دورہ جرمنی اگست؍ ستمبر ۲۰۲۳ء

سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۹؍ ستمبر ۲۰۲۳ء بروز ہفتہ) (قسط اوّل)

(رپورٹ:عبدالماجد طاہر۔ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد)

٭… مسجد نور Frankenthal کا افتتاح

٭… حضور انور کا مسجد نور کے افتتاح کے حوالہ سے خصوصی تقریب میں خطاب

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح پانچ بج کر پچاس منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مرکزی دفاتر، اسی طرح مختلف ممالک کی جماعتوں سے موصول ہونے والے خطوط، رپورٹس اور دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

فیملی ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج صبح کے اس سیشن میں ۳۸؍فیملیز کے ۱۴۳؍افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔

ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی مختلف۱۳؍ جماعتوں سے آئی تھیں اور ان میں سے بعض بڑے لمبے سفر طے کر کے اپنے آقا سے ملاقات کے کے لیے پہنچی تھیں۔

Köln سے آنے والی ۱۹۰؍کلومیٹر، Stuttgart سے آنے والی ۲۲۰؍کلومیٹر جب کہ Friedberg سے آنے والی ۲۸۰؍کلومیٹر اور میونخ سے آنے والی قریباً ۴۰۰؍کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچی تھیں۔

جرمنی کی ان جماعتوں کے علاوہ پاکستان، بینن(Benin)، مالی (Mali) اور برکینافاسو (Burkina Faso) سے آئےہوئے احباب اور فیملیز نے بھی اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ ان سبھی فیلیز اور احباب نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرا م دو پہر ایک بج کر تیس منٹ تک جاری رہا۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

مسجدنور Frankenthalکا افتتاح

آج جماعت Frankenthal میں نئی تعمیر ہونے والی ’مسجدنور‘ کے افتتاح کا پروگرام تھا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ چار بج کر پندرہ منٹ پر اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور دعا کروائی۔اور بعد ازاں Frankenthalکے لیے روانگی ہوئی۔ بیت السبوح فرنکفرٹ سے اس شہر کا فاصلہ ۹۵؍کلومیٹر ہے۔ قریباً پچاس منٹ کے سفر کے بعد پانچ بج کر پانچ منٹ پر جب شہر کی حدود میں داخل ہوئے تو علاقہ کی مقامی پولیس نے قافلہ کوescort کیا۔

آج کا یہ انتہائی مبارک دن احباب جماعت Frankenthal کے لیے بہت خوشیوں اور سعادتوں سے معمور دن تھا۔ ان کے شہر میں دوسری بار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز کے مبارک قدم پڑے تھے اور یوں ان کے شہر کی سر زمین دوسری بار حضور انور کے مبارک وجود سے فیضیاب ہوئی۔ قبل ازیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳۰؍ اگست ۲۰۱۶ء کو یہاں تشریف لا کر اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گاڑی سے باہر تشریف لائے تو احباب جماعت نے انتہائی والہانہ انداز میں اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔ احباب نعرے بلند کر رہے تھے۔ بچے اور بچیاں گروپس کی صورت میں دعائیہ نظمیں اور خیر مقدمی گیت پیش کر رہی تھیں۔ ہر کوئی اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے خوشی کا اظہار کر ر رہا تھا۔ خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہو رہی تھیں۔ حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو السلام علیکم کہا۔

اس موقع پر صدر جماعت Frankenthal فراز احمد کامران صاحب، ریجنل امیر طارق سہیل صاحب، ریجنل مربی مصور شمس صاحب اور مقامی مربی سلمان اختر صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد کے مردانہ حصّہ میں تشریف لے آئے اور نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں۔ جس کے ساتھ ہی اس مسجد کا باقاعدہ افتتاح عمل میں آیا۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے احباب میں رونق افروز رہے۔ حضور انور نے جماعت کی تجنید کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ صدر صاحب جماعت نے بتایا کہ ہماری تجنید ۳۳۷؍ کے قریب ہوچکی ہے۔

حضور انور نے دریافت فرمایا کہ نئے لوگ کون کون سے آئے ہیں؟ اس پر ایک دوست نے بتایا کہ وہ سات ماہ قبل شاہ پور سے آئے ہیں۔ ایک نوجوان نے عرض کیا کہ وہ کنری (سندھ) کے پاس محمود آباد سے آئے ہیں۔ یہاں ابھی کیس پاس نہیں ہوا۔ انہوں نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی۔

ایک دوست نے عرض کیا کہ وہ جمال پور سندھ سے آئے ہیں۔

ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ ربوہ سے آیا ہے۔ ساری فیملی آئی ہے اس موقع پر اس کے والد صاحب کھڑے ہوئے اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں مرزا نصیر احمد کاکا ہوں اور یہ نوجوان میرا بیٹا ہے۔ اس پر حضور انور نے ازراہ شفقت فرمایا ’’کاکا اتنا بوڑھا ہو گیا ہے!‘‘۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز خواتین کے ہال میں تشریف لے آئے۔ جہاں خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں اور بچیوں نے دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ حضور انور نے بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

