حاصل مطالعہ

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کی روشنی میں تربیت اولاد (قسط اوّل)

تربیت اولاد سے محض یہ مراد نہیں کہ اولاد کو دنیوی جاہ و منصب کے حصول کے لیے تیار کیا جائے، بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں دینی اخلاق وآداب کا شروع سے ہی سکھانا مراد ہے اور اس میں دینی تعلیم سے کماحقہٗ آگاہ کرنا، آدابِ معیشت، آدابِ محفل، نماز روزہ کی پابندی، آدابِ گفتگو،آدابِ معاشرہ، قانون کی تعظیم و تکریم، دیانت داری، فرائضِ منصبی کی ادائیگی، محنت کشی، لوگوں کو نفع پہنچانا اور ان سے حسنِ معاملہ کرنا۔ یہ باتیں تربیتِ اولاد میں شامل ہیں اور خود بخود یہ باتیں پیدا نہیں ہو سکتیںبلکہ پوری محنت اور کوشش چاہتی ہیں اور ان امور کی ذمہ داری والدین، رشتہ داروں، دوستوں اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تربیتِ اولاد کے متعلق واضح اور روشن ہدایات ہمیں عطا فرمائی ہیں اور حضور کا اپنا نمونہ اور عمل اس بارے میں ہمارے لیے مشعلِ ہدایت اور شحنۂ راہ ہے اور حضور کے کلمات اور ملفوظات کا کچھ حصہ زیرِ نظر مضمون میں بیان کیا جا رہا ہے۔

ہمارے دین کی تعلیم کے مطابق بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کی تربیت کا آغاز ہو جاتا ہے اور نوزائیدہ بچے کے کان میں توحید و رسالت کی آواز پہنچائی جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے سات برس کے بچے کو نماز پڑھنے کی تاکید اور دس برس کے بچے کے لیے اس کی فرضیت کی تعلیم دی ہے۔

اولاد کے قرۃ العین ہونے کے لیے دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے اور اولاد کا قرۃ العین ہونا پابندئ نماز کو چاہتا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے نماز کو قرۃ العین فرمایا ہے: ’’وقرۃ عینی فی الصلوٰۃ ‘‘۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے طفولیت کے زمانہ سے ہی تربیت اولاد کی تاکید فرمائی ہے:’’دینی علوم کی تحصیل کے لئے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے جب داڑھی نکل آئی تب ضرب یضرب یاد کرنے بیٹھے تو کیا خاک ہوگا۔ طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے۔ انسانی عمر کے کسی دوسرے حصّے میں ایسا حافظہ کبھی نہیں ہوتا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ طفولیت کی بعض باتیں تو اب تک یاد ہیں لیکن پندرہ برس پہلے کی اکثر باتیں یاد نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی عمر میں علم کے نقوش ایسے طور پر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں اور قوٰی کے نشو ونما کی عمر ہونے کے باعث ایسے دلنشین ہو جاتے ہیں کہ پھر ضائع نہیں ہو سکتے۔ (تقریر جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء )

پھر فرمایا :’’ تعلیمی طریق میں اس امر کا لحاظ اور خاص توجہ چاہئے کہ دینی تعلیم ابتداء سے ہی ہو اور میری ابتداء سے یہی خواہش رہی ہے اور اب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرے دیکھو تمہاری ہمسایہ قوموں یعنی آریہ نے کس قدر حیثیت تعلیم کیلئے بنائی تھی۔ کئی لاکھ سے زیادہ روپیہ جمع کر لیا۔ کالج کی عالیشان عمارت اور سامان بھی پیدا کیا۔ اگرپورے طور پر اپنے بچوں کی طرف توجہ نہ کریں تو میری بات سُن رکھیں کہ ایک وقت ان کے ہاتھ سے بچے بھی جاتے رہیں گے‘‘۔

