خلاصہ خطبہ جمعہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی شادی اور اس کی حکمت نیز مشرقِ وسطیٰ میں جاری حالیہ کشیدگی کے پیش نظردعاکی تحریک۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

٭… جب حضرت عائشہ رضي اللہ عنہا کي شادی ہوئی تو آپ رضي اللہ عنہا کي چھوٹی عمر کے متعلق منافقين يا شريروں نے کوئی اعتراض نہ کيا

٭… حضرت مسيح موعود عليہ السلام فرماتے ہيں کہ حضرت عائشہ کا نَو سال ہونا تو صرف بےسروپا اقوال ہيں

٭… حضرت عائشہ نے مسلمان عورتوں کی تعليم و تربيت کا وہ کام سر انجام ديا جس کي نظير تاريخ عالم ميں نہيں ملتی

٭… اسلام تو جنگی حالات ميں بھی عورتوں اور بچوں اور کسی طرح بھی جنگ ميں حصہ نہ لينے والوں کو مارنے کی اجازت نہيں ديتا

٭… اگر دنيا اسرائيلی عورتوں اور بچوں کو معصوم سمجھتی ہے تو يہ فلسطينی عورتيں اور بچے بھيی معصوم ہيں

٭… مسلمان ملکوں کو ہوش سے کام لينا چاہيےاور اپنے اختلافات مٹا کر وحدت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہيے

٭… ہمارے پاس تو دعا کا ہتھيار ہے اس ليے ہر احمدي کو پہلے سے بڑھ کر اس حوالے سے دعا کرنی چاہيے

٭… مکرم ڈاکٹر بشير احمد خان صاحب آف یوکے کا نماز جنازہ حاضر اور مکرمہ وسيمہ بيگم صاحبہ اہليہ ڈاکٹر شفيق سہگل صاحب (سابق امیر ضلع ملتان) کا جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍اکتوبر۲۰۲۳ء بمطابق ۱۳؍ اخاء۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۳؍اکتوبر۲۰۲۳ء کومسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلی وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت دانیال تصور صاحب مربی سلسلہ کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض واقعات جو بدر کے موقعے پر یا بدر سے واپسی پر پیش آئے، ان کا تذکرہ ہورہا تھا۔

اس موقعے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شادی کا بھی ذکر ہے۔

اس لیے یہاں اس کا بھی ذکر کردیتا ہوں۔

ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ایک دن حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی خولہ بنت حکیم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ شادی نہیں کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا کس سے؟ خولہ نے عرض کی کہ اگر آپ چاہیں تو کنواری بھی موجود ہے اور بیوہ بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دریافت فرمانے پر خولہ نے بتایا کہ کنواری تو عائشہ بنت ابوبکر ؓہے جبکہ بیوہ سودہ بنت زمعہ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ! اور ان دونوں کے گھر والوں سے میرے متعلق بات کرو۔ حضرت خولہؓ نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر رشتے سے متعلق بات پیش کی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رضامندی کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ

شادی کے بعد حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ قبل اس سے کہ مَیں تم سے نکاح کرتا تم مجھے دو مرتبہ رؤیا میں دکھائی گئیں۔

الاستیعاب کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اپنی اہلیہ عائشہ کی رخصتی کیوں نہیں کروالیتے؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہر کی رقم کی وجہ سے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساڑھے بارہ اوقیہ دیے، ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے۔ یہ رقم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر کے طور پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر بھجوادی۔

جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہا کی چھوٹی عمر کے متعلق منافقین یا شریروں نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اگر آپ کی عمر کے متعلق کوئی ایسی بات ہوتی تو یہ لوگ ضرور اعتراضات کی بارش کردیتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کا نَو سال ہونا تو صرف بےسروپا اقوال ہیں۔

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ باوجود صغر سنی کے

حضرت عائشہ کا حافظہ اور ذہن غضب کا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور تربیت کے تحت انہوں نے نہایت سرعت کے ساتھ انتہائی تیزی سے ترقی کی

اور دراصل اس چھوٹی عمر میں ان کو اپنے گھر میں لے آنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا یہی تھی کہ ان کی تربیت کرسکیں اور تا انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے کا لمبے سے لمبا موقع مل سکے اور آپ اس نازک اور عظیم الشان کام کی اہل بنائی جاسکیں جو ایک شارع نبی کی بیوی پر عائد ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ نے مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت کا وہ کام سر انجام دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ احادیث نبویؐ کا ایک بہت بڑا اور ضروری حصہ آپ رضی اللہ عنہا کی روایات پر مبنی ہے۔ آپؓ سے مروی روایات کی تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچتی ہے۔ آپؓ کے تفقہ فی الدین کا یہ عالم تھا کہ بڑے سے بڑے صحابہ ؓبھی اس سلسلے میں آپ سے رابطہ کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر فرمایا کہ عورتوں میں کاملات بہت کم گزری ہیں۔ پھر آپ نے آسیہ اہلیہ فرعون اور مریم بنت عمران کا ذکر کیا اور فرمایا کہ

