حضرت مصلح موعود ؓ

تحریک جدید الٰہی تصرف کے ماتحت ہوئی تھی (قسط دوم۔ آخری )

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۷؍نومبر ۱۹۳۶ء)

میں نے کہا تھا کہ یہ خدا کے بر ّے ہیں میں نے اِس سے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ جس طرح ایک بکری کا گوشت اُس کے ذبح ہوجانے کے بعد انسان کی غذا بن کر انسا ن ہوجاتا ہے اسی طرح لوگ خدا کے بر ّے بن کرقربان ہوجاتے ہیں وہ بھی خدا میں شامل ہوجاتے ہیں اور ابدی ازلی بادشاہت ان کو عطا کی جاتی ہے۔ شاید کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ ابدی بادشاہت توسمجھ میں آسکتی ہے مگرازلی بادشاہت انہیں کس طرح حاصل ہوتی ہے کیونکہ جب وہ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے اور ان کو کوئی جانتا بھی نہ تھا تو انہیں بادشاہت کیونکر حاصل ہوئی۔ ایسے لوگو ںکو یاد رکھنا چاہئے کہ رسول کریمﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ میں خاتم النبیین تھا جبکہ آدمؑ ابھی مٹی اور پانی میں ہی چھپا ہوا تھا۔(مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ) رسول کریمﷺ نے اس حدیث میں یہی حکمت بیان فرمائی ہے کہ جو شخص خدامیں ہوجاتا ہے اُس کو ازلی بادشاہت بھی عطا ہوجاتی ہے اور ا س کا ظاہری نشان یہ ہوتا ہے کہ اُس کے آباء و اجداد کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ حفاظت ملتی چلی آتی ہے جس طرف قرآن کریم میں تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَ (الشعراء: ۲۲۰)کے الفاظ سے اشارہ کیا گیا ہے (یہاںساجد کے معنے سجدہ کرنے والے اور نیک کے نہیں ہیں بلکہ فرمانبردار اور مطیع کے ہیں) اور دنیا کا تمام کارخانہ اسی طرح چلایا جاتاہے کہ جب وہ شخص آئے تو موافق حالات پاکر اس روحانی بادشاہت کو قائم کرے جس بادشاہت کو قائم کرنے کے لئے خداتعالیٰ اُن کو مبعوث فرماتا ہے۔ جس طرح ایک معزز آدمی کے آنے سے پہلے شہر کو سجایا جاتا ہے، صفائیاں کی جاتی ہیں، چھڑکائو کئے جاتے ہیں، بڑ ے بڑے پھاٹک کھڑے کئے جاتے ہیں، مکانوں میں سفیدیاں کرائی جاتی ہیں، اِسی طرح ایسے کامل انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صفائی اور چھڑکائو کا طریق جاری رکھا ہوا ہے اسی وجہ سے جب وہ دنیامیں آتے ہیں تو وہ جو دنیا کی نگاہوں میں ناممکن ہوتاہے ممکن ہوجاتا ہے۔ آخر آپ لوگوں کوسوچنا چاہئے کہ وہ ہزاروںہزار عیب اور لاکھوں لاکھ نقص جو انسانوں کے دلوں میں پیدا ہورہے تھے اور وہ بے انتہاء زنگ جو ان کے دماغوں کو لگ رہا تھا اس کی موجودگی میں کس طرح خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کو جو اَب لاکھوں کی تعدادمیں ہیں اس تعلیم پر ایمان لانے کی توفیق بخشی جو آنحضرتﷺ کے ذریعہ سے نازل ہوئی تھی اور جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہرقسم کی گرد سے پاک کرکے پھر جلا بخشی تھی۔ اِس کی یہی وجہ تھی کہ وہ علیم و خبیر خدا جو ہمیشہ سے جانتا ہے اور جانتا رہے گا کہ اِس زمانہ میں اس کا مسیح پید اہونے والا ہے وہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ میں ایسی تحریک کررہا تھا اُس وقت سے جب سے یہ دنیا پیدا کی گئی بے انتہاء سال اُس وقت سے پہلے جبکہ انسان پہلے پہل دنیا پر ظاہر ہوا تھا کہ تمام دنیا میں ایسے تغیّر پیدا ہوتے رہیں کہ کروڑوں اور اربوں سالوں کے بعد جس وقت اُ س کا مسیح ظاہر ہو تو کچھ دل ایسے تیار ہوں جوفوراً یا قریب کے عرصہ میں اُس کی آواز پر لبیک کہیں او راپنے دلوں کے برتنوں کو اُس کی تعلیم کادودھ بھرنے کے لئے پیش کردیں۔ پس مسیح موعود کی بادشاہت بھی جس طرح ازلی ہے اسی طرح ابدی ہے اور یہی حال باقی تمام انبیاء کا ہے۔ جو شخص اِس نکتے کوسمجھ لے وہی اِس حدیث کوسمجھ سکتاہے جو رسول کریمﷺ نے ختمِ نبوت کے متعلق بیان فرمائی ہے اور جس کا ذکر مَیں پہلے کرچکا ہوں۔ اس کے سِوا کوئی معنےکرکے دیکھ لو یا ان میں رسول کریمﷺ کی ہتک ہوجائے گی یا آدم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کی ہتک ہوجائے گی۔ یہی ایک معنے ہیں جو ایک طرف رسول کریمﷺ کی عظمت کو قائم کرتے ہیں تو دوسری طرف باقی انبیاء کی عظمت کوبھی قائم رکھتے ہیں۔

