تقریر جلسہ سالانہ

خلافت اور جماعت کے باہمی پیار کا تعلق (قسط دوم۔ آخری)

للّٰہی محبت کی حیرت انگیز داستانیں جو آج صرف جماعت احمدیہ میں نظر آتی ہیں

(عبدالسمیع خان۔کینیڈا)

سلسلہ کی خاطر قربانیوں کا وقت آئے تو خلفاء اور جماعت کی محبت کا ایک عجیب منظر نظر آتا ہے۔حضرت مصلح موعود ؓکے ۱۳؍ بیٹے تھے سب کے سب دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیے۔تقسیم ہند کے بعد حضرت مصلح موعود ؓپاکستان میں لاہور تشریف لے آئے تھے مگر آپ کے سارے بچے ابھی قادیان میں تھےکچھ دنوں بعد قادیان کا محاصرہ کر لیا گیا تو حضور نے اپنے بچوں کے نام ایک خط میں لکھا۔ جہاں تک ظاہری حالات اور ہماری معلومات کا تعلق ہے ہندوستان کی فوج کی مدد سے سکھوں کے جتھے قتل عام شروع کرنے والے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں تم سب بھی قتل کر دیے جاؤ گے۔ میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم سب بھائی بشاشت سے اور ہنستے مسکراتے خدا کی راہ میں جان دینا۔ کسی قسم کا خوف تمہارے چہروں پر بھی نہ آئے۔ (یادوں کے دریچے از مرزا مبارک احمد۔ صفحہ۵۸)

قادیان کی حفاظت کے لیے ایک احمدی خاتون نے اپنے بیٹے کو بھیجا اور جاتے ہوئے یہ وصیت کی ’’بیٹا دیکھنا پیٹھ نہ دکھانا‘‘سعادت مند بیٹے نے ماں کے فرمان کی لاج رکھ لی اور شہادت سے چند لمحے پہلے اپنی ماں کے نام یہ پیغام دیا ’’میری ماں سے کہہ دینا کہ تمہارے بیٹے نے تمہاری وصیت پوری کر دی ہے اور لڑتے ہوئے مارا گیا ہے‘‘۔ (الفضل ۱۱؍اکتوبر۱۹۴۷ء)

پھر حضورؓ نے تحریک فرمائی کہ ہم قادیان کسی صورت میں مکمل طور پرنہیں چھوڑیں گے اور ایسے ۳۱۳؍ جانبازوں کی ضرورت ہے جو جان ہتھیلی پر رکھیں اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کریں۔ حضور نے فرمایا میرا ایک بیٹا میری نمائندگی میں ان کے ساتھ رہے گا۔چنانچہ اس خوش قسمت بیٹے مرزا وسیم احمد نے ساری عمر وہیں گزار دی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایسے وقت بھی آئے جب سب درویشوں کے قتل کا فیصلہ ہو چکا تھا صرف خدا کی رحمت نے انہیں بچایا۔

عہد درویشی میں احمدیوں نے جس ایمان، استقامت اور فدائیت کا مظاہرہ کیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایڈیٹر اخبار ریاست نے لکھا :ان لوگوں کو انسان نہیں فرشتہ قرار دیا جانا چاہیےجو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے شعار پر قائم رہیں اور موت کی پروا نہ کریں۔اب بھی…قادیان کے درویشوں کے اسوۂ حسنہ کا خیال آتا ہے تو عزت واحترام کے جذبات کے ساتھ گردن جھک جاتی ہے۔ اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ ایسی شخصیتیں ہیں جن کو آسمان سے نازل ہونے والے فرشتے قرار دینا چاہیے۔(مرکز احمدیت قادیان۔ برہان احمد ظفر صفحہ۲۸۰)

حضرت مصلح موعود ؓنے فرقان بٹالین قائم کی توحضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اس کا نگران بنایا۔ اس بٹالین میں شرکت کی تحریک کے لیے ایک بزرگ تحریک کر رہے تھے۔مجلس میں ایک نوجوان بھی تھا جس کی بیوہ ماں پردے کے پیچھے سن رہی تھی۔ جب لوگ نام لکھوا رہے تھے تو اس عورت نے اپنے بیٹے کو آواز دی کہ خلیفہ کا نمائندہ تمہیں بلا رہا ہے تم اپنا نام کیوں نہیں لکھوا رہے۔حضرت مصلح موعودؓ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے دعاکی کہ اے خدا اگر جان لینی مقدر ہو تو اس بچے کی جان نہ لینا میرے بیٹے کی جان لے لینا۔خدا نے یہ بات سن لی اور وہ سلامت واپس آ گیا۔

تحریک شدھی ۱۹۲۳ء کے موقع پر ایک بنگالی نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں بوڑھا ہوں اور میرے بیٹے راجپوتانہ میں دعوت الی اللہ کے لیے شاید اس لیے وقف نہ کر رہے ہوں کہ مجھے تکلیف ہوگی مگر خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں اور وہ سارے کے سارے خدمت دین کرتے ہوئے مارے جائیں تب بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا بلکہ میں خود بھی خدا کی راہ میں مارا جاؤں تو میرے لیے عین خوشی کا موجب ہوگا۔(الفضل ۱۵؍مارچ ۱۹۲۳ء)

۱۹۷۴ء کے حالات میں احمدی طلبہ کو تعلیمی اداروں میں جان کا خطرہ تھا اور حکومت کوئی انتظام نہیں کر رہی تھی مگر اعلان کر دیا کہ احمدی طلبہ اپنی مرضی سے غیر حاضر ہیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے سب سے پہلے اپنے خاندان کے طلبہ کو بلایا اور سخت خطرناک حالات میں اپنی اپنی یونیورسٹی جانے کا حکم دیا جن میں ہمارے محبوب امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب بھی تھے ۔کچھ کو مشکلات بھی پیش آئیں مگر عمومی طور پر اللہ تعالیٰ نے سب کی حفاظت فرمائی۔(خلافت صفحہ ۶۵)

۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے نصرت جہاں سکیم جاری فرمائی۔ جس میں ڈاکٹرز اور اساتذہ کو خصوصی خدمت کی توفیق ملی۔ان میں خاندان مسیح موعودؑ کے بہت سےافراد نے بھی حصہ لیا خود ہمارے موجودہ امام نے گھانا میں نہایت تکلیف دہ حالات میں خدمت کی توفیق پائی۔ سکول کے ہیڈماسٹرتھے۔ نہ صاف پانی ملتا تھا نہ سبزی نہ گندم نہ دودھ نہ کوئی خادم نہ کوئی سیکیورٹی۔ الاؤنس بہت کم تھا گھر کے ساتھ جو خالی جگہ تھی اس میں سبزیاں لگا لیں۔کچھ مرغیاں رکھ لیں اور گزارہ کر لیااور نہایت اخلاص و وفا کے ساتھ امام وقت کی راہنمائی میں کام پر لگے رہے۔