اس کے بعدحضور انور نے ملٹی پرپز ہال کا معائنہ فرمایا۔ ایک طرف بچے ایک قطار میں کھڑے ہو چکے تھے۔ حضور انور نے ازراہ شفقت ان تمام بچوں کو بھی چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

بعد ازاں حضور انور نے مسجد کے بیرونی صحن میں اخروٹ کا پودا لگایا۔ علاقہ کے میئر اور اس کے چیف سیکرٹری دونوں نے مل کر بھی ایک پودا لگایا۔

اس کے بعد لوکل مجلس عاملہ کے ممبران اور مسجد کی تعمیر میں وقار عمل کرنے والے احباب نے بھی حضور انور کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت پائی۔

مقامی جماعت نے ایک کیک تیار کیا ہوا تھا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت کیک کے مختلف حصے کیے۔

مسجد نور کے افتتاح کے حوالہ سے تقریب

’’مسجد نور‘‘ کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام مسجد سے چند کلو میٹر پر واقع ایک ہال میں کیا گیا تھا۔ یہ ہال مختلف فنکشنز اور تقریبات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسجد سے چھ بج کر بارہ منٹ پر روانہ ہو کر چھ بج کر بائیس منٹ پر اس ہال میں تشریف لے آئے۔

حضور انور کی آمد سے قبل اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ آج کی اس تقریب میں ۱۲۵؍مہمان شامل تھے۔ جن میں ممبر پارلیمنٹ، میئر، مقامی اور صوبائی سیاستدان مختلف حکومتی محکموں سے تعلق رکھنے والے افراد اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو حافظ ثاقب محمود صاحب نے کی اور اس کا جرمن زبان میں ترجمہ سفیر الحق رانا صاحب نے پیش کیا۔

اس کے بعد مکرم دائود مجوکہ صاحب نیشنل سیکرٹری امور خارجہ و پریس سیکرٹری نے نیشنل امیر صاحب کی نمائندگی میں تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

موصوف نے بتایا کہ اس شہر کی آبادی ۴۸؍ ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور تاریخ میں اس شہر کا پہلی بار ذکر ۷۷۲ء میں ملتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ شہر ۹۰؍ فیصد تباہ ہوگیا تھا۔بعد میں دوبارہ آباد ہوا۔

جماعت احمدیہ کا آغاز اس شہر میں اس طرح ہوا کہ سال ۱۹۸۴ء میں یہاں پاکستان سےتین احمدی آکر آباد ہوئے، جنہیں پاکستان میں مظالم کی وجہ سے ہجرت کرنا پڑی۔ شروع میں احمدی چھوٹے کمروں میں اپنے پروگراموں کے لیے اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ پھر سال ۲۰۰۰ء میں ایک نماز سینٹر کرائے پر لیا گیا۔

مسجد کی تعمیر کے لیے جماعت کو کافی مراحل سے گزرنا پڑا۔ بالآخر سال ۲۰۱۵ء میں تعمیر کی اجازت ملی، ۳۰ اگست ۲۰۱۶ء کو حضور انور نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ فروری ۲۰۲۲ء میں اس مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔

اکثر اوقات مسجد کی تعمیر کی وجہ سے ہمسایوں کی طرف سے مخالفت ہوتی ہے۔ لیکن Frankenthal میں ایسی مخالفت کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ ایک ہمسائے نے بتایا کہ جب اُسے مسجد کی تعمیر کے بارہ میں معلوم ہوا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا گھر فروخت کردے گا لیکن جب جماعت کے احباب سے واسطہ پڑا تو کافی مثبت اثر ہوا اور اُس نے اپنا ارادہ تبدیل کرلیا۔

مسجد کے اس قطعہ زمین کا رقبہ ۲۱۱۳؍ مربع میٹر ہے۔ یہ پلاٹ نومبر ۲۰۱۴ء میں خریدا گیا تھا۔ مردوں اور عورتوں کے لیے نماز کے ہالز کے علاوہ ایک ملٹی پرپز ہال بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا مجموعی رقبہ ۲۰۷؍ مربع میٹر ہے۔مینارہ کی اونچائی ۱۲؍ میٹر اور گنبد کا قطر ۶ میٹر ہے۔ اس مسجد سے ملحقہ ایک مربی ہائوس بھی تعمیر کیا گیا ہے۔

