خلاصہ خطبہ جمعہ

آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ کے بعض پہلوؤں کا بیان، غزوۂ بنو قینقاع کی تفصیلات نیز اسرائیل حماس جنگ کے پیش نظر دعاکی مکررتحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… راتوں کي دعائيں ہي ہيں جو اللہ تعاليٰ کے فضل کو زيادہ کھينچتي ہيں، اور آج کل تو دنيا کو تباہي سے بچانے کے ليے ان کي زيادہ ضرورت ہے

٭… يہود ميں سے سب سے پہلے جس قبيلے نے معاہدے کي خلاف ورزي کي وہ بنو قينقاع تھے

٭… بنو قینقاع کی سزا ان کےجرم کے مقابلے ميں، نيز اس دور کو ملحوظ رکھتے ہوئے ايک بہت نرم سزا تھي جس ميں خود حفاظتي کا پہلو پيشِ نظر تھا
ورنہ عرب کي خانہ بدوش اقوام ميں نقل مکاني کوئي بڑي بات نہ تھي

٭… اسرائیل حماس جنگ کے پیش نظر دعا کی مکرر تحریک

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍اکتوبر۲۰۲۳ء بمطابق۲۷؍اخا ء۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۷؍اکتوبر۲۰۲۳ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاورسورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ذکر ہو رہا تھا۔ روایات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیٹی اور داماد کو تہجد کی نماز کی طرف توجہ دلانے کا بخاری میں یوں ذکر ہے کہ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا تم لوگ نماز (تہجد) نہیں پڑھتے؟ تو اس پر حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ ہماری جان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جب وہ چاہتا ہے تو ہمیں اٹھاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا اور واپس تشریف لے گئے، اور واپس جاتے ہوئے فرما رہے تھے کہ انسان سب سے بڑھ کر بحث کرنے والا ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس واقعے کا ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ ایک موقعے پر جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا جواب دیا جس میں بحث اور مقابلے کا طرز پایا جاتا تھا تو بجائے اس کے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوتے یا خفگی کا اظہار کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علیؓ شاید اپنی عمر کے آخر تک اس کی حلاوت سے مزا اٹھاتے رہے ہوں گے۔ انہوں نے جو لطف اٹھایا ہوگا وہ تو انہی کا حق تھا، اب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اظہارِ ناپسندیدگی کو معلوم کرکے ہر ایک باریک بین محوِ حیرت ہوجاتا ہے۔ فرمایا:حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا کہہ دینا اپنے اندر ایسے ایسے منافع رکھتا تھا کہ اس کا عشرِ عشیر بھی کسی اور کی سَو بحثوں سے بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ

یہ واقعہ ہمیں تہجد کی ادائیگی کے حوالے سے یاد رکھنا چاہیے اور خاص طور پر مربیان اور واقفینِ زندگی اور عہدے داران کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ راتوں کی دعائیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ کھینچتی ہیں، اور آج کل تو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ان کی زیادہ ضرورت ہے۔

اس کے بعد واقعات میں غزوہ بنو قینقاع کا ذکر آتا ہے۔ یہ غزوہ دو ہجری میں ہوا۔ جب

اسلام کی آمد سے اوس اور خزرج دونوں قبائل پرانی دشمنیوں کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہوگئے تو یہ یہود کو اچھا نہ لگا اور یہود نے مختلف سازشوں کے ذریعے انہیں دوبارہ ایک دوسرے کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔

ایسے ہی ایک موقعے پر اوس اور خزرج کے لوگوں میں بحث و تکرار اس قدر بڑھی کہ نوبت جنگ کی تیاری تک جا پہنچی۔ قریب تھا کہ یہ خون ریز جنگ شروع ہوجاتی مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ساری صورتِ حال کی اطلاع پہنچ گئی۔ خبر سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے اور بڑے حکیمانہ انداز میں فریقین کو سمجھایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا ایسا زبردست اثر ہوا کہ لوگوں نے رونا شروع کردیا اور اوس اور خزرج کے وہ لوگ جو مرنے مارنے کو تیار تھے ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔

غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی تو یہود کی سرکشی کھل کر سامنے آگئی۔

یہاں تک کہ یہود نے کہنا شروع کردیا کہ آپ نے ایک ایسی قوم کو جنگ میں شکست دی ہے جو جنگ کے فن سے ناواقف تھی۔ اگر ہم سے آپ کی جنگ ہوئی تو آپ کو پتا لگے گا کہ مرد تو ہم ہیں۔ یہود میں سے سب سے پہلے جس قبیلے نے معاہدے کی خلاف ورزی کی وہ بنو قینقاع تھے۔

