پرسیکیوشن رپورٹس

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان

۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب

روزنامہ ڈان نے ۱۴؍اپریل ۲۰۲۳ءکو مشعال کی یاد میں ایک عاصم سجاد اختر نے اداریہ لکھا۔ ہم اس کی ہر بات سے تو متفق نہیں لیکن آزادیٔ اظہار رائے سے متعلق بعض امور کے بیان کےلیے اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔موصوف لکھتے ہیں کہ مشعال کوئی عام طالبعلم نہ تھا۔ بلکہ وہ بہت خاص تھا۔ وہ افسر شاہی کے خلاف کھڑا ہو گیا تھا۔اللہ کرے کہ جس مقصد کےلیے وہ کھڑا ہوا تھا اس کا تسلسل جاری رہے۔

اداریہ۔مشعال انتظار کر رہا ہے:مشعال کو چھ سال قبل اس کے ساتھی طالبعلموں نے تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔اس کے پیارے انصاف کے لیے آج تک در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔مگر ریاست کے شب و روز میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اور ایک اہم واقعہ ایک مبہم یاد بن کر رہ گیا ہے۔

وہ جج جو مشعال کے والد اقبال لالا کو سماعت کےلیے بلاتے اب آپس میں دست و گریبان ہو رہے ہیں۔ مذہب کے ٹھیکیدار ملاں او ر بظاہر پُرجوش میڈیا کی شخصیات توہین کرنے والوں کو سرعام تشدد کر کے مارنے پر اکسا رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل سریع الا عتقادی،نفرت پر مبنی ہیجان انگیز رویے اور عجیب ذہنی فتور کا شکار ہے۔

حال ہی میں سرکار نے اعلان کیا ہےکہ دہشتگردی دوبارہ پھوٹ پڑ ی ہے اور اس کے سدِباب کےلیے دوبارہ کارروائی کی ضرورت ہے۔ سنہ دو ہزار کی پہلی اور دوسری دہائی میں لوگوں کو جھوٹے قصے کہانیاں بیچے گئے۔ اس وقت بھی ناقدین ببانگِ دہل اس پراپیگنڈے کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے اور اب بھی اٹھا رہے ہیں۔

مشعال نہ صرف سکیورٹی اداروں اور ان کے ہرکاروں کی جانب سے تعلیمی،میڈیا اور سیاسی حلقوں میں بوئی جانے والی جارحانہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تھا بلکہ افسر شاہی،کاروباری،عسکری اور غیر عسکری نفوس کی جانب سے پورے پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا ہ میں ایک معاشرتی تقسیم کی جنگ کے بھی خلاف تھا۔اس کے علاوہ وہ عورتوں اور بچیوں کے حقوق کی بات کرتا تھا۔ وہ ایک ایسی آواز تھا جس کو افسر شاہی اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھی…

لاہور سےایک پریس ریلیز

لاہور،۶؍ اپریل ۲۰۲۳ء: لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کی جانے والی پریس ریلیز کی ایک کاپی ہمیں موصول ہوئی۔ اس میں لگائے جانے والے الزام تکلیف دہ اور قابل غور ہیں۔اس کا موضوع توہین ہے۔اس کے کچھ نکات پیش خدمت ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر پاکستان میں ایک منظم سازش کے تحت نوجوانوں سے گستاخانہ مواد انٹرنیٹ پر نشر کروایا جا رہا ہے۔اور ایسے لوگوں کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔اس کے علاوہ ایک سو سے زائد افراد کو گستاخی کے جرم میں گرفتار کیا گیاہے اور ان میں سے کئی ایک کو سزائے موت ہو چکی ہے اور ہر عدالت نے ان کی ضمانت نامنظور کی ہے۔نیز فحش مواد کی مدد سے نوجوانوں کو گمراہ کر کے گستاخی کروائی جا رہی ہے۔

یہ پریس ریلیز صباحت رضوی کی جانب سے نشر کی گئی ہے جو بار کی پہلی منتخب خاتون سیکرٹری ہے۔اگر اس پریس ریلیز میں کوئی سچائی ہے اور پاکستان کو اتنے بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کیوں کسی بھی میڈیا ہاؤس نے خطرے کی گھنٹی نہیں بجائی۔ کیوںکسی سیاستدان، دانشور، صحافی، مذہبی قیادت یا عدلیہ نے اس پر بات نہیں کی۔

