حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ سوئٹزرلینڈ کی(آن لائن) ملاقات

مورخہ۱۵؍اکتوبر۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ و اطفال الاحمدیہ سوئٹزرلینڈ کے ممبران کی آن لائن ملاقات ہوئی۔حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ خدام و اطفال نے مسجد نور Wigoltingenسے آن لائن شرکت کی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ سے ہوا جس کے بعد ایک نظم پیش کی گئی ۔بعد ازاں شاملین کو مختلف امور پرحضور انور سےسوال کرنے کا موقع ملا۔

سب سے پہلے ایک طفل کو دو سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔ پہلا سوال یہ تھا کہ حضور سوئٹزرلینڈ کب تشریف لائیں گے؟

اس پر حضور انور نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ جب الله چاہے گا۔

اسی طفل کا دوسرا سوال یہ تھا کہ شیطان ہمیں غلط راستے کی طرف کیوں لے کر جاتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اس لیے کہ وہ شیطان ہے۔چور کیوں چوری کرتا ہے؟اس لیے کہ اس کے دماغ میں غلط خیالات آتے ہیں، چوری کے خیالات آتے ہیں، اس کی صحیح تربیت نہیں ہوئی، اس لیے وہ چوری کرتا ہے۔ شیطان تو ہے ہی غلط راستےپر لے جانے والے کا نام۔جو لوگوں کو غلط کاموں کی طرف لے جاتا ہے اس کا نام شیطان ہے۔ الله تعالیٰ نے جب آدمؑ کو پیدا کیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی بات نہیں مانی، انکار کیا ، تو ابلیس بن گیا۔ تو شیطان کا نام ابلیس بھی ہے۔جب وہ لوگوں کو غلط باتیں بتاتا ہے تو اس کا نام شیطان ہو گیا، وہ ایک ہی چیز ہے۔

شیطان نے اللہ میاں کو کہا تھا کہ لوگ تیری بات نہیں مانیں گے، نیکی کی باتیں نہیں کریں گے اور برائی کی طرف زیادہ جائیں گے۔ا للہ میاں نے کہا تھا کہ ٹھیک ہے مَیں نے انسان کو عقل دی ہے، اس کو بتایا ہے کہ کون سا کام اچھا ہے اور برائی کیا ہے۔اگر وہ اچھے کام کریں گے اورمیری بات مانیں گے تو مَیں ان کو انعام دوں گا۔ وہ میرے فرشتوں کی باتیں مانیں گے، نیکی کی باتیں مانیں گے، میرے نبیوں اور رسولوں کی باتیں مانیں گے تو مَیں ان کو انعام دوں گا اور اگر وہ تمہاری بات مانیں گے تو مَیں ان کو سزا دوں گا۔ اللہ میاں نے شیطان کو کہا تھاکہ قیامت کے دن میں تمہیں بھی جہنم میں ڈال دوں گا اور تمہارے سارے ساتھیوں کو بھی۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل دی ہے اور بتایا کہ یہ بری چیز ہے، یہ اچھی چیزیں ہیں۔ا گر تم شیطان کے پیچھے چل کے برائی کرو گے تو تمہیں سزا ملے گی، جہنم میں جاؤ گے۔ اگر تم اچھے کام کرو گے، نبیوں کی باتیں مانو گے، نیک لوگوں کی باتیں مانو گے اور اللہ تعالیٰ کی باتیں مانو گے تو تمہیں rewardدوں گا، جنّت میں بھیج دوں گا۔

