دورہ جرمنی اگست؍ ستمبر ۲۰۲۳ء

سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۷؍ ستمبر ۲۰۲۳ء بروز جمعرات)

(رپورٹ:عبدالماجد طاہر۔ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد)

٭… ماسٹر عبد القدوس صاحب شہید کی صاحبزادی کی تقریب رخصتانہ میں حضور انور کی تشریف آوری اور دعا

٭…ملاقات کرنے والے بعض افراد کے تاثرات کا بیان

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پانچ بج کر پچاس منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، رپورٹس اور خطوط ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

پروگرام کے مطابق پانچ بج کر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد سے ملحقہ ہال میں تشریف لے آئے جہاں عزیزہ عطیۃ القدوس صاحبہ بنت مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کی تقریب رخصتانہ تھی۔

ماسٹر عبد القدوس صاحب آف ربوہ، پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں شدید اذیّت اور ٹارچر برداشت کرتے ہوئے ۳۰؍مارچ ۲۰۱۲ء کو اپنے خدا کے حضور حاضر ہوگئےتھے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنے ۶؍اپریل ۲۰۱۲ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا:’’اس عزم اور ہمت کے پیکر نے جان دے دی مگر جھوٹی گواہی نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بھی شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ پس اس عظیم شہیدنے ہمیں جہاں بہت سے سبق دئیے وہاں یہ سبق بھی دیا جو جماعت احمدیہ کے قیام کی بنیادی غرض ہے کہ توحید کے قیام کے لئے اپنی جان کی بھی کچھ پرواہ نہیں کرنی کیونکہ جھوٹ بھی شرک کے برابر ہے اور ہمارے سے شرک نہیں ہو سکتا۔ شہید مرحوم نے اپنے عہدِ بیعت کو بھی نبھایا اور خوب نبھایا۔ شہید مرحوم اگر اذیت کی وجہ سے پولیس کی من پسند سٹیٹمنٹ دے دیتے جیسا کہ وہ بتاتے رہے ہیں تو اس کے نتائج جماعت کے لئے مجموعی طور پر بھی بہت خطرناک ہو سکتے تھے۔…

پس اے قدوس! ہم تجھے سلام کرتے ہیں کہ تُو نے اپنے آپ کو انتہائی اذیت میں ڈالنا تو گوارا کر لیالیکن جماعت کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔ تُو نے اپنی جان دے کر جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچا لیا۔ پس ماسٹر عبدالقدوس ایک عام شہیدنہیں ہیں بلکہ شہداء میں بھی ان کا بڑا مقام ہے۔ اس عارضی دنیا سے تو ایک دن سب نے رخصت ہونا ہے، لیکن خوش قسمت ہیں ماسٹر عبدالقدوس صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے زندہ کہا ہے۔ اور وہ ایسے رزق کے پانے والے بن گئے ہیں جو دنیاوی رزقوں سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ جس جماعت اور جس مقصد کی خاطر انہوں نے قربانی دی ہے اُس کے بارے میں حقیقی خوشخبریوں کا پتہ تو انہیں اُس جہان میں جا کر چلا ہو گا۔ لیکن شہید مرحوم ہمیں جو سبق دے گئے ہیں ہمیں اُسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔ کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ پس جیسے بھی حالات گزر جائیں اللہ تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑنا۔ یہ سبق انہوں نے دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس طرح بیان فرمایا ہے کہ دنیا والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر اللہ تعالیٰ سے تمہارا مضبوط تعلق ہے۔‘‘

تقریب رخصتانہ کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم ظافر احمد صاحب نے کی۔ اس کے بعد حفاظت احمد نوید صاحب مبلغ گیمبیا نے نظم پیش کی۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔

دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخواتین کے ہال میں تشریف لے گئے۔حضور انور نے ازراہ شفقت بچی کو پیار دیا۔ اور اِس موقع پر فیملی ممبرز نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔

بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے دفتر تشریف لے آئے۔ جہاں فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج شام کے اس سیشن میں ۳۸؍ فیملیز کے ۱۳۰؍ افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔

ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی جماعتوں

MAINZ, OLPE, KAISERSLAUTERN, BABENHAUSEN, Koblenz, ERFURT MONTABAUER, FLORSTADT, RÜSSELSHEIM, VIERSEN, RÜDESHEIM, KARLSRUHE, WÜRZBURG, EICH-WORMS FRIEDBERG, LANGEN, MARBURG, SPEYER

کے علاوہ پاکستان اور کینیڈا سے بھی آئی تھیں۔حضور انور نے ازارہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائےاور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔

آج شام کے اس سیشن میں بھی ملاقات کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی تھی جو اپنی زندگی میں پہلی بار شرف ملاقات سے فیضیاب ہورہی تھی۔ آج کا دن ان کے لیے انتہائی بابرکت دن تھا۔ ان خوش نصیب لوگوں نے جہاں اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا وہاں ہر ایک ان بابرکت لمحات سے بے انتہا برکتیں سمیٹتے ہوئے باہر آیا۔ بیماروں نے اپنی صحت یابی کے لیے دعائیں حاصل کیں۔ مختلف پریشانیوں، تکلیفوں اور مسائل میں گھرے ہوئے لوگوں نے اپنی تکالیف دور ہونے کے لیے دعا کی درخواستیں کیں اور تسکین قلب پا کر مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ باہر نکلے۔ طلبہ اور طالبات نے اپنی تعلیم اور امتحانات میں کامیابی کے حصول کے لیے اپنے آقا سے دعائیں حاصل کیں۔غرض ہر ایک نے اپنے آقا کی دعائوں سے حصّہ پایا۔اپنی مراد پائی۔راحت و سکون اور اطمینان قلب حاصل ہوا۔

٭…ایک بزرگ احمد خان صاحب جن کا تعلق گولیکی ضلع گجرات سے ہے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ میری حضور انور سے پہلی ملاقات تھی۔ آج میں بہت خوش ہوں اور میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش آج پوری ہوگئی ہے۔

٭…ایک دوست ثمر سلطان صاحب نے بیان کیا کہ فیملی کے ساتھ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ میں خوشی میں رات بھر سو نہ سکا۔دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا۔ اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ ہمیں ایک ایسا وجود عطا ہوا ہے جو ہر وقت ہمارے لیے دعائیں کرتاہے۔

٭…منڈی بہائوالدین پاکستان سے آنے والے ایک دوست نے بتایا کہ میری عمر ساٹھ سال ہے اور میں اپنی زندگی میں پہلی دفعہ ملاقات کر رہا تھا۔آج میں بہت خوش قسمت انسان ہوں۔مجھے روحانی طور پر نئی زندگی ملی ہے۔ میرا پاکستان سے آنے کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اس سعادت کے حصول کے لیے ہمیں خود یہاں لے آیا ہے۔

٭…شاہ محمود سعادت صاحب جن کا تعلق ملک افغانستان سے ہے بیان کرتے ہیں کہ یہ میری زندگی کی حضور انورکے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ حضور انور کو دیکھ کر سب کچھ بھول گیا۔ جو کہنا چاہتا تھا کچھ نہ کہہ سکا۔ حضور کے چہرہ مبارک پر بہت نور تھا۔ حضور نے خود ہی سارے سوالات کیے اور ازراہ شفقت تبرک بھی عنایت فرمایا۔

٭…خیر پور سندھ (پاکستان)سے آنے والے ایک دوست انیق احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ فیملی کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے جنت میں آگیا ہوں۔ یہ ملاقات ہمارا ایک خواب تھا۔ آج اللہ تعالیٰ نے ہمارا خواب پورا کر دیا ہے۔

٭…وزیر آباد (پاکستان)سے آنے والے ایک دوست نعمان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور انور کو دیکھ کر سب کچھ بھول گیا۔ میں روحانی طور پر زندہ ہوا ہوں۔ میں اس تجربہ کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میرے جذبات میرا ساتھ نہیں دے رہے۔ حضور نے ازراہ شفقت مجھے رومال تبرک عطا فرمایا۔

