متفرق مضامین

صحافت اور ذرائع اِبلاغ کی ضرورت اور اہمیت

(حنیف احمد محمود۔ نائب مدیر الفضل انٹرنیشنل)

صحافت جس کو انگریزی میں (Journalism) کہتے ہیں کسی بھی معاملے پر تحقیق کر کےاُسے صَوتی، بَصری یا تحریری صورت میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔ صحافت کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ جس کے معانی عوام کو باخبر رکھنے والے کے ہیں۔ شعبہ صحافت سے منسلک کاموں میں ادارت، تصویری صحافت، فیچر اور ڈاکومنٹری وغیرہ آتے ہیں۔جدید دور میں، پرنٹ میڈیا سے نکل کر الیکٹرونک میڈیا جیسے ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور ریڈیو کے ذریعے معلومات اور خبروں تک رسائی بہت آسان ہو گئی ہے اور دنیا گلوبل ولیج کے طور پر سامنے آئی ہے۔

صحافت دراصل عربی زبا ن کا لفظ ہے جو’صحف‘سے مشتق ہے۔جس کے لغوی معنی کتاب یا رسالے کے ہیں۔ قرآنِ کریم کو الٰہی صحیفہ کہا جاتا ہے۔ اردو اور فارسی میں صحافت کی اصطلاح ہی رائج ہےجبکہ انگریزی میں اسے Journalism کہتے ہیں۔ جس کے معانی روزانہ حساب کا بہی کھاتہ یا روزنامچہ کے ہیں۔ اردو اور فارسی میں صحافی لفظ کے مقابل پرانگریزی میں Journalist کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

جناب عبد السلام خورشید اپنی کتاب ’فنِ صحافت ‘میں لکھتے ہیں:’’صحافت کا لفظ صحیفے سے نکلا ہے۔ صحیفہ کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے ہیں… تمام اخبارات ورسائل بھی صحیفہ ہیں۔‘‘

صحافت کا شعبہ اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ اِس سے وابستہ لوگوں کو اِس کی تعریف کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا رہا ہے تاہم صحافت جدید وسائلِ ابلاغ کے ذریعہ عوامی معلومات،اُن کی رائے اور اِن کی تفریحات کے لیے اشاعت کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ بعضوں نے اِسے ایک ہنر،ایک فن اور ایک ایسا ادب قرار دیا ہے جو عُجلت میں اور جَلد بازی میں لکھا جائے تا یہ ادب خبر بن کر شائع ہونے میں تاخیر کا موجب نہ ہو کیونکہ اخباری صحافت میں وقت کی پابندی بہت اہم ہے۔ جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اخبارات یا رسائل معینہ وقت میں ہی شائع کیے جاتے ہیں اور اِن کی بروقت اشاعت سے اِن کا قد عوام میں بڑھتا ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ جَلد بازی میں تحقیق کا پہلو نظر انداز نہ ہو۔ جناب سرسید احمد خان کو اردو صحافت کا سرخیل کہا جاتا ہے۔ جنہوں نے صحافت کو ایک خدمت قرار دیا اور لکھاہے کہ ’’اخبار کے لکھنے والوں کے یعنی صحافی کے فرائض تین قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ صلاح دینے والا ہوتا ہے دوم۔ تربیت کرنے والا ہو اور سوم۔ لوگوں کی حالت و معاشرہ کی اصلاح کرنے والا ہوتا ہے۔‘‘

جناب فرحت احساس نے صحافی کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’صحافی ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو اپنے معاشرے اور وقت کے حالات وواقعات اور اُن کی سمت ورفتار سے باخبر رکھنے اور اِس بارے میں اپنی رائے دینے کے منصب پر فائز سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک سماجی اور تہذیبی ذمہ داری کے احساس اور اس سے عہدہ برآ ہونے کا منصب تھا۔ یہ احساس خود زائیدہ تھا اور یہ منصب خود حاصل کردہ تھا۔ اِس میں اِس کے اصل اور بنیادی محرک کے سوا کوئی خارجی عوامل شاید ہی کارفرما رہتا تھا۔‘‘ (فرحت احساس، اردو اور عوامی ذرائع ابلاغ صفحہ ۱۲۵)

یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک صحافی کو اسلامی دنیا میں اردو ادب سے بھی سُدھ بُدھ ہونی ضروری ہے اورالطَّرِیْقَۃُ کُلُّہَا اَدَبٌ کے تحت اسلامی آداب سے بھی مُرصّع ہونا چاہیے یعنی دوسرے معنوں میں صحافی،صحافت کرتے وقت آدابِ اسلامی کو مدِ نظر رکھے وگرنہ معاشرے کو جھوٹی اور بے ادب صحافت سے بہت نقصان پہنچا ہے اور آئندہ بھی پہنچنے کے امکانات موجود ہیں۔ بالخصوص صحافت کو بطور پیشہ اور وسیلہ روزگار اپنانے والوں کو اِن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے اور مناسب الفاظ کے چناؤ کا استعمال کرنا چاہیے۔

مولانا ظفر علی خان اورمولانا محمد علی جوہر نے بھی صحافت کو ملک وملّت اور قوم کی خدمت کا نام دیا۔ وہ صحافت سے متعلق اپنے نظریہ کی یوں وضاحت کرتے ہیں:’’صحافت سے میری غرض صحافت نہیں ہے۔ ملک و ملت کی خدمت ہے اور اگر ایک مختصر مضمون سے صحیح طور پر ملک و ملت کی رہنمائی ہوسکتی ہے تو مَیں وہ بھی لکھ سکتا ہوں اور لکھوں گا…غرض ملک و ملت کی خدمت ہے جس طرح بہترین طریقے پر ملک و ملت کی خدمت ہوسکے گی ان شاء اللہ کی جائے گی۔‘‘

مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی صحافت کو ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر رکھا تھا۔

جناب ڈاکٹر محمد شاہد حسین اپنی کتاب ابلاغیات میں لکھتے ہیں:’’صحافت خبر ہے، اطلاع ہے، جانکاری ہے۔ صحافت عوام کے لئے عوام کے بارے میں تخلیق کیا گیا مواد ہے۔ یہ دن بھر کے واقعات کو تحریر میں نکھار کر آواز میں سجا کر تصویروں میں سمو کر انسان کی اُس خواہش کی تکمیل کرتی ہے جس کے تحت وہ ہر نئی بات جاننے کے لئے بے چین رہتا ہے۔‘‘ (ابلاغیات صفحہ ۴۴پبلشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی)

مولانا محمد علی جوہر ایک صحافی سے کن توقعات کا تقاضا کرتے ہیں اِس بارے میں لکھتے ہیں:’’صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت سے درج کرے۔ اُسے خیال رکھنا چاہیے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہو کہ مؤرخ اس کی تحریروں کی بنیاد پہ تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کرسکے۔ صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں رہنما بھی ہوتا ہے، اسے صرف عوام کی تائید اور حمایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ صحافت کے منبر سے عوام کو درس بھی دینا چاہیے۔‘‘(اکیسویں صدی میں اردو کا سماجی ثقافتی فروغ صفحہ ۳۷۶ )

اِبلاغ اور اِس کے ذرائع

میری اِس تحریر کا دوسرا حصہ ذرائع اِبلاغ و ترسیل ہے۔ اِسے صحافت کا ایک حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور الگ ایک موضوع کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم صحافت کسی سوچ کو دیانت داری اور سچائی سے تحریر میں لانا ہے اور اِس محرَّرہ صحیفہ کی اشاعت جن ذرائع سے کی جائے وہ ذرائع اِبلاغ میں آئے گا۔ وہ صحافی کامیاب صحافی کہلاتا ہے جو اپنی تحریر کو جلد از جلد تمام ذرائع اِبلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے منصَّہ شہود پر لا کر قارئین، ناظرین اور سامعین تک پہنچا کر معلومات بہم پہچانے کا موجب ہوتا ہے۔

اِبلاغ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی تبلیغ، اشاعت، پیغام رسانی، بھیجنا اورپہنچانا کے ہیں۔اور ذرائع ابلاغ سے مراد وہ تمام ذرائع ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں جسے انگلش میں میڈیا کہتے ہیں۔آغاز میں پرنٹ میڈیا ہی تھا جس کی مدد سے ہم لکھ کر پیغام پہنچاتے تھے جیسے اخبارات اور رسائل۔ اور آج کل اِس میں برقی ذرائع جیسے ٹیلی فون،ریڈیو اور انٹرنیٹ کا اضافہ ہوا۔ نیزبرقی ذرائع ابلاغ میں وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن میں بات کو پہنچانے کے لیے برقی توانائی کی ضرورت ہو۔یہ ذرائع ابلاغ کی جدید ترین شکل ہے جس نے بہت کم عرصے میں بہت زیادہ ترقی کی اور مزید ترقی کی نئی نئی راہیں تلاش ہو رہی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کا اسلامی تصور