شیطان کا کام ہی ہمیں ورغلانا ہے۔اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم اَعُوْذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھا کرو کہ اللہ میاں مَیں شیطان سے تیری پناہ میں آتا ہوں تاکہ تم لوگ شیطان سے بچ کے رہو۔ تم زیادہ سے زیادہ اَعُوْذْ بِاللّٰہِ پڑھا کرو اور شیطان کی باتیں نہ مانا کرو۔ کوئی بھی آدمی، بچہ، لڑکااگر تمہیں کہتا ہےکہ بُرا کام کرو تو سمجھو کہ وہ شیطان ہے۔تم اَعُوْذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ کے وہاں سے دَوڑ جاؤ کہ اللہ میاں مجھےاس شیطان سے بچا لے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ آج کل اسرائیل اور فلسطین کے مابین معاملہ بہت خراب ہے تو دنیا پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟

اس پرحضور انورنے فرمایاکہ مَیں نے اپنے خطبہ جمعہ میں پہلے ہی اس بارے میں بات کی ہے۔دنیا پر جو اثر ہو گا وہ تو واضح ہے۔یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کو نقصان میں ڈالنا چاہ رہے ہیں بلکہ ساری دنیا کو تباہ کر رہے ہیں۔ دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے یہ بات پھر یہاں پر نہیں رکنی بلکہ یہ مزید آگے بڑھے گی اور مزید ممالک اس میں شامل ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جنگ میں نیوکلیئر ہتھیار بھی استعمال ہوں۔اس لیےہمیں دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے دعا کرنی چاہیے اور ہمیں یہ بھی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اللہ تعالیٰ طاقتور ممالک کو انصاف سے کام لینے کی صلاحیت اور عقل دے۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ کیاجنّت میں دنیا کی گزری ہوئی باتیں، یادیں اور رشتے یاد رہیں گے نیزجنّت میں کیسی زندگی ہو گی؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ جنّت میں کیسی زندگی ہوگی، یہ تو وہاں جنّت میں جا کر ہی پتا لگے گا۔باقی دنیا میں گزری ہوئی باتیں بھول جاؤ گے۔جنّت کی نعمتیں اتنی اعلیٰ قسم کی ہوںگی کہ تم دنیا کی نعمتیں بھول جاؤ گے۔جو دنیا کی اچھی اچھی باتیں تھیں وہ بھی بھول جاؤ گے کیونکہ جنّت میں اس سے بھی بہت اعلیٰ قسم کی باتیں ہوں گی اور تمہیں صرف جنّت ہی جنّت یاد رہےگی۔یہاں دنیا میں بھی جب تم کوئی اچھی چیز دیکھ لو تو پچھلی چیز چاہے جتنی مرضی اچھی ہو بھول جاتی ہے۔اسی طرح جنّت میں بھی جا کے تم بھول جاؤ گے۔