حضور بچپن میں ہی اپنی اولاد کو بڑوں کا ادب لحاظ سکھاتے تھے ایک مرتبہ بچپن کے زمانہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اپنے ساتھ والے لڑکے سے کہا کہ ’’دیکھو وہ نظام دین کا مکان ہے‘‘۔ اس پر حضورؑ نے نصیحت فرمائی کےلیے اور ٹوک دیا۔ فرمایا:’’میاں آخر وہ تمہارا چچا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے‘‘۔

ایک مرتبہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سے بچپن میں قرآن شریف کی کوئی بے حرمتی ہوگئی۔ اس پر حضرت مسیح موعودؑ کا چہرہ غصہ سے سُرخ ہو گیا اور آپؑ نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے شانہ پرطمانچہ مارا۔ گویا حضورؑ نے بچپن سے ہی اخلاق کی نگہداشت لازمی قرار دی ہے۔ بعض والدین نہایت سخت گیر ہوتے ہیں اور بچے کو مارنا پیٹنا ان کا معمول ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس بعض والدین بچے کے ساتھ اتنا لاڈپیار کرتے ہیں کہ بچے بگڑ جاتے ہیں۔ صحیح راستہ ان دونوں کے درمیان ہے۔ امر اوّل کے متعلق حضور کا ایک واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔

ایک مرتبہ ایک دوست نے اپنے بچے کو مارا۔ حضور نے اسے بلایا اور ایک بڑی درد انگیز تقریر فرمائی۔ فرمایا:’’میرے نزدیک بچوں کو یوں مارنا شرک میں داخل ہے۔ گویا بد مزاج مارنے والا ہدایت اور ربوبیت میں اپنے تئیںحصہ دار بننا چاہتا ہے۔ ایک جوش والا آدمی جب کسی بات پر سزا دیتا ہے تو اشتعال میں بڑھتے بڑھتے ایک دشمن کا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور جرم کی حد سے سزا میں کوسوں تجاوز کر جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص خود دار اور اپنے نفس کی باگ کو قابو سے نہ دینے والا اور پورا متحمل اور بُردبار اور باسکون اور باوقار ہو تو البتہ اسے حق پہنچتا ہے کہ کسی وقت مناسب پر کسی حد تک بچے کو سزا دے یا چشمِ نمائی کرے مگر مغضوب الغضب اور سُبک سر اور طائش العقل ہر گز سزا وار نہیں کہ بچوں کی تربیت کا متکفل ہو۔ جس طرح اور جس قدر سزا دینے میں کوشش کی جاتی ہے کاش دعا میں لگ جائیں اور بچوں کیلئے سوزِ دل سے دُعا کرنے کو ایک حزب مقرر کرلیں اس لئے کہ والدین کی دعا کو بچوں کے حق میں خاص قبول بخشا گیا ہے۔ میں التزاماً چند دعائیں ہر روز مانگتا ہوں۔

اوّل : اپنے نفس کے لئے دُعا مانگتا ہوں کہ خدا وند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت و جلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق دے۔

دوم:پھر اپنے گھر کے لوگوں کے دعا مانگتا ہوں کہ ان سے قرۃ العین (اولاد) عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پر چلیں۔

سوم: پھر اپنے بچوں کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ یہ سب دین کے خادم بنیں۔

چہارم: پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام۔

پنجم: پھر ان سب کیلئے جو اس سلسلے سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں۔

حضور بچوں پر سخت گیر نہ تھے اور کبھی کبھی اپنے بچوں کو پیار سے چھیڑا بھی کرتے تھے اور وہ اس طرح سے کہ کبھی کسی بچے کا پائنچہ پکڑ لیا اور کوئی بات نہ کی خاموش ہو رہے۔ یا بچہ لیٹا ہوا ہے تو اس کا پائوں پکڑ کر اس کے تلوے سہلانے لگے۔ بچوں کی غلطی پر حضور متوکلاً علی اللہ عفوودرگزر سے کام لیتے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ جبکہ ان کی عمر چار برس کی تھی بہت سے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور اسی اثناء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت ضروری مسوّدے کو دیا سلائی دکھا دی اور مسودہ جل کر راکھ ہو گیا۔ حضور مضمون لکھ رہے تھے اور جب سیاقِ عبارت کےلیے ضرورت پڑی تو مضمون کی تلاش ہوئی اور سب لوگ حیران اور فکرمند تھے کہ اب کیا ہو گا۔ اور ایک نہایت ناگوار نظارے کا پیش آنا گھر والوں کو متوقع تھا۔ لیکن جب حضور ؑکو معلوم ہوا کہ مسودہ جل چکا ہے تو حضور نے مسکرا کر فرمایا:’’خُوب ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھائے‘‘۔