اسلام میں ذرائع ابلاغ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اِس کے ذریعے عوام الناس تک سچی اور صحیح خبر پہنچائی جائے۔ سچ کے اظہار میں صحافی حضرات کسی لالچ یا مداہنت سے کام نہ لیں۔ ذرائعِ ابلاغ والے ایسی معلومات اور خبر کی اشاعت سے باز رہیں جس کا مقصد دوسروں کی دل آزاری یا دوسرے ادیان و ملل کی تحقیر ہو۔

اِن تمام قسم کے ذرائع ابلاغ کی اہمیت ہردور میں مسلَّم رہی ہے۔ انسانی معاشرے کی بقا اوراِس کی تعمیر وترقی کے لیے اِبلاغ و ترسیل انسانی اَعضاء کی طرح ضروری ہے۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ولبر شرم نے کہا ہے:’’عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔‘‘ اِسی لیے جمہوریت میں انتظامیہ، عدلیہ اور مقنَّنہ کے بعد ذرائع ترسیل وابلاغ کو چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسانی زندگی میں ابلاغ و ترسیل کو شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے خیالات و جذبات اور افکار و نظریات کے اظہار کے لیے اگر کسی کو موقع نہ ملے تو وہ ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوکر مضطرب اور بے چین ہوجاتا ہے۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ انٹرنیٹ کے آنے کے بعد تو ساری کائنات ایک چھوٹے سے بکس میں قید ہو کر رہ گئی ہے۔ کسی نے کیا سچ کہا ہے کہ ساری دنیا انسان کی ہتھیلی پر آ گئی ہے۔آج ذرائع ابلاغ کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہےکہ سوشل الیکٹرانک میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز جیسے ای میل، ٹوئٹر، سکائپ، انسٹا گرام، واٹس ایپ، ٹیلی گرام، سگنل اور فیس بک کی وساطت سے اپنے اخبار کی ترسیل کی جا سکتی ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا اور اُس کے لیے قانون وضع کرتا ہے۔ پریس یا میڈیا کے لیے بھی اسلام راہنمائی کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نےاپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا صحیفہ قرآنِ کریم کی صورت میں نازل فرمایا جس کے متعلق اِن الفاظ میں لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہوا: یَاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّم تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ (المائدہ:۶۸)کہ اے رسول!جو تیری طرف اُتارا گیا ہے اُسے اچھی طرح لوگوں تک پہنچا دے اور اگر تُو نے ایسا نہ کیا تو گویا تُو نے اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ کریم میں رسولؐ کو پیغامِ حق پہنچانے کا حکم اوپر بیان آیت کے علاوہ دیگر اور مقامات پر بھی دیا ہے اِس کے علاوہ اُمت کو بھی پیغامِ حق پہنچانے کا حکم ملتا ہے جیسے:وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّةٌ یَدْعُوْنَ الیٰ الْخَیْرِ (آل عمران:۱۰۵)کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران :۱۱۱)آیات میں ذکر ہے۔

جہاں تک احادیث میں پیغامِ اسلام پہنچانے کا تعلق ہے اُس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بَلِّغُوْا عَنّی وَلَوْ آیةً ( صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء حدیث ۳۴۶۱) کہ میرا ہر پیغام لوگوں تک پہنچایا کرو خواہ وہ ایک آیت کے برابر چھوٹا سا ہو اور نَضَّرَ اللّٰہُ امْرًا سَمِعَ مَقَالَتِيْکے الفاظ بھی احادیث میں ملتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تو میرے اِس مضمون سے عین مطابقت رکھتا ہے۔ فرمایا: نَضَّرَ اللّٰهُ امْرًا سَمِعَ مِنَّا شَيْئاً، فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَهُ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أوْعَى مِنْ سَامِعٍ کہ اللہ اُس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہماری بات کوسنا اور اُس کو ویسے ہی آگے پہنچایا جیسا اُس نے سنا تھا کیونکہ بعض اوقات جس کو بات پہنچائی جائے وہ بات کو زیادہ یاد رکھتا ہے۔ اِس پیغام میں اسلام کے آفاقی پیغام کے ابلاغ وترسیل کا اُمت مسلمہ کو حکم دیا گیا ہے۔