پس اے عزیزو! تمہارے لئے ازلی اور ابدی بادشاہت کے دروازے کھلے ہیں تم میں سے جس میں ہمت ہو اور جو موت کے دروازے میں سے گزر کر خدا میں محو ہونے کی طاقت رکھتا ہو اُسے خوش ہونا چاہئے کہ اُس کے لئے بھی وہی برکتیں اور وہی رحمتیں موجود ہیںجو اُس سے پہلے لوگوں کے لئے موجود تھیں۔ ضرورت صرف قربانی کی ہے اور تقویٰ کی ہے جس کا دوسر انام محبت ِ الٰہی ہے۔ جس دل میں خدا کی محبت آگئی باقی سب تفصیلیں اس میں آجاتی ہیں۔ جس طرح خدا تمام چیزوں کا جامع ہے یعنی ہر چیز اُس کے علم میں ہے اورہر چیز اُس کے قبضہ میں ہے او رہر چیز اُس کی قدرت میں ہے اسی طرح خدا کی محبت بھی جامع ہے اس میں بھی ہر چیز داخل ہوتی ہے یعنی تمام وہ روحانی ضرورتیں جو انسانی تکمیل کے لئے ضروری ہیں محبتِ الٰہی میں سے آپ ہی آپ نکلتی آتی ہیں۔ پس خدا کی محبت پیداکرو اور محبت کا جو لازمی نتیجہ ہے یعنی قربانی اس کے آثار دکھائو تو تمہارے لئے بھی خدا کے فضل اُسی طرح ظاہر ہوں گے جس طرح آنحضرتﷺ کے صحابہؓ کے لئے ظاہر ہوئے تھے۔

دنیا میں ایک طوفان بپا ہے لوگ خداکو بھول گئے ہیں، محمد رسول اللہﷺ کی ذات لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوگئی ہے، وہ چمکتا ہوا ستارہ جسے خدا نے دنیا کی ہدایت کے لئے پیدا کیا لوگوں کی آنکھوں میں نور پیدا کرنے کی بجائے سرِدست تو حاسدوں کے دلوں میں ایک انگارہ بن کر جل رہا ہے یعنی خدا کامسیح دنیا کی تضحیک اور اُس کے تمسخر کا مرکز بنا ہوا ہے۔ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے، ایک نئی دنیا کی تعمیر، ایک نئے آسمان اور زمین کی بنیاد۔ پس اپنی ہمتیں مضبوط کرواور ارادے کی کمر کس لو اور اپنے اِردگِرد کے منافقوں کی طرف نگاہ مت ڈالو کہ مومن منافق کو کھینچتاہے نہ کہ منافق مومن کو۔ جس دل میں ایمان ہوتا ہے رسول کریمﷺفرماتے ہیں کہ اگر اسے آگ میں بھی ڈال دیاجائے تو وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتا اور فرماتے ہیں کہ یہ ادنیٰ درجے کاایمان ہے۔ (بخاری کتاب الایمان باب حلاوۃ الایمان)

