حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نیک نیتی سے اس کی راہ میں خرچ کرو

…اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی ضمانت ہے کہ تمہیں کیا پتہ تم سے کیا کیا اعمال سرزد ہونے ہیں، کیا کیا غلطیاں اور کوتاہیاں ہو جانی ہیں۔ لیکن اگرتم نیک نیتی سے اس کی راہ میں خرچ کروگے تو یہ ضمانت ہے کہ اعمال کے پلڑے میں جوبھی کمی رہ جائے گی توچونکہ تم نے اللہ کی را ہ میں خرچ کیا ہوگا تو کبھی نہیں ہو سکتاکہ تم پرظلم ہو، اس وقت کمیوں کو اسی طرح پورا کیا جائے گا اور کبھی ظلم نہیں ہوگا۔

اس بارہ میں ایک اور روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والا اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سایہ میں رہے گا‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۴۸)

لیکن شرط یہ ہے کہ یہ خرچ کیاہوامال پاک مال ہو، پاک کمائی میں سے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اتنے اجر اگر لینے ہیں اور اپنے مال کے سائے میں رہناہے تو گند سے تو اللہ تعالیٰ ایسے اعلیٰ اجر نہیں دیا کرتا۔ اور جن کا مال گندا ہو ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے نہیں ہوتے اور اگر کہیں خرچ کر بھی دیں۔ اگر لاکھ روپیہ جیب میں ہے اور ایک روپیہ نکال کر دے بھی دیں گے تو پھر سو آدمیوں کو بتائیں گے کہ مَیں نے یہ نیکی کی ہے۔ لیکن نیک لوگ، دین کا درد رکھنے والے لوگ، جن کی کمائی پاک ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہواور اللہ تعالیٰ بھی ان کی بڑی قدر کرتاہے۔ جیساکہ حدیث میں آتاہے کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا : جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی۔ اور اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتاہے، تواللہ تعالیٰ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہوجائے گی۔ جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتاہے یہاں تک کہ وہ ایک بڑا جانور بن جاتاہے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ باب الصدقۃ من کسب طیب)

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۹؍جنوری ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۵؍مارچ ۲۰۰۴ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button