حاصل مطالعہ

بھارت میں پچہتر۷۵ فیصد مدارس غیر ضروری، ’’بد خدمتی ‘‘ اور مفاسد میں مبتلا

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ’’ملت ٹائمزڈاٹ کام‘‘ (انڈیا) میں ’’دینی مدارس : خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ کے عنوان سے ایک انتہائی افسوسناک صورتحال کا انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’جہاں اصحابِ خیر کو مدارس کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہیں مدارس کو بھی خود اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے، اگر ارباب مدارس نے اس طرف توجہ نہیں دی تو جو حال وسط ایشیا کے ملکوں میں کمیونسٹ تحریک کے غلبہ سے پہلے علماء ومشائخ اور تعلیم گاہوں اور خانقاہوں کا ہوا، یہاں تک کہ عام مسلمان اتنے بدگمان ہو گئے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے علماء ومشائخ کو تہ تیغ کیا، ہزار بار خدانخواستہ کہیں ہمارے ملکوں میں بھی عوام کے اندر علماء سے اسی طرح کی نفرت پیدا نہ ہوجائے۔

اس لیے اس سلسلے میں چند بنیادی باتیں عرض کی جاتی ہیں:

۱۔ اس وقت جو نئے مدارس قائم کئے جا رہے ہیں، شاید مبالغہ نہ ہو کہ ان میں ۷۵؍فیصد بلا ضرورت ہیں، اور کسی خاص مقصد کے تحت قائم نہیں کئے جارہے ہیں، شہر کے ایک ہی محلہ میں کئی کئی مدارس، ایک ہی گلی میں کئی کئی ادارے، حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ محلہ کے ایک مدرسہ میں اگر تمام مدارس کے طلبہ کو جمع کر دیا جائے، تب جا کر وہ ایک چھوٹا موٹا مدرسہ کہلانے کا مستحق ہوگا، مدارس کی یہ بے وجہ کثرت زیادہ سے زیادہ اساتذہ، منتظمین اور عملہ کی تنخواہوں کا بوجھ اُمت کے کاندھوں پر ڈالتا ہے، بعض جگہ تو جتنے بھائی ہیں، ہر بھائی کا الگ الگ مدرسہ ہے، اور اب لڑکیوں کی تعلیم گاہوں میں بھی یہی نوبت آرہی ہے کہ ہر بہن اور ہر بھاوج کے الگ الگ مدرسے ہیں۔

شہروں میں ہی نہیں قصبات میں بھی مدارس کا سیلاب اُمڈا آرہا ہے، دیہاتوں میں مکاتب کی ضرورت ہے لیکن وہاں چونکہ معاشی وسائل کم ہیں، اور شہر کی رونقیں بھی نہیں ہیں۔اس لیے اس طرف توجہ نہیں کی جاتی، اسی طرح اس وقت عصری اسکولوں کی ضرورت ہے،لیکن اس طرف توجہ نہیں ہے، کیونکہ اس کے لیے جو علمی لیاقت مطلوب ہے، وہ حاصل نہیں ہے اور اسکول کے قیام کے لیے عام طور پر اہل خیر چندہ نہیں دیتے، اس طور پر بلا ضرورت اوربے مقصد مدارس کا قیام خدمت نہیں بد خدمتی ہے، اس کی وجہ سے دینی تعلیم پر، علماء پر اور مدارس پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے، اور بجا طور پر بہت سے لوگ اس کو مولویوں کا کاروبار سمجھنے لگے ہیں، ایسی مثالیں بھی مل جائیں گی کہ کوئی دُکان لگائی، کاروبار شروع کیا، لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو مدرسہ قائم کر لیا، غور کیجئے، مدرسہ تعلیم کے لیے ہے یا کسب ِمعاش کے لیے ؟

یہ بات بھی دیکھی جاتی ہے کہ مدرسہ میں زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہے، چند بچوں کی آمد و رفت ہے، لیکن

۲۔ زکوٰۃ کا جواز پیدا کرنے کے لیے کہیں دُور دراز سے آٹھ دس بچے لے آئے، دارالاقامہ قائم کر لیا کہ اب کوئی اعتراض نہ ہو اور ان بچوں کا سہارا لے کر زکوٰۃ وصول کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے، حالانکہ جس مرحلے کی تعلیم کے لیے دُور دراز کے بچوں کو لایا جا رہا ہے، وہاں اس مرحلے کی تعلیم کے بہت سارے ادارے موجود ہیں، داخلہ کی گنجائش بھی ہے اور مدرسہ کو طلبہ کی ضرورت بھی، لیکن سرپرستوں کو بہلا پھسلا کر بچے لائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ معلوم ہوا کہ لانے والے حضرات ایک طرف مدرسہ کے مہتمم سے پیسے وصول کرتے ہیں، اور دوسری طرف بچوں کے غریب سرپرستوں سے، اب چائلڈ لیبر قانون اتنا سخت ہو گیا ہے کہ بعض دفعہ بچے پکڑے بھی جاتے ہیں، اور رشوت دے کر انہیں چھڑایا جاتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ نے اس انداز پر مدارس قائم کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ ثواب کا عمل ہے یاعنداللہ جواب دہی میں اضافہ کا سبب ؟