پھرحدیث شریف ہے۔مَنْ رَایٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَانْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذَلِکَ أضْعَفُ الْاِیْمَانِ کہ اگر تم میں سے کوئی کسی میں بُرائی دیکھ تو بزورِ بازو روکنے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی بزورِ بازو روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اگر اِس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں بُرا منائے یہ کمزور ایمان ہے۔

یہاں بِیَدِہٖ یعنی ہاتھ سے کا ایک استدلال قلم کے استعمال کا بھی ہوسکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۃ صٓ کی آیت۴۶ یعنی اُولِی الۡاَیۡدِیۡ وَالۡاَبۡصَارِ سے یہ استنباط فرمایا ہے کہ انبیاء ہاتھ سے کام لیتے ہیں یعنی اپنی بصیرت کو اپنے قلم کے ذریعہ اپنے متبعین کے سامنے لاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام’’دلائل سے بھی کام لو‘‘کے تحت فرماتے ہیں:’’اگر چہ فیصلہ دُعاؤں سے ہی ہونے والا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ دلائل کو چھوڑ دیا جاوے۔ نہیں دلائل کا سلسلہ بھی برابر رکھنا چاہیے اور قلم کو روکنا نہیں چاہیے۔ نبیوں کو خدا تعالیٰ نے اِ سی لیے اُولو الۡاَیۡدِیۡ وَالۡاَبۡصَارِ کہا ہے کیونکہ وہ ہاتھوں سے کام لیتے ہیں۔ پس چاہیے کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رُکیں اس سے ثواب ہوتا ہے۔ جہاں تک بیان اور لسان سے کام لے سکو لئے جاؤ اور جو جو باتیں تائید دین کے لئے سمجھ میں آتی جاویں انہیں پیش کئے جاؤ وہ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی‘‘(ملفوظات جلد ششم صفحہ۳۲۸ ایڈیشن۱۹۸۴ء)

أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ

اِبلاغ کے حوالے سے ایک اہم اور بنیادی حدیث صحيح بخاری كِتَابُ المَغَازِي بَابُ حَجَّةِ الوَدَاعِ کی ہے جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلَا إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ قَالُوا نَعَمْ قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثًا…اُنْظُرُوا لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔کہ خوب سن لوکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے آپس کے خون اور اموال اُسی طرح حرام کیے ہیں جیسے اِس دن کی حرمت اِس شہر اور اِس مہینے میں ہے۔ ہاں بولو ! کیا مَیں نے پیغام پہنچا دیا ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ آپؐ نے پہنچا دیا۔ فرمایا، اے اللہ ! تو گواہ رہیو، تین مرتبہ آپؐ نے یہ جملہ دہرایا…دیکھو! میرے بعد کا فرنہ بن جانا کہ ایک دوسرے (مسلمان ) کی گردن مارنے لگ جاؤ۔

لِيُبَلِّغ الْعِلْمَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ

احادیث کے ذیل میں اب مَیں آخری حدیث پیش کرنے جا رہا ہوں جس کو اِبلاغ اور ترسیل کے تعلق میں بنیادی حدیث کہا جا سکتا ہے۔ جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پیغام پہنچانے والے کو ہی مکلّف نہیں ٹھہرایا بلکہ جس تک پیغام پہنچا ہے یا اُس تک پیغام پہنچایا گیا ہے اُسے بھی وصول شدہ پیغام کو آگے اپنے حلقہ احباب میں پہنچانے کی ہدایت ہے اور یہ طریق جب آگے بڑھے گا تو یہ سرکل اتنا وسیع ہو جائے گا کہ دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں تک پیغام بآسانی پہنچ جائے گا۔