مندرجہ بالا واقعات جس قدر سبق آموز اور تربیت اولاد کے اصولوں میں سے ایک اصول کو واضح کرنے والا ہے وہ ظاہر و باہر ہے۔

اسی طرح یہ بھی واقعہ ہے کہ حضور تنہائی میں کوئی کتاب لکھ رہے ہیں اور اپنی عادت کے مطابق حضور نے دروازہ بند کیا ہوا ہے اور حضرت صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب نے دستک دی ’’ابا بوا کھول‘‘۔ حضورؑ نے اُٹھ کر دروازہ کھول دیا اور یکے بعد دیگرے دو دو چار چار منٹ کے بعد اسی طرح بچے کا دستک دینا اور حضور کا دروازے کو کھول دینا اور اطمینان اور بشاشت سے یہ باتیں برداشت کرنا اور کوئی زجرو توبیخ نہ کرنا والدین کے لیے ایک اسوۂ حسنہ ہے۔

اسی طرح بچوں پر حضور کا تلطف اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ حضور چارپائی پر بیٹھے ہیں اور بچوں نے رفتہ رفتہ حضور کو پائنتی پر بٹھا دیا ہے اور اپنے بچپنے کی بولی میں مینڈک،کوے اور چڑیا کی کہانی سُنا رہے ہیں اور حضور بڑی خوشی سے یہ کہانیاں سُنتے جا رہے ہیں۔

بچہ بعض اوقات ضِد میں آجاتا ہے۔ بال ہٹ ضرب المثل ہے۔ ایسے موقعہ پر بعض والدین بچے کو مار پیٹ کر درست کرنا چاہتے ہیں اور اگر رو رہا ہے تو اسے زبردستی چُپ کرانا چاہتے ہیں۔ بعض مائیں ایسے وقت بچے کو بے تحاشہ مار پیٹ کرنے لگتی ہیں اور سیر ہو کر ان پر غصہ نکالتی ہیں۔ یہ عدم تحمل اور بے صبری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ حضورؑ کا نمونہ ایسے موقعہ پر ہمارے سامنے ہے۔ لدھیانہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کوئی تین برس کے تھے اور آدھی رات کے وقت رونے لگے اور روتے چلے گئے۔ حضور بچے کو گود میں لیے بہلاتے رہے اور بچہ ہے کہ چپ ہونے میں نہیں آتا۔ بچے کی توجہ کو پھیرنے کے لیے حضورؑ نے فرمایا: ’’دیکھو محمود وہ کیسا تارا ہے‘‘۔ بچہ ذرا چُپ ہوا اور پھر رونے اور چلانے لگا اور کہنا شروع کیا کہ ’’ابا تارے جانا‘‘ اور حضورؑ اپنے آپ سے فرمارہے ہیں:’’ یہ اچھا ہوا، ہم نے تو ایک راہ نکالی تھی اس نے اس میں بھی اپنی ضد کی راہ نکال لی ‘‘۔آخر بچہ تھک کر خاموش ہوگیا لیکن اس تمام عرصہ میں ایک لفظ بھی سختی اور شکایت کا حضورؑ کے منہ سے نہ نکلا۔

حضورؑ بچوں کو سزا دینے کے سخت مخالف تھے۔ کسی استاد کے متعلق یہ شکایت پہنچی کہ وہ بچوں کو مارتا ہے تو حضور اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ’’جو استاد بچوں کو مار کر تعلیم دینا چاہتا ہے یہ دراصل اس کی اپنی نالائقی ہوتی ہے‘‘ اور فرماتے تھے کہ ’’دانا اور عقلمند استاد جو کام حکمت سے لے لیتا ہے وہ کام نالائق استاد مارنے سے لینا چاہتا ہے ‘‘۔