اس کے بعد Altصاحب جو کہ state secretaryہیں نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا : میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے آج مسجد کے افتتاح کی تقریب پر مدعو کیا۔ ایک مشہور مصنف نے کہا ہے کہ ’’ہر چیز کے آغاز میں ایک جادُو ہوا کرتاہے۔‘‘ یہ جادو تو آپ کی نئی مسجد میں پچھلے سال سے ہی اثر کر رہا ہے اور ابھی تک محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے اس مسجد کی تعمیر کے ذریعہ نہ صرف ایک پُر امن رہن سہن کی اہم بنیاد رکھی ہے بلکہ آپ لوگوں نے ایک اَور قدم آگے بڑھایا اور آج Frankenthal میں پہلی لکڑی کی بنی ہوئی مسجد موجود ہے۔ یہ ایک بہت بڑی ترقی ہے اور یہ بات اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ آپ بطور مذہبی جماعت آئندہ نسلوں کے بارہ میں بھی سوچ و بچار کرتے ہیں۔

اس کے بعد موصوف نے کہا کہ اِدھر کی صوبائی حکومت کے لیے یہ بات یقینی ہے کہ آپ بطور مسلمان ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ہم اسلامی فرقوں کے مسائل کو بھی اسی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں جیسے باقی مذہبی فرقوں کے مسائل ہیں۔ آج ہم یہاں اس لئے آئے ہیں کہ ہم اس مسجد کے افتتاح کو اچھی طرح منائیں۔ اس کے لیے میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور جماعت Frakenthal کو اچھے مستقبل کی دعا دیتا ہوں۔

بعد ازاں Prof. Grau صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا جو جرمن پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ موصوف نے کہا : میں حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو اور دیگر مہمانوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے اِس افتتاحی تقریب میں دعوت دی اور مجھے یہ موقع دیا کہ میں آپ کے خلیفہ کے سامنے کچھ اظہارِ خیال کرسکوں۔ میں خوش ہوں کہ آپ Frankenthalمیں ایک مسجد تعمیر کر کے اب اس کا افتتاح کر رہے ہیں اور میں آغاز میں آپ کی طرف سے معلومات مہیا کرنے کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں کیونکہ اس میں آپ نے خاص طور پر رواداری اور تعلیم کی اہمیت کے بارہ میں بتایا۔

اس کے بعد موصوف نے کہا : اسلام ہماری جرمن ثقافت کا حصہ ہے۔ اسی طرح دوسرے مذاہب بھی جو اپنے دین پر امن کے ساتھ چلتے ہیں۔ آپ کا دعوت نامہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ ’’ حقیقی مساجد بنائی جاتی ہیں تا کہ مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگوں میں امن قائم ہو۔‘‘ یہ الفاظ آپ کے خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد کے ہیں جو کہ ہر قسم کے مذہبی مواقع پر لاگو ہونے چاہئیں۔ دوسری طرف دہشت گردوں کے وہ حملے ہیں جو آپ کی مساجد پر ہورہے ہیں۔ دورانِ سال جنوری تا جولائی کے عرصہ میں گیارہ مساجد پر حملہ ہوچکے ہیں۔

آپ کی مسجد کا بہت خوبصورت اور روحانی نام ہےیعنی نوراور یہ مسجد لکڑی سے بنی ہے۔ اس طرح ہر لحاظ سے ترقی کی حامل ہے۔ آپ کے مطابق آپ کی یہ مسجد ملاقات اور آپس میں گفتگو کا مقام ہے اور اس طرح جمہوریت کو جگہ دیتی ہے۔ یہ باتیں قابلِ حمایت ہیں اور ہمارے جمہوری معاشرے کے عین مطابق ہیں۔ آپ کی جماعت کا نہ تو سیاست سے اور نہ کسی خاص نسل اور قوم سے تعلق ہے بلکہ یہ عالمی جماعت ہے۔ مجھے خوشی ہوئی یہ سن کر کہ آپ کو کھلے دل سے اس شہر نے جگہ دی اور اُس ہمسائے کا بھی واقعہ میرے دل میں رچ گیا ہے کہ جس نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ وہ کہیں اور منتقل ہوجائے لیکن پھر آپ کے بارہ میں جان کر اس نے اُدھر ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

آخر پر موصوف نے کہا: میری تمنا ہے کہ آپ کی جماعت آگے بھی فعال ہو کر سماجی اور معاشرتی زندگی میں حصہ لیتی رہے گی۔ اور یہ کہ آپ کی یہ نئی مسجد آپ کی جماعت کو مزید مضبوطی اور تقویت بخشے گی اور آپ اپنے مثبت اہداف کو حاصل کرتے ہوئے ہمارے ملک اور ہمارے علاقے کے معاشرے میں امن پھیلانے والے ہوں گے۔

اس کے بعد Frankenthal شہر کے میئرMartin Hebich صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ مئیر صاحب نے کہا: حقیقی مساجد بنائی جاتی ہیں تا کہ مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگوں میں امن کو فروغ دیا جائے۔ یہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ ہیں۔ ہم خوش ہیں کہ آپ نے اس مقصد کے لیے Frankenthal کا انتخاب کیا ہے۔ مجھے سنگِ بنیاد کی تقریب جو۲۰۱۶ءمیں ہوئی اچھی طرح یاد ہے۔ اس وقت سے جماعت Frankenthalنے بڑی محنت سے اس مسجد کی تعمیر کا کام سر انجام دیا۔