جب تم سکول میں پڑھ رہے ہو، پچھلی کلاس میں اچھے نمبر لیتے ہو، تمہیں ایک سال تک یاد رہتا ہےکہ مَیں نے اتنے اچھے نمبر لیے تھے اور اگلی کلاس میں جب تم جاتے ہو تو اس سے بھی اچھے نمبر لے لیتے ہو تو پھر تم بھول جاتے ہو کہ پچھلی کلاس میں کیسے نمبر تھے۔ تم ان نمبروں کو یاد رکھتے ہو جو تم نے نئی کلاس میں لیے تھے۔تم اس بات پر خوش ہوتے ہو۔ اسی طرح جنّت میں بھی تم نئی نئی چیزیں، جنّت کی نعمتیں دیکھ کر خوش ہو جاؤ گے اور بھول جاؤ گے کیونکہ جنّت کی نعمتیں تو اتنی اونچی ہیں کہ دنیا کی نعمتوں کی اللہ تعالیٰ نے مثال تو دی ہے کہ یہ بھی ہوگا، یہ بھی ہوگا، لیکن وہ صرف مثال کے طور پر ہے، جنّت کی نعمتوں کا مقابلہ نہیں ہو سکتا ۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ ہم ہر اجلاس میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کی خدمت کے لیے ہر دم تیار رَہیں گے، ہم روز مرہ کی زندگی میں اس عہد کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ دین کیا ہے؟ دین یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو باتیں کہی ہیں ان کو ماننا۔ ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیاپر مقدم رکھیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق ہیںاورکچھ بندوں کے حق ہیں۔جب نماز کا وقت آئے گا تو ہم اپنی کھیلیںاورباقی کام چھوڑ کر سوائے اس کے کہ کوئی اشد مجبوری ہو جا کر اچھی طرح نماز پڑھنے کی کوشش کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ نیک کام کرو ، قرآن شریف پڑھو، تو ہم ناولیں پڑھنے اور ٹی وی پروگرام دیکھنے کی بجائے وقت نکالیں گے کہ روزانہ قرآن شریف کی تلاوت بھی کریں۔پھر قرآن شریف کے معنی جانیں اور اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر بندوں کے حقوق ہیں۔اس میں ہم اچھے نیک کام کریں، کسی غریب کے کام آئیں ، چیریٹی (charity)میں کام آئیں۔ پھر یہ ہے کہ ہم تبلیغ کریں، اپنے اخلاق بہتر کریں، اپنی حالتوں کو بہتر کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگیں اور تبلیغ کے لیے وقت نکالیں، پمفلٹ تقسیم کریں، اپنے دوستوں کو بتائیں کہ ہم احمدی ہیں ۔اگر اچھے اخلاق ہوں گے تو لوگ خود تمہاری طرف توجہ کریں گے۔ اللہ میاں کہتا ہے کہ سچ کو قائم کرو۔ سچ بات کہیں گے، کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے اور جو برائیاں ہیں ان سے دُور رَہیں گے۔شیطانی باتیں جوسکولوں میں بتائی جاتی ہیں تو تم اس وقت جس طرح مَیں نے پہلے بچے کو کہا تھا اَعُوْذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لیا کرو کہ اللہ میاں ان شیطانی باتوں سے ہم دُور رَہیں گے، ہم دین کو مقدم رکھنے والے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں بھی یہ چیزیں اختیار کرو گے تو یہی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والی بات ہے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ مختلف ممالک میں احمدیت کے پھیلنے کے بارے میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے کرام کی بشارات موجود ہیں۔پیارے حضورسوئٹزرلینڈ میں اسلام اور احمدیت کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں اور اس حوالےسے ہمیں کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ آپ کا کام ہےکہ اپنی حالتوں کو بہتر کریں، اپنی عبادتوں کے معیار کو بلند کریں، نمازوں کی طرف توجہ دیں، دعائیں کریں ، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، اس کے دین کو سیکھنے کی کوشش کریں، قرآن شریف پڑھیں، قرآن کریم کے حکموں پر عمل کریں اور اس میں سے اللہ تعالیٰ کی باتیں دنیا میں پھیلانے کے لیے وقت نکالیں۔یہ چیزیں ہیں جو خدام کو بھی اور ہر ایک کو کرنی چاہئیں۔

ابھی پچھلے دنوں مَیں نے اجتماعات کے موقع پرخدام الاحمدیہ اور انصار الله سےعہد بھی لیا تھا ، اس عہدپر ذرا غور کرو ، بڑا تفصیلی عہد ہے۔وہی آپ لوگوں کا مقصد اورمطمح ِنظر ہونا چاہیے، وہی آپ کاgoalہونا چاہیے، وہی آپ کےobjective ہونے چاہئیں، اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

باقی اللہ تعالیٰ نے یہی کہا ہے کہ تمہارا کام کوشش کرنا ہے، تم اپنی کوشش میں دعائیں کرو اور دین کو پھیلانے کے لیے جس ذریعہ سےبھی تبلیغ کرسکتے ہو کرو۔ خواہ ذاتی دوستوں کو بتانے یا پمفلٹ تقسیم کرنے یا اجتماعی تبلیغ کرنے سےہے۔ جس طرح بھی ہے تم اپنا کام کرسکتے ہوکیے جاؤ باقی اللہ تعالیٰ کا کام ہے کہ کس کو ہدایت دینی ہے اور کس کے کام کو کہاں پھل لگانے ہیں۔

