متفرق مضامین

آیت خاتم النبیّین کا سیاق و سباق

(شمشاد احمد قمر۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی)

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پہ ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک صاحب بڑے جوش سے آیت خاتم النبیّین کا مطلب بیان کرتے ہوئے دعویٰ کر رہے تھے کہ سیاق و سباق کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس آیت کایہ مفہوم آج تک کسی نے بیان نہیں کیا۔ اس ویڈیو کا عنوان بھی عجیب و غریب تھاجس کا واضح مقصد زیادہ سے زیادہ views حاصل کرنا معلوم ہوتا ہے۔ اس ویڈیو میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق بدزبانی کرتے ہوئے جوبلندو بانگ دعوے کیے انہیں سن کےحضرت مسیح موعود علیہ السلا م کا شعر یاد آیاکہ ؎

کیڑا جو دب رہا ہے گوبر کی تہ کے نیچے

اُس کے گماں میں اس کا ارض و سما یہی ہے

موصوف کے بیان کا خلاصہ

موصوف نے اس آیت کے بارے میں جو بیان کیا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ لفظ خاتم النبیّین کا اصل ترجمہ ’’ نبیوں کی مہر‘‘ ہے لیکن سیاق و سباق بتاتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے ’’آخری نبی‘‘ اور احمدی اس کی جو تشریح بیان کرتے ہیں( کہ حضور ؐکی مہر سے نبی بن سکتا ہے) وہ سیاق و سباق میں فٹ نہیں بیٹھتی۔ آیت میں فرمایا گیا کہ محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ خاتم النبیّین ہیں۔ خاتم النبیّین کے ساتھ یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ ’’ مردوں کے باپ نہیں؟‘‘ اس لیے کہ دوسرے انبیاء کے بیٹے بھی نبی تھے۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے۔مثلاً یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام…اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے تو نبی ہوں اور آنحضورﷺ کے بیٹے نبی نہ ہوں…حضورﷺ کے بیٹے اگر زندہ رہتے تو لازماً نبی بن جاتے۔اسی لیے اللہ نے انہیں وفات دے دی۔ان کی وفات بتاتی ہے کہ اب آپﷺ کے بعد نبی نہیں آسکتا…اس کی وضاحت بخاری کی حدیث میں ہے کہ جب حضورﷺ کے صاحبزادے ابراہیم فوت ہوئے تو حضورؐ نے فرمایا کہ اگر یہ زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا لیکن میں خاتم النبیّین ہوں…احمدی اس حدیث میں تلبیس کرتے ہیں۔ وہ آدھی حدیث بیان کرتے ہیں۔ لانبی بعدی والا حصہ چھوڑ دیتے ہیں… مہر کا مطلب ہے seal /stamp of the Prophets۔ جیسے حکاّم کسی دکان کو sealکر دیتے ہیں تو sealکو توڑنے والا مجرم ہے۔ یا جیسے کوئی جج فیصلے کے آخر میں stamp لگا دیتا ہے تو اس تحریر میں کوئی کمی بیشی نہیں کر سکتا…حدیث میں ہےکہ آنحضورﷺ کی مثال ایک عمارت کی سی ہےجس میں ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی فرمایا وہ اینٹ میں ہوں۔ اب نبوّت کی عمارت مکمل ہو چکی ہے… حضورﷺ نے حضرت علی سے فرمایا کہ تو مجھ سے ایسے ہی ہے جیسے ہارونؑ کی نسبت موسیٰؑ سےہے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔لہٰذا اگر آپﷺ کے بعد نبی ہوتا تو صرف حضرت علی ہو سکتے تھے۔

وضاحت طلب امور

اس آیت کا سیاق و سباق اور وضاحت بیان کرنے سے پہلے ان امور کے متعلق کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو موصوف نے بیان کیے ہیں۔

۱۔ حضورﷺ کا بیٹا زندہ رہتا تو اس کا نبی ہونا لازم تھا(اس لیے اللہ نے وفات دے دی)۔

۲۔حضورﷺنبیوں کی seal / stamp ہیں جسے توڑنے والا بے ایمان اور بد دیانت ہے۔

۳۔ لَوْعَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا میں احمدی تلبیس کرتے ہیں پوری حدیث بیان نہیں کرتے۔

۴۔ آنحضورﷺ نےنبوّت کی مثال عمارت سے دی ہے جس کی آخری اینٹ حضورﷺ ہیں۔

۵۔ حضرت علیؓ کی مثال حضرت موسیٰ ؑاور ہارونؑ کی مانند بیان فرمائی لہٰذا آپﷺ کے بعد اگر نبی ہو سکتا تھا تو حضرت علیؓ ہوتے۔