بنو قینقاع کی شرارتوں کے حوالے سے ایک واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ ایک مسلمان عورت ایک مرتبہ بنو قینقاع کے بازار میں گئی تو وہاں کچھ اوباش لوگوں نے اسے تنگ کیا اور ایسی مذموم حرکت کی کہ وہ معصوم عورت بےلباس ہوگئی۔ پاس ہی

ایک مسلمان شخص گزر رہا تھا جب اس نے یہ منظر دیکھا تو اس نے حملہ کرکے ایک شریر یہودی کو قتل کردیا۔

اس پر باقی یہودی اس مسلمان پر ٹوٹ پڑے اور اسے قتل کر ڈالا۔ جب یہ خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا کہ ایسی حرکتوں کے لیے ہمارا اور ان کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! مَیں اللہ اور اس کے رسولؐ کا ساتھی ہوں اور ان کافروں کے ساتھ معاہدے سے بری ہوتا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن بجائے سمجھنے کے انہوں نے مسلمانوں کو کھلی دھمکی دینی شروع کردی۔ اس کے بعد یہود وہاں سے جاکر قلعہ بند ہوگئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف روانہ ہوگئے۔ بنو قینقاع کا پندرہ دن تک محاصرہ کیا گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوے کے لیے ۱۵؍ شوال کو روانہ ہوئے اور ذوالقعدہ کے چاند تک وہیں رہے۔

بنو قینقاع میں چار سَو جنگ جُو تھے جو قلعے کی حفاظت پر مامور تھے۔ اس محاصرے سے تنگ آکر یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارا راستہ چھوڑ دیا جائے تو ہم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مدینے سے جلا وطن ہوکر ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے اور ہمارا مال و اسباب مع ہتھیار سب آپ کا ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی یہ بات قبول فرمالی اور بنو قینقاع کو مدینے سے چلے جانے کا حکم دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قینقاع کو جلاوطن کرنے کی ذمہ داری عبادہ بن صامتؓ کے سپرد فرمائی اور تین دن میں مدینے سے نکل جانے کی مہلت دی۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ غزوہ بنو قینقاع کے حوالے سے یہود کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برتاؤ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معاہدے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر یہود کی دلداری کا خیال رکھتے۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں اختلاف ہوگیا۔ یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی۔ اس پر مسلمان نے یہودی سے کچھ سختی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الرسل بیان کیا۔ جب یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کی ملامت فرمائی اور اسے کہا کہ تمہارا یہ کام نہیں کہ تم رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کرتے پھرو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک جزوی فضیلت بیان کرکے اس یہودی کی دلداری فرمائی۔

اس طرح کے دلدارانہ سلوک کے باوجود یہودی اپنی شرارتوں میں ترقی کرتے چلے گئے اور بالآخر جنگ تک نوبت پہنچ گئی۔

بنو قینقاع کی جلاوطنی کے حوالے سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سزا بنو قینقاع کے جرم کے مقابلے میں، نیز اس دور کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک بہت نرم سزا تھی۔ اس سزا میں خود حفاظتی کا پہلو پیشِ نظر تھا ورنہ عرب کی خانہ بدوش اقوام میں نقل مکانی کوئی بڑی بات نہ تھی۔

غزوہ بنو قینقاع کی تاریخ کے متعلق کسی قدر اختلاف ہے واقدی اور ابن سعد نے شوال دو ہجری بیان کی ہے۔ ابن اسحاق اور ابن ہشام نے اسے غزوہ سویق کے بعد رکھا ہے۔

خطبے کے آخر میں یہ سلسلہ آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے

دنیا کے موجودہ حالات کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ حماس اور اسرائیل کی جنگ اور اس کے نتیجے میں معصوم فلسطینیوں بشمول عورتوں اور بچوں کی شہادتیں بڑھتی جارہی ہیں۔

جنگ کے حالات جس تیزی سے شدت اختیار کر رہے ہیں اور اسرائیلی حکومت اور بڑی طاقتیں جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس سے عالمی جنگ اب سامنے نظر آرہی ہے۔ بعض اسلامی ممالک کے سربراہان، روس، چین اور بعض مغربی تجزیہ نگاروں نے بھی اب تو یہ کھل کر کہنا اور لکھنا شروع کردیا ہے کہ اس جنگ کا دائرہ اب وسیع ہوتا نظر آرہا ہے اور اگر فوری طور پر جنگ بندی کی پالیسی نہ اپنائی گئی تو دنیا کی تباہی ہے۔ سب کچھ خبروں میں آرہا ہے، آپ سب کے سامنے ساری صورتِ حال ہے اس لیے احمدیوں کو دعاؤں پر زور دینا چاہیے۔