ہم اپنا کام نیک نیتی سے کریں اور جب وقت آئے گا تو دنیا کی توجہ آپ ہی دین کی طرف پید اہو گی۔ابھی تو دنیا دین سے دُور ہٹ رہی ہے لیکن ہم اگردین پر قائم رہیںاور مستقل لوگوں کو بتاتے رہیں گے تو ایک وقت آئے گا جب دنیا کو خود توجہ پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ کرے گا اور وہ بریک تھرو (breakthrough)ہو گا جب لوگ پھر دین کی طرف توجہ کریں گے چاہے وہ سوئٹزرلینڈ ہو یا دنیا کے اَور ملک ہوں اس وقت پھر دنیا کو خود ہی پتا لگ جائے گا۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ کیا ابلیس کے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے پہلے بھی جہنم موجود تھی؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو نہیں بتایا تھاکہ آج سے مَیں جہنم بنا رہا ہوں تو تمہیں جہنم میں ڈالوں گا۔جہنم تو موجود تھی۔اللہ تعالیٰ نے پتا نہیں کب سے مخلوق بنائی؟ آدمؑ کا قصہ ہمارے سامنے ہے۔ اس آدمؑ سے پہلے بھی بہت سارے آدم پیدا ہوئے۔ ہمیں تو اپنے آدمؑ کی باتیں پتا ہیں جو چھ ہزار سال پہلے تھے۔اس سے ہزاروں، اربوں سال پہلے بھی انسانیت تھی۔تو ابلیس، شیطان اور جہنم کو پہلے بھی بنایا ہوا تھا۔الله تعالیٰ ان لوگوں کو بھی سزائیں دیتا ہو گا جو بُرے کام کیا کرتے تھے۔

دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں بھی جنّت اور جہنم ہیں۔ نیکیاں انسان کو جنّت میں شمار کر لیتی ہیں، اسی دنیا میں انعامات بھی ملتے ہیں وہ جنّت بن جاتی ہے اور اس دنیا میں جب انسان بہت ساری سزاؤںاور بیماریوں میںسے گزرتا ہے تووہی جہنم بن جاتی ہے، تو اس کا ایک یہ بھی مطلب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو یہی کہا تھا کہ یہ آدم جومَیں نے پیدا کیا ہے ، جس کی ہسٹری(history) ہمیں پتا ہے، اس کے ماننے والے جب نیک کام کریں گے تو جنّت میں جائیں گے اور بُرے کام کریں گے تو جہنم میں جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں جہنم پہلے موجود تھی ، تبھی تو اللہ میاں نے کہاکہ جہنم میں جائیں گے یعنی ان کو سزا ملے گی۔ جہنم کیا ہے؟ جہنم ایک جیل خانہ ہے، ایک سزا ہے یا کہہ لو کہ ایک ہسپتال ہے۔جو بیمار ہیں ان کا وہاں علاج ہو گا اور جب وہ ٹھیک ہو جائیں گے تو وہ وہاں سے نکل جائیں گے۔یا ایک جیل ہے،جس میں سزا ہے۔ کچھ عرصہ وہ اپنی برائیوں کی سزا کاٹیں گے پھر اللہ تعالیٰ ان کو نکال دے گا ۔اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ ایک وقت میں جہنم خالی اور جنّت بھر جائے گی۔

