حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کا اعلیٰ معیار

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍ فروری ۲۰۰۵ء)

ایک روایت میں آتا ہے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل تن تنہا کچھ زاد راہ ساتھ لے کر اکیلے چلے جاتے تھے۔ کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر، حرا نامی غار میں جا کر معتکف ہو کر عبادت کیا کرتے تھے۔ وہاں آپ کئی کئی راتیں عبادت میں گزارتے اور پھر جب زاد راہ ختم ہو جاتا تو آپؐ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آتے اور مزید زادِراہ ساتھ لے لیتے اور پھر تنہائی میں جا کر اللہ کو یاد کرنے لگتے‘‘۔ (بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر۳)

مسلسل کئی کئی دن یہ عمل جاری رہتا تھا۔ ہر وقت یہ فکرہوتی تھی اور اس کوشش میں ہوتے تھے کہ میں اپنے محبوب اللہ سے راز و نیاز کی باتیں کروں۔ جیسا کہ ذکر آ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ نے جب تبلیغ شروع کی تو خانہ کعبہ میں کی۔ عبادت کے لئے بعض دفعہ تشریف لایا کرتے تھے اور کفار مکہ کو بڑا سخت ناگوار گزرتا تھا کہ یہاں آ کر اس طرح اپنے طریقے سے عبادت کریں۔ اور وہ آپ کو اس عبادت کرنے سے روکنے کے لئے مختلف حیلے اور کوششیں بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن آپؐ کو جو خدائے واحد سے عشق تھا وہ ان روکوں اور مخالفتوں سے ختم نہیں ہو سکتا تھا۔ اس مخالفت کے ایک واقعہ کا یوں ذکر بھی ملتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اس وقت ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران اُن میں سے کسی نے کہا تم میں سے کون فلاں لوگوں کی اونٹنی کی بچہ دانی لائے گا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر جبکہ وہ سجدے میں ہوں رکھے۔ چنانچہ ان لوگوں میں سے بدبخت ترین شخص اٹھا اور اونٹنی کی بچہ دانی اٹھا لایا اور وہ اس وقت کا انتظار کرتا رہا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہوں۔ پھر جونہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اس نے وہ بچہ دانی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ راوی کہتے ہیں کہ میں ان کو یہ سب کچھ کرتے دیکھتا رہا مگر میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ کاش مجھ میں ان کو روکنے کی طاقت ہوتی۔ پھر وہ لوگ ایسا کرنے کے بعد ہنستے ہوئے ایک دوسرے پر گرنے لگے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل سجدے میں رہے۔ آپؐ اپنا سرنہیں اٹھا رہے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فاطمہؓ آئیں اور انہوں نے اس بچہ دانی کو آپؐ کی کمر سے اتارا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر آپؐ نے تین مرتبہ کہا : اے اللہ! ان قریش کو تو ہی سنبھال اور یہ بددعا بھی ان پر بڑی گراں گزری۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضورؐ کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر آپ ؐ نے نام لے لے کر دعا کی کہ اے اللہ! میں تجھ سے ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عقبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط پر گرفت کرنے کی درخواست کرتا ہوں۔ تو راوی کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتویں آدمی کا بھی نام لیا تھا مجھے یاد نہیں رہا۔ لیکن بہرحال راوی کی روایت یہ ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں نے ان لوگوں کو جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں گنا تھا بدر کے گڑھے میں قتل ہونے کے بعد گرے ہوئے دیکھا‘‘۔ (بخاری کتاب الوضوء۔ باب اذا القیٰ علی ظھر المصلّی قذراو جیفۃ حدیث نمبر۲۴۰)

تو یہ قبولیت دعا کے نظارے اللہ کا پیارا ہی دکھا سکتا ہے۔ کیا کوئی دنیاوی دلچسپیوں میں ڈوبا ہوا یہ نظارے دکھا سکتا ہے؟ تھوڑے ہی عرصہ میں سب کچھ پورا ہوتا ہوا نظر آیا۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی دلی خواہش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے‘‘۔ (المعجم الکبیر للطبرانی باب سعید بن جبیر عن ابن عباس ؓ )

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس رات کی عبادت میں بھی وہ اعلیٰ معیار قائم کئے جن کی مثال نہیں مل سکتی۔ اس بارے حضرت عائشہؓ کی گواہی ہے۔ رسول اللہﷺ کی نماز یعنی تہجد کی نماز کی کیفیت جب آپؓ سے پوچھی گئی تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے مگر وہ اتنی لمبی اور پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو۔‘‘ (بخاری کتاب التھجد۔ باب قیام النبیﷺ باللیلٍ فی رمضان وغیرہ – حدیث نمبر۱۱۴۷)

یعنی میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں آپؐ کی اس خوبصورت عبادت کا نقشہ کھینچ سکوں۔ ایک روایت میں آتا ہے مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اس وقت شدت گریہ و زاری کے باعث آپؐ کے سینے سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب البکاء فی الصلوٰۃ)

ایک دوسری روایت میں یہ آتا ہے کہ آپؐ کے سینے سے ایسی آواز اٹھ رہی تھی جیسے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز ہوتی ہے۔ (سنن نسائی۔ کتاب السھو۔ باب البکاء فی الصلوٰۃ حدیث نمبر۱۲۱۳)

حضرت عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کو عبادت کی توفیق ملی۔ آپؐ نے پہلے سورۃ بقرہ پڑھی۔ آپؐ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور آپؐ کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی۔ پھر قیام کے برابر آپؐ نے رکوع فرمایا۔ یعنی جتنی دیر کھڑے تھے، تلاوت کی اتنی ہی دیر رکوع کیا، جس میں تسبیح و تحمید کرتے رہے۔ پھر قیام کے برابر سجدہ کیا۔ سجدے میں بھی یہی تسبیح دعا پڑھتے رہے۔ پھر کھڑے ہو کر آل عمران پڑھی۔ پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے۔ (ابو داؤد۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب ما یقول الرجل فی رکوعہٖ و سجودہٖ حدیث نمبر۸۶۸)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button