حضورؒ نے ۱۹۸۰ء میں فرمایا:اس سکیم کے تحت بہت سے احباب نے جانی قربانی کا جو نمونہ پیش کیا وہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ بہت سے ڈاکٹروں نے مغربی افریقہ میں نئے کلینک کھولنے اور انہیں چلانے کے لیے تین تین سال وقف کیے۔ میں نے ان سے کہا تم خدمت کے لیے جارہے ہو۔ جاؤ ایک جھونپڑا ڈال کر کام شروع کردو اور مریضوں کی ہر ممکن خدمت بجالاؤ۔ میں ابتدائی سرمائے کے طور پر انہیں صرف پانچ سو پونڈ دیتا تھا۔ انہوں نے اخلاص سے کام شروع کیا۔ غریبوں سے ایک پیسہ لیے بغیر ان کی خدمت کی۔ دو سال کے اندر اندر ۱۶ ہسپتال کھولنے کی توفیق مل گئی۔ پھر ان کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ وہاں لوگ ہمارے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ میں بھی ہسپتال قائم کرو۔

ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کر دیا گیا تو انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی خدمت میں لکھا کہ انہوں نے میرا ایک بھائی شہید کیا ہے مگر میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری ساری اولاد بھی اس راہ میں شہید ہوتی چلی جائے تو مجھے اس کا دکھ نہیں ہوگا۔ خدا نے ان کی یہ آرزو سن لی اور انہیں بھی جلد ہی شہادت کا رتبہ عطا فرمایا اور یہ خط حضور کی خدمت میں پہنچنے سے پہلے وہ شہید ہوچکے تھے۔ (الفضل ۴؍دسمبر ۱۹۸۹ء صفحہ۵)

لاہور میں شہادتیں ہوئیں تو بیواؤں نے اپنے بچوں سے کہا کہ تم اگلا جمعہ وہیں کھڑے ہو کر پڑھو گے جہاں تمہارا باپ یا بھائی شہید ہوا تھا۔ چنانچہ دونوں مسجدیں پہلے سے زیادہ پُررونق تھیں اور حضور کے خاص نمائندوں نے ربوہ سے آ کر جمعہ پڑھایا اور حضور کا سلا م پہنچایا۔ حضرت خلیفۃ ا لمسیح الخامس اید ہ اللہ تعالی اپنے خطبات میں ہر شہید کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں اور مستقل ہدایت فرمائی ہے کہ جہاں بھی جماعتی سطح پر نمائشیں لگیں وہاں شہدائے احمدیت کی تصاویر ضرور لگائی جائیں۔

جب بھی جماعت غیر معمولی ابتلاؤں سے گزری تو خلیفۃ ا لمسیح نے اپنے نمائندوں کے ذریعہ جماعت کو سلام بھجوایا۔۱۹۷۱ء میں جنگی حالات کی وجہ سے جلسہ سالانہ منعقد نہیں ہو سکا تھا اس وقت بھی ایسا ہوا۔ ۱۹۸۴ء میں مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہوئی۔ خلافت خامسہ کے دور میں بھی کئی دفعہ حضور کے نمائندے گھر گھر پہنچ کر حال پوچھتے رہے اور تحائف بھی تقسیم کرتے رہے۔

جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے لیے تحریک حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ سے کروائی اور اس کے لیے ۲۵؍ لاکھ روپے کا جماعت سے مطالبہ کیا۔بعض احباب نے حضرت مصلح موعودؓ کے دور خلافت کے سالوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ رائے دی کہ اس تحریک کی مالی حد پچیس لاکھ کی بجائے باون لاکھ مقرر کی جائے اور بعض احباب نے عملاً باون کے عدد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی قربانی کو اس معیار کے مطابق بنانے کو موجب سعادت تصوّر کیا۔ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ نے باون ہزار روپیہ حضرت مصلح موعودؓ کی اس یادگار تحریک میں ادا فرمایا۔ضلع ملتان کے ایک دوست نے اپنے وعدہ کو بڑھا کر باون سو کردیا۔ لاہور کے ایک دوست باون سالوں پر دس روپے فی سال کے حساب سے ۵۲۰؍ روپے ادا کیے۔ کم استطاعت رکھنے والے دوستوں نے اپنی محبت کے اظہار کے لیےباون باون روپے پیش کیے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۲۳ صفحہ ۴۷۲)

حضرت مصلح موعود ؓنے وقار عمل کی تحریک فرمائی اور نمونہ دکھانے کے لیے کسی پکڑی تو مخلصین کی جان پر بن آئی تو کئی مخلصین ایسے تھے جو کانپ رہے تھے اور دوڑے دوڑے آئے اور کہتے حضور تکلیف نہ کریں ہم کام کرتے ہیں اورحضور کے ہاتھ سے کسّی اور ٹوکری لینے کی کوشش کرتے۔ لیکن حضور ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۸صفحہ ۵۰)

حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۴۴ء میں وقف جائیداد کی تحریک فرمائی تھی۔حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت میاں خدا بخش صاحبؓ نے سرگودھا سےحضور کی خدمت میں لکھا:جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک پڑھ کر دل کو اس قدر خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ میری جائیداد قریب قریب اس وقت دولاکھ کی ہے۔ میں خدا کے دین کی اشاعت کے لیے بسم اللہ کر کے وقف کرتا ہوں۔ یہ جائیداد کیا چیز ہے میرا سر بھی اس کام کے لیے حاضر ہے…۱۹۵۴ء میں آپ نے اپنی زرعی زمین سے ایک کنال کا رقبہ صدر انجمن احمدیہ کے نام رجسٹری کرا دیا مسجد احمدیہ کی تعمیر شروع کی ادھر یہ مسجد پایہ تکمیل تک پہنچی ادھر واپسی کا بلاوا آگیا۔(تاریخ احمدیت جلد۱۰ صفحہ۵۳۹)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے تبلیغ اور فولڈرز کی تقسیم کی تحریک فرمائی اس پر جماعت احمدیہ ہالینڈ نے ۲۰۰۱ء میں بھرپور دعوت الی اللہ کر کے ۱۴ لاکھ پچاس ہزار فولڈرز تقسیم کیے۔اس کام کے لیےمسلسل طویل فاصلے پیدل طے کیے گئے۔بعض کے پاؤں اس کام کے دوران چھلنی ہوئے اور وہ پٹیاں باندھ کر دعوت الی اللہ میں مصروف رہے۔ ایک داعی الی اللہ معذور تھے مگر انہوں نے وہیل چیئر (Wheel Chair) پر بیٹھ کر لوگوں کے گھروں میں یہ فولڈرز پہنچائے۔ کئی احباب نے اپنے کاموں، کاروبار وغیرہ سے چھٹیاں لے لیں۔ ایک دوست کو کام سے چھٹی دینے سے انکار کردیا گیا تو انہوں نے وہ کام ہی چھوڑ دیا خدا نے محبت امام کے اس جذبہ کو پیار سے قبول فرمایا اور فولڈرز کی تقسیم کا کام مکمل ہوتے ہی پہلے سے بہتر کام ان کو عطا فرما دیا۔ (الفضل ۱۰؍نومبر ۲۰۰۱ء)