روایت ہے کہ(ایک مرتبہ) حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں)فرمایا، تمہارے خون اور تمہارے مال، محمد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’وأعراضكم‘‘ کا لفظ بھی فرمایا۔ (یعنی) اور تمہاری آبروئیں تم پر حرام ہیں۔ جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں۔ سن لو!لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ کہ یہ خبر حاضر غائب (غیر حاضر) کو پہنچا دے اور محمد (راوی حدیث) کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ (پھر) دوبارہ فرمایا کہ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ کیا مَیں نے (اللہ کا یہ حکم) تمہیں نہیں پہنچا دیا؟(صحيح البخاري،كِتَاب الْعِلْمِ، بَابُ لِيُبَلِّغِ الْعِلْمَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ)

اسلام میں ذرائع ابلاغ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے عوام الناس تک سچی اور صحیح خبر پہنچائی جائے۔ ذرائع ابلاغ سچ کے اظہار میں کسی لالچ یا مداہنت کا شکار نہ ہوں۔ ذرائع ابلاغ صرف ایسی معلومات کی اشاعت کریں، جن سے سامعین اور قارئین کے اندر نیکی اور تقویٰ کا عنصر پیدا ہو۔ وہ کسی ایسی خبر کی اشاعت سے باز رہیں، جس کا مقصد اُن کی اخلاقیات پر حملہ کرنا ہو اور اس سے دوسروں کی دل آزاری یا دوسرے ادیان و ملل کی تحقیر ہو۔

ذرائع ابلاغ پراپیگنڈا اور تشہیر کا ایک مضبوط وسیلہ ہیں۔ عوام، ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹ اور تجزیوں کی بنیاد پر بہت سے فیصلے کر لیتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ عوام کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔حمایت و مخالفت کی مختلف شکلیں اُس وقت دیکھنے کو ملتی ہیں، جب کسی ملک میں انتخابات ہونے والے ہوں۔ اُس وقت اشتہارات،مضامین،خبروں اور تبصروں کی وساطت سے اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ نے حمایت ومخالفت کا بھی اصول متعین کردیا ہے۔ کسی سے محبت ہو تو اللہ کے لیے اور کسی سے بغض و عداوت بھی ہو تو وہ بھی اللہ کے لیے۔

فریقِ مخالف کے لیے کوئی ایسانازیبا لفظ استعمال نہ کیا جائے کہ وہ اس کے جواب اور ردِ عمل کے طور پر ایسا جواب دے، جس سے آپ کی توہین یا تضحیک ہوتی ہو۔ قرآن کریم میں ہے:وَلَا تَسُبُّو الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عَدُوًّا بِغَیْرِ عِلْمٍ(الانعام:۱۱۰)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ألَا لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلاً ھَیْبَةُ النَّاسِ أنْ یَقُوْلَ بِحَقٍ اذَا عَلِمَہیعنی خبر دار!جو تم کسی شخص کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حق کے اظہار میں تردّد سے کام لو۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنہی عن المنکر)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے بُرا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ (مسلم کتاب البر والصلة)

خلاصہ یہ کہ ذرائع ابلاغ کی مثال چھری کی ہے کہ اس کے ذریعے پھل بھی کاٹا جاسکتا ہے اور کسی کی گردن بھی۔ وہ محتسب کا کردار ادا کرکے کسی کی جان اور عزت و آبرو بھی بچا سکتا ہے اور کسی رہزن کا بھیس بدل کر کسی کی جان اور عزت و آبرو سے کھیل بھی سکتا ہے۔ وہ ظلم وستم اور جبر و تشدد کی حمایت اور بے حیائی اور بد اخلاقی کا پرچار بھی کرسکتا ہے اور اصلاح و تبلیغ کے میدان میں مصلح و مبلغ کا رول بھی ادا کرسکتا ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے قارئینِ الفضل کے نام ایک پیغام دیا جس کا متن یہ تھا:’’ اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ آپ کو ان امور پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔‘‘(الفضل ۳۱؍دسمبر۱۹۵۴ء )

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیںکہ:’’یاد رکھنا چاہئے کہ جس درخت کو پانی نہ ملتا ہے وہ خشک ہو جاتا ہے اور اس زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اخبار پانی کا رنگ رکھتے ہیں اور اس لئے ان کا مطالعہ ضروری ہے۔(انوارالعلوم جلد۱۶ صفحہ۲۴۵)

