متفرق مضامین

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (ذہن کے متعلق نمبر۱۴) (قسط 39)

(ڈاکٹر شاہد اقبال)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

اوپیم

Opium

(Dried latex of the Poppy)

٭…اوپیم ایک نیند آور دوا ہے۔ اس کا مریض اکثر سویا رہتا ہےیا اس پر غنودگی کا غلبہ رہتا ہے لیکن اس کے برعکس بعض دفعہ اس کی نیند بالکل اڑ جاتی ہے۔ اس صورت میں اوپیم کی کافیا سے بہت مشابہت ہے کیونکہ کافیا میں بھی بے خوابی اور زود حسی پائی جاتی ہے اور اوپیم کے مریض کی نیند اڑ جائے تو وہ بہت زود حس ہو کر بے آرامی محسوس کرتا ہےاور خیالات کی فراوانی اسے پریشان رکھتی ہے۔ پس اگر اوپیم کی وجہ سے نیند اڑے تو کافیا مفید ہوتی ہے۔اور اگر کافی پینے کی وجہ سے نیند اڑے تو نکس وامیکا کےعلاوہ اوپیم بھی مفید ہے۔(صفحہ۶۴۶)

٭…اوپیم کا مثالی مریض بہت ڈرپوک ہوتا ہے۔اندھیرے سے سخت ڈرتاہے۔ڈراؤنے خیالات آتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوکر اپنی بیماری اور تکلیف کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ غنودگی اور بے ہوشی کی سی حالت میں رہتا ہے۔کسی چیز سے خوفزدہ ہونے کے بعد اسے سر میں چکر آنے لگتے ہیں۔ (صفحہ۶۴۶)

٭…اگر خوف کے نتیجہ میں عضلات میں اکڑاؤپیدا ہو، ہاتھ پاؤں مڑنے لگیں اور ہسٹیریا یا مرگی کے دورے شروع ہوجائیں تو اونچی طاقت میں اوپیم استعمال کرنا چاہیے ۔اگر خوف کے نتیجہ میں مرگی کےدورے مستقل صورت اختیار کرلیں تو بعض دفعہ اوپیم کی اونچی طاقت میں ایک ہی خوراک مرض کا قلع قمع کر دیتی ہےلیکن صرف اس صورت میں جب خوف کی وجہ سے مرگی کا حملہ ہوا ہو۔ اوپیم کے مریض کے دورے عموماً نیند کی حالت میں ہوتے ہیں اور وہ دورہ چیخ سے شروع ہوتا ہے۔مریض کو کالی چیزیں، شیطان، آگ اور قتل وغارت کے نظارے نظر آتے ہیں۔دل میں خاص قسم کے خوف بیٹھ جاتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسے اٹھا کر لے جارہا ہے۔ خوف کے علاوہ اچانک غیر معمولی خوشی پہنچنے سے اگر دماغ پر اثر ہو جائے اور اس کے بد اثرات باقی رہ جائیں تو اوپیم کے علاوہ کافیا بھی مفید دوا ہے۔(صفحہ۶۴۸-۶۴۹)

٭…اوپیم کے مریض کو گپیں مارنے اوربلاوجہ جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے۔ جسے وہ خود محسوس نہیں کرتا مگر بےمقصد گپیں مارنے اورجھوٹ بولتے چلے جانے کی لاشعوری عادت میں مبتلا ہوتا ہے۔(صفحہ۶۴۹)

٭…عورتوں میں کسی خوف کے نتیجہ میں حیض کا خون بند ہوجاتاہے۔ وضع حمل کے وقت دردیں رک جاتی ہیں، مریضہ پر غشی طاری ہوجاتی ہے۔ اور جھٹکے لگتے ہیں۔ اچانک بے ہوشی اور غنودگی کا دورہ پڑتا ہے۔ بعض اوقات خوف کی وجہ سے حمل ضائع ہونے کا بھی اندیشہ ہوتاہے۔(صفحہ۶۴۹-۶۵۰)