اس مسجد کا نام نور رکھا ہے۔ ایک نور جو ۴۰؍ سال پہلے ہی یہاں پر بطور شمع روشن ہونا شروع ہوا تھااور اب بھی اس کی شعاعیں پھیل رہی ہیں۔ ۱۹۸۴ء میں جماعتFrankenthalکے دس افراد تھے۔ تب سے یہ جماعت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور آج اس کے افراد کی تعداد تقریباً ۳۴۰؍ ہو چکی ہے۔ یہ مسجد وہ مقام ہے جہاں پر آپ اپنی عبادات بجالاتے ہیں۔

پھر موصوف نے کہا: امن کے ساتھ رہنا بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔ جس طرح ہمیں آج دنیا کے حالات سے معلوم ہوتا ہے۔ ان گنت لوگوں کو آج جنگ و جدل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بات قابلِ شرم ہے کہ آج سن ۲۰۲۳ء میں بھی بعض انسان ایسے ہیں جن کو اپنے مذہب کی وجہ سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کو بھی متعدد بار پاکستان اور دوسرے ممالک میں اس مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سیاق و سباق میں مَیں ضروری سمجھتا ہوں کہ اویغور کا بھی ذکر کروں جنہیں چین میں مخالفت کا سامنا ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں عیسائیوں کو بھی مخالفت اور ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہمیں ان یہودیوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جنہیں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جماعت احمدیہ کے ساتھ یک جہت ہو کر اس مخالفت اور ظلم کے خلاف اقدامات اُٹھاتے رہیں۔ یہاں بھی ہم جماعت Frankenthal کے ساتھ سالوں سے امن میں اکٹھے رہ رہے ہیں اور جماعت کا نعرہ بھی یہی ہے کہ محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں۔ آپ اپنے نمونہ کے ساتھ دکھا رہے ہیں کہ کس طرح آپس میں پر امن رہن سہن ممکن ہے۔

اس کے بعد مئیر صاحب نے کہا کہ جو کوئی بھی عمارت بناتا ہے،وہ مستقل طور پر رہنا بھی چاہتا ہے۔ یہ قول میں نے سیاست دان Ignatz Bubisکا اِس مسجد کے سنگِ بنیاد پرکوٹ کیا تھا اور میں مشکور ہوں کہ آپ کی جماعت اب ۴۰؍ سال سے ہمارے شہر کا حصہ ہے۔ گو ہمارا معاشرہ مختلف ثقافتوں،مذاہب اور زبانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن پھر بھی ہم بطور مذہبی لوگ ایک ہی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ امن قائم کرنا۔ یہ ایسی تعلیمات ہیں جو ہمیں اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں مشترکہ طور پر ملتی ہیں۔ بے شک ہم آج ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں اور آپس کے تعلقات قائم ہیں۔ لیکن پھر بھی خاص طور پر آج کل کے حالات کے پیشِ نظر یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ پس ہم سب کی یہ معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم مل کر نفرت کے خلاف اقدامات اُٹھائیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا پُر امن رہن سہن مختلف اقوام یا تحفظات کی وجہ سے خراب ہو۔

آخر پر میئر صاحب نے کہا کہ محض بڑے اعمال ہی نہیں بلکہ چھوٹے کاموں کا بھی، جو دل سے کیے جائیں بڑا اثر ہوتا ہے۔ اور یہ تقریب بھی بڑی محبت سے منعقد کی گئی ہے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ مسجد نور کا آج افتتاح ہو رہا ہے۔ میں سب کا مشکور ہوں جنہوں نے ہمارا آنا ممکن کیا۔شکریہ۔

بعد ازاں شرجیل خالد صاحب مربی سلسلہ (شعبہ امورِ خارجیہ، جرمنی ) نے صوبہ رائن لینڈ ویسٹ فالیا (Rheinland Westphalia) کی وزیرِ اعلیٰ ’مالو درائیر‘ (Malu Dreyer) کی طرف سے موصولہ درج ذیل پیغام پڑھ کرسنایا؛

فرانکن تھال میں جماعت احمدیہ کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر میں آپ کو اور تمام جماعت احمدیہ کو مبارک باد پیش کرتی ہوں۔

مجھے افسوس ہے کہ دیگر مصروفیات کی بنا پرمیں خود افتتاح کے پروگرام میں شامل نہیں ہو سکتی۔ میری دعا ہے کہ مسجد نور سب لوگوں کے لیے جو یہاں آئیں ایک ایسا مددگار مقام بنے جہاں سے وہ کچھ لے کر جائیں اور یہ مقام مفید ملاقاتوں کا باعث بنے۔