ان میں پہلے تین امور کا تعلق موصوف نے براہ راست آیت خاتم النبیّین سے جوڑا ہے لہٰذا اس وقت اس آیت کے تناظر میں انہی امور کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ باقی دو امور کا تذکرہ ان شاءاللہ تعالیٰ کسی دوسرے مضمون میں بیان کر دیا جائے گا۔

کیا نبی کا بیٹا لازمی نبی ہوتا ہے؟

یہ بہت عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کوپہلے بیٹے عطا فرمائے اور پھر محض اس لیے وفات دے دی کہ اگر زندہ رہے تو نبی بنانا پڑے گا۔ ورنہ لوگ کیا کہیں گےکہ ابراہیمؑ کے تو بیٹے اور پوتے بھی نبی بنے لیکن حضورﷺ کا بیٹا نبی نہیں بنا۔گویا اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے طعنوں کی فکر تھی؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللّٰهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ (الاحزاب: ۴۸) تُو لوگوں کی پروا کرتا ہے، ان سے ڈرتا ہے؟حالانکہ اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تُو اس سے ڈرے۔ پھر اسی آیت (خاتم النبیّین) کے سیاق و سباق کو ملاحظہ فرمائیں کہ اس سے چند آیات کے بعد اللہ اپنے نبیﷺ کو فرما رہا ہے کہ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِيْنَ وَالْمُنَافِقِيْنَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰہِ (الاحزاب:۴۹) ان کافروں اور منافقوں کے پیچھے نہ جا، ان کی تکلیف دہی (یا طعنوں ) کو بالکل نظر انداز کردے اور اللہ پر توکّل کر۔ یعنی خدا تعالیٰ کا کلام تو اس بات کی یکسر نفی فرما رہا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے صاحبزادے کو محض لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے وفات دے دی۔

دوسری بات یہ کہ کسی نبی کا بیٹا ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ ہر صورت نبی بھی ہوگا۔اگر یہ ضروری ہے تو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کے متعلق آپ کیا فرمائیں گے؟ وہ تو مومن بھی نہیں تھا۔ حضرت یعقوبؑ کے بیٹے حضرت یوسفؑ نبی تھے لیکن حضرت یوسفؑ کو کنو یں میں پھینکنے والے کون تھے؟ وہ بھی نبی کے بیٹے ہی تھے۔کیا بتانا پسند فرمائیں گے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے آنحضورﷺ سے پہلے کون نبی تھا؟ قرآن کریم سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہےکہ نبی کا بیٹا نبی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ کہیں نہیں لکھا کہ نبی کا بیٹا لازماً نبی ہی ہوگا اور محض اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کو آنحضورﷺ کے صاحبزادے کو موت دینا پڑی کہ زندہ رہا تو نبی بنانا پڑے گا۔آپ کے استدلال کا اس آیت کے سیاق و سباق سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔

مُہر کا مطلب

موصوف نےخاتم کا ترجمہ seal اور stamp کرتے ہوئےفرمایا کہ اس کو کوئی توڑ نہیں سکتا اور اس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں کرسکتا۔ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اگر seal کرنے والے نے ساتھ وضاحت بھی کی ہو کہ کس صورت میں اسsealکو استعمال کی اجازت ہے اور اس stamp لگے فیصلے میں درج ہو کہ کون اس کا مصداق ہو سکتا ہے اور کون نہیں،توکیا اس کو بھی آپ بے ایمانی قرار دیں گے؟ یا اس سٹیمپ شدہ فیصلے کو نہ ماننے والا بے ایمانی کا مرتکب نہیں ہوگا؟ جس نے یہ مہر لگائی ہے، اُسی نے سورۃ الجمعہ میں یہ فرمایا کہ وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ یہی نبی آخرین میں بھی آئے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے۔اسی نےحضرت خاتَم الانبیاءﷺ کی زبانی ایک مسیح کی آمد کی بھی خبر دی ہے اور اسی مہر شدہ فیصلہ میں اُس مسیح موعود علیہ السلام کو چار مرتبہ نبی اللہ قرار دیا ہے۔(صحیح مسلم)مسیح موعود نبی ہوگا،یہ اُسی جج کے مہر شدہ فیصلہ کا حصہ ہے۔اب شریعت لکھنے والا قلم مہر لگا چکا ہے۔ اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ا ُس مہر شدہ فیصلہ پر عمل درآمد سے کوئی انکار کرتا ہے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کیا یہ انکار اُس جج اور اُس کی مہر کی توہین نہیں؟ لہٰذا مسیح ؑ تو آئے گا اور وہ مہر شدہ فیصلہ کے مطابق نبی اللہ بھی ہوگا۔ لیکن امّت محمدیہ میں کون سا مسیح آئے گا ؟ وہ جس کے بارے میں اسی مہر شدہ فیصلے میں لکھا ہے کہ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ(آل عمران:۵۰)وہ بنی اسرائیل کا رسول ہے ؟ جس کے متعلق اللہ کا فیصلہ ہے وَجَعَلۡنٰہُ مَثَلًا لِّبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ (الزخرف:۶۰) کہ اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لیے مثال بنایا ہے جس کا قول اسی فیصلہ میں درج ہے کہ یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ(الصّف :۷) کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اس مسیح کو قرآن کریم، یعنی اللہ کا فیصلہ نبی قرار دے رہا ہے اور انہیں صرف اور صرف بنی اسرائیل کا نبی قرار دے رہا ہے۔ یہ فیصلہ اُس مسیح کو اُمّت محمدیہ کا رسول تسلیم ہی نہیں کرتا۔ آپ خدا کے اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں امت محمدیہ کی طرف کیوں گھسیٹ کے لا رہے ہیں؟اگر اب وہ امت محمدیہ میں آجائیں تو قرآن کریم کی اِن آیات کو، اس مہر شدہ فیصلے کو کہاں لے جاؤ گے؟ یہ اُس خدا کے مہر شدہ فیصلہ کی خلاف ورزی اور توہین ہے۔لہٰذا وہ مسیحؑ اس اُمت میں نہیں آسکتا۔اب اس کا ایک ہی مطلب رہ جاتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود ؑاِسی اُمت سے ہوگا اور وہ اِسی مہر شدہ فیصلے کے مطابق نبی بھی ہو گا۔پس ا گر ختم نبوّت کی مہر ٹوٹتی ہے تو اُس عیسیٰؑ کے آنے سے ٹوٹتی ہے جو بنی اسرائیل کا نبی تھا۔ محمد مصطفیٰﷺ کے اپنے غلام نبی کے آنے سے یہ مہر نہیں ٹوٹتی کیونکہ اس کی نبوّت کا اسی فیصلہ میں ذکر ہے۔تعجب ہے کہ جس کے آنے سے مہر ٹوٹتی ہے اس کے آنے کا اعلان کرتے ہو اور جواس مہر شدہ فیصلہ کے مطابق آیا ہے، اُس کو کافر و دجّال کہتے ہو؟

احمدی تلبیس کرتے ہیں؟

پھر موصوف کہتے ہیں کہ احمدی (نعوذ باللہ ) تلبیس کرتے ہیں اوریہ حدیث (لَوْعَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا) پوری بیان نہیں کرتے۔ کیونکہ بخاری میں پوری حدیث میں اس کے بعد لکھاہے کہ اگرحضورﷺ کے بعدکوئی نبی ہونا ہوتا تو آپؐ کا بیٹاابراہیم فوت نہ ہوتا۔آئیے دونوں احادیث کا جائزہ لیتے ہیں۔

