حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

رشتوں کے معاملات اور عائلی مسائل

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍ مارچ ۲۰۱۷ء)

لڑکوں اور لڑکیوں کے رشتوں کے معاملات اور پھر رشتوں کے بعد عائلی مسائل یہ ایسے معاملات ہیں جو گھروں میں پریشانی اور بے چینی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ شادیوں کے بعد عائلی مسائل ہیں وہ صرف خاوند بیوی کے لئے مسئلہ نہیں ہوتے بلکہ دونوں طرف کے والدین کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوتے ہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر اولاد ہو گئی ہے تو اولاد میں بھی بے چینی پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور بعض اوقات اولاد اس وجہ سے دینی اور دنیاوی دونوں لحاظ سے بگڑ رہی ہوتی ہے اور ماں باپ اور خاندان کے لئے مزید پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ گویا پریشانیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تقریباً روزانہ میری ڈاک میں ایسے معاملات آتے ہیں یا زبانی ملاقات میں لوگ اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک طرف لڑکیوں کے رشتوں کا مسئلہ ہے۔ جب لڑکی کی رشتے کی عمر ہوتی ہے تو پڑھائی کو عذر بنا کر اصل عمر میں رشتے نہیں کئے جاتے کہ ابھی پڑھ رہی ہے اور جب ذرا بڑی ہو جاتی ہیں، پڑھ لکھ جاتی ہیں اور بڑی عمر میں رشتے ہو جاتے ہیں تو پھر understanding کا نہ ہونے کا جواز بنا کر رشتوں میں دُوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر بعض لڑکیوں کی یہ باتیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں کہ سہیلیاں اور دوستیں غلط طور پر ایسے خیالات ان کے دلوں میں پیدا کرتی ہیں کہ ان ملکوں میں تمہارے بڑے حقوق ہیں۔ اپنے خاوندوں کویہ بتاؤ کہ میرے حقوق ادا کرو اور یہ یہ دو۔ میں تمہیں اپنا خاوندنہیں مانتی اور خاوندوں کی ہر بات ماننی بھی نہیں چاہئے۔ پھر بعض دفعہ ماں باپ خود بھی لڑکیوں کو ایسی باتیں سکھاتے ہیں جس سے لڑکے لڑکی یا خاوند بیوی کا آپس کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے یا شکوک و شبہات ابھرنے لگتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان سے رشتہ کروا کر یہاں آئی ہوئی لڑکیاں جو مغربی ممالک میں آتی ہیں وہ بھی یہاں آزادی کو دیکھ کر اس رنگ میں رنگین ہو کر پھر غلط مطالبے کرنے شروع کر دیتی ہیں بلکہ بعض دفعہ یہاں پہنچ کر گھر بسانے سے پہلے ہی رشتے توڑ دیتی ہیں اور یہ حال صرف لڑکیوں کا نہیں ہے بلکہ لڑکے بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ بلکہ لڑکوں کی ایسی حرکتوں کی نسبت جو ہے وہ شاید لڑکیوں سے کچھ زیادہ ہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر لڑکے اور لڑکیاں بھی قول سدید سے کام نہیں لیتے جس بات کا رشتے سے خاص تعلق ہے۔ نکاح پہ جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں قول سدید کے بارے میں خاص طور پر تاکید ہے۔ پورے حالات ایک دوسرے کو نہیں بتائے جاتے۔ پھر ماں باپ بعض دفعہ لڑکیوں پر زبردستی کر کے ایسے رشتے کروا دیتے ہیں جو تعلیمی فرق اور رہن سہن کی وجہ سے مطابقت نہیں رکھ رہے ہوتے کہ بعد میں ٹھیک ہو جائے گا۔

اسی طرح بعض لڑکے کہیں اَور دلچسپی رکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ماں باپ کے سامنے انکار نہیں کرتے اور پاکستان میں شادی کر لیتے ہیں یا یہاں اپنے عزیزوں میں ان کی مرضی کے مطابق شادی کر لیتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد ان بیچاری لڑکیوں پر ظلم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے اس کے خاوند کی طرف سے ظلم ہوتا ہے۔ پھر وہی سسرال یا ساس جو بڑی چاہت سے لے کے آتی ہے ان کی طرف سے ظلم ہوتا ہے۔ پھر باقی عزیزوں کی طرف سے ظلم ہوتا ہے۔ بہرحال چاہے وہ لڑکے ہیں یا لڑکیاں ہیں، ایک طرف کا سسرال ہے یا دوسری طرف کا کسی پر بھی ان ساری باتوں کا سو فیصد الزام نہیں ڈالا جا سکتا۔ بعض حالات میں لڑکے قصور وار ہوتے ہیں بعض حالات میں لڑکیاں قصور وار ہوتی ہیں۔ پھر عائلی مسائل جیسا کہ مَیں نے کہا بچوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب کئی بچے ہونے کے بعد، کافی عرصہ کے بعد، اچھی بھلی زندگی گزارنے کے بعد ایک دم مرد کے دماغ میں کیڑا کلبلاتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ میرا اپنی بیوی کے ساتھ گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے مَیں دوسری شادی کرنے لگا ہوں یا تمہیں طلاق دینے لگا ہوں۔ یا ایک عرصہ کے بعد بیوی کہتی ہے کہ مَیں نے اپنی زندگی اس شخص کے ساتھ بڑی تکلیفوں میں گزاری ہے اب برداشت نہیں کر سکتی اس لئے خلع لینی ہے۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ جماعت میں خلع کی جو نسبت ہے وہ طلاق سے زیادہ ہے۔ یعنی خلع کی درخواستیں قضاء میں زیادہ آتی ہیں۔ بہرحال ایسے حالات میں بچے متاثر ہوتے ہیں اور یہ بات تو معلومات رکھنے والے دنیاوی اداروں کے کوائف سے بھی ثابت شدہ ہے کہ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد جس کے پاس بھی بچے رہ رہے ہوں وہ نفسیاتی اور اخلاقی اور دوسری صلاحیتوں کے لحاظ سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ بہرحال ان تکلیف دِہ حالات کا ذمہ دار کوئی بھی ہو۔ چاہے لڑکے لڑکیوں پر الزام دیتے ہیں اور یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ مغربی ماحول میں لڑکیاں اپنے کیریئر بنانے کی وجہ سے پریشانی پیدا کرتی ہیں اور رشتے نہیں نبھاتیں یا شروع میں ہم بعض وجوہات کی وجہ سے والدین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو لڑکیاں رہنا نہیں چاہتیں یا دین کا ان کو علم نہیں یا لڑکے سے غلط توقعات رکھی جاتی ہیں مثلاً فوری طور پر نیا گھر لو اور ایسا گھر ہو جو تمہاری ملکیت بھی ہو۔

پھر میاں بیوی کے معاملات میں لڑکی کے ماں باپ کی دخل اندازی ہے۔

پھر صحیح حالات نہ بتانے کی وجہ سے، ایک دوسرے کے قولِ سدیدنہ کرنے کی وجہ سے شکوے پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ قول سدید سے کام نہیں لیا جاتا جو کہ انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کے دلوں میں بعض باتیں لڑکے اور اس کے گھر والوں کے لئے ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ لڑکے کی ماں یا عزیز رشتہ دار جو ہیں وہ لڑکی کے سامنے ہر وقت لڑکے کی تعریف کرتے رہیں گے کہ ہمارا لڑکا ایسا ہمارا لڑکا ویسا اور لڑکی کو کسی نہ کسی بہانے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔… بہرحال شکووں کا یہ سلسلہ چلتا ہے اور دونوں طرف سے چلتا چلا جاتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button