ایک خادم نے ان لوگوں کے حوالے سے دریافت فرمایا جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے بادلوں میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا یا مختلف مادیات میں اس کے نشانات مشاہدہ کیے، کیایہ تجربات اللہ کی طرف سے ہیں یا کسی کے تخیل کی پیداوار ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی کوئی مادی شکل نہیں ہوتی۔اگر اللہ تعالیٰ کو مادی شکل میں دیکھا جائے تو وہ محض ایک شکل ہو گی۔ مختلف لوگ اللہ تعالیٰ کو مختلف اشکال میں دیکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا ایک استعاراتی تصور ہے۔آپ اللہ تعالیٰ کو مادی شکل میں نہیں دیکھ سکتے اور یہی الله تعالیٰ ہمیں بتاتا ہے۔لہٰذا یہ وہ طریقہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو پیغام دینا چاہتا ہے اور مختلف لوگوں کےلیے اللہ تعالیٰ مختلف اشکال میں ظہور پذیر ہوتاہے۔ جس طرح فرشتے کچھ لوگوں کے نزدیک فاختہ یا کبوتر کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور بعض دوسروں پر وہ جسمانی شکل یعنی ایک انسان کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔

روایت میں آتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ مسجد میں تشریف فرما تھے تو ایک شخص آیا اور آپؐ کے بالکل قریب بیٹھ گیا اور مختلف سوالات کیے۔ آپؐ نے اس کے سوالات کا جواب دیا اور فرمایاکہ ہاں! تم ٹھیک کہتے ہو۔ اور جب وہ چلا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ پھر صحابہؓ میں سے کچھ باہر نکلے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ شخص گلی میں چل رہا ہے یا نہیں لیکن وہ اسے نہ دیکھ سکے۔

یہ بھی روایت ہے کہ ہندوستان کے ایک قصبہ میں کسی نے خواب دیکھا، جہاں کے لوگ بہت بدکردار اور بہت سی برائیوں میں ملوث تھے ۔اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص بالکل معذور ہے اور اسے بہت سی بیماریاں لاحق ہیں یعنی جذّام اور ہر طرح کی بیماریاں ہیں، اس شخص نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ وہ بیمار اور بدحال شخص بولا: مَیں اللہ ہوں، تو اس شخص نے پوچھا: تم اللہ کیسے ہو سکتے ہو؟ اللہ ایسا نہیں ہے۔ اس نے کہا: مَیں اس بستی کے لوگوں کا اللہ ہوں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی کوئی طاقت نہیں اور وہ جو چاہیں کرتےپھریں۔ وہ برائی کرتے ہیں، اچھی چیزوں کوترک کر چکے ہیں اور بہت سی بری چیزوں میں ملوث ہیں۔ تو ان کے لیے یہ اللہ کی شکل ہے یعنی ان کے لیے اللہ کا یہ تصور۔لیکن پرہیزگاروں کے لیے اللہ مختلف ہے۔

حضور انور نے وضاحت فرمائی کہ یہ محض ایک استعارہ ہے۔ اور فرمایاکہ کوئی شخص مادی طور پر اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اللہ کو کسی خاص شکل میں دیکھا ہےتو در حقیقت اس نے ایک استعاری نظارہ دیکھا ہے۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ اگر قرآن میں شفا یابی ہے تو ہم ادویات کو ہی کیوں زیادہ ترجیح دیتے ہیں؟

اس پرحضور انور نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ تم دعا کرو، دعا میں بڑی طاقت ہے ،مَیں شافی ہوںاور مَیں شفا دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ کہہ دیا تو پھر تمہیں کسی چیز کی کیا ضرور ت ہے ؟نہ دوائیاں استعمال کرو۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ساتھ یہ بھی کہااور یہ بھی شریعت اور دین کا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کام کے لیے جو ذرائع بنائے ہیں، جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کو استعمال کرو۔