برطانیہ کے ایک ۵۸؍ سالہ مخلص احمدی جو دل کے مریض ہیں اور ان کا بائی پاس کا اپریشن ہو چکا ہے، انہوں نے اپنے جواں سال بیٹے کے ساتھ مسلسل آٹھ گھنٹے یہ کام کیا اور پسینے سے شرابور ہو گئے اسی رات کوخواب میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی زیارت نصیب ہوئی۔ (الفضل سالانہ نمبر ۲۸؍دسمبر۲۰۰۱ء صفحہ۳۵)

مکرم غلام محمد لون صاحب کاٹھ پوری کشمیر کے باسی تھے۔ ۱۹۵۴ء تا ۱۹۹۴ء (وفات تک) جلسہ قادیان میں شرکت کی توفیق پائی۔ آپ کاجوان بیٹا محمد اقبال دسمبر ۱۹۸۸ء میں کار کے حادثہ میں وفات پاگیا۔ اس وقت بھی آپ یہ کہتے ہوئے جلسہ پر جانے کی تیاری میں لگ گئے کہ میرا بیٹا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، میں امام سے ملنے اور جلسہ سالانہ کی برکات کیوں چھوڑ دوں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۱۲؍ستمبر ۲۰۱۴ء صفحہ۱۸)

حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانیؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ نے آنے والی نسل کو اس خدائی امانت کی حفاظت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:جب تک یہ الٰہی امانت ہمارے پاس رہی اور جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے خدمت کی۔ اب حکمت الٰہیہ کے ماتحت یہ امانت آپ کے سپرد ہے۔ اس کا حق ادا کرنا آپ لوگوں کے ذمہ ہے۔ پس دیکھنا اسے اپنے سے عزیز رکھنا اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔(اصحاب احمد جلد نمبر۹ صفحہ۲۷۹)

حضرت شیخ محمد اسماعیل سرساوی صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ نے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:ہم نے خلافت کی حقیقت کو سمجھا تھا کہ خلافت ہی ایسی ضروری ہے کہ جس کے بغیراسلام کی حفاظت ہو نہیں سکتی۔ پس ہم نے اپنے وقت میں اپنے خلیفہ کی بھی حفاظت کماحقہ کرکے دکھا دی تھی اور حفاظت بھی کماحقہ کرکے اپنے پیارے خدا کی خوشنودی حاصل کرلی تھی۔ اب ہم تو بوڑھے ہو گئے اور ہڈیاں بھی ہماری کھوکھلی ہوگئیں۔ ٹھوکریں ہی کھاتے رہے اور ٹھوکریں کھاتے ہی اس دنیا سے گزر جائیں گے۔ اب تمہارا نوجوانوں کا ہی کام ہے کہ آگے آگے قدم رکھو اور اپنے پیارے خلیفہ کی بھی حفاظت کرو اور خلافت کی بھی حفاظت کرو۔ (رجسٹر روایات صحابہ نمبر۶ صفحہ۷۸)

۱۹۳۵ء کے آغاز میں دعوت الیٰ اللہ کے لیے قصبات اور دیہات کا جائزہ لینے کے لیے فارم چھپوائے گئے۔یہ جائزہ سائیکل سواروں کے ذریعہ لیا جاتا تھا۔ابتدامیں چار سائیکل سوار بھجوائے گئے۔ ایک کے پاس اپنی ذاتی سائیکل تھی دوسائیکلیں ہدیہ آئی تھیں اور ایک سائیکل دفتر تحریک جدید نے خریدی تھی۔ ۱۱؍جنوری۱۹۳۵ء کے خطبہ میں حضورؓ نے ۱۶؍ سائیکلوں کی تحریک فرمائی۔اس پر جماعت نے اس کثرت سے سائیکلیں بھیج دیں کہ آئندہ سائیکل نہ بھجوانے کی ہدایت کرنا پڑی۔

خلافت اور جماعت کی باہمی محبت کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جماعت نے ۱۹۳۹ء میں خلافت جوبلی یعنی حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے ۲۵؍ سال پورے ہونے کے موقع پر تین لاکھ روپے بطور تحفہ حضور کی خدمت میں پیش کیے۔حضورؓنے اس تمام رقم کو سلسلہ کی ترقی پر خرچ کرنے کے حوالہ سے کئی مصارف کاذکر کیا جن میں ایک تعلیم بھی ہے۔حضور نے ذہین طلبہ کو وظائف دینے کا اعلان فرمایا۔(انوارالعلوم جلد۱۵ صفحہ ۴۳۶) اس سلسلہ میں نہایت ایمان افروز امر یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بھی یہ وظیفہ حاصل کر نے والوں میں شامل تھے اورکچھ حکومتی وظیفہ کے ساتھ یورپ پڑھنے کے لیے گئے اورنئے سنگ میل قائم کیے۔

۱۹۴۰ء میں ڈاکٹر سلام نے میڑک کےامتحان میں اول آکر ریکارڈ توڑا۔حضور بہت خوش ہوئے اور وظیفہ کے علاوہ ایک سو روپے نقد ریکارڈ توڑنے پر دیے۔بی اے میں نئے ریکارڈ پر حضور نے علاوہ وظیفہ کے دوسوروپیہ نقد انعام دیا۔(عالمی شہرت یافتہ سائنسدان عبدالسلام از عبدالحمید چودھری صفحہ ۳۵)

اعلیٰ تعلیم کے لیے یہ وہ پوداتھاجو ۱۹۳۹ءمیں لگایا گیا اور۱۹۷۹ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوبیل انعام حاصل کر کے دنیا میں احمدیت کاوقار بلند کر نے کاموقع عطافرمایا۔اس موقع پر حضرت خلیفہ ثالثؒ نے ساری جماعت کے بچوں کے لیے عظیم تعلیمی منصوبہ کا اعلان کیا اورفرمایا کہ کوئی احمدی بچہ ضائع نہیں کیا جائے گا۔اس پروگرام کے تحت آج بھی سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو تعلیمی وظائف اور انعامات دیے جا رہے ہیں۔

ہمارے موجودہ امام کو بھی۲۰۰۸ء میں خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی پر ۱۰؍ لاکھ پاؤنڈ پیش کیے گئے۔حضور نے وہ ساری رقم تبلیغ اور خدمت خلق کے منصوبوں پر خرچ کر دی۔ مجلس انصار اللہ پاکستان نے انصار اللہ کے ۷۵؍ سال پورے ہونے پر حضور کی خدمت میں ۷۵؍ لاکھ روپے تحفہ کے طور پر دینے کا منصوبہ بنایا مگر عملاً ایک کروڑ سے زیادہ رقم پیش کر دی۔مگر حضور نے فرمایا کہ اسے انصار کے لیے کسی منصوبہ پر لگائیں چنانچہ اس کے ذریعہ ایک نیا ہال بنایا گیا۔