ایک دفعہ ایک استاد نے ایک بچے کو کچھ سز ادی تو حضور نے سختی سے فرمایا کہ’’اگر پھر ایسا ہوا تو ہم اس استاد کو مدرسہ سے الگ کردیں گے ‘‘۔حالانکہ وہ استاد بڑا مخلص تھا اور حضور کو بھی اس سے بڑی محبت تھی۔ حضورؑ فرماتے تھے کہ ’’استاد عموماً اپنے غصہ کے اظہار کے لئے مارتے ہیں ‘‘۔

اور فرماتے: ’’جب تک اولاد کی خواہش محض اس غرض کے لئے نہ ہو کہ وہ دیندار اور متقی ہو اور خدا تعالیٰ کی فرمانبردار ہو کر اس کے دین کی خادم بنے یہ خواہش فضول اور معصیت ہے اور باقیات صالحات کی بجائے باقیات سئیاتکا نام ایسی اولاد کے لئے جائز ہوگا۔‘‘ اور نیز حضور نے فرمایا ہے کہ ’’صالح اور متقی اولاد کی خواہش سے پہلے ضروری ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کرے اور اپنی زندگی کو متقیانہ بنا دے۔ تب اس کی ایسی خواہش ایک نتیجہ خیز خواہش ہوگی اور ایسی اولاد حقیقت میں اس قابل ہوگی کہ اس کو الباقیات الصالحات کا مصداق کہیں۔ لیکن اگر یہ خواہش صرف اس لئے ہو کہ ہمارا نام باقی رہے اور وہ ہمارے املاک و اسباب کی وارث ہو یا وہ بڑی نامور اور مشہور ہو اس قسم کی خواہش میرے نزدیک شرک ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد ۲صفحہ ۳۷۰)

آپؑ نے فرمایا: ’’مجھے اپنی اولاد کے متعلق کبھی خواہش نہیں ہوئی کہ وہ بڑے بڑے دنیا دار بنیں اور اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر مامور ہوں‘‘۔ نیز فرمایا:’’جو اولاد معصیت اور فسق کی زندگی بسر کرنے والی ہو اس کی نسبت شیخ سعدی کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ پیش از پدر مردہ بہ ناخلف‘‘۔

فرمایا:’’ قرآن شریف نے بیان فرمایا ہے رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا یعنی خدا تعالیٰ ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما دے۔ اور یہ تب میسّر آسکتی ہے کہ وہ فسق و فجور کی زندگی بسر کرنے والے نہ ہوں بلکہ عباد الرحمٰن کی زندگی بسر کرنے والے ہوں اور خدا کو ہر شے پر مقدم کرنے والے ہوں۔ اور آگے کھول کر کہہ دیا وَاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا اور اگر نیک اور متقی ہو تو یہ ان کا امام بھی ہوگا۔ اس سے گویا متقی ہونے کی بھی دعا ہے‘‘۔ فرمایا : ’’بعض لوگوں کا یہ بھی خیال آتا ہے مگر یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ اولاد صالح ہو، طالع نہ ہو‘‘۔

فرمایا:’’بعض اوقات ایسے لوگ اولاد کے لئے مال جمع کرتے ہیں اور اولاد کی صلاحیت کی فکر اور پرواہ نہیں کرتے وہ اپنی زندگی میں اولاد کے ہاتھ سے نالاں ہوتے ہیں اور اس کی بدا طواریوں سے مشکلات میں پڑ جاتے ہیں۔اور وہ مال جو انہوں نے خدا جانے کن کن حیلوں اور طریقوں سے جمع کیا تھا آخر بدکاری اور شراب خوری میں صرف ہوتا ہے اور وہ اولاد ایسے ماں باپ کے لئے شرارت اور بد معاشی کی وارث ہوتی ہے‘‘۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button