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں کہتا ہے کہ مَیں تمہیں رزق دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے تو تمہارے ابّا کیوں دفتر کام کرنے جاتے ہیں، کیوں جاب کرتے ہیں یا کیوں اپنا کاروبار کرتے ہیں یا کیوں لوگ ٹیکسی چلاتے ہیں، کیوں نوکریاں کرتے ہیں، کیوں ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں؟ پیسے کمانے کے لیے ماں اور باپ بھی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ کس لیے کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں رزق دیتا ہوںتو وہ آپ ہی رزق دے دے گا۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تمہارے بچوں اور تمہیں بھی مَیں رزق دیتاہوں، جانوروں کو بھی رزق دیتاہوں، ہر ایک کو مَیں رزق دیتا ہوں تو پھر کام کرنے کی کیاضرورت ہے ؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں روحانی شفا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میری باتوں پر عمل کرو، اس کتاب میں جو میرے حکم ہیں ان پر عمل کرو، میری عبادت کرو اور جو مَیں نے حکم دیے ہیں ان پر عمل کرو، میرے بندوں کے حق ادا کرو تو تم روحانی طور پر صحت مند ہو جاؤ گے،ایک اچھے انسان بن جاؤ گے اور تم وہ انسان بن جاؤ گے جس کو اللہ تعالیٰ پھر جنّت میں لے کے جاتا ہے۔ تو شفا سے پہلی مراد روحانی شفا ہے۔

دوسرا یہ کہ احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ ؓسورت فاتحہ کا دَم کیا کرتے تھے اور اس سے لوگوں کو شفا ہو جاتی تھی۔ایک صحابی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ تم یہ کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: اس میں اللہ تعالیٰ کی ساری صفات موجود ہیں، اس لیے مجھے اچھی لگتی ہیں، مَیں سمجھتا ہوں کہ اس میں شفا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہتے ہو۔ تو جسمانی طور پر بھی شفا ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں علاج بھی کرنا چاہیے کیونکہ جو علاج کے طریقے ہیں یا دوائیاں ہیں یا دوائیاں بنانے کے لیے جو عقل ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے۔اس لیے دی ہے تا کہ اس کو استعمال کرو۔وہ بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ دعا بھی کرو اور اسباب بھی اختیارکرو جو طریقے ہیں ان کو بھی استعمال کرو۔ صرف دعا پر زور دینا اور اسباب کا استعمال نہ کرنا یہ بھی غلط ہے۔اللہ تعالیٰ کو آزمانے والی بات ہے اور صرف اسباب پر بھروسہ رکھنا اور دعا نہ کرنا یہ بھی غلط ہے کیونکہ پھر انسان شیطان کی طرف چلا جاتا ہےاور دہریہ ہو جاتا ہے۔اس لیے ہمارا یہ کام ہے کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنائی ہیں ہر ایک کو استعمال کریں۔

قرآن کریم تمہیں روحانی صحت اور نیکیوں کی طرف لے جانے کے لیے شفا ہے اور جب تم اللہ تعالیٰ کی باتیں سن کے شفا پا جاؤ گے، صحت مند ہو جاؤ گے، تو پھر تم جنّت میں جانے والے ہو گے۔