پس آج میں اجمالی طور پر تحریک جدید کے تمام مطالبات کی طرف جماعت کو پھر بُلاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس پہلے درجہ کی آخری جماعت میں ہمارے دوست ایسے اعلیٰ نمبروں پرپاس ہوں گے کہ خدا کے فضل ان پربارش کی طرح نازل ہونے لگیں گے اور دشمنوں کے دل مایوسی سے پُر ہوجائیں گے اور منافقوں کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ جائے گی۔ ابھی بہت سا کام ہم نے کرنا ہے اور یہ تو ابھی پہلا ہی قدم ہے اگر اِس قدم کے اُٹھانے میں جماعت نے کمزوری دکھائی تو خدا کے کام تو پھر بھی نہیں رُکیں گے لیکن دشمن کو مسیح موعودؑ پر طعن کرنے کا موقع مل جائے گا اور ہر وہ گالی اور ہر وہ دشنام اور ہر وہ طعنہ جو مسیح موعودؑ کو یا ان کے سلسلہ کو دیا جائے گا اُس کی ذمہ داری انہی لوگوں پرہوگی جو اپنے عمل کی کمزوری سے دشمن کو یہ موقع مہیا کرکے دیں گے۔اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دی تو آئندہ ہفتوںمیں مَیں اِنْشَاءَ اللّٰہُ تَعَالٰی پھر ایک دفعہ تفصیلی طورپر ان امور کی طرف توجہ دلائوں گا سرِدست میں نے اجمالاً سب امور کی طرف توجہ دلادی ہے اور مالی حصۂ تحریک کو میں آج ہی خطبہ کے ساتھ شروع کردیتا ہوں کیونکہ اس تحریک کے لئے دوستوں کو ہفتوں محنت کرنی پڑتی ہے او ربڑی مُہلت درکار ہوتی ہے۔ پس اگر اس میں تعویق کی گئی تو احباب کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ پس مَیں آج ہی اِس امرکااعلان کرتا ہوں کہ یکم دسمبر سے تحریک جدید کے مالی حصے کی قسط سوم کا زمانہ شروع ہوجائے گا او رمیں دوستوں سے امید رکھتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہوسکے وہ پہلے سالوں سے بڑھ کر اِس میں حصہ لینے کی کوشش کریں کیونکہ مومن کا قدم پیچھے نہیں پڑتا بلکہ اسے جتنی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے اتنا ہی وہ اخلاص میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جس نے ایک سال یا دو سال اِس قربانی کی توفیق پائی لیکن آج اُس کے دل میں انقباض پیدا ہورہا ہے یا وہ اس بشاشت کو محسوس نہیں کرتا جو گزشتہ یا گزشتہ سے پیوستہ سال میں اس نے محسوس کی تھی اسے میرے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اپنے دوستوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے سامنے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، اسے چاہئے کہ خلوت کے کسی گوشہ میں اپنے خدا کے سامنے اپنے ماتھے کو زمین پر رکھ دے اور جس قدر خلوص بھی اُس کے دل میں باقی رہ گیا ہو اُس کی مدد سے گریہ و زاری کرے یا کم از کم گریہ و زاری کی شکل بنائے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں جھک کرکہے کہ اے میرے خدا! لوگوںنے بیج بوئے اور ان کے پھل تیار ہونے لگے وہ خوش ہیں کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے فائدے کے لئے روحانی باغ تیار ہورہے ہیں پر اے میرے ربّ! میں دیکھتا ہوں جو بیج میں نے لگایا تھااس میں سے تو روئیدگی بھی پیدا نہیں ہوئی نہ معلوم میرے کبر کا کوئی پرندہ کھا گیا،یامیری وحشت کا کوئی درندہ اسے پائوں کے نیچے مسل گیا،یا میری کوئی مخفی شامتِ اعمال ایک پتھر بن کر اس پر بیٹھ گئی اور اس میں سے کوئی روئیدگی نکلنے نہ دی۔اے خدا!اب میں کیا کروں کہ جب میرے پاس کچھ تھا میں نے بے احتیاطی سے اُسے اِس طرح خرچ نہ کیاکہ نفع اُٹھاتا مگر آج تو میرا دل خالی ہے میرے گھر میں ایمان کا کوئی دانہ نہیں کہ میں بوئوں۔ اے خدا! میرے اسی ضائع شدہ بیج کو پھرمہیا کردے اور میری کھوئی ہوئی متاعِ ایمان مجھے واپس عطاکر اور اگر میرا ایمان ضائع ہو چکا ہے تُو اپنے خزانے سے اور اپنے ہاتھ سے اپنے اِس دھتکارے ہوئے بندہ کو ایک رحمت کا بیج عطا فرما کہ میں اور میری نسلیں تیری رحمتوں سے محروم نہ رہ جائیںاور ہمارا قدم ہمارے سچی اور اعلیٰ قربانی کرنے والے بھائیوں کے مقام سے پیچھے ہٹ کر نہ پڑے بلکہ تیرے مقبول بندوں کے کندھوں کے ساتھ ہمارے کندھے ہوں۔ اے خدا! بہت ہیںجو اعمال کے زور سے تیرے فضل کو کھینچ لائے پر ہم کیا کریںکہ ہمارے اعمال بھی اُڑ گئے۔کیا تیرا رحم،کیا تیرا بے انتہاء رحم غیرت میں نہ آئے گا اور ہم جیسے بندوں کو بے عمل ہی اپنے فضل کی چادر میں چھپا نہ لے گا۔