یہ بات ضروری ہے اس پریس ریلیز کی تحقیق کی جائے اور پتا چلایا جائے کہ آیا اس میں کوئی سچائی ہے یا پھر یہ اپنے کسی ذاتی مفاد کو حاصل کرنے کی خواہش او ر بھونڈی کوشش ہے۔ یقیناً کوئی بھی محب وطن ایسی حرکت نہیں کرے گا کہ اپنے مفاد کےلیے وطنِ عزیز کے معاشرے کو ایسا پیش کرے کہ جس کی بقا کا دارومدار صرف توہین کے الزامات پر ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے ایسٹر کی نیک تمنائیں

وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ ٹویٹ کی کہ میں دنیا بھر کی مسیحی برادری اور خاص طور پر پاکستانی مسیحی بہن بھائیوں کو ایسٹر کی مبارک باد دیتا ہوں۔ ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم اس دنیا کو پر امن بنائیں جہاں ہر برادری امن سے رہے اورامید کی صبح کی تعمیر کریں۔

حکومت پاکستان کے سربراہ کی طرف سے اس دن کی مناسبت سے ایسا پیغام انتہائی احسن اقدام ہے۔ لہٰذا عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اس اقدام کی پیروی کریں۔اور دنیا کو ایسی پُرامن جگہ بنائیں جہاں ہر کوئی امن کے ساتھ رہ سکے۔

جماعت احمدیہ پر حکومت کی جانب سے زبردستی اقلیت کا ٹھپّا لگا دیا گیا۔ احمدی بھی مختلف تہوار مناتے ہیں اور ان کے اکثر تہوار وہی ہیں جو دوسرے مسلمان مناتے ہیں لیکن ریاست کی جانب سے ان کے لیے کبھی کوئی پیغام نشر نہیں کیا گیا۔

گذشتہ سال احمدیوں کو دس سے زائد مقامات پر عید قربان پر قربانی کرنے سے روکا گیا۔ پولیس کو تو احمدیوں کی مدد کرنی چاہیے تھی تا کہ وہ امن کےساتھ قربانی کر سکیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس کے علاوہ کئی دہائیوں سے احمدیوں کو ان کا جلسہ سالانہ کرنے سے روکا جا رہا ہے۔احمدیوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنا انتہائی غیر منصفانہ عمل ہے۔

ہم تو اس بات کے لیے تیار ہیں کہ دنیا کو ایسی پر امن جگہ بنائیں جہاں ہر کوئی امن کے ساتھ رہ سکے۔ کیا حکومت اپنے وزیر اعظم کی پیروی میں ایسا کرنے کےلیے تیار ہے!

دنیا میں کہیں بھی مسلمان اس طرح کے نہیں ہیں

ڈان نیوز،۲۲؍اپریل ۲۰۲۳ء: ڈیلی ڈان نے پروفیسر ہود بھائی کا تحریر کردہ ایک اداریہ شائع کیا جو کہ ایک معروف ماہرِ طبیعیات اور رائیٹر ہیں۔ اس میں انہوں نےدہائیوں تک پاکستانی معاشرے کو زبردستی اسلامی ریاست بنانے اور اس عمل کے معاشرے پر اثرات کے متعلق بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ہم اس کی تفصیلی رپورٹ تو یہاں پیش نہیں کر رہے لیکن ڈان اخبار کا یہ اداریہ پڑھنے لائق ہے۔

کراچی میں ایک معمر احمدی وکیل کو تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کر لیا گیا

کراچی ۲۷؍اپریل ۲۰۲۳ء:سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سید علی احمد طارق اور ان کے اسسٹنٹ کو ستائیس اپریل کو کراچی سٹی کورٹ میں وکلاء کی جانب سے تشدد کا نشانہ بناکر ان کو زبردستی تھانہ میں لے جایا گیا۔ پولیس نے ان کو طبی امداد بہم پہنچانے کے بجائے ان پر توہینِ رسالت کی دفعہ ۲۹۸ - ب کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ’سید‘ کا لفظ لگا رکھا ہے جو کہ اسلامی ہے۔

اگرچہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو احمدیوں کو اسلامی نام رکھنے سے روکتا ہو لیکن پھر بھی یہ لفظ تو عرب میں اسلام سے قبل بھی استعمال ہوتا تھا۔

یہ ان کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا۔ اسی تھانے میں گذشتہ سال نومبر میں بھی ان پر نام میں ’سید‘ کے استعمال کی وجہ سے مقدمہ ہوا۔ چنانچہ ان پر دو بار ایک ہی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا۔