حضور انور نے فرمایا کہ جیسا کہ پہلے مَیں نے مثال دی تھی کہ جہنم بھی ایک ہسپتال ہے جہاں علاج ہوتا ہے۔سزائیں ملتی ہیں اور پھر واپس چلا جاتا ہے۔ یا جیل ہے جس میں کچھ سزا کاٹ کر انسان چلا جاتا ہے۔ اگر تم روحانی طور پر صحت مند ہو گےتو تم جہنم میں نہیں جاؤ گےبلکہ سیدھے جنت میں چلے جاؤ گے۔جہنم میں تمہارے علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔اس کے علاوہ جسمانی طور پر بھی دعاؤں سے شفا ہے لیکن ساتھ ہی اللہ میاں کہتا ہے اسباب بھی استعمال کرو۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ نماز اور قربانی جیسی روزمرّہ چیزوں کے علاوہ آپ اپنی زندگی میں کس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ذکر الٰہی کرو، وہ کرنا چاہیے۔اللہ کے حقوق ادا کرو اور بندوں کے حقوق ادا کرو، انہی چیزوںکو اہمیت دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق بھی قائم کیے ہیں ، عبادت کرنا، اس کی باتوں پر عمل کرنا ، اس کی شریعت پرعمل کرنا ، رسولوں پر ایمان لانا، قیامت پر ایمان لانا، یہ ساری باتیں ہیں۔ اس کے بعد اللہ کہتا ہے کہ بندوں کے حق ادا کرو ۔اسی کواہمیت دینی چاہیے۔آپ بھی اسی کو اہمیت دیا کریں۔ مقصد اللہ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ دو باتوں سے خوش ہوتا ہے کہ اس کے اور اس کے بندوں کے حق ادا کیے جائیں۔ اگر انسان صرف نمازیں پڑھ رہا ہے اور بندوں کے حق ادا نہیں کر رہا تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں نمازیں قبول نہیں کروں گا اور اگر بندوں کے حق ادا کر رہا ہے اور اللہ کے حق ادا نہیں کر رہا تو ایک نیکی کر رہا ہے، اس کا ثواب تو اس کو مل جائے گا ، لیکن جو دوسری نیکی اللہ کے حق ادا کرنے کی ہے، اس سے محروم رہ جائے گا۔ اس لیے اصل مقصد تو اللہ کو خوش کرنا ہے اور اس کے لیے دونوں کام کرنے چاہئیں۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ حضور اپنی فیملی کے ساتھ وقت کیسے گزارتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مَیں اپنا وقت اسی طرح اور اسی انداز میں گزارتاہوںجس طرح اب آپ لوگوں کے ساتھ گزار رہا ہوں۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک شیعہ احباب کے بارہ ائمہ کا کیا مقام ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ وہ امام تھے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق موعود امام مہدی کی آمد بھی متوقع تھی، حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام درحقیقت مسیح اور مہدی بن کر آئے ہیں، شیعہ احباب کو تو سب سے پہلے آپؑ کوقبول کرنا چاہیے۔حضور انور نے ائمہ کے حوالے سے فرمایا کہ وہ صالحین تھے۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ جوانی میں حضور کیا بننا چاہتے تھے؟

اس پر حضور انورنے مسکرا کر جواب دیا کہ مَیں وہ تو نہیں بن سکا جو مَیں چاہتا تھا۔ اس کی بجائے مجھے وہ بنا دیا گیا جو الله تعالیٰ نے میرے لیے مقدر کر رکھا تھا۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ کیا انگوٹھی اور کڑا (کنگن) پہنا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ جہاں تک کڑا پہننے کا سوال ہے تو وہ عام طور پر خواتین زینت کے لیےپہنتی ہیںاور کبھی کبھار تعویذ کے طور پربھی پہنا جاتاہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اسلام میں تعویذ کی ممانعت ہے نیز یہ کہ اسلام میں مرد کےلیےسونا پہننا جائز نہیں۔

ایک خادم نے عرض کیا کہ قرآن کریم میں سات آسمانوں کا ذکر ہے اور دریافت کیاکہ کیا ان آسمانوں میں ہم جیسی مخلوقات آباد ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ سات آسمانوں کا تصوّر سات حفاظتی تہوں کی نشاندہی کرتا ہے جو اللہ کی طرف سے انسانیت کے فائدے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متعدد کائناتوں کے امکان کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے ہر ایک میں ممکنہ طور پر مختلف صورتوں میں زندگی پائی جاسکتی ہے۔

ایک طفل نے سوال کیا کہ ہم جماعتی کتب کو دل لگا کر کیسے پڑھ سکتے ہیں؟

اس پرحضور انور نے فرمایاکہ اللہ میاں سے دعا کرو، اللہ میاں تمہیں دل لگا کر پڑھنے کی توفیق دے کیونکہ ان میں بڑی مشکل مشکل باتیں ہوتی ہیں۔اس میں کوئی دلچسپی اور fun نہیں ہوتاجس طرح آج کل تم لوگوں کو ڈراموں یا فضول قسم کی کہانیوں کی کتابوں میں ہے۔ نیکی کی باتیں ہوتی ہیں، اللہ او رسول ؐکی باتیں ہوتی ہیں۔اس لیے پہلے تو اللہ میاں سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل میں ڈالے کہ تم ان کو پڑھ سکو پھر تمہیں سمجھ بھی آ سکے۔