عائشہ کو عورتوں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ثرید کو عرب کے دیگر کھانوں پر حاصل ہے۔

حضرت عائشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کم و بیش ۴۸؍سال زندہ رہیں اور ۵۸؍ہجری کے ماہ رمضان میں اپنے محبوبِ حقیقی سے جا ملیں۔بوقت وفات آپ کی عمر ۶۸؍سال تھی۔

بدر کے قیدیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینبؓ کے خاوند ابوالعاص بن الربیع بھی شامل تھے۔ انہیں آزاد کروانے کے لیے حضرت زینبؓ نے مکّے سے اپنا وہ ہار بھجوایا جو ان کی شادی کے موقعے پر ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہار دیکھا تو بہت زیادہ دلگیر ہوگئے اور صحابہ سے فرمایا

اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کے قیدی کو رہا کردو اور اس کا یہ ہار بھی واپس کردو۔ صحابہ نے عرض کیا ضرور یا رسول اللہ! حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص کو اس شرط پر رہا کیا تھا کہ وہ مکہ جاتے ہی اپنی اہلیہ زینب کو مدینے ہجرت کی اجازت دیں گے۔

ابوالعاص نے مکہ جاکر زینب کو ہجرت کی اجازت دے دی۔ کچھ عرصے بعد ابوالعاص بھی ہجرت کرکے مدینے آگئے اور یوں خاوند اور بیوی دوبارہ اکٹھے ہوگئے۔

خطبے کے دوسرے حصے میں حضور انور نے فرمایا کہ آج کل جو دنیا کے حالات ہیں ان کے بارے میں اس وقت مَیں دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔

گذشتہ چند دنوں سے حماس اور اسرائیل کی جنگ چل رہی ہے۔اس جنگ کی وجہ سے اب دونوں طرف کے معصوم شہری بشمول عورتوں اور بچوں کے مارے جارہے ہیں۔

اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں اور بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصہ نہ لینے والوں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بہت سختی سے تاکید فرمائی ہے۔ دنیا کہہ رہی ہے اور کچھ حقائق بھی اسی قسم کے ہیں کہ اس جنگ میں پہل حماس نے کی ہے، قطع نظر اس کے کہ اسرائیلی فوج پہلے کتنے ہی معصوم فلسطینیوں کو قتل کرچکی ہے، مسلمانوں کو بہرحال اسلامی تعلیم کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اسرائیلی فوج نے جو کیا وہ ان کا فعل ہے۔ اس پر ردعمل دینے کے اور طریقے ہوسکتے ہیں۔

اگر کوئی جائز لڑائی ہے تو وہ فوج سے ہوسکتی ہے مگر عورتوں اور بچوں اور بےگناہوں سے نہیں۔

اس لحاظ سے حماس نے جو قدم اٹھایا وہ غلط تھا، اس کا نقصان زیادہ ہوا۔ جو حماس نے کیا اس کا بدلہ حماس تک محدود رہتا تو اچھا تھا۔ مگر جو اب اسرائیلی حکومت کر رہی ہے وہ انتہائی خطرناک فعل ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اب رکے گا نہیں۔ اسرائیلی حکومت کا تو یہ اعلان تھا کہ ہم غزہ کو بالکل مٹا دیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے بے تحاشا بمباری کی، اور پورے شہر کو راکھ کا ڈھیر ہی بنادیا۔ اب نئی صورت یہ پیدا ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک ملین سے زیادہ لوگ غزہ سے نکل جائیں۔ اس پر شکر ہے کہ کچھ مری مری سی ہی سہی کچھ تو آواز اقوام متحدہ کی نکلی ہے کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے اور یہ غلط ہوگا۔ ان معصوم شہریوں کا جو جنگ نہیں کر رہے کوئی قصور نہیں۔ اگر دنیا اسرائیلی عورتوں اور بچوں کو معصوم سمجھتی ہے تو یہ فلسطینی عورتیں اور بچے بھی معصوم ہیں۔

ان اہل کتاب کی اپنی کتاب بھی یہی کہتی ہے کہ اس طرح کا قتل و غارت جائز نہیں۔ مسلمانوں پر الزام ہے کہ انہوں نے غلط کیا تو یہ لوگ اپنے گریبانوں میں بھی جھانکیں۔

بہرحال ہمیں بہت دعا کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے سفیر نے یہاں یہی کہا ہے کہ حماس ایک جنگجو گروہ ہے وہ حکومت نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال اٹھایا اور ان کی یہ بات درست ہے کہ اگر حقیقی انصاف قائم کیا جاتا تو یہ باتیں پیدا ہی نہ ہوتیں۔ اگر بڑی طاقتیں اپنے دہرے معیار نہ رکھیں تو ایسی بدامنی اور یہ جنگیں کبھی نہ ہوں۔ اب تمام بڑی مغربی طاقتیں انصاف کو ایک طرف رکھ کر فلسطین پر ظلم کے لیے اکٹھی ہورہی ہیں اور ہرطرف سے فوجیں بھجوانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ میڈیا میں غلط رپورٹنگ ہورہی ہے۔ یہ لوگ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر کاربند ہیں۔ جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت ہے اِنہوں نے اُن کے آگے ہی جھکنا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جنگ بھڑکانے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے۔