سید علی احمد صاحب گذشتہ انتالیس سال سے احمدیوں پر بنائے جانے والے جھوٹے مقدموں میں احمدیوں کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان کا کہنا ہے ان کو بے وجہ ایک مقدمہ میں صرف اس لیے گرفتار کیا گیا ہے تا کہ احمدیوں کےمقدمات جو وہ لڑ رہے ہیں ان میں رخنہ اندازی کی جائے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ بات مضحکہ خیز ہے کہ سید علی احمد پر ایک ہی تھانے میں ایک ہی جرم کے لیے دو بار مقدمہ درج کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا ایسے واقعات ملک کو بدنام کر رہے ہیں اور بین الاقوامی طور پر ملک کو ایسی جگہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں جہاں پر مذہبی جنونیوں کا اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے۔ترجمان نے مزید کہا کہ وہ سید علی احمد کی فوری رہائی اور ساتھ ان پر اور ان کے غیر احمدی اسسٹنٹ پر حملہ اور تشدد کرنے والوں کے محاسبہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔

یہا ں اعلیٰ پولیس افسران کا رویہ بھی قابل غور ہے کہ جب ان کو ایک معمر احمدی وکیل کے ساتھ اس بہیمانہ، غیرقانونی اورغیر انسانی سلوک روکنے کے لیے کہا گیا تو وہ وکلا کی غنڈہ گردی کے سامنے بے بس نظر آئے۔

سید علی احمد نے اپنے ایک ہندو دوست وکیل کو مدد کے لیے کہا۔ اس نے ابتدائی کارروائی تو کر دی لیکن بعد میں اس نے کیس پر کام کرنے سے انکار کر دیا اور فیس کے پیسے واپس کر دیے۔ احمد اَب کسی وکیل کی تلاش میں ہیں۔

یاسر لطیف ہمدانی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ایک احمدی کو صرف نام میں سید ہونے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ آرٹیکل بیس اور دو کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسے کام کر کے ہم نازی حکومت جیسا طرزِ عمل اپنا رہے ہیں۔

ہجوم نے لاہور میں ایک احمدیہ مسجد کا گھیراؤ کر لیا اور پولیس نے احمدی بزرگان کو ہی گرفتار کر لیا

راج گڑھ،سمن آباد لاہور۔۱۵تا ۱۷؍ اپریل ۲۰۲۳ء: ۱۵؍اپریل کو ایک ہجوم نے احمدیہ نماز سنٹر کے باہر جمع ہوکر اس کے صدر دروازے پر لوہے کی سلاخوں سے حملہ کر دیا اور لاؤڈ سپیکر پر احمدیت مخالف نعرے بلند کرنے لگے۔ انہوں نے لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کیا کہ یہاں پر لوگوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے اور ختم نبوت پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔انہوں نے پولیس کو کہا کہ احمدیوں کو گرفتار کیا جائے اور وہیں دھرنا دےکر بیٹھ گئے۔

پولیس نے علاقے کے احمدی عمائدین کو کہا کہ وہ اس سنٹر کو کھولیں تو ان کو بتایا گیا یہاں اس وقت کوئی بھی نہیں ہے۔دو روز کے بعد چار احمدیوں اسد عمران،غلام مصطفیٰ زکریا،عبد الحئی اور احمد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔یہ مقدمہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولوی عبدالعزیز کے کہنے پر تھانہ ساندہ میں درج کیا گیا اور اس میں توہینِ رسالت کی دفعات کو بھی شامل کیا گیا۔

شکایت کنندہ نے کہا کہ شام نگر میں ایک غیر اندراج شدہ مسجد ہے جہاں مذکورہ بالا اشخاص تبلیغ کرتے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں۔پولیس نے یہ مقدمہ درج کر لیا اور اس مقدمہ کے نتیجے میں بلاوجہ یہ اشخاص جو عمر میں کافی بڑے ہیں تین سال تک کے لیے قید ہو سکتے ہیں۔یہ پنجاب کے دارالحکومت کی بات ہے جس پر پہلے پاکستان تحریک انصاف کے عثمان بزدار اور پھر مسلم لیگ (ق)کے چودھری پرویز الٰہی کی حکومت رہی اور اب محسن نقوی یہاں کے نگران وزیر اعلیٰ ہیں۔

مرکزی احمدیہ مسجد پر نفرت انگیز عبارات تحریر

لاہور،۱۶؍اپریل ۲۰۲۳ء:رات کے اندھیرے میں احمدیہ دارالذکر کی بیرونی دیوار پر احمدی مخالف تحریرات کو لکھ دیا گیا۔ پولیس کو فوراً اس بات کی اطلاع دی گئی اور انہوں اس پر سفیدی پھیر دی۔یہ ان دو مساجد میں سے ایک ہے جہاں ۲۸؍مئی ۲۰۱۰ء کو دہشت گرد حملے میں چھیاسی احمدی شہید ہو گئے تھے۔

(مرتبہ:مہر محمد داؤد)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button