اس مبارک باد کے اظہار کے ساتھ میں جماعت احمدیہ کی ان کوششوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتی ہوں جو آپ باہمی تعاون کے فروغ کے لیے کررہے ہیں اور نفرت اور تشدّد کے خلاف کررہے ہیں۔ شجر کاری ہو یا شہر میں ہونے والا روایتی دوڑ کا مقابلہ یا دیگر مواقع ہوں، آپ کی جماعت کے ارکان ان تمام پروگراموں میں فعال ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہزاروں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، ان لوگوں اور تارکین وطن کی امداد کے لیے میں آپ کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔

جماعت احمدیہ جرمنی میں سو سال سے قائم ہے۔ اس جوبلی کے موقع پر بھی میں آپ کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ اپنی طرف سے بھی اور اپنی صوبائی حکومت کے ممبران کی طرف سے بھی۔ مسجد کے افتتاح کی کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ حضرت مرزا مسرور احمد بھی اس اہم پروگرام میں بنفس نفیس شامل ہو رہے ہیں۔ یہ تمام فرانکن تھال اور صوبہ رائن لینڈ ویسٹ فیلیا کے شہریوں کے لیے عزّت افزائی کا باعث ہے۔

رائن لینڈ ویسٹ فیلیا کی حکومت کا یہ مطمح نظر ہے کہ تمام مسلمان مرد و خواتین معاشرے میں یکساں شراکت کو فروغ دیں۔ دس سال سے اسلام راؤنڈ ٹیبل ایک ایسا فورم ہے جہاں جماعت احمدیہ کے ممبران بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ ہم کئی سالوں سے اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ مسلمان جماعتوں سے تعلق و رابطہ کو آئینی اقدار کی بنیاد پر اور مذہبی جماعتوں کے قانون کی رُو سے ایک قانونی بنیادفراہم کی جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ وہ مسلمان جماعت ہے جن کے ساتھ ہم اس ضمن میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ آپ مذہب کی بنیاد پر اچھے باہمی تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں ہیں اور یہ ممکن بنا رہے ہیں کہ ہم عصرِ حاضر کے ہمہ گیر بحرانوں اور تغیّرات کا بہترین طریق سے مقابلہ کر نے کے قابل ہو جائیں۔

میں جماعت فرانکن تھال اور تمام احمدیہ مسلم جماعت جرمنی کے لیے روشن مستقبل اور تمام ممبرز کے لیے اچھی صحت، خوشی اور فلاح کی خواہشمند ہوں۔

خطاب حضور انور

بعدازاں پروگرام کے مطابق حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حاضرین سے سات بجے خطاب فرمایا۔

تشہد و تعوذ کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تمام معزز مہمانان، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! آج یہاں جو مختلف اظہار رائے کرنے والے تشریف لائے، ان میں سب سے پہلے داؤد مجوکہ صاحب ہیں، یہ ہمارے نیشنل امیر صاحب کے نمائندہ کے طور پر آج یہاں آئے ہیں۔ ہمارے یہاں کے امیر عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب مقامی جرمن ہیں، ان کی آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اس لیے آج نہیں آ سکے۔ بہرحال آج ان کی نمائندگی میں کچھ اظہار خیال کیا۔ فرینکن تھال کی تاریخ کے بارہ میں بھی بتایا۔ خدمت خلق کے کام کے بارہ میں بھی بات ہوئی۔ خدمت خلق کا کام جو ہے یہ صرف ہماری معاشرتی ذمہ داری نہیں بلکہ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔ اسلام کا حکم ہے کہ تم خدمت خلق کے کام کرو، محروموں، مسکینوں، مزدوروں، ضرورت مندوں کی خدمت کرو۔ شہر کے لوگوں کی خدمت کرو۔ اگر تم یہ کروگے تو پھر تمہاری عبادت کا معیار بھی ایسا ہو گا جو تمہارے رب کو پسند ہو گا اور خدا تمہاری ایسی عبادتوں کو قبول کرے گا۔ قرآن کریم میں یہ ذکر ہےکہ اگر تم لوگوں کے حق ادا کرنے والے نہیں، ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے والے نہیں،یتیموں کا خیال رکھنے والے نہیں، ہر قسم کی نیکی کی باتیں جس سے لوگوں کو فائدہ ہوسرانجام دینے والے نہیں تو پھر تمہاری عبادتیں بھی قبول نہیں ہوںگی تمہیں واپس کر دی جائیں گی۔ پس یہ ہماری تعلیم ہے۔ پس یہ تعلیم ہو اور دوسروں کو سمجھ آ جائے تو پھر ہو نہیں سکتا کہ ایسے شخص یا جماعت کی کوئی مخالفت کرنے والا ہو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جیسا کہ داؤد صاحب نے ذکر کیا لگتا ہے کہ اس شہر کے لوگوں میں فطرتاً سعادت ہےکہ یہاں کے شہری بلاوجہ کی مخالفت کرنے والے نہیں ہیں۔ اگر کسی کے دل میں ایسا کوئی خیال آیا بھی تو بجائے اس کے وہ کہے کہ میں مخالفت کروں گا اور کورٹ میں مقدمہ لے کر جاؤں گا، جیسا کہ بعض جگہ پر ہمارے ساتھ ہوا کہ شہری مخالفت کی بنا پر مقدمات کورٹ میں لے کر گئے اور کورٹ میں پھر ہمارے حق میں فیصلے بھی ہوئے، اس ہمسایہ نے یہ کہا کہ میں نے سوچا تھا کہ میں یہاں سے گھر چھوڑ کر کہیں اور چلا جاؤں۔ بہرحال یہ شہر کے لوگوں کی جو سوچ ہے میں اس کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور کونسل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس میں مددکی اور میئر صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