۳۔ خلافِ واقعہ بات کہنے کو جھوٹ کہتے ہیں، اور دوسروں کو خلاف واقعہ باتوں کا یقین دلایا جائے، یہ دھوکہ ہے، جب غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے دوسرے کو کوئی خاص بات باور کرائی جائے تو اس میں جھوٹ اور دھوکہ دونوں کی شمولیت ہو جاتی ہے، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ مدارس کے تعارف میں شاید جھوٹ کو بُرا نہیں سمجھا جاتا، اس لیے طلبہ اور فارغین کی تعداد میں بڑے ہی مبالغے سے کام لیا جاتا ہے، بعض حضرات نے مدرسوں کا براہ راست جائزہ لیا تو ذمہ داروں نے قرب و جوار کے دوسرے مدارس کے طلبہ کو بھی اپنے یہاں جمع کر لیا، تاکہ زیادہ تعداد کا یقین دلایا جاسکے، اور اپنی غلط بیانی پر پردہ ڈالا جا سکے، اگر کسی شخص نے جھوٹ پر مبنی تعارف ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا اور اسے ایک ہزار لوگوں تک پہنچایا تو گویا اس نے ایک ہزار بار جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کا ارتکاب کیا ہے، اگر مدارس کے ذمہ داران کا یہ کردار ہو تو بے دین نظر آنے والے لوگوں کا کیا شکوہ کیا جائے، جھوٹ کی انتہا تو یہ ہے کہ بعض دفعہ کمپیوٹر کے ذریعہ جعلی تصدیق نامہ تیار کرنے کی بھی خبر ملتی ہے، سفراء پکڑے جاتے ہیں، اور کبھی پولیس اور کبھی عوام کے ذریعہ ان کی سرزنش بھی ہوتی ہے۔

۴۔یہ جھوٹ اور دھوکہ ان مدارس میں اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، جو سرکاری امداد حاصل کرتے ہیں، جتنی برائیاں سرکاری ملازمت کے دوسرے شعبوں میں پائی جاتی ہیں، قریب قریب وہ سب اضافہ کے ساتھ ان مدرسوں میں پائی جاتی ہیں، طلبہ کا داخلہ نہیں ہوتا، لیکن رجسٹر داخلہ میں ناموں کا اندراج کیا جاتا ہے، طلبہ صرف امتحان دیتے ہیں، لیکن ایک حاضر باش طالب علم کی حیثیت سے اس کا فارم پُر کرایا جاتا ہے، اساتذہ امتحان کے سنٹر پہنچ کر بچوں کو چوری کراتے ہیں، پھر جب کاپیاں ممتحن کے پاس جاتی ہیں تو غلط طور پر اس کے نمبرات بڑھواتے ہیں، مدرسہ میں حاضر نہیں ہوتے، لیکن رجسٹر حاضری پر دستخط کرتے اور تنخواہ اُٹھاتے ہیں، غرض جھوٹ اوردھوکہ کا ایک سلسلہ ہے، جو شروع سے آخر تک اس نظام کو اپنے گھیرے میں لئے ہوا ہے۔

پھر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں رشوت لی بھی جاتی ہے اور دی بھی جاتی ہے، صلاحیت کی بناء پر نہیں رشتہ داری اور تعلق کی بناء پر اور رشوت لے کر اساتذہ و عملہ کا تقرر کیا جاتا ہے، یہ رشوت لے کر تقرر کرنے والے بھی بعض اوقات علماء ہوتے ہیں، دوسری طرف علماء رشوت دیکر اپنا تقرر کراتے ہیں، تنخواہیں حاصل کرنے کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے، طلبہ کو پاس کرانے کے لیے رشوت لی بھی جاتی ہے اور ممتحنین کو دی بھی جاتی ہے، مقام عبرت ہے کہ اللہ نے جن کو عالم و حافظ بنایا ہو، جن کو فقہ وفتاویٰ کی دولت سے نوازا ہو، جو دن رات اپنے مواعظ میں کسب ِحلال پر زور دیتے ہوں، جو رشوت کی لین دین پر حرمت کا فتویٰ دیتے ہوں، جن کو ایک عالم باعمل سمجھ کر لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہوں، وہ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے ؟ یہ سرکاری بورڈ کے مدارس کی عمومی صورت حال ہے، مگر اس میں شبہ نہیں کہ بعض مدارس یا بعض اساتذہ اورذمہ داران ان کمزوریوں سے محفوظ بھی ہیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