پھر خدام الاحمدیہ اور مربی صاحب کو بھی چاہیے کہ آسان طریقے سے تم لوگوں کو سمجھائیں تا کہ تمہیں دلچسپی پیدا ہو۔اب بہت ساری کتابیں جماعت نے آسان زبان میں چھاپی ہیں۔اردو، انگلش اورجرمن میں بھی چھاپ رہے ہیںوہ پڑھو تو اس سے دین کے لیے دلچسپی پیدا ہو گی۔اس طرح تم آہستہ آہستہ دل لگاکے پڑھنا شروع کر دو۔پھر قرآن شریف میں بہت ساری باتیں ہیں، بہت ساری کہانیاں ہیں، ان کا ترجمہ پڑھو تو پھر تمہیں دلچسپی پیدا ہو گی۔ اس سے پھرتمہارے اندر پڑھنے کا مزید شوق پیدا ہو گا۔پھر اس کے بارہ میں مزید تحقیق کرو تو تمہیں اورباتیںپتا لگ جائیں گی۔ بہرحال دین کو سیکھنے کے لیے سب سے بڑی بات یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ شیطان تو یہی کہے گا کہ نہ پڑھو، دَوڑ جاؤ۔ اس لیے اللہ میاں سے دعا مانگو کہ وہ تمہیں پڑھنے کی توفیق دے۔

ایک خادم نے سوال کیا کہ اگلے تنظیمی سال سے مَیں مجلس انصار اللہ کا ممبر بننے جا رہا ہوں اس کے لیے مَیں اپنے آپ کو کیسے تیار کر سکتا ہوں؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ آپ کو چالیس سال میں یہی نہیں پتا لگا کہ کس طرح تیار کرناہے؟ اگر آپ کو چالیس سال میں نہیں پتا لگا تو باقی پتا نہیں زندگی کتنی ہے،اس میں کیا پتا لگے گا؟ خدام الاحمدیہ کے پچیس سال اس لیے ملے تھے کہ آپ اپنے آپ کو تیار کریں۔آپ کا کام تھا کہ آپ الله اور رسولؐ کی باتیں سنتے، اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کا حق ادا کرتے اور اس کو سمجھتے ۔

حضور انور نے موصوف سے استفسارفرمایاکہ کیا انہوں نےاجتماع مجلس انصار الله یو کے کے موقع پر حضور انور کا خطاب سنا تھا؟اس پر موصوف نے عرض کیا کہ بوجہ ادائیگی عمرہ وہ حضور انور کا خطاب نہیں سن سکے۔

حضور انور نے دریافت فرمایا کہ دوران عمرہ صرف دنیا داری کی دعائیں مانگی تھیں یا دین کے لیے بھی دعائیں مانگی تھیں؟موصوف نےعرض کیاکہ دین و دنیا کی دعائیں مانگی تھیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ بس پھر جو دین و دنیا کی حسنات مانگی تھیں اس کی لسٹ قرآن شریف سے نکالیں اور قرآن شریف پر عمل کریں اور میرا خطاب بھی سن لیں اوراس میں دیکھ لیں کہ ہمارا بنیادی مقصد کیا ہے اورکس طرح ہم نے زندگی گزارنی ہے۔پھر اس کے مطابق زندگی گزاریں۔

پچیس سال آپ کو ٹریننگ اس لیے دی گئی تھی کہ آگے انصار اللہ میں جائیں گے تو یہ کرنا ہے۔انصار اللہ میں آکر عمر تھوڑی رہ جاتی ہے اس لیے آپ کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ یہی آپ کر سکتے ہیں۔

ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ چلو پھرالسلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button