یہ شکریہ ادا کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ پس اسلام کا ہمیں یہ حکم ہے کہ جو لوگوں کا شکرگزار نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں ہو سکتا۔ پس جب ہم شکریہ ادا کرتے ہیں تو یہ صرف رسمی شکریہ نہیں بلکہ اس لیے شکریہ ادا کرتے ہیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔ یہی ایک حقیقی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس طریق پر اپنا رویہ رکھے اور زندگی گزارے جس سے وہ اپنے پیدا کرنے والے کو بھی راضی کرنے والاہو۔ ہمسایوں کے حق کا اس حد تک ذکر ہے، کئی جگہ میں بیان کر چکا ہوں، آپ کو بھی میں بتا دوں۔ بانیٔ اسلام حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم پر ہمسایوں کے اس قدر حقوق ہیں، جنہیں اگر تم ادا نہیں کرو گے تو گناہ گار ہوگے۔ صحابہؓ نے یہ اظہار کیا کہ آپ ﷺ نے ہمیں ہمسایوں کے حقوق کی اس قدر تلقین کی کہ ہمیں خیال آیا کہ ہمسائے ہمارے وراثت میں بھی حقدار نہ بن جائیں۔ قرآن کریم بھی یہی تعلیم دیتا ہےکہ تم اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو، پھر ہمسایوں کی بڑی وسیع تعریف کی کہ تمہارے گھروں کے ساتھ رہنے والے تمہارے ہمسائے ہیں، تمہارے ساتھ سفر کرنے والے تمہارے ہمسائے ہیں، تمہارے ساتھ کام کرنے والے تمہارے ہمسائے ہیں، تمہارے ماتحت بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں، اس لیے ان سب سے ایسا سلوک کرو جو ان کا حق ہے۔ گھروں میں بھی صرف ساتھ والا گھر ہمسایہ نہیں بلکہ چالیس گھروں تک تمہارے ہمسائے ہیں۔ جب اتنی وسعت ہمسائے کو دے دی جائے تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ فتنہ فساد پیدا ہو سکے۔ پس ہر احمدی کا یہ فرض بنتا ہے کہ جہاں بھی وہ جائے اس گہرائی میں جا کر اپنے ہمسائے کا حق ادا کرے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

منسٹری آف ہیلتھ کے سٹیٹ سیکرٹری آئے۔ انہوں نے بھی بڑی اچھی باتیں کی، میں ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جو باتیں انہوں نے بتائیں تو اصل اسلام تو یہ ہی ہے کہ ملک کے لیے ملک کے شہری کو پورا تعاون کرنا چاہیے اور ملک کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ہمیں تو بانیٔ اسلام ﷺ نے یہ بتایا کہ ملک کی محبت تو ایمان کا حصہ ہے۔ پس ایمان کے لحاظ سے بھی یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے وطن سے محبت کریں۔ جب ملک سے محبت ہو گی تو پھر انسان اس کی خاطر ہر قربانی کے لیے بھی تیار ہوگا۔ اس لیے یہ ہو نہیں سکتا کہ جب مسلمان یہاں آئیں اور آباد ہوں اور وہ حقیقی مسلمان ہوں، یہاں آباد ہوں اور پھر اس ملک کا حصہ بن جائیں، اس ملک سے فائدہ اٹھانے والے ہوں، وہ صرف فائدہ اٹھاتے جائیں اور اس کی خاطر قربانی کرنے والے نہ ہوں۔ ایسا نہیں ہو سکتا، محبت تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کے لیے پھر قربانی بھی کی جائے۔ اور یہ قربانی ہے جو ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اس ملک کے قانون کی پابندی بھی کریں۔ ہر لحاظ سے ملکی قانون کی پابندی کریں اور ملک میں امن، محبت اور آشتی کی فضاقائم کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے ہمسایوں کے بھی حق ادا کریں اور اپنے قانون کے بھی حق ادا کریں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسی طرح ممبر آف پارلیمنٹ نے امن کی بات کی۔ امن یقیناً اس زمانہ کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ ہم حکومت کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں اجازت دی اور اجازت یقیناً یہ بات سوچ کر دی گئی ہو گی کہ ہم امن پسند اور امن کو پھیلانے والے لوگ ہیں۔ مسجد میں آنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جہاں تم ایک خدا کی عبادت کرتے ہو، وہاں اس کی مخلوق کے حق بھی ادا کرنے کی کوشش کرو۔ جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ اگر مخلوق کے حق ادا نہیں ہو رہے تو پھر عبادتیں بے فائدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مجھے تمہاری ایسی عبادتوں کی کوئی قدر نہیں،پس جب یہ سوچ ہو گی تو پھر ایسے شخص اور جماعت سے صلح، امن اور آشتی کا پیغام ہی ملے گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

