سکیم کے تحت وقف کر کے یہ احمدیہ ہسپتال ٹیچیمان (Techiman)گھانا میں بھی گئے۔ وہاں انہوں نے کچھ عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ گھانا سے واپس آنے کے بعد ان کو اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں احمدی ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر میڈیکل کیمپ لگانے کی توفیق ملتی رہی۔

یوکے شفٹ ہونے پر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے زمانے میں بھی خطبات جمعہ کی ٹرانسلیشن اور خلاصے بنانے کی خدمت بخوبی سرانجام دیتے رہے۔ قرآن کریم سے محبت تھی۔ باقاعدگی سے قرآن کریم غور و تدبر سے پڑھتے۔ اپنے بچوں کو بھی ترجمہ سکھایا۔ چھوٹی عمر میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک دَور میں ان کو لمبا عرصہ قادیان میں جا کر وقت گزارنے کا موقع ملتا رہا۔ بہت ساری تقریریں حضرت مصلح موعودؓ کی زبانی یاد تھیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے بعض حوالے بڑے یاد تھے، نظمیں یاد تھیں۔

مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور چھ بیٹیاں ہیں۔ ان کے داماد ڈاکٹر مُسَلَّم الدروبی صاحب ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز تہجد کے پابند تھے۔ ایک معصوم اور مومن انسان تھے۔ متقی شجاع اور بہادر انسان تھے۔ خلافت اور جماعت سے غیر معمولی محبت رکھتے تھے۔ میں نے ان سے خلفاء کی محبت جیسی قیمتی چیز سیکھی ہے۔ مرحوم کو تبلیغ کابھی بہت شوق تھا اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ مُسَلَّم صاحب کہتے ہیں کہ جب میں سیریا اور اردن میں تھا اور مرحوم جب بھی میرے پاس تشریف لاتے تو میں دیکھتا کہ بہت جلد میرے ہمسایوں کے بہت اچھے دوست بن جاتے نیز میرے گارڈز یا ملازمین وغیرہ سے بہت اچھا تعلق بنا لیتے، ان کو احمدیت کے بارے میں بتاتے رہتے۔

ان کی اہلیہ زبیدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ خلافت ثالثہ کے دَور میں نصرت جہاں سکیم کے تحت ان کو مغربی افریقہ جانے کا حکم ہوا تو کامل اطاعت کے ساتھ فوری طور پر تیار ہو گئے۔ کہتی ہیں اتنی جلدی تیار ہوئے کہ مجھے بھی اس کی بڑی حیرت ہوئی۔ کہتی ہیں ہماری بیٹی دو ماہ کی تھی لیکن آپ نے کہا کہ امام کا حکم ہے فوری تیاری کی جائے چنانچہ ہم چاروں بچوں کے ساتھ ربوہ پہنچے۔ حضور رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی، ہدایات حاصل کیں اور واپس بنوں آکر چھٹی کی درخواست دی اور دعائیں بھی مانگنی شروع کر دیں کیونکہ اس وقت حکومت کی طرف سے ڈاکٹروں کے باہر جانے پر پابندیاں تھیں اور وہ بھٹو صاحب کا دَور تھا۔ لیکن بہرحال ان کو اجازت مل گئی اور یہ چلے گئے۔

باجماعت نمازوں کے قیام کے لیے جتنی بھی مشکلات پیش آئیں ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ کسی طرح یہ حل ہوجائیں اور پھر ان کو اللہ تعالیٰ حل کروا دیتا تھا اور ان کو باجماعت نمازوں کی توفیق ملتی رہی۔ کہتی ہیں جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں گاڑی کی توفیق دی تو آتے جاتے اپنے دوستوں کو بھی مسجد میں لے آتے اور لےکےجاتے اور اس بات پہ بڑے خوش ہوتے۔ مسجد فضل کے قریب گھر ملا تو اس بات پر خوشی تھی کہ آپ پانچ نمازیں مسجد جا کر ادا کریں گے۔ خدمت دین کا ہر ذریعہ اور ہر طریقہ استعمال کرتے۔ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ چندوں کی ادائیگی بروقت کرتے اور اسی کی تلقین ہم سب کو کرتے رہتے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک جنازہ غائب

بھی ہے جو

مکرمہ وسیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر شفیق سہگل صاحب

کا ہے۔ شفیق سہگل صاحب سابق امیر جماعت ضلع ملتان رہے ہیں پھر نائب وکیل التصنیف بھی رہے ہیں۔ ان کی انانوے(۸۹)سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحومہ موصیہ تھیں۔ شوہر کے علاوہ پسماندگان میں تین بیٹے ہیں۔ ان کے شوہر ڈاکٹر محمد شفیق سہگل صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کی اہلیہ حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی اور جسٹس شیخ بشیر احمد صاحب مرحوم لاہور کی بیٹی اور سیدہ ام وسیم صاحبہ کی بھانجی تھیں۔ خلافت سے ہر دَور میں ان کا گہرا تعلق رہا اور بہت وفا کے ساتھ ہر دَور میں خلافت کے ساتھ وابستہ رہیں۔

ان کے پوتے محی الدین صاحب کہتے ہیں میری دادی میں قربانی کا خاص مادہ تھا۔ روحانی خزائن کا بہت مطالعہ کرتیں۔ کہتے ہیں کہ میرے دادا چونکہ وقف زندگی ہیں تو ایک بار میں نے پوچھاکہ کیا آپ بھی وقف ہیں؟ تو اس پر جواب دیا کہ خلفاء یہی کہتے ہیں کہ واقفین زندگی کی بیویاں بھی وقف ہوتی ہیں۔

عائشہ ان کی بہو اور بھتیجی بھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میری پھوپھی ایک ہردلعزیز شخصیت کی مالک تھیں۔ لجنہ میں جو عہد دہرایا جاتا ہے کہ میں اپنی جان، مال، وقت اور اولادکو قربان کرنے کے لیے تیار رہوں گی وہ اس کی عملی مثال تھیں۔کہتی ہیں میری شادی کے بعد انہوں نے بہت سارے تربیتی امور میں میری راہنمائی کی۔ مجھے قرآن کریم کا لفظی ترجمہ بھی سکھایا۔

پھرز کیہ ان کی بھانجی ہیں اور بہو بھی ۔کہتی ہیں میری خالہ غریب پرور اور مثالی خاتون تھیںہر ایک سے محبت کرنے والی۔ خاوند کی کبھی کوئی بات رد نہیں کی۔ ایسی نافع الناس وجود تھیں جو لوگوں کے کام آنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ نعیمہ جمیل صاحبہ ان کی ہمشیرہ ہیں وہ کہتی ہیں میری ماں کی طرح شفیق تھیں۔ میں پچاس سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تو اُن کو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے فرشتہ بنا دیا۔ ہمیشہ ہر طرح سے میری مدد کی اور راہنمائی کی۔ پھر کہتی ہیں کہ عبادت گزار تو تھیں ہی حقوق العباد میں بھی کئی بچیوں کی شادی کی ذمہ داری اٹھائی۔ کسی غریب دیہاتی کو بھی اپنےسےکم تر نہیں سمجھا۔ محتاج ملازمین کی مالی معاونت کی بھرپور کوشش کرتی تھیں۔

اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button