ہم جو حدیث پیش کرتے ہیں، وہ سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر ۱۵۱۱ ہے۔ پوری حدیث یہ ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيْمُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ ، عَنْ مِقْسَمٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيْمُ ابْنُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ’’إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا، وَلَوْ عَاشَ لَعَتَقَتْ أَخْوَالُهُ الْقِبْطُ، وَمَا اسْتُرِقَّ قِبْطِيٌّ‘‘(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ماجاء فی الصلاۃ علی ابن رسول اللّٰہؐ، وذکر وفاتہ۔حدیث نمبر۱۵۱۱)کہ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ جب حضورﷺ کے صاحبزادے ابراہیمؓ فوت ہوئےتو آپﷺ نے ان پر نماز (جنازہ )پڑھی اور فرمایا کہ اس کے لیے جنّت میں دودھ پلانے والی ہے اور اگر یہ زندہ رہتے تو ضرور نبی ہوتے اور اگر یہ زندہ رہتے تو ان کے قبطی ننہال والے آزاد کر دیے جاتے اور کوئی قبطی غلام نہ بنایا جاتا۔جبکہ موصوف جوبخاری کی حدیث پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ حدَّثَنَااِسمٰعِیْلُ قُلْتُ لِابْنِ اَبِی اَوْفَی رَأَیْتَ اِبْراھِیم ابنَ النَّبِیِّ صَلّی اللّٰہُ علیہِ وسلّم قَالَ مَاتَ صَغِیْراً وَلَوْ قُضِیَ اَنْ یَّکُوْنَ بَعدَ مُحَمَّدٍ صَلّی اللّٰہُ علیہِ وسلّم نَبِیٌّ عَاشَ ابْنُہُ وَّلٰکِنْ لَّا نَبِیَ بَعْدَہ یعنی اسماعیل( بن ابی خالد بجلی )نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے ابن ابی اوفیٰ سے پوچھا کہ کیا تم نے حضورﷺ کے صاحبزادے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہاکہ وہ تو بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔اگر یہ مقدر ہوتا کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی ہو گاتو آپؐ کا بیٹا زندہ رہتالیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔(بخاری، کتاب الادب، باب مَن سمّی باسْمَاءِالانبیاء، باب ۱۰۹،حدیث نمبر ۶۱۹۴ )۔اس حدیث میں آنحضورﷺ کا قول کہاں ہے؟ یہ تو ابن ابی اوفیٰ نے اپنی ذاتی رائے بیان کی ہے۔جبکہ ہم جو حدیث پیش کررہے ہیں وہ حضورﷺ کا اپنا قول ہے۔لہٰذا اوّل تو یہ رسول کریمﷺ کے اپنے الفاظ نہیں ہیں بلکہ ایک راوی کا ذاتی خیال اور اس کی رائے ہے۔ دوسرے یہ قرآن کریم کی اُن آیات کے خلاف ہے جن میں آنحضرتﷺ کے بعد آپ کی غلامی میں آنے والے آپ کے ایک بروز اور ظِلِ کامل نبی اللہ کی خبر دی گئی ہے مثلاً وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ۔ تیسرا یہ خیال اُن احادیث کے بھی خلاف ہے جن میں رسول کریمﷺ نے ایک خادم اسلام مسیح نبی اللہ کی خبر دی ہے، جو حکم و عدل اور کاسر صلیب بھی ہے۔ پھر یہ خیال اس لیے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ آپؐ کے بیٹے ابراہیم کے متعلق یہی حدیث ان الفاظ میں بھی بیان ہوئی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اِنَّہُ لَنَبِیٌّ ابْنُ نَبِیٍّ (کنز العمال،کتاب الفضائل،الباب الاوّل، الفصل الثالث فی فضائل متفرقہ جزء۱۱، صفحہ ۴۷۲) کہ یقیناً یہ نبی ہے اور نبی کا بیٹا ہے۔نیز فتاویٰ حدیثیہ میں لکھا ہے آپ ؐنے فرمایا کہ اَمَا وَاللّٰہِ اِنَّہُ لَنَبِیٌّ ابْنُ نَبِیٍّ ( فتاویٰ حدیثیہ،اردو صفحہ ۴۹۹،مترجم مفتی فرید، مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور)۔ یہ الفاظ تو بتا رہے ہیں کہ آپﷺ نے حضرت ابراہیم ؓکونبی قرار دیا ہے اورموصوف کہہ رہے ہیں کہ اللہ نے انہیں وفات ہی اس لیے دی کہ وہ نبی نہ بن جائے۔اب بتائیے کہ تلبیس کون کر رہا ہے؟

آیت خاتم النبیّین کا سیاق و سباق

موصوف فرماتے ہیں کہ سیاق و سباق کے مطابق اللہ فرما رہا ہے کہ آنحضورﷺ کسی مرد کے باپ نہیں(یعنی آپ کی نرینہ اولاد تو نہیں) لیکن آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں اور خاتم النبیّین کا معنی تو ’’ نبیوں کی مہر‘‘ہے لیکن حضرت صاحبزادہ ابراہیم ؓکی وفات ہی اس لیے ہوئی کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ زندہ رہتا تو ضرور نبی ہوتا اور حضورﷺ کا قول ہے لانبیّ بعدی لہٰذا اللہ نے انہیں وفات ہی اس لیے دی کہ زندہ رہا تونبی بن جائے گا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ خاتم الانبیاء کا مطلب ہے کہ آخری نبی جس کے بعد اب کوئی نبی نہیں ہو سکتاَ۔موصوف بڑے فخر سےدعویٰ کرتے ہیں کہ اس سیاق و سباق کے ساتھ کسی نے آج تک اس آیت کا یہ مطلب بیان نہیں کیا۔

مجھے حیرت اور افسوس ہے کہ موصوف نے آیت کے سیاق و سباق کو اس قدر غلط انداز میں پیش کر تے ہوئے ذرا بھی تدبّر اور تفکّر سے کام نہیں لیا اور یہ خیال ہی نہیں کیا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟

اصل بات یہ ہےکہ عرب میں نرینہ اولاد پر بڑا فخر کیا جاتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ بیٹیاں تو دوسرے گھروں میں چلی جاتی ہیں جہاں وہ انہیں کی مرضی سے چلتی ہیں۔ بیٹوں کے ذریعہ ہی ہمارا کام، ہمارا نام اور ذکرِ خیر باقی رہے گا۔ آنحضرتﷺ کے متعلق وہ تمسخر سے کہتے تھے کہ آپؐ کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔لہٰذا (نعوذ باللہ) آپؐ کے بعد آپؐ کےکا م کو آگے بڑھانے والا اور آپؐ کا ذکرِ خیر کرنے والا کوئی باقی نہیں رہے گا اور اسلام کا سلسلہ آپ کے ساتھ ہی (نعوذ باللہ) ختم ہوجائے گا۔ یہ طعنہ وہ مکّی دَور سے ہی دیتے چلے آرہے تھے جس کا ذکر سورۃ الکوثر میں بھی ہے جو نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکہ میں نازل ہوئی۔ سورۃ الکوثر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانۡحَرۡ۔ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُکہ یقیناً ہم نے تجھے کوثر عطا فرمائی ہے۔ پس (اس کے شکرانے کے طورپہ) تو نماز پڑھ اور قربانی دے۔ یقیناً تیرا دشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم رہے گا۔ کفار ابھی تک حضورﷺ کو یہ طعنہ دیتے چلے آرہے تھے اور آیت خاتم النبّیین میں جو ۶ ہجری میں نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ اُن کے اسی طعنے کا جواب دے رہا ہے کہ آنحضرتﷺ کی نرینہ اولاد تو نہیں لیکن یہ اللہ کا رسول اور خاتم النبیّین ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ آپﷺ کے رُوحانی مقام یعنی مقامِ رسالت اور مقامِ خاتم النبیّین کو جسمانی طور پہ نرینہ اولاد کا تدارک قرار دے رہا ہے۔ جیسے مثال کے طور پر زید کے پاس بہت سا روپیہ ہو اور اس کے مخالف بکر کے پاس روپیہ تو نہ ہو لیکن اس کے پاس بہت سا سونا ہو۔ زید بکر کو طعنہ دے کہ تو روپیہ پیسے سے محروم ہے اور بکر جواب میں کہے کہ ٹھیک ہے روپیہ تو میرے پاس نہیں لیکن میرے پاس بہت سا سونا توہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بکر اپنے سونے کو زید کے روپیہ پیسہ کے متبادل قرار دے کر زید کو لاجواب کر رہا ہے جو کہ قابلِ فہم بات ہے۔ یہی صورت یہاں ہے۔ اللہ فرما رہا ہے کہ محمدﷺ کسی مردکے باپ تو نہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں۔

یہ تو ایک حقیقت ہے کہ عرب بیٹوں کو اعلیٰ اور بیٹیوں کو کمتر سمجھتے تھے اورحضورﷺ کی نرینہ اولاد نہ تھی اورجوبیٹے ہوئے وہ فوت ہوگئے۔ لیکن اس کے برعکس حضورﷺ کے دشمنوں کی نرینہ اولاد تھی۔اگر موصوف کا استدلال تسلیم کر لیا جائے تو اسلام کا اللہ حافظ ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب ہو گا کہ جسمانی طور پر نرینہ اولاد جسے تم اعلیٰ سمجھتے ہو،اس سے بھی حضورﷺ محروم ہیں اور رُوحانی مقامات میں سب سے بڑا مقام نبوّت ہے۔اب آپؐ پر نبوّت بھی بند ہو گئی ہے۔ نتیجہ یہ کہ آپﷺ نعوذ باللہ جسمانی طور پر بھی اولاد سے محروم اور رُوحانی طور پر بھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جب شریعت کی اس قسم کی غلط تفاسیر و مطالب دنیا میں پھیلا دی جائیں اور عوام النّاس کے ساتھ ساتھ علماء بھی انہی غلطیوں میں مبتلا ہو کر ظَھَرَ الفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا نظارہ پیش کر رہے ہوں تو جناب ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اپنی کتا ب اور اپنے پیارے نبیوں کی عزّت و ناموس سے لوگوں کو کھیلنے کی اجازت نہیں دیا کرتا بلکہ اپنی طرف سےمامور بھیج کر اپنی شریعت کی حفاظت فرماتا اور اپنے کلام کی درست تفسیر کرنے والے وجود بھیجا کرتا ہے۔ اسی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئےحضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نےفرمایا کہ’’ اگر یہ مانا جائے جیسا کہ ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ آپؐ کا نہ کوئی جسمانی بیٹا ہے نہ روحانی۔تو پھر اس طرح پر معاذاللہ یہ لوگ آپؐ کو ابتر ٹھہراتے ہیں،مگر ایسا نہیں۔ آپؐ کی شان تو یہ ہے کہ اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانۡحَرۡ۔ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ‘‘(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۱۷، ایڈیشن ۱۸۸۹ء)

آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ’’یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ… اس آیت کو مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ(الاحزاب:۴۱) کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔ اگر آنحضرتﷺ کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپؐ ابتر ٹھہرتے ہیں جو آپؐ کے اعداء کے لئے ہے۔اور إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ سے معلوم ہوتا ہےکہ آپؐ کو روحانی اولاد کثیر دی گئی ہے۔ پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپؐ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو اس پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے۔( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۸۔۳۹)پھر فرمایا:’’اگر آپؐ کا سلسلہ آپؐ سے ہی شروع ہو کر آپؐ ہی پر ختم ہوگیا تو آپؐ ابتر ٹھہریں گے(معاذاللہ)۔حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرتﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ(الکوثر:۴)یعنی تجھے تو ہم نے کثرت کے ساتھ روحانی اولاد عطا کی ہے۔ جو تجھے بے اولاد کہتا ہے وہی ابتر ہے۔آنحضرتﷺ کا جسمانی فرزند تو کوئی تھا نہیں۔اگر روحانی طور پر بھی آپ کی اولاد کوئی نہیں توایسا شخص خود بتاؤ کیا کہلاوے گا؟میں تو اس کو سب سے بڑھ کر بے ایمانی اور کفر سمجھتا ہوں کہ آنحضرتﷺ کی نسبت اس قسم کا خیال بھی کیا جاوے۔اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ(الکوثر:۲)کسی دوسرے نبی کو نہیں کہا گیا۔یہ تو آنحضرتﷺ ہی کا خاصہ ہے۔ آپؐ کو اس قدر روحانی اولاد عطا کی گئی جس کا شمار بھی نہیں ہو سکتا۔اس لئے کہ قیامت تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔رُوحانی اولاد ہی کے ذریعہ آنحضرتﷺ زندہ نبی ہیں کیونکہ آپؐ کے انوار و برکات کا سلسلہ برابر جاری ہےاور جیسے اولاد میں والدین کے نقوش ہوتے ہیں اسی طرح روحانی اولاد میں آنحضرتﷺ کے کمالات اور فیوض کے آثار اور نشانات موجود ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۴۳۳)