مسجد کا نام مسجد نور رکھا گیا ہے۔ ممبر آف پارلیمنٹ نے بھی اس کا ذکر کیا۔ قرآن کریم بھی یہ کہتا ہےکہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے۔ دوسرا حکم ہمیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات ہیں، وہ بھی ایک انسان کو جس کا مذہب سے تعلق ہے، اپنانی چاہئیں۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی صفت نور ہے تو پھر ہر سچے احمدی مسلمان کو اس نور کو آگے دنیا میں پھیلانا ہے اور وہ نور یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے اور ا س کی تعلیم کے مطابق عمل کرتے ہوئے دنیا کو بتایا جائے کہ حقیقی اسلامی تعلیم کیا ہے اور مذہب کیا ہے۔ مذہب رنجشوں، چپقلشوں اور لڑائیوں کی تعلیم نہیں دیتا۔ مذہب تو امن، صلح، پیار، محبت اور آشتی کی تعلیم دیتا ہے۔ پس جب یہ سوچ ہو جائے تو پھر اس سوچ کے ساتھ سوائے امن کے اور کچھ نظر آ ہی نہیں سکتا۔ پس یہ ہے وہ سوچ اور اصول جس پر ہم چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ ہے وہ تعلیم جس پر ہم عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