۵۔ ایک عجیب تصور مدارس کی ملکیت کا قائم ہو گیا ہے۔ مدرسہ کو ملکیت سمجھا جاتا ہے، مدرسہ کی املاک مدرسہ کے نام پر خریدنے کے بجائے لوگ اپنے نام پر خرید کرتے ہیں، ایسے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں کہ جب ادارے کے ذمہ دار کا انتقال ہوگیا تو ان کے ورثاء نے اس میں حق وراثت کا دعویٰ کر دیا، لوگ بھی اس کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ مدرسہ کا نام لینے کی
بجائے وہ کہتے ہیں’’یہ فلاں صاحب کا مدرسہ ہے‘‘یہ نہایت افسوس ناک بات ہے، اس لیے بعض دفعہ والد کی وفات کے بعد بیٹا لازمی طور پر اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہے، چاہے وہ عالم تک نہ ہو، پھر یہیں سے مدرسہ پر قبضہ کے لیے بھائیوں کے درمیان اورکبھی متوفی کے بیٹوں اور داماد کے درمیان جھگڑا شروع ہوتا ہے، اگر کسی شخص کا بیٹا واقعی اپنے علم وفضل کے اعتبار سے اس ادارہ کو چلانے کا اہل ہو، مجلس انتظامی اسے ادارہ کا ذمہ دار بنا دے، اور وہ ایک مالک کی حیثیت سے نہیں منتظم کی حیثیت سے اس کا نظم چلائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ بعض دفعہ انتشار سے بچنے کے لیے یہ صورت بہتر بھی ہوتی ہے، اور اسی لیے بعض بڑے مدارس میں اس کی روایت رہی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ منتظم ادارے کا مالک ہوگیا۔

مدارس کی اہمیت سے ہرگز ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا، یہ دین کے قلعے اور اسلام کی حفاظت گاہیں ہیں، یہ زکوٰۃ و عطیات کا بہترین مصرف ہیں، اور صدقہ جاریہ کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن مدارس کے وقار کی حفاظت بھی خوددار بابِ مدارس کی ذمہ داری ہے، اصحابِ خیر کو ان اداروں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے اور جیسے مذکورہ مفاسد میں مبتلا بہت سے ادارے موجود ہیں، اسی طرح ایک بہت بڑی تعداد مفید اور کار کرد مدارس کی بھی ہے، تجار اور اصحاب ِثروت کو چاہئے کہ جیسے اپنے کاروبار میں تحقیق و تفتیش کے ساتھ کاموں کو انجام دیتے ہیں، اسی طرح مدارس کے بارے میں بھی تحقیق سے کام لیں، اور کھرے کھوٹے میں فرق کریں، نہ یہ درست ہے کہ مدارس کے تعاون سے ہاتھ روک لیے جائیںاور نہ یہ مناسب ہے کہ بلا تحقیق ہر ادارے کا اس طرح تعاون کیا جائے، جیسy بہت سے لوگ ہر گداگر کی کشکول میں روپے دو روپے ڈالتے وما اُرید إلا الإصلاح، واللّٰه ھو الموفق۔‘‘

https://urdu.millattimes.com/archives/88377

مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب! یہ آپ کن لوگوں سےگلا کرنےاور انہیں ذمہ داری کا احساس دلانے بیٹھ گئے۔

ان کے پیشروؤں نے امام آخرالزماں حضرت مسیح موعودو مہدی معہود علیہ السلام کو اسی وجہ سے ٹھکرا دیاتھا کہ مذہب کے نام پرکھولی ہوئی اس قماش کی دکانیں بند ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔آج یہ قوم اسی کا شاخسانہ بھگت رہی ہے جس کی نشاندہی جناب نے فرمائی ہے۔

حضرت مرزا غلام احمدقادیانی مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ؎

زمانِ توبہ و وقتِ صلاح وترکِ خبث است ایں

کسے کو بر بدی چسپد نہ بینم نیک انجامش

(دافع البلاء۔روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۲۲۱)

ترجمہ: یہ توبہ کا زمانہ اور اصلاح اور ترکِ گناہ کا وقت ہے۔(اب بھی) جو بدی سے چمٹا رہے مجھےاس کا انجام اچھا معلوم نہیں ہوتا۔

(مرسلہ: ’نجم الثاقب کاشغری‘)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button