ایک بار حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اپنے بعض خدام کو یہ کام سپرد فرمایا کہ وہ قرآن مجید کے اسماء، افعال اور حروف کی فہرستیں تیار کریں۔ اس طریق سے خدام میں قرآن مجید کی خدمت اور اس پر غوروفکر کی عادت پیدا کرنا مقصود تھا۔ مولوی ارجمند خان صاحب کا بیان ہے کہ اس تحریک کے سلسلہ میں میرے حصہ میں اٹھا رھواں پارہ آیا جو میں نے پیش کر دیا۔ ایک بار آپؓ نے ۱۲؍ دوستوں کو تحریک فرمائی کہ اڑھائی اڑھائی پارے یاد کرلیں۔ اس طرح سب مل کر حافظ قرآن بن جائیں۔ (تشحیذ الاذہان مارچ۱۹۱۲ء جلد۷ صفحہ۱۰۱)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کی تحریک فرمائی تو ایک احمدی نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ میں بے کار تھا۔ اور اپنے اہل و عیال کو چار ماہ سے متواتر کچھ نہیں بھیجا تھا۔ ان کے لیے چھ روپے جمع کیے تھے۔ مگر جب میں انہیں گھر روانہ کرنے والا تھا۔ آپ کاپیغام ملا۔ چھ روپے وہ اور چار روپے ایک دوست سے قرض لے کر دو سالوں کا چندہ بھیجنے کی نیت کی۔ لیکن اضافہ کرنے کے لیے دس آنہ کی ضرورت تھی۔ ایک دوست کو اپنی دوچارپائیاں بنوانے کی ضرورت تھی۔ میں نے کہا میں بُن دوں گا۔ آپ اتنی اجرت مجھے دے دیں۔ پس میں نے وہ دوچارپائیاں بُن کر آٹھ آنے حاصل کیے اور دوآنہ کا اور اضافہ کر کے دس روپے دس آنے بھیج رہا ہوں۔ الحمدللہ (الفضل ۵؍اگست ۱۹۳۹ء صفحہ ۲)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےعورتوں کو تحریک کی کہ وہ چندوں کی وصولی میں مدد کریں۔ اس پر ایک جماعت کے دوستوں نے جاکرایک سست دوست کی بیوی سے کہا کہ اس کام میں آپ ہماری مدد کریں۔ اس دوست نے جب تنخواہ لاکر بیوی کو دی تو اس نے پوچھا کہ آپ چندہ دے آئے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں چندہ تو نہیں دیا سیکرٹری ملا نہیں تھا۔ پھر دے دوںگا۔ مگر بیوی نے کہا کہ میں تو ایسے مال کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہوںجس میں سے خدا تعالیٰ کا حق ادا نہ کیا گیا ہو۔ میں تو نہ اس سے کھانا پکاؤں گی اور نہ کسی اور کام میں صرف کروں گی۔ مرد نے کہا چندہ مَیں صبح دے دوں گا۔ اس وقت دیر ہوچکی ہے رکھو۔ مگر بیوی نے کہا کہ پہلے چندہ ادا کر آؤ۔ پھر میں ہاتھ لگاؤں گی۔ اس پر وہ شخص اسی وقت سیکرٹری مال کے پاس گیا اور ادائیگی کی اور کہا کہ آئندہ تنخواہ کے ملنے کے دن ہی مجھ سے چندہ لے لیا کرو تاگھر میں جھگڑا نہ ہو۔ (الفضل ۱۲؍مئی ۱۹۳۹ء)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرماتے ہیں: جب میں امریکہ میں تھا مجھے کوئی تکلیف مثلاً علالت یا دعوت الی اللہ امور میں کچھ مشکلات پیش آتیں تو میری عادت تھی کہ میں فوراً حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھتا تھا میں جانتا تھا کہ امریکہ سے ہندوستان خط ایک ماہ میں پہنچتا ہے اور معاملہ بیماری کا یا کوئی دوسرا امر ایسا ہوتا تھا کہ اس کا علاج فوری ہونا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال ہوتا کہ جس مالک کے حضور میں حضرت نے میرے لیے دعا کرنی ہے وہ تو عالم الغیب ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ میں آج دعا کے واسطے خط لکھ رہا ہوں اور وہ یہ بھی پہلے سے جانتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ میرے لیے دعا کریں گے پس وہ قادر ہے کہ جو دعا آ ج سے ایک ماہ بعد ہونے والی ہے۔ اس کے واسطے قبولیت کے سامان آج ہی کردے۔

مکر م چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ مبلغین کے وفد کے ساتھ ۱۹۴۶ء میں لندن پہنچے۔اس وقت لندن مشن کی صورت حال انہوں نے ایک انٹرویو میں بیان کی جس کا کچھ حصہ احباب کی خدمت میں پیش ہے۔ فرماتے ہیں:حضرت صاحبؓ نے ہمیں تقسیم ہند کے بعدلکھا کہ ملک تقسیم ہو گیا ہے۔ہم لاہور آگئے ہیں اس لیے میں اب ان تمام مبلغین کو جنہو ں نے وقف کیا ہوا ہے وقف سے آزاد کرتا ہوں جو آزاد ہونا چاہتا ہے ہو جائے جب حالات بہتر ہو ں گے میں تنکا تنکا اکٹھا کر کے گھونسلہ بنا لوں گا اور آپ کو بلا لوں گا۔ کرم الٰہی ظفر صاحب نے لکھا کہ مجھے الاؤنس نہ دیں مجھے رہنے کی اجازت دیں میں اپنے طور پر تبلیغ کرتا ہوں۔وہ پرفیوم بیچا کرتے تھے اس لیے وہ سپین میں رہ گئے۔ عطاء الرحمان صاحب نے کہا کہ مجھے فارغ نہ کریں مجھے رہنے دیں وہ فرانس میں تھے۔ تیسرا میں تھا…۔ یہ جووقت تھا مالی تنگی کا یہ تین چار ماہ رہا اس کے بعد پھر حضرت صاحب نے پیسے بھجوانے کا انتظام کر دیا تھا۔

نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے

چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے

وہ آ رہے ہیں زمانے کہ تم بھی دیکھو گے

خدا کے ہاتھ سے انسان کو بدلتے ہوئے

۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کے آغاز پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے واقفین زندگی کا مطالبہ کیا جس پر بیسیوں احباب نے لبیک کہا اور اموال پیش کر دیےدنیا بھر میں تبلیغ کی ایک مربوط اورمنظم سکیم کا آغاز ہوا۔ اسلام کی اشاعت کے لیے سابقہ بزرگوں نے بہت محنت کی ہے مگراسلام کی چودہ سالہ تاریخ میں تبلیغ اسلام کا یہ سب سے بڑا اور مربوط اور منظم منصوبہ ہے جو خلافت اور جماعت کے تعلق کی زندہ داستان ہے۔ جماعت نے اپنے جگر گوشے پیش کر دیے اور خلافت نے ان کو سینے سے لگا لیا۔۸۰؍ ہزار تو صرف واقفین نو ہیں۔جماعت نے اپنے اموال پیش کر دیے تو خلافت قائم کرنے والے خدا نے ہزاروں گنا بڑھا کر لوٹا دیےجن کے نظارے اس جلسہ پر بھی نظر آ رہے ہیں۔

ایک صاحب ۱۹۳۴ء میں احمدی ہوئے اور اسی وقت تحریک جدید کے مالی جہاد میں شامل ہو گئے۔ ایک عرصہ بعد انہوں نے اپنی آمد کا اندازہ کر کے ۲۰۳۴ء تک ۱۰۰ سال کا چندہ ادا کر دیا جب کہ ان کی وفات ۲۰۰۲ء میں ہو گئی مگر وہ آج بھی تحریک جدید کے مجاہدین میں شامل ہیں۔ (الفضل ۲۸؍اپریل ۲۰۰۴ء )

اخبار سیاست کے ایک مضمون نگار نے لکھا کہ ’’آئے دن چندے دیتے دیتے قادیانی مرید تھک سے گئے ہیں‘‘۔ اس پر ایک احمدی نے حضرت مصلح موعودؓ کو لکھا:سیاست کے بودے اعتراضات پڑھے جن کو ایک عقلمند نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے … احمدی احباب تھک نہیں گئے بلکہ استقامت سے اپنے فرض منصبی کو ادا کررہے ہیں لہٰذا مبلغ ایک سو روپیہ بندہ اپنے حساب سے زائد ایک لاکھ کی تحریک میں نقد ارسال کرتا ہے تاکہ دشمنوں کو معلوم ہوجائے کہ احمدی چندوں سے ہرگز نہیں تھکتے بلکہ اگر امام وقت حکم فرمائیں کہ جانیں حاضر کرو تو بغیر حیل و حجت کے حاضر ہوجاویں۔ (الفضل ۲۱؍اپریل ۱۹۲۵ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ءپر وقف جدید کا اعلان کیا۔ واقفین کی درخواستیں آنی شروع ہو گئیں۔ چنانچہ ۱۸؍جنوری ۱۹۵۸ء کو چودہ واقفین کو بطور معلم منتخب کر لیا گیا ان کے لیے ایک ہفتہ کی تربیتی کلاس منعقد کی گئی اور یکم فروری ۱۹۵۸ء کو چھ معلمین کا پہلا قافلہ سوئے منزل روانہ ہو گیا۔ چنانچہ پہلے سال کے اختتام پر ۹۰؍ مراکز وقف جدید کے تحت قائم ہو چکے تھےاور ستر ہزار روپیہ کی مطلوبہ رقم بھی موصول ہو گئی۔

سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے بارےمیں تحریک فرمائی اور امریکہ کے ڈاکٹروں کو تین ملین ڈالر جمع کرنے کا ارشاد فرمایا۔جس ڈاکٹر کو اس کا نگران بنایا گیا اس نے ایک معقول رقم کا وعدہ لکھوایا۔ مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ اس نے اپنی سپورٹس کار بیچ دی۔چند روز بعد ہی اسے غیر معمولی آفر ہوئی اور ادا کردہ رقم سے خدا نے کئی گنا زیادہ عطا کر دیا۔ (عدالت عالیہ تک کا سفر صفحہ ۳۱۳)

حضور اید ہ اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد متعدد ملکوں کے دورے فرمائے اور ہر دفعہ جب آپ سے پریس والے پوچھتے ہیں کہ اس دورہ کا مقصد کیا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلا مقصد احباب جماعت سے ملنا ہے۔ آپ نے کووڈ کی وبا سے پہلے ۲۰۱۸ء تک جو دورے فرمائے ہیں ان کے اعداد و شمار پر ہی نظر ڈالی جائے تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔آپ نے ۲۹؍ ممالک کا سفر کیا۔کئی ممالک میں کئی بار گئے اس طرح ان کی تعداد ۱۰۹؍ بنتی ہے۔ دورے کے ایام ۱۰۷۱؍ ہیں قریباً تین سال۔ان میں ۴۲؍ مساجد کا سنگ بنیاد رکھا اور ۱۰۳ کا افتتاح کیا۔جن احمدی احباب سے انفرادی یا اجتماعی ملاقات کی ان کی تعداد ۱۸۶۶۷۸؍ ہے۔دفتری ملاقاتیں اس کے علاوہ ہیں۔ ان سب ملاقاتوں میں ہر ایک کے حالات دریافت کرنا،مردوں سے مصافحہ کرنا بچوں میں تحائف کی تقسیم یہ سب تھکا دینےوالے کام ہیں مگر خلافت اور جماعت کی باہمی محبت یہ نہیں دیکھتی۔احباب بھی ان ملاقاتوں کے لیے کئی دفعہ سالوں انتظار کرتے ہیں۔ سفروں کے دوران کئی دفعہ حضور کی طبیعت ناساز ہوئی مگر حضور نے کبھی اس تکلیف کو اپنے پروگرام اور ملاقاتوں پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔

۲۰۱۳ءمیں حضور جلسہ سالانہ آسٹریلیا کے لیے تشریف لے گئے نماز ظہر و عصر کے بعد اچانک ایک احمدی حضور کے سامنے آ گیا اور درخواست کی کہ حضور اس کے بیٹے کی آمین کروا دیں۔ حضور نے فرمایا شام کو آمین کی تقریب ہے اس میں بیٹے کو لے آنا۔ اس احمدی نے کہا کہ میری شام کو واپسی ہے حضور نے فرمایا اپنے بیٹے کو ابھی لے آؤ اور اپنی رہائش گاہ کے سامنے اس بچے کی آمین کی تقریب منعقد کروا دی۔ (الفضل ۲۴؍مئی ۲۰۱۹ء )

کینیڈا کے ۲۰۰۸ء کے دورے میں مجلس خدام الاحمدیہ کا کبڈی میچ تھا۔ حضور انور بھی یہ میچ دیکھ رہے تھے کہ ایک چھوٹی بچی آئی اور حضور کی گود میں اپنا سر رکھ دیا حضور نے سارا میچ اسی طرح دیکھا اور بعد میں جب کھلاڑیوں کے ساتھ تصویر بنائی تو بھی اس بچی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔(الفضل ۲۵؍جولائی ۲۰۰۸ء)