الفضل میں خلیفہ وقت کے خطبات سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں:’’سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر گھر میں الفضل پہنچے اور الفضل سے ہر گھر فائدہ اٹھا رہا ہو…خصوصاً خلیفۂ وقت کے خطبات اور مضامین اور درس اور ڈائریاں وغیرہ ضرورسنائی جائیں۔ خصوصاً میں نے اس لیے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےخلیفۂ وقت کو امر بالمعروف کا مرکزی نقطہ بنایا ہے…الفضل اُس شخص کی بات آپ کے کان تک پہنچاتا ہے جس کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات لگائی ہے کہ جماعت کے متعلق وہ یہ فیصلہ کرے کہ اسے اس وقت فلاں کام کرنے چاہئیں۔‘‘ (الفضل۲۸؍مارچ۱۹۶۷ءصفحہ۳۔۴)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سوانح فضل عمر میں تحریر فرماتے ہیں: ’’تشحيذاگرچہ جماعت کی علمی ضروریات کو بہت حدتک بڑی عمدگی سے پوری کررہا تھا، لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب نے بجا طور پر یہ ضرورت محسوس کی کہ جب تک سلسلہ کا ایک باقاعدہ اخبار جاری نہ ہو صحیح معنوں میں مرکز اور جماعت کے مابین رابطہ قائم نہیں ہوسکتا۔چنانچہ اس شدید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آپؒ نے جون ۱۹۱۳ء میں الفضل اخبار کا اجرا فرمایا۔ یہ اخبار آج تک جماعت احمدیہ کا مرکزی روزنامہ چلا آرہاہے۔ اس بارے میں ’’اعلانِ فضل‘‘ کے عنوان کے تحت آپ نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ نے اس فلسفہ پر روشنی ڈالی کہ بعض چھوٹے چھوٹے امور کس طرح بڑے ہو جاتے ہیں اور ایک چھوٹے سے بیج سے کس طرح بڑے بڑے عظیم القامت درخت بن جاتے ہیں۔ فرمایا: یہی مثال روحانی سلسلوں کی ہے گذشتہ الٰہی سلسلوں کی طرح جماعت احمدیہ کی ضروریات بھی بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ پھر فرمایا:’’اس لیے بموجب ارشاد حضرت خلیفۃالمسیح توکلاً علی اللّٰہ اس اخبار کو شائع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ہمارا کام کوشش ہے۔ برکت اور اتمام خداتعالیٰ کے اختیارمیں ہے۔ لیکن چونکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اس لئے اس کی مدد کا یقین ہے۔ بے شک ہماری جماعت غریب ہے لیکن ہمارا خدا غریب نہیں ہے اور اس نے ہمیں غریب دل نہیں دیئے۔پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف پوری توجہ کرے گی۔ اور اپنی بے نظیرہمت اور استقلال سے کام لے کر، جو وہ اب تک ہر ایک کام میں دکھاتی رہی ہے اس کام کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرے گی اور میں دعا کرتا ہوں کہ الله تعالیٰ مذکورہ بالا تحریر کو صرف ارادوں اور خواہشوں تک ہی نہ رہنے دے۔ اور سلسلہ کی ضروریات کے پورا کرنے میں ہمارا ہاتھ بٹائے۔‘‘(سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ۲۳۸۔۲۳۹)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے الفضل ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر کے لیے بھجوائے گئے اپنے بصیرت افروز پیغام میں الفضل کے اغراض بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’الفضل کا کام احبابِ جماعت کو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیمات سے آگاہ کرنا، خلیفہ وقت کی آواز ان تک پہنچانا نیز جماعتی ترقی اور روزمرہ کے اہم جماعتی حالات و واقعات سے باخبر رکھنا ہے۔ چنانچہ اس میں حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات اور ارشادات شائع ہوتے ہیں۔ خلفائے احمدیت کے خطبات و خطابات اور تقاریر وغیرہ شائع ہوتی ہیں اور یہ خلیفہ وقت اور احباب جماعت کے مابین رابطے اور تعلق کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف ممالک سے جماعتی مراکز کی رپورٹیں چھپتی ہیں جن سے مبلغ اور سلسلہ کے مخلصین کی نیک مساعی کا علم ہوتا ہے اور جماعت کی ترقی اور وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ الفضل میں مختلف موضوعات پر اہم اور مفید معلوماتی مضامین بھی شائع ہوتے ہیں جو احباب جماعت کی روحانی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کی دینی، اخلاقی اور علمی تعلیم و تربیت کا سامان کرتے ہیں۔ الفضل کا مطالعہ بہت سی بھٹکی