فاسفورس

Phosphorus

٭…پلاٹینم کی بعض علامتیں بھی اس میں موجود ہوسکتی ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو دوسرے لوگو ں سے الگ کر لینا اور بہت اونچا سمجھنا، یہ علامت بعض دفعہ فاسفورس کے مریض میں بھی پائی جاتی ہے مگر شاذ کے طور پر۔ وہ اپنے مزاج کے صاف ستھرا ہونے کی وجہ سے بھی علیحدگی پسند ہوجاتا ہے لیکن اس میں تکبر نہیں پایا جاتا جبکہ پلاٹینم کے مریض میں تکبر بہت ہوتا ہے اور اسے یہ وہم ہوتا ہے کہ گویا وہ آسمان سے اترا ہے۔ ہر ایک کو نیچی نظر سے دیکھتا ہے۔جبکہ فاسفورس کا مریض بہت ہمدرد اور نرم مزاج رکھتا ہے۔مزاج کی نفاست کی وجہ سے اس میں غیر معمولی زود حسی پیدا ہو جاتی ہے۔ جو کئی بیماریوں کا موجب بھی بن جاتی ہے۔ بعض دفعہ جب اکیلا ہو تو اس پر موت کا خوف طاری ہوجاتا ہے۔ دماغ میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ جسم میں کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ (صفحہ۶۵۲-۶۵۳)

٭…اگر کسی صدمے سے کوئی اچانک اندھا ہوجائے تو بھی فاسفورس کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔(صفحہ۶۵۳)

٭…بعض دفعہ مریض کی نیند بے چین ہوتی ہے،لمبی گہری نیند نہیں آتی اور بلاوجہ آنکھ کھلتی رہتی ہے۔ یہ اعصابی تناؤ کی وجہ سےہو تا ہے۔ اس میں فاسفورس بہت جلد فائدہ دیتی ہے۔ بادلوں کی گھن گرج سےتکلیفیں بڑھ جائیں تو اس کا بھی فاسفورس سے تعلق ہے۔ (صفحہ۶۵۶)

٭…فاسفورس کا مریض بہت بے چین اور پریشان رہتا ہے۔(صفحہ۶۶۱)

پکرک ایسڈ

Picricum acidum

(Trinitrophenol)

٭…غم کے بد اثرات اور جذبات کے ہیجان کے نتیجہ میں سردرد کے علاوہ جو علامات بھی پیدا ہوتی ہیں ان میں پکرک ایسڈ بہت مفید ہے۔ اس کے علاوہ ایمبرا گریسا، اگنیشیا، نیٹرم میور، ایسڈ فاس اور سلیشیا بھی غم کے بداثرات کو دور کرنے میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ (صفحہ۶۶۹)

٭…جو لوگ خون کی کمی کا شکار ہوں اور جسمانی اور ذہنی محنت سے تھک چکے ہوں ان کےلیے بھی مفید ہے۔ پکرک ایسڈ میں سر درد کو لیٹنے اور سر کو کس کے باندھنے سے آرام آتا ہے لیکن حرکت سے، جھکنے سے اور دماغی محنت سے درد میں اضافہ ہوتا ہے۔کھلی اور ٹھنڈی ہوا میں آرام محسوس ہوتا ہے لیکن مرطوب موسم میں درد بڑھ جاتا ہے۔ (صفحہ۶۶۹)

پائیپر نائیگر

Piper nigrum

(Black Pepper)

(سیاہ مرچ)

٭…پائیپر نائیگر کا مریض مزاجی لحاظ سے اداس اور غمگین رہتا ہے۔ کسی کام پر توجہ نہیں دے سکتا۔ اس کے خیالات میں یکسوئی نہیں رہتی۔ ذرا سی آواز پر چونک اٹھتا ہے۔(صفحہ۶۷۱)

پلاٹینم

Platinum

(Platina)