پہلی جنگِ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز بنائی گئی مگر انصاف نہ کرنے کی وجہ سے وہ ناکام ہوئی اور دوسری عالمی جنگ ہوگئی۔

جس میں سات کروڑ انسان اپنی جان سے گئے۔ پھر اقوام متحدہ بنائی گئی مگر اب اس کا بھی یہی حال ہورہا ہے اور وہ بھی بری طرح ناکام ہورہی ہے۔ یہ بنائی تو اس لیے گئی تھی کہ اس کے ذریعے انصاف قائم کیا جائے گا اور مظلوموں کا ساتھ دیا جائے گا۔ جنگوں کے خاتمے کی کوشش ہوگی۔ مگر ان مقاصد کا دُور دُور تک پتا نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے مفادات کے لیے کوشاں ہے۔ اب جب اس ناانصافی کی وجہ سے جنگ ہوگی تو اس سے ہونے والے نقصان کا عام آدمی اندازہ ہی نہیں لگا سکتا۔

ایسے حالات میں مسلمان ملکوں کو ہوش سے کام لینا چاہیےاور اپنے اختلافات مٹا کر وحدت قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مسلمان طاقتوں کو چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔

اللہ تعالیٰ مسلمان حکومتوں کو عقل دے اور یہ ایک ہوکر انصاف قائم کرنے والے بنیں۔ دنیا کی طاقتوں کو بھی عقل عطا فرمائے کہ یہ دنیا کو جنگ میں دھکیلنے کی بجائے اسے تباہی اور بربادی سے بچانے کی کوشش کریں۔ ان بڑی طاقتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر تباہی ہوگی تو یہ بڑی طاقتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔

ہمارے پاس تو دعا کا ہتھیار ہے اس لیے ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اس حوالے سے دعا کرنی چاہیے۔ غزہ میں بعض احمدی گھرانے بھی گِھرے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی محفوظ رکھے اور سب معصوموں کو محفوظ رکھے۔

اللہ تعالیٰ حماس کو بھی عقل دے اور یہ لوگ خود اپنے لوگوں پر ظلم کرنے کے ذمہ دار نہ بنیں۔ کسی قوم کی دشمنی انصاف سے دور کرنے والی نہ ہو، یہی قرآن کریم کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی توفیق دے کہ یہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے امن قائم کرنے والی بنیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دنیا میں امن اور خوشحالی دیکھنے والے ہوں۔ آمین

خطبے کے آخری حصے میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل دو مرحومین کا ذکرِ خیر فرماتے ہوئے نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

۱۔مکرم ڈاکٹر بشیر احمد خان صاحب آف حلقہ مسجد فضل لندن یوکے۔ آپ کا جنازہ حاضر تھا۔ مرحوم گذشتہ دنوں ۹۲؍سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم صوم و صلوٰۃ کے پابند اور خلافت سے گہرا تعلق رکھنے والے تھے۔ مرحوم موصی تھے اور پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور چھ بیٹیاں شامل ہیں۔

۲۔مکرمہ وسیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر شفیق سہگل صاحب (سابق امیر ضلع ملتان) شفیق سہگل صاحب نائب وکیل التصنیف بھی رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں مرحومہ کی وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ شوہر کے علاوہ پسماندگان میں تین بیٹے شامل ہیں۔ مرحومہ ہر دلعزیز، حقوق العباد کی پابند، غریب پرور اور قربانی کا مادہ رکھنے والی تھیں، روحانی خزائن کا بڑا گہرا مطالعہ تھا۔

حضورِ انور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. الفضل پڑھ کر بچپن کی یاد تازہ ہو گئی ۔کوئ دن ایسا نہیں جب والد صاحب نے اخبار نہ پڑھا ہو۔ان سے ہی یہ شوق ھمیں ملا ۔اور روحانی فیض بھی ۔نہ صرف پڑھا بلک اپنی زندگی میں ان پاک تعلیمات کو اپنایا بھی ۔کو ئی تحریر بھی نہیں چھوڑی حضرتِ مسیح موعود کے ارشاد عالیہ سے لیکر وصایا اور دعائیہ اعلانات ۔الفضل کا یہ فضل ھمارے دادا مرحوم کی وجہ سے ہوا کے خلیفہ المسیح الربع رحمۃ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر روزنامہ ھمیں بالامعاوضہ بھی جاری رہا ۔دادا مرحوم پرانے خریدار تھے ۔اللہ ھمارے بچوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھا نے والا بنائے ۔الفضل پر ہر آن فصلوں کی بارش ہوتی رہے۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button