تو اس آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ کافر لوگ آپﷺ کو نرینہ اولاد سے محروم قرار دے کر طعنہ زنی کر رہے ہیں کہ چونکہ بیٹا نہیں لہٰذا ٓپؐ کا کام آگے بڑھانے والا اور آپؐ کا ذکرِ خیر کرنے والا کوئی نہیں اوراسلام کا سلسلہ آپؐ کے ساتھ ہی ختم ہونے کو ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ جسمانی طور پہ تو آپؐ کا کوئی بیٹا نہیں ہےلیکن اِس نبی کا کام تو جسمانی ہے ہی نہیں۔یہ تو اللہ کا رسول ہے اور نبوّت ورسالت رُوحانی کام ہے۔ آپﷺ کا یہ روحانی کام بند نہیں ہوگا کیونکہ یہ اللہ کا رسول ہونے کے ساتھ ساتھ خاتم النبیّین یعنی نبیوں کی مہر بھی ہے۔اب تمام رُوحانی مقامات، ادنیٰ ہو ں یا اعلیٰ، حتّٰی کہ نبوّت کا مقام بھی محمدﷺ کی مُہرِ تصدیق کے ساتھ یعنی آپﷺ کی رُوحانی اولاد میں شامل ہوکر ہی مل سکے گا۔ اب نہ کوئی شہید بن سکتا ہے، نہ صدّیق اور نہ صالح اور نہ کوئی نبوّت کا مقام حاصل کر سکتا ہے جب تک وہ محمدﷺ کے روحانی فرزندوں میں شامل نہیں ہوجاتا۔ یہ سب مقاماتِ روحانی اب صرف محمدﷺ کی مہر سے ہی مل سکیں گے۔ اے کافرو! تم اپنی جسمانی اولاد پہ فخر کرتے رہو۔ جسمانی بیٹے ہونے کے باوجود تمہارا نام مٹ جائے گا،تم ابتر رہو گے لیکن اس نبی کی رُوحانی اولاد کثرت سے ہو گی جو اسلام کی حفاظت کرے گی۔یہاں تک کہ اگر اسلام اور قرآن کی حفاظت کے لیے نبی کی ضرورت پڑی تو وہ بھی اسی کی رُوحانی اولاد میں سے ہوگا۔ غرض اس آیت کےسیاق و سباق کو اگر دیانتداری سے دیکھیں تو یہ آیت نبوّت کو بند نہیں کر رہی بلکہ اسے آنحضورﷺ کی رُوحانی اولاد سے وابستہ کر رہی ہےاور کافروں پر واضح کر رہی ہے کہ یہ نبی ابتر نہیں بلکہ تم لوگ ابتر ہو کیونکہ جن جسمانی بیٹوں پر تم نازاں ہو،وہ تو ایمان قبول کر کے آنحضرتﷺ کی روحانی اولاد بننے والے ہیں۔لہٰذا یہی بیٹے تمہارا نام اور ذکر خیر نہیں بلکہ آنحضورﷺ کی روحانی اولاد بن کر آپؐ کا نام اور ذکرِ خیر باقی رکھنے والے ہوں گے۔ اب تمہارا نام اور ذکرِ خیر اگر باقی رہا تو محمدﷺ کی روحانی اولاد کے ذریعہ ہی رہ سکے گا۔ چنانچہ آج دیکھ لیں ابو جہل، ولید اور عاص وغیرہ میں سے کس کا نام باقی ہے؟ ان سب کی اولادیں آنحضورﷺ پر ایمان لا کر آپﷺ کی روحانی اولاد بن گئیں۔اور جس مسیح نبی اللہ کی آمد کی پیشگوئی تھی وہ بھی آپ کی ہی رُوحانی اولاد میں سے ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تصنیف ’’ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ’’خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں اسی جگہ یہ اشارہ بھی فرمادیا ہے کہ آنجناب اپنی رُوحانیت کی رُو سے اُن صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی ٔالٰہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے۔جیسا کہ اللہ جل شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہےمَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمۡ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ(الاحزاب:۴۱)یعنی آنحضرتﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے۔ اب ظاہر ہے کہ لٰکنکا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے، یعنی تدارک مافات کے لئے۔سو اس آیت کے پہلے حصہ میں جو امر فوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرتﷺ کی ذات سے نفی کی گئی تھی، وہ جسمانی طور سے کسی مرد کا باپ ہونا تھا۔سو لٰکنکے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اس طرح تدارک کیا گیاکہ آنحضرتﷺکو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیاجس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہ راست فیوض نبوّت منقطع ہو گئے۔ اور اب کمال نبوّت صرف اسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اس طرح پر وہ آنحضرتﷺ کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا۔غرض اس آیت میں ایک طور سے آنحضرتﷺ کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ(الکوثر:۴)میں ہے دُور کیا جا ئے۔ماحصل اس آیت کا یہ ہوا کہ نبوّت گو بغیر شریعت ہو۔ اس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہ راست مقام نبوّت حاصل کر سکے لیکن اس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوّت چراغِ نبوّتِ محمدیہؐ سے مکتسب اور مستفاض ہو۔ یعنی ایسا صاحبِ کمال ایک جہت سے تو امتی ہوا اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوارِ محمدیہ نبوّت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اگر اس طور سے بھی تکمیل نفوس مستعدہ امت کی نفی کی جائے تو اس سے نعوذ باللہ آنحضرتﷺ دونوں طرح سے ابتر ٹھہرتے ہیں۔ نہ جسمانی طور پر کوئی فرزند، نہ روحانی طور پر کوئی فرزند اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرتﷺ کا نام ابتر رکھتا ہے۔‘‘(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۱۳ تا ۲۱۴)

پس آنحضورﷺ نے حضرت ابراہیم ؓ کی وفات پہ جو فرمایا کہ اگر یہ زندہ رہتا تو ضرور سچا نبی ہوتا،خواہ اس کے بعد انا خاتم النبیّین فرمایا ہو یا لا نبیّ بعدی فرمایا ہو، یہی معنی رکھتا ہے کہ یہ ضرور نبی ہوتا لیکن چونکہ میں خاتم النبیّین ہوں لہٰذا اس کی نبوّت میری شریعت سےالگ نہیں ہو نی تھی بلکہ میرے ماتحت ہی ہوتی۔ وہ میری پیروی میں، میری شریعت کی ہی اطاعت کرتا۔ لا نبی بعدی مجھ سے الگ ہو کر یا مجھے چھوڑ کر آزاد حیثیت میں جیسے پہلے نبی بن جاتے تھے،اب کوئی نبی نہیں بن سکتا۔ اب جو بھی نبی بنے گا میرا پیروکار ہی ہوگا اور میری ہی غلامی میں میری ہی شریعت کی پیروی اور تبلیغ کرے گا۔اب میری اُمّت کے سوا نہ تو کسی اور اُمّت میں نبی آسکتا ہے اور نہ کسی اور اُمّت کا نبی آسکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’اگر حضرت عیسیٰؑ دوبارہ دنیا میں آئےتو بغیر خاتم النبیین کی مہر توڑنے کے کیونکر دنیا میں آسکتے ہیں۔غرض خاتم النبیّین کا لفظ ایک الٰہی مہر ہےجو آنحضو رﷺ کی نبوّت پر لگ گئی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مہر ٹوٹ جائے۔ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرتﷺ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوّت کا بھی اظہار کریں اور یہ بروز خدا تعالیٰ کی طرف سےایک قرار یافتہ عہدہ تھا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡاور انبیاء کو اپنے بروز پر غیرت نہیں ہوتی کیونکہ وہ انہی کی صورت اورانہی کا نقش ہےلیکن دوسرے پر ضرور غیرت ہوتی ہے۔دیکھو حضرت موسیٰ ؑنے معراج کی رات جب دیکھا کہ آنحضرتﷺ ان کے مقام سے آگے نکل گئےتو کیونکر رو رو کراپنی غیرت ظاہر کی۔تو پھر جس حالت میں خدا تو فرمائےکہ تیرے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گااور اپنے فرمودہ کے برخلاف عیسیٰ کو بھیج دے تو پھر کس قدر یہ فعل آنحضرتﷺ کی دل آزاری کا موجب ہوگا۔غرض بروزی رنگ کی نبوّت سے ختم نبوّت میں فرق نہیں آتا اور نہ مہر ٹوٹتی ہے لیکن کسی دوسرے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخ کنی ہوجاتی ہے۔اور آنحضرتﷺ کی اس میں سخت اہانت ہے کہ عظیم الشّان کام دجّال کشی کاعیسیٰ سے ہوا نہ آنحضرتﷺ سےاور آیت کریمہ وَلٰكِنْ رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب:۴۱)نعوذ باللہ اس سے جھوٹی ٹھہرتی ہے…خلاصۂ کلام یہ کہ بروزی طور پر نبوّت اور رسالت سے ختمیت کی مہر نہیں ٹوٹتی اور حضرت عیسیٰؑ کے نزول کا خیال جومستلزم تکذیب آیت وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہے، وہ ختمیت کی مہر کو توڑتا ہے‘‘ ( ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۲۱۴تا ۲۱۵)