ہر نماز میں ایک سجدہ یا کم از کم کسی ایک نماز میں ایک سجدہ تو ضرور اس کے لیے ادا کرنا چاہیے، اس میں دعا کرنی چاہیے۔

مغربی دنیا کا خواہ کسی بھی ملک کا سربراہ ہو وہ اس معاملے میں انصاف سے کام نہیں لینا چاہتا۔

احمدی ان بحثوں میں نہ پڑیں کہ کس ملک کا سربراہ اچھا ہے یا اچھا نہیں ہے۔ جب تک کوئی جرأت سے جنگ بندی کی کوشش نہیں کرتا وہ دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے کا ذمہ دار ہے۔

پس اپنے ماحول میں دعاؤں کے ساتھ اس بات کو پھیلانے کی کوشش کریں کہ ظلم کو روکو۔ اگر کسی احمدی کے کسی کے ساتھ تعلقات ہیں تو انہیں سمجھائیں۔

اسرائیلی کہتے ہیں کہ حماس نے ہمارے معصوم شہریوں کو مارا ہے اس لیے ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ مگر یہ بدلہ اب ساری حدیں پار کر گیا ہے۔ اسرائیلی جانوں کا جس قدر نقصان بیان کیا جاتا ہے اس کے بالمقابل اس سے چار پانچ گنا زیادہ فلسطینی معصوم جانوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ اگر حماس کو ختم کرنے کا ٹارگٹ ہے تو ان سے دوبدو جنگ کریں۔ عورتوں اور بچوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں۔ اسی طرح پانی، خوراک اور علاج سے بھی محروم کر رکھا ہے۔ حقوقِ انسانی اور جنگی اصولوں کے ان حکومتوں کے تمام دعوے یہاں آکر ختم ہو جاتے ہیں۔

ہاں! بعض لوگ اس طرف توجہ دلاتے ہیں جیسے سابق امریکی صدر باراک اوباما نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ اگر جنگ کرنی ہے تو جنگی اصولوں کو سامنے رکھنا چاہیے، معصوم شہریوں پر ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل صاحب بھی بولے تھے۔ اس پر اسرائیلی حکومت نے شور مچا دیا تو عالمی طاقتوں کے سربراہان جو خود کو امن کا بڑا چیمپئن سمجھتے ہیں وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تائید میں کچھ نہیں بولے، بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ بہرحال حالات خراب ہیں اور خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

مغربی میڈیا ایک طرف کی خبریں بڑھا چڑھا کر دیتا ہے اور دوسری طرف کی ایک کونے میں چھوٹی سی خبر دیتا ہے۔ مثلاً گذشتہ دنوں رہائی پانے والی ایک عورت نے کہا کہ مجھ سے قید میں بہتر سلوک ہوا تو اس کی خبر تو ایک کونے میں چلی گئی، مگر جو یہ بیان تھا کہ حماس کی قید ایک جہنم تھی اسے مستقل بڑی خبر بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ انصاف تو یہ ہے کہ سب صورت حال سامنے رکھی جائے اور پھر دنیا کو اپنا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ پس

اس صورت حال میں ہمیں دعاؤں کی طرف بہت زور دینا چاہیے۔

اپنے دائرے میں دعا کے ساتھ کوشش بھی کرنی چاہیے۔ مسلمان مظلوموں کے لیے دعا کریں اور مسلمان حکومتوں کی طرف سے ایک جامع اور دیرپا منصوبہ بندی بنائے جانے کے لیے بھی دعا کریں۔

مسلمانوں کی تکالیف دُور ہونے کے لیے ہمیں ایک خاص درد محسوس کرنا چاہیے۔ ہم تو اس مسیح موعود کے ماننے والے ہیں، کہ باوجود اس کے کہ ہمیں ان سے تکالیف پہنچتی رہتی ہیں آپ اپنے فارسی شعر میں اپنے جذبات کا اظہار یوں فرماتے ہیں کہ اے دل! تو ان لوگوں کا لحاظ رکھ، آخر وہ میرے پیغمبر کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے خاص دعا کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button