٭…پلاٹینم مغرور عورتوں کی بیماریوں میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ لیکن اس کا استعمال نسبتاً کم ہوتا ہے کیونکہ اس مزاج کی عورتیں پرانے زمانے میں شاید زیادہ ہوتی تھیں۔ اب زمانہ بدل گیا ہے اس لیے اس قسم کی متکبر،سر چڑھی عورتیں جو اپنے آپ کو ہر ایک سے اونچا سمجھیں کم دکھائی دیتی ہیں۔ امیر خاندان کی عورتیں جو بچپن سےہی منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیداہوئی ہوں،خود کو ہر شے سے بر تر سمجھتی ہوں۔ ایسی عورتیں پلاٹینم کی مزاجی تصویر ہوتی ہیں۔ پلاٹینم سونے سے بھی بہت زیادہ قیمتی دھات ہے۔ عجیب بات ہے کہ پلاٹینم کا زہرامارت کا فرضی نشہ چڑھا کر غریب عورتوں کو بھی نخوت اور تکبر کا پیکر بنا دیتا ہے۔ (صفحہ۶۷۳)

٭…پلاٹینم کا مریض خود کو بہت اعلیٰ و ارفع سمجھتا ہے۔ چھوٹی سی بات سے بہت چڑ جاتا ہےاور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اپنی بہت اہمیت کی وجہ سے ہر وقت سمجھتا ہے کہ اس کی جان اور بدن کو خطرہ ہے۔ یہ ذہنی کیفیت جسمانی حالت میں بدل جاتی ہے۔ اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتاہے کہ اسے کچھ ہوجائے گا۔ (صفحہ۶۷۳)

٭…پلاٹینم میں دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، اعضاء کانپنے لگتے ہیں،موت کا خوف بہت جلد گھیر لیتا ہے،مذہبی جنون بھی پایا جاتا ہےاور مریضہ سمجھنے لگتی ہے کہ وہ کوئی اور ہی مخلوق ہے۔یہ باتیں پاگل پن کی علامت ہیں۔ اور مزید پاگل پن کی طرف لےجاتی ہیں۔(صفحہ۶۷۳)

پلمبم میٹیلیکم

Plumbum Metallicum

٭…مریض سے کچھ پوچھا جائے تو وہ کچھ دیر کے بعد جواب دے گا یا بات کو دہرائے گا۔ اگر مریض بعد از وقت رد عمل دکھائے تو وہاں پلمبم خصوصی دوا ہے۔ لیکن یہ فرق مد نظر رکھنا چاہیے کہ بعض اوقات کوئی شخص خیالات میں کھویا ہوا ہوتا ہے اور ہلکی سی آواز سن کر اس کا جواب نہیں دیتا، بعد میں ذہن پر نقش ہونے والا وہ پیغام اسے جگا تا ہے تو پھر وہ پوچھتا ہے کہ کیا بات تھی ؟ یہ بالکل الگ بات ہے۔ پلمبم کا مرِیض ہمیشہ ہر چیز میں یہی رد عمل دکھاتا ہے حتیٰ کہ اسے درد کا احساس بھی کچھ دیر کے بعد ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے مریض کے لیے خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زخمی نہ کر لیں۔پلمبم کا مریض بات سمجھتا تو ہے لیکن ذہن پر اس کا نقش جمانے میں اسے کچھ وقت لگتا ہے۔(صفحہ۶۷۵-۶۷۶)

٭…اگر اچانک صدمہ پہنچنے سے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو تو پلمبم ان میں دوبارہ حرکت پیدا کر دیتی ہے۔ (صفحہ۶۷۸)

٭…پلمبم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دھوکا دہی اور بے ایمانی کرنے والوں کے لیے شفا کا اثر رکھتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ ساری دنیا میں کثرت سےاستعمال ہونی چاہیے۔پلمبم میں کبھی کبھی پیٹ کا شدید درد ہذیان بکنے کے رجحان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔بعض اوقات اچانک بے ہوشی طاری ہوجاتی ہےاور نظر ختم ہوجاتی ہے۔ (صفحہ۶۸۰)