مراکش کےایک احمدی ۲۰۰۶ء میں حضور سے ملنے کے لیے آ ئے تو حضور نے ان سے فرمایا کہ جب میں ۲۰۰۵ء میں سپین گیا تھا تو جبرالٹر کے پہاڑوں کی سیر کے دوران میں نے وہاں سے اپنےمراکشی بھائیوں کو السلام علیکم کہا تھا اور سلامتی کی دعائیں کی تھیں۔ (الفضل ۲۴؍مئی ۲۰۱۹ء )

محترم امیر صاحب جرمنی دفتر میں جو کرسی استعمال کرتے ہیں وہ بہت پرانی ہے مگر وہ تبدیل نہیں کرتے کیونکہ تین خلفاءنے اس کرسی کو اعزاز بخشا ہے۔ (اے چھاؤں چھاؤں شخص تری عمر ہو درازڈائری عابد خان صفحہ ۱۲۰ )

حضور ایک ملک کے دورہ پر تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضور کو کھانے کے حوالہ سے کوئی اطلاع ملی تو حضور نے امیر صاحب کو بلا کر فرمایا اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہر فرد واحد کو اچھی مقدار میں کھانا ملے۔کوئی بھی بھوکاواپس نہ جائے اگر آپ کے پاس پیسوں کا انتظام نہیں تو میں ذاتی طور پر آپ کو پیسے دے دوں گا۔ (اے چھاؤں چھاؤں شخص تری عمر ہو درازڈائری عابد خان صفحہ ۲۹ )

احباب جماعت کے گھریلو سکون کے بارےمیں حضور کس قدر فکر مند ہیں۔ اس کا اندازہ دارالقضاءکو دی جانے والی ہدایت سے ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔اگر جھگڑوں کے کیسز بڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ شعبہ تربیت،نیشنل امیر،خدام،لجنہ،اور دیگر عہدیدار احباب جماعت کی تربیت کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔حضور نے جماعت کے قاضیوں سے فرمایا جب شادی بیاہ کے لڑائی جھگڑے سن رہے ہوں تو آپ کا پہلا ہدف یہ ہونا چاہیےکہ میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوشش کی جائے اور ہر فیصلہ سے پہلے قاضی دو نفل پڑھے۔ (اے چھاؤں چھاؤں شخص تری عمر ہو درازڈائری عابد خان صفحہ ۳۳) واقعی حضور دنیا میں جس امن کا پیغام دے رہے ہیں اس کا آغاز احمدیوں کے گھروں سے کرنا چاہتے ہیں۔دنیا میں کون ایسا لیڈر ہے جو اپنے متبعین کی ذاتی زندگی میں اس قدر امن و سکون کا خواہش مند ہو۔

حضور نے اپنے ایک خادم کو تحفہ کے طور پر گھڑی عنایت فرمائی ان کے ۶ سالہ بیٹے نے کہا کہ جب آپ فوت ہو جائیں گے تو کیا میں حضور کی دی ہوئی گھڑی لے سکوں گا اس خادم نے مذاق کے طور پر یہ بات حضور کے سامنے کہہ دی حضور نے اسی وقت اپنی الماری کھولی ایک گھڑی نکالی اور فرمایا یہ اپنے بیٹے کو دے دینا اب اسے تمہارے مرنے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ (اے چھاؤں چھاؤں شخص تری عمر ہو درازڈائری عابد خان صفحہ ۳۸)اب اس بچے کی تمام چیزوں میں سب سے قابل فخر چیز وہی ہے۔

ایک خاتون نے دوران ملاقات عرض کی کہ ان کی انگوٹھی گم ہو گئی ہے۔حضور نے فورا ًاپنے دراز سے ایک انگوٹھی نکالی اور عطا فرما دی۔ اب وہ خاتون اپنی سابقہ انگوٹھی گم ہونے پر خوش ہیں۔میں نے ایک بار ملاقات میں کچھ پین پیش کر کے عرض کیا کہ دعا کر کے متبرک کر دیں فرمایا یہ تو تھوڑے ہیں دراز سے ایک مٹھی بھر کے اور پین نکالے اور عطا کر دیے۔

جماعت احمدیہ نے خلافت سے وفا کی ہے خلیفہ کی محبت کے آگے ہر محبت ہیچ ہے۔ ہر رشتہ کمزور ہے، ہر دولت دو کوڑی کی ہے، ہر جان قربان ہے، ہر روح خلافت کی محبت سے سرشار ہے،احمدیوں نےبیوی بچوں کو چھوڑ دیا، دوستوں اور مادر وطن سے جدائی اختیار کر لی مگر خلیفہ کا مان نہیں توڑا۔اسی لیے خدا بھی ہر وقت ہمارے ساتھ ہے۔ اس نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا اور نہ چھوڑے گا۔

خلافت احمدیہ نے جماعت کے کمزور طبقات کے لیے متعدد منصوبے جاری کر رکھے ہیں۔طلبہ کے لیے وظائف اور قرضوں کا سلسلہ ہے۔ اسیران اور شہداء کی فیملیز کے لیے سیدنا بلال فنڈ قائم ہے۔یتامیٰ کے لیے کفالت یتامیٰ کی تحریک ہے۔غریب لوگوں کی رہائشی سہولتوں کے لیے بیوت الحمد سکیم ہے۔ غریب بچیوں کے لیے مریم شادی فنڈ کی تحریک ہے۔ اکیلے رہ جانے والے جوڑوں کے لیے دار الاکرام کے نام سے انتظام ہے۔یہ ساری کامیاب سکیمیں بھی خلافت اور جماعت کی محبت کی مظہر ہیں کیونکہ تمام رقم جماعت ہی پیش کرتی ہے اور جماعت پر ہی خرچ ہوتی ہے۔

ایک خاتون اور ان کی بوڑھی والدہ نے بیعت کی تو سب فیملی ممبرز نے قطع تعلقی کا اعلان کر دیا۔کچھ عرصہ بعد والدہ سخت بیمار ہو گئیں تو خاتون پریشان تھیں کہ والدہ فوت ہو گئیں تو کفن دفن کا انتظام کس طرح ہو گا؟ اس دوران انہوں نے خواب میں حضور انور کو دیکھاحضور نے فرمایا آپ پریشان نہ ہوں ہم سب انتظام کر دیں گے۔اس کے تین دن بعد والدہ کی وفات ہو گئی جماعت نے خود ان سے رابطہ کیا اور پہلی بات جو جماعتی نمائندہ نے ان سے کہی وہ وہی تھی جو حضور نے خواب میں کہی تھی کہ آپ پریشان نہ ہوں ہم سب انتظام کر دیں گےاور سب انتظام کر دیا۔ (اے چھاؤں چھاؤں شخص تری عمر ہو درازڈائری عابد خان صفحہ ۱۱۰)

حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت آج ۲۱۳ ملکوں میں پھیل چکی ہے اور سب کا ایک ہی خلیفہ ہے۔ تمام جماعتوں،ان کی ذیلی تنظیموں اور اداروں کی رپورٹس حضورایدہ اللہ تعالیٰ ملاحظہ فرماتے ہیں۔ تمام جامعات کی ذاتی طور پر نگرانی فرماتے ہیں۔کئی ملکوں کے کانووکیشن میں شاہد کی ڈگریاں دیتے ہیں۔ جماعت کی تبلیغ و تربیت پر نظر رکھتے ہیں افتا اور قضا کے نظام کو دیکھتے ہیں۔روزانہ پانچ نمازوں کی امامت اور ہر جمعہ کے خطبہ کے علاوہ سالانہ جلسوں،اجتماعات، مجالس شوریٰ، پیس سمپوزیمزسے خطاب کرتے ہیں۔ طلبہ اور طالبات کو انعامات دیتے ہیں ہر ہفتے قریباً دو آن لائن ملاقاتیں فرما کر ہدایات دیتے ہیں۔ دشمن کی سازشوں کا قلع قمع کرتے ہیں ہر احمدی کو دنیا میں جو دکھ پہنچتا ہے وہ حضور کے سینے میں جمع ہوتا ہے اور دعاؤں میں ڈھلتا ہے۔حضور کی خدمت میں ذاتی طور پر ایک ہزار سے زیادہ خط روزانہ موصول ہوتے ہیں اور متعدد زبانوں میں ہوتے ہیں جن کے تراجم ہوتے ہیں ان سب خطوں کو پڑھ کر مناسب حال جواب دیتے ہیں اور پھر سب جوابات پر یعنی ایک ہزار سے زیادہ خطوط پر دستخط بھی کرتے ہیں اور گو دعائیں ہر وقت ہی جاری رہتی ہیں خصوصاً رات کو پھر جماعت کے لیے گریہ و زاری کرتے ہیں۔

کتنے ہی لوگ تھے جو بے اولاد تھے اور حضور کی دعا کے طفیل ان کو اولاد ملی۔کتنوں کو اولاد نرینہ عطا ہوئی۔کتنے ہی بے روزگار اور مالی تنگی میں مبتلا تھے جن کو حضور کی دعا سے مکان ملے، دولت ملی، خوشحالی ملی،کتنے ہی غیر ملکوں میں پناہ کی تلاش میں تھے اور مایوسی کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ خدا نے خلیفہ کی دعا سے ان کو ٹھکانے دے دیے۔کتنے ہی طالب علم تھے جن کو کامیابی کی تمنا تھی مگر بہت دور نظر آتی تھی دعا نے ان کو ڈگریاں بھی دیں۔ اور ملازمتیں بھی دیں کتنے ہی دشمن کے نرغے میں تھے، اسیر تھے، خدا نے خلیفہ کی دعا سے موت کے منہ سے بچا لیا۔کتنے بیمار تھے جنہوں نے اذیت سے نجات پائی اور لمبی عمریں پائیں۔

حضور روزانہ کتنے بچوں کے نام عطا کرتے ہیں،کتنے نکاح اور جنازے پڑھاتے ہیں، جماعت کے بیسیوں اخبارات و رسائل کا اور احباب کے مضامین اور تحقیق کا مطالعہ فرماتے ہیں، اور راہنمائی کرتے ہیں، ایم ٹی اے کے اکثر پروگرام نشر ہونے سے پہلے دیکھ کے ہدایات دیتے ہیں، اپنے دوروں کی رپورٹس اور ڈائری ملاحظہ فرماتے ہیں عام اخبارات اور کتب کا مطالعہ کر کے تازہ ترین عالمی حالات سے واقف ہوتے ہیں جو جماعت ہی کے کام آتا ہے۔

حضور ۲۰۰۵ءمیں قادیان تشریف لے گئے تو امور عامہ کے ایک کارکن بہت خوش تھے کہ میں نے ۶ ماہ پہلے حضور سے یونیورسٹی میں بیٹے کے داخلہ کے لیے دعا کی درخواست کی تھی آج حضور نے پوچھا ہے کہ اس کا داخلہ ہوا یا نہیں۔ (خلافت صفحہ ۷۱)

حیدرآباد پاکستان میں نومبائعین کا اجتماع تھا۔ اس پر آتےہوئے ایک بچہ موٹر سائیکل کی ٹکر سے زخمی ہو گیا۔ امیر صاحب ضلع نے اس کے لیے حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اس کے قریبا ًتین ماہ بعد امیر ضلع کے ایک ذاتی خط کے ایک طرف یہ جملہ لکھا ہوا تھا امید ہے وہ بچہ صحت یاب ہو چکا ہو گا۔(خلافت صفحہ ۷۱ )اس میں یہ سبق بھی تھا کہ جب خلیفہ وقت کو اس قسم کی خبریں دیتے ہیں توان کے بعد کے حالات سے بھی مطلع کیا کریں۔یہ واقعات بیسیوں احمدیوں کے ساتھ گزرے ہیں کہ ایمر جنسی کی حالت میں حضور بار بار اس بیمار کا پتا بھی کرواتے ہیں اور حسب حالات دوا بھی تجویز کرتے ہیں۔

اس محبت میں کالے اور گورے مشرق اور مغرب کی کوئی تمیز نہیں۔ ایک عرب دوست مصطفیٰ ثابت صاحب اپنے آخری ایام حضور کے قرب میں گزارنا چاہتے تھے۔ اور حضور کی اجازت سے مسجد فضل کے قریبی گیسٹ ہاؤس میں آگئے۔ حضور ان کی عیادت کے لیے جانا چاہتے تھے انہیں پتا لگا تو جلدی سے تکلیف اٹھا کر حضور کے دفتر پہنچ گئے تاکہ حضور کو دقت نہ ہو۔ (خلافت صفحہ ۱۱۶ )دورہ تنزانیہ کے دوران ۲۰۰۵ء میں حضور سے ملاقات کرنے والوں میں ایک پرانے بزرگ اور بیمار احمدی بھی تھے جو چلنے پھرنے سے معذور تھے جن کو ان کے بچے دُور سے لائے تھے اور اٹھا کر کرسی پر بٹھایا تھا۔ حضور ان سے ملنے کے لیے دفتر سے باہر تشریف لے آئے۔ (الفضل ربوہ یکم جون ۲۰۰۵ء )

حضور نے ۲۰۰۴ء میں کثرت سے نظام وصیت میں شمولیت کی تحریک فرمائی جس پر چند سالوں میں وصایا کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔حضور کے ایک نمائندہ نے اس سلسلہ میں افریقہ کا دورہ بھی کیا اور ان کا ایک پروگرام ریڈیو پر نشر ہوا۔ایک غریب احمدی دوست نے یہ پروگرام سن کر وصیت کا چندہ جمع کرنا شروع کر دیا اور جب مبلغ ان کے پاس گئے تو اصرار کے ساتھ چندہ ادا کیا اور بعد میں ان کا وصیت فارم پُر کرا یا گیا۔(خلافت صفحہ ۱۴۰ )