لارڈ میئر صاحب نے بھی امن اور مسجد کے حوالہ سے بات کی۔ میں پہلے بھی یہ بات بتاتا رہتا ہوں اور آج پھر اس بات کا اعادہ کر دوں کہ مسجد میں آنے والا، حقیقی مسلمان جو اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے والا ہے، کیوں امن سے رہتا ہے۔ کیوں ہر مذہب کی عزت کرتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہم یہ ماننے والے ہیں کہ ہر مذہب سچا ہے۔ ہر مذہب کا بانی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا۔ ہر مذہب پیار و محبت کی تعلیم پھیلانے کے لیے آیا۔ پھر اسلام میں جہاں مذہبی جنگوں کی اجازت دی گئی تو اس لیے اور قرآن کریم میں اس بارہ میں بہت واضح لکھا ہوا ہے کہ ایک لمبے عرصہ کی پرسیکیوشن کے بعد جب بانی اسلام حضرت محمد ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو کافروں اور بت پرستوں نے وہاں بھی ان کا پیچھا کیا۔ اس وقت قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہواکہ ان کا جواب اس طرح ہی دو جو ان کا طریقہ ہے، اگر یہ جنگ کرتے ہیں تو پھر تم بھی جنگ کرو اور یہ کیوں کرو پھر اس کی وضاحت دی کہ اگر اب ان ہاتھوں کو نہ روکا تو پھر کوئی مذہب دنیا میں باقی نہیں رہے گا۔ نہ کوئی چرچ باقی رہے گا، نہ کوئی synagogue باقی رہے گا، نہ کوئی ٹمپل باقی رہے گا، نہ کوئی مسجد باقی رہے گی۔ پس جب مسجد بنتی ہے تو اس کے ساتھ ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہم نے دوسرے مذاہب کی عمارتوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ پس یہ سوچ ایک حقیقی مسلمان کی ہونی چاہیے۔ اگر یہ نہیں تو پھر اس میں اسلام کی حقیقی تعلیم کا اظہار نہیں ہے۔ لارڈ میئر صاحب نے دوبارہ مسجد نور کے حوالہ سے توجہ دلائی ہے۔ اس لحاظ سےمیں اپنے احمدیوں کو بھی کہوں گا اور اس بات کا آپ کے سامنے بھی اظہار کر دوں کہ اس نام کی لاج رکھیں اور اس مسجد سے اس نور کو اس علاقہ میں پھیلانے کی کوشش کریں۔ اسلام کی امن اور صلح کی جو تعلیم ہے وہ دنیا کو بتائیں اور اس پر دنیا کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ آجکل اس زمانہ میں صلح کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ امن کی بہت زیادہ ضرورت ہے، جنگوں سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہم بڑی تیزی سے جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بہت سوچنا چاہیے اور اس سے بچنے کے طریقہ یہی ہے کہ ہم معاشرہ میں ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے ظلم اور تشدّد سے پاک ہوں۔ قرآن کریم تو ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دُور نہ کرے۔ انصاف قائم کرو یہی تقویٰ ہے۔ پس جب ہم اس تعلیم پر عمل کریںگے تو پھر اس سے امن کی تعلیم پھیلے گی۔ اس سے معاشرہ میں وہ نور پھیلے گا جو امن اور سلامتی دینے والا ہو گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں جہاں ہم مسجدیں بناتے ہیں وہاں بلا امتیاز ہر مذہب اور قوم کے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ وہاں سکول بھی کھولے، ہسپتال بھی کھولے، ماڈل ولیجز بھی بنائے تا کہ بنیادی سہولیات مہیا کریں۔ پینے کا پانی بھی میسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ہم خدمت کرتے ہیں تا کہ دنیا میں ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں کے لوگوں کو سہولتیں میسّر آئیں۔ جب دنیا میں سہولتیں میسر آ جائیں، ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تو پھر سوچ بدل جاتی ہے۔ پھر لڑائی اور جھگڑے کی طرف سوچ نہیں جاتی بلکہ امن اور محبت اور پیار کی طرف سوچ جاتی ہے۔ اس لیے ہم یہ کام کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں، ہم یہ سوچ رکھتے ہیں کہ حقیقی نور کا اظہار تب ہی ہو سکتا ہے، جب ہم اس روشنی کو لوگوں کے دلوں میں بغیر کسی لالچ کے پہنچانے والے ہوں۔ مقصد تو یہ ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں۔ یہ بہت بڑا مقصد ہے جس کے لیے ہم کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ نہیں کہ اس کے لیے ہمیں کوئی لالچ ہے۔ ہم نے کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنا ہے، نہیں۔ مقصد تو صرف یہ کہ بندہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگے اور جب وہ پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگے گا تو پھر وہ دنیاوی آسائشیں، دنیاوی چاہتیں، دنیاوی خواہشات ہیں، ان پر عمل کرنے یا ان کی خواہش کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کرے گا بلکہ وہ یہ چاہے گا کہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان کر، اس کی باتوں پر عمل کر کے اور اس کو جان کر، اس کا پیار حاصل کرنے کی کوشش کروں تاکہ اس مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی میرا انجام اچھا ہو۔ جماعت احمدیہ اس مقصد کو حاصل کرنے کی ہر جگہ کوشش کرتی ہے۔ میئر صاحب نے یہ دعا کی کہ یہ شہر جو ہے یہ امن کا شہر بن جائے، ہر شہری یہاں امن سے رہے۔ میری بھی یہ دعا ہے کہ نہ صرف یہ شہر امن سے رہنے والا ہو بلکہ یہ ملک بھی ایسی جگہ بن جائے جہاں ہر شہری امن سے رہنے والا ہو، بلکہ یہ دنیا بھی ایسی جگہ بن جائے جہاں امن ہو۔ آج کل دنیا میں جو جنگیں چل رہی ہیں، وہ بڑے خوفناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔ اگر یہ پھیلتی گئیں، جس کا امکان بڑا واضح ہےتو پھر خوفناک نتائج پیدا ہونگے۔ اور پھر جو ہتھیار ہمارے پاس ہیں جو جنگوں میں استعمال ہو سکتے ہیں جو ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو اپاہج کر دیںگے۔ معذور بچے پیدا ہوںگے۔ کروڑوں لوگ اس دنیا سے چلے جائیں گے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم آپس میں چھوٹے پیمانے پر بھی اور بڑے پیمانے پر بھی امن، پیار اور سلامتی سے رہنے کی کوشش کریں اور اپنی حکومتوں کو بھی اس طرف توجہ دلائیں۔ حکومت کے نمائندگان بھی یہاں بیٹھے ہیں، ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ اس طرف توجہ کریں کہ امن اور سلامتی کی فضا دنیا میں قائم کریں تا کہ دنیا عالمگیر جنگ سے بچ سکے تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا ورثہ چھوڑ کر جائیں جو مفلوج لوگوں کی صورت میں نہ ہو، جو تباہ شدہ اکانومی کی شکل میں نہ ہو، جو شہروں کی ویرانگی کی صورت میں نہ ہو۔ بلکہ خوشی کا ماحول ہواور وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہےجب ہم اس مقصد کو بھی سمجھیں جو ہمارا پیدا ہونے کا مقصد ہے اور وہ یہی ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی دے اور میں احمدیوں سے بھی کہتا ہوں جو یہاں رہنے والے ہیں کہ پہلے سے بڑھ کر اس پیغام کو اس شہر میں پھیلائیں اور اس ملک میں بھی پھیلائیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسی طرح میں وزیر اعلیٰ صاحبہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے پیغام بھیجااور نیک جذبات کا اظہار کیا۔ جس محبت سے انہوں نے ہمارے بارہ میں باتیں کی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا دے۔ شکریہ۔ السلام علیکم

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ خطاب سات بجکر 23 منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

دعا کے بعد تمام مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیاگیا۔

بعدازاں پروگرام کے مطابق آٹھ بجے یہاں سے واپس بیت السبوح کے لیے روانگی ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد نو بجے حضورانورا یدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بیت السبوح میں تشریف آوری ہوئی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز مغر ب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button