پس تم اس طرح خدا کے آگے زاری کرو تا کہ تمہارے دلوں کے زنگ دور ہو جائیںاور تمہاری مُردہ روح پھر زندہ ہو جائے اور تم کو پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی توفیق ملے اور تمہارے عمل کا نتیجہ پہلے سالوں سے بھی زیادہ دشمن کے لئے حسرت اور یاس کا موجب بنے۔اگر تم سچے دل سے خدا کی طرف جھکو گے تو وہ یقیناً تمہارے دلوں کو کھول دے گا اور تم پر یہ ظاہر ہو جائے گا کہ خدا اور اس کے دین کے لئے قربانیوں کے لئے میں تم کو بلاتا ہوں انہی میں اسلا م کی بہتری ہے اورانہی میں اسلام کی شوکت ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ وہ اپنی قربان گاہ پر مسیحِ محمدیؐ کے بر ّوں کی قربانی کرے اور ان کے خون کو اسلام کی خشک شدہ انگور کی بیل کی جڑ میں ڈالے تا کہ وہ پھر ہری ہوجائے او رپھر اس میں خدا کے فضل کے انگور لگنے لگ جائیں۔ اگر تم میں سے کسی نے انجیل پڑھی ہو تو اُس کو معلوم ہوگا کہ روحانی بادشاہت کو انگور کے باغوں سے تشبیہہ دی گئی ہے اور انگور کی ہی بیل ایک ایسی بیل ہوتی ہے جس کو سرسبز و شاداب کرنے کے لئے خون کی کھاد ڈالی جاتی ہے۔ پس اِس کی مثال میں اسی طرف اشارہ تھا کہ خدا کے دین کو تازہ کرنے کے لئے ہمیشہ انسانی قربانیوں کی ضرورت ہوگی اور انسانوں کے خون اِس باغ کی جڑوں میں گرا کر اُسے پھر زندہ اور شاداب کیا جائے گا۔

پس اے دوستو! آئو کہ ہماری جانیں اسلام کے مقابلہ میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں ہم میں سے ہر ایک شخص خواہ اُس کو مال مِلا ہے یا نہیں مِلا اپنی اپنی توفیق کے مطابق خدا کے سامنے اپنی قربانی پیش کردے اور اِس قربانی کو پیش کرنے کے بعد ایک مُردے کی طرح الٰہی آستانہ پر گِر جائے یہ کہتے ہوئے کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! میری اِس حقیر نذر کو قبول کر اورمجھے اپنے دروازے سے مت دُھتکار۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ ثُمَّ اٰمِیْنَ

(الفضل ۳؍ دسمبر ۱۹۳۶ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button