پلسٹیلا

Pulsatilla

(Wind flower)

٭… اس دوا میں ذہنی اور جسمانی علامات ادلتی بدلتی رہتی ہیں۔ پلسٹیلا کا مریض نرم مزاج، رونے کی طرف مائل اور بزدل ہوتا ہے۔ یہ مزاج عورتوں میں زیادہ ملتا ہے اس لیے یہ عورتوں کی دوا کے طور پر مشہور ہے۔ پلسٹیلا کا مریض سب کے لیے دل میں نرمی رکھتا ہے۔ بات بات پر رو پڑے گا۔ یا چھوئی موئی کی طرح گم سم ہو جائے گا۔ چھوٹی موٹی بات کو بہت شدت سے محسوس کرتا ہے۔ جب یہ دیکھے کہ اس کی انا کو کچلاگیا ہے تو بہت بے عزتی محسوس کرتا ہےاور چڑ جاتا ہے۔ بہت وہمی ہوتا ہے۔ عزت نفس کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ معمولی بات سے بھی اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اسے ہر وقت یہ وہم رہتا ہے کہ کوئی میری بے عزتی کر رہا ہے۔ لیکن وہ تشدد پسند نہیں ہوتا اور مار دھاڑ پر نہیں اترآتا بلکہ بہت غمگین، مایوس اور بے حوصلہ ہو جاتا ہے۔ بہت روتا ہے۔ توہمات میں جلد مبتلا ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں میں مذہبی جنون بھی پایا جاتا ہے۔ خصوصاً عورتیں اس جنون کا شکار ہوتی ہیں۔ چونکہ وہ اپنے غصہ کے جذبات کو دباتی رہتی ہیں۔ اس لیے بالآخر ان کے یہ جذبات مذہبی پاگل پن میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔پاگل پن کا اظہار ان کی باتوں اور خیالات سے ہوتا ہے۔ مثلا ً ان کے دماغ میں یہ خیال بیٹھ جائے گا کہ فلا ں خوراک بنی نوع انسان کی ہلاکت کا موجب ہے۔ اسی وجہ سے وہ تنزل پذیر ہیں۔ ایسا وہم پلسٹیلا کا خاصہ ہے۔ لائیکوپوڈیم کے بداثرات جن کی وجہ سے انسان بے حد شرمیلا ہوجائے حتیٰ کہ اپنے سائے سے بھی ڈرے تو پلسٹیلا ان کا تریاق ہے۔(صفحہ۶۸۹-۶۹۰)

٭…بسا اوقات پلسٹیلا کی مریض عورتوں کو شادی سے نفرت ہوجاتی ہے۔اگر شادی سے نفرت نمایاں طور پر پائی جائے اور کوئی دوسری نفسیاتی وجہ معلوم نہ ہو تو پلسٹیلا دینی چاہیے۔(صفحہ۶۹۰)

٭…پلسٹیلا میں پیاس نہیں ہوتی لیکن ٹھنڈا پانی پینے سے سکون ملتا ہے۔ٹھنڈا کھانا کھانے کی خواہش ہوتی ہے۔ معدے کی تکلیفیں صبح کے وقت زیادہ ہوجاتی ہیں اور ذہنی تکلیفیں شام کو بڑھ جاتی ہیں۔ عموماً ڈپریشن اور اداسی کے دورے بھی شام کو ہی پڑتے ہیں۔ ایسے مریضوں کے لیے یہ وقت بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ (صفحہ۶۹۰)

٭…نزلاتی اثرات کان میں منتقل ہوں تو پلسٹیلا کے مریض کی طبیعت میں نرمی اور درد کے ساتھ رونے کا رجحان غالب ہوتا ہے۔ جس میں عجب بے چارگی اور بے بسی کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن اگر کان کے درد کے ساتھ غصہ پایا جائے تو پلسٹیلا کی بحائے کیمومیلا دینی چاہیے۔ (صفحہ۶۹۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button