حضورؑ مزید فرماتے ہیں:’’(ترجمہ)ختم نبوّت سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہمارے نبی کریمﷺ پرجو اللہ تعالیٰ کے سب رسولوں اور نبیوں سے افضل ہیں، تمام کمالاتِ نبوّت ختم ہو گئے ہیں۔اور ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپؐ کے بعد نبوّت کے مقام پر وہی شخص فائز ہو سکتا ہے جو آپؐ کی امت میں سے ہو اور آپؐ کا کامل پیرو ہو۔اور اس نے تمام کا تمام فیضان آپ ہی کی روحانیت سے پایا ہو اور آپؐ کے نور سے منوّر ہوا ہو۔ اس صور ت میں وہ کوئی غیرنہ ہواور نہ ہی جائے غیرت اورنہ تو کوئی یہ دوسری نبوّت ہوگی اور نہ ہی جائے حیرت۔بلکہ وہ احمد ہے جو ایک دوسرے آئینہ میں جلوہ گر ہوا ۔ اور کوئی بھی شخص اپنی اس شکل و صورت پر غیرت کا اظہار نہیں کرتا جو اللہ نے اسے آئینہ میں دکھائی اور ظاہر کی ہو اور نہ ہی شاگردوں اور بیٹوں پر غیرت جوش ماراکرتی ہے۔پس وہ شخص جو نبی کریمؐ سے ہوا اور نبیؐ میں فنا ہو تو وہ وہی ہے…اور یہ وہی حق ہے جو ہمارے نبی کریم کی برکات پر شاہد ہے اور لوگوں کو کمال محبت اور خلوص کے ساتھ آپ کی ذات میں فنا ہونے والے متبعین کے لبادہ میں آپ کا حسن دکھلاتا ہے ۔اور کسی کا اس معاملے میں برسر پیکار ہونا حد درجے کی نادانی ہوگی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرتؐ کے ابتر نہ ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے اور تدبّر کرنے والے شخص کے لیے کسی مزید تفصیل کی ضرورت نہیں اور یہ کہ آنحضور جسمانی اعتبار سے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تھے لیکن آپ فیض رسالت کی حیثیت سے ہر اس شخص کے باپ ہیں جسے روحانیت میں کمال حاصل ہوا اور یہ کہ آپ خاتم النبیین اور مقبولوں کے سردار ہیں اور کوئی شخص بارگاہ ایزدی میں کبھی بھی داخل نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ جس کے پاس آپؐ کی مہر کا نقش اور آپؐ کی سنت کے آثار ہوں اور آپؐ کی رسالت کے اقرار اور آپ کے دین وملت پر ثبات کے بعد ہی کوئی عمل و عبادت قبول ہو سکتی ہے اور جس نے بھی آپ کو چھوڑا اور اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق آپ کی تمام سنتوں کی پیروی نہ کی تو ایسا شخص بالضرور ہلاک ہو گیا‘‘(ترجمہ از عربی متن مواہب الرّحمٰن، روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ ۲۸۵ تا ۲۸۷)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button