٭…ایک نوجوان دوست وجاہت احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ سارا ماحول ہی روحانی تھا۔ سارا کمرہ ہی نور سے بھرا ہوا تھا۔ بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حضور نے میرے بیٹے کے سَر پر پیار دیا۔ میرا سارا وجود ہل گیا ہے۔ میرا جسم کانپ رہا ہے۔ میں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور نے جو توبہ، استغفار پر خطبہ دیا ہے اس سے میری روحانیت میں بہت ترقی ہوئی ہے۔

٭…ایک دوست خالد طارق صاحب کی اپنی فیملی کے ساتھ حضور انور کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔ خالد طارق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں حضور کے پاس تھا تو ایسے لگا جیسے میں جنّت میں ہوں۔اِس دنیا میں نہیں ہوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس کیفیت کو بیان کرسکوں۔ان کی کیفیت بہت جذباتی تھی اور آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔

٭…سیالکوٹ سے آنے والے ایک نوجوان مبین احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ میری پہلی ملاقات تھی اس کا ایک علیحدہ ہی اثر تھا سارا ماحول ہی نورانی ہو گیا تھا۔ بہت ساری باتیں جو سوچ کر آیا تھا بھول گیا۔ حضور انور نے بیٹے کے سَر پر پیار دیا۔ حضور انور نے فرمایااپنی فیملی اور دین کو زیادہ وقت دینے کی کوشش کروں۔

٭…پریم کوٹ ضلع حافظ آباد سے آنے والے ایک دوست مبشر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں آج بہت خوش ہوں۔ان کی اہلیہ ساتھ تھیں۔اہلیہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں تھے اور ان سے بات کرنی مشکل ہو رہی تھی۔

٭…ایک دوست عمران سعید صاحب اسلام آباد پاکستان سے آئے تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ملاقات کے لیے بہت دعائیں کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول فرمائیں اور آج ہمیں ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضور انور کا چہرہ مبارک اتنا نورانی ہے کہ اس پر نظر ٹھہرتی ہی نہیں تھی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت رومال تبرک کرکے دیا۔

٭…لاہور سے آنے والے ایک دوست حماد احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ملاقات کے وقت جذبات الگ سے ہوتے ہیں جن کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے۔ خلیفہ وقت کی ایک نظر آپ کو امر کر سکتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی حضور انور سے ملاقات کر سکے۔

٭…ایک نوجوان اسامہ احمد خان جن کا تعلق سیالکوٹ (پاکستان) سے ہے ڈیڑھ سال قبل جرمنی آئے تھے۔ بیان کرتے ہیں کہ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ آج میری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔ میں نے حضور انور کو اتنے قریب سے دیکھ لیا۔ کہنے لگے کہ یہ کیفیت بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ان کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔

٭…ربوہ سے آنے والے ایک دوست سفیر احمد صاحب کہنے لگے کہ آج میری مراد پوری ہوگئی۔ میری زندگی کا مقصدپورا ہوگیا اب مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ میرا جماعت سے پیار مزید بڑھ گیا ہے۔ حضور انور کا کمرہ نور سے بھرا ہوا تھا۔ حضور انور کے چہرہ مبارک پر ایسا نور تھا کہ میں نظر اٹھا ہی نہیں سکا۔ جو باتیں کرنی تھیں وہ سب بھول گیا۔

٭…سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست زبیر محمود صاحب بیان کرتے ہیں کہ آج ہماری فیملی کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ ہم نے بہت دعائیں کی تھیں۔ بظاہر ملاقات کا کوئی امکان نہ تھا۔ اگرچہ درخواست بہت دیر سے دی تھی لیکن آج ہم نے قبولیت دعا کا عظیم الشان نشان دیکھ لیا ہے۔ میں نے راتوں کو رو رو کر دعائیں کی تھیں کہ بظاہر ملاقات کا تو کوئی چانس امید نہیں ہے لیکن ہماری ملاقات ہوجائے۔ ان کی اہلیہ کی بھی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور ان سے چلنا بھی مشکل ہورہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ میں نے کل رات خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک نور کی لہر آئی ہے۔ آج ملاقات سے یہ خواب پوری ہوگئی۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام سوا آٹھ بجے تک جاری رہا۔

بعد ازاں نو بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشا جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button