افریقہ میں انٹر نیشنل جامعہ احمدیہ کے قیام کا منصوبہ بنا تو گھانا کے ایک احمدی نے ۵۰۔ایکڑ زمین تحفہ کے طور پر پیش کر دی جہاں جامعہ تعمیر کیا گیا۔

جرمنی میں ترک احباب سے ملاقات میں ایک نو مبائع ترک نے مائیکروفون لیا اورحضور سے کہا I love you Huzoor اس پر حضور نے نہایت شفقت سے فرمایا I love you too(اے چھاؤں چھاؤں شخص صفحہ ۱۲۵)

حضور ۲۰۰۸ء میں خلافت جوبلی جلسہ قادیان کے لیے انڈیا تشریف لے گئے مگر ملکی حالات ایسے ہو گئے کہ قادیان کا جلسہ کینسل کرنا پڑا۔ ایک سرکاری اہل کار نے کہا کہ اگر حضور قادیان جانا چاہیں تو محدود پیمانہ پر حفاظتی انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔حضور نے فرمایا حفاظت تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے لیکن میرے ارد گرد ہر وقت سینکڑوں افراد ہوتے ہیں اور میں کسی احمدی کی جان کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا۔(الحکم ۲۰؍ستمبر ۲۰۱۹ء)

حضور فرماتے ہیںکون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو۔ خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لیے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لیے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔

کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لیے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لیے بے چین اور ان کے لیے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو…غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لیے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے…یہ مَیں باتیں اس لیے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں۔(خطبہ ۶؍جون ۲۰۱۴ء خطبات مسرور جلد ۱۲ صفحہ ۳۴۸)

حضور ۲۰۲۲ء میں امریکہ تشریف لے گئے۔ ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں حضور کی اقتدا میں نماز فجر پڑھ کر نکلا تو دیکھا کہ مسجد کی پارکنگ لاٹ میں ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے جو قریبا ً۱۰۰؍افراد پر مشتمل تھی پوچھا تو معلوم ہوا یہ سب نماز جمعہ کے لیے ۷گھنٹے پہلے قطار میں کھڑے ہو گئے ہیں۔ (خلافت صفحہ ۷۱۹)

ایک مربی سلسلہ پر فالج کا حملہ ہوا۔ حضور ان کے لیے دعا کرتے رہے کچھ بہتر ہوئے تو ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو حضور نے ہومیو پیتھی ادویہ بھی تجویز فرمائیں اور اپنی ایک چھڑی بھی عطا فرمائی جو ان کے پاس رہتی ہے اور اس پر انگریزی میں لکھا ہے ’امیر المؤمنین ۵‘ (خلافت صفحہ ۳۱۸)

خلافت اور جماعت کا رشتہ عجیب رشتہ ہے یہ حبل اللہ ہےخدا تک پہنچانے کا رستہ ہے احمدیوں کے لیے ماں باپ سے بڑھ کر پیار کرنے والی ہے خلافت بے سہاروں کا سہارا ہے غمزدوں کے لیے تسکین جاں ہے۔

تنزانیہ کے ایک دُور دراز علاقے میں جہاں سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے میں چھ سات سو کلو میٹرکا سفر بعض دفعہ آٹھ دس دن میں طے ہوتا ہے۔حضور اس علاقہ میں گئے تو وہاں لوگ ارد گرد سے بھی ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ان میں جوش قابل دید تھا۔ بہت جگہوں پر ایم ٹی اے کی سہولت بھی نہیں ہےمصافحے کے لیے لوگ لائن میں تھے ایک شخص نے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی جذبات سے مغلوب ہو کر رونا شروع کر دیاایک صاحب پرانے احمدی جو فالج کی وجہ سے بہت بیمار تھے، ضد کرکے ۴۰-۵۰ میل کا فاصلہ طے کرکے حضور سے ملنے کے لیے آئے۔

یوگنڈا میں جب حضورایئر پورٹ سے گاڑی پر باہر نکلے تو ایک عورت اپنے دو اڑھائی سال کےبچے کو اٹھائے ہوئےساتھ ساتھ دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی بچہ حضور کو دیکھ لے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ پھیرتی تھی کہ اس طرف دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی۔ اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پروا نہیں کی۔ آخر جب بچے کی نظر حضور پر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرا یا۔ ہاتھ ہلایا۔ تب ماں کو چین آیا۔ بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو۔حضور نے یہ واقعہ بیان کر کے فرمایا جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔ (خطبہ جمعہ ۲۷؍مئی ۲۰۰۵ء )

ہم اپنے امام کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ آج بھی وہ مائیں موجود ہیں آج بھی وہ باپ موجود ہیں جن کی ہر سانس خلافت احمدیہ کے ساتھ چلتی ہے ان کی ہر خوشی اس میں ہے کہ خلیفہ وقت ان سے خوش ہو وہ اس کے ساتھ آنسو بہاتے ہیں اوراس کے ساتھ مسکراتے ہیں ان کا خلیفہ ان کے لیے بے قرار ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے تڑپتے ہیں۔یاد رکھیں یہ رحمۃ للعالمین محمد مصطفیٰ ﷺ کا اعجاز ہے یہ مسیح موعودؑ کی برکت ہے۔ ساری دنیا اپنی ساری دولتیں بھی جمع کر لے تو ایسی محبت پیدا نہیں کر سکتی خدا کا شکر ادا کریں کہ ۱۴۰۰ سال بعد خلافت احمدیہ جیسی نعمت ہمیں عطا ہوئی ہے۔ اس سے جڑے رہیں اپنی اولادوں کو اس کے ساتھ جوڑ دیں کہ آج دنیا میں ایسی سچی محبت کہیں اور نہیں مل سکتی۔

ہماری جاں خلافت پر فدا ہے

یہ روحانی مریضوں کی دوا ہے

اندھیرا دل کا اس سے مٹ گیا ہے

یہی ظلمات میں شمعِ ھُدیٰ ہے

اربوں کی دنیا میں ایک خدا کا خلیفہ ہے جس کی دعائیں کثرت سے عرش پر سنی جاتی ہیں جس کو دعا کا خط لکھ کر مصیبت زدہ انسان چین کی نیند سو جاتاہے مگر وہ درد کا مارا ساری رات اس کے لیے بے چین رہتا ہے۔جس کے مشورے آسمان سے تائید یافتہ ہوتے ہیں جو خدا کے نور سے دیکھتا ہے اور مستقبل کے خدشات کو پہلے سے بھانپ کر راہِ سداد دکھا دیتا ہے جس کے دل میں اپنی جماعت کے لیے خصوصاً اور انسانیت کے لیے عموماً ایک درد ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجزن ہے جس کے مددگاروں کو خدا کامیاب کرتا ہے اور جس کی آواز پر لبیک کہنے والے بے پایاں اجر کے مستحق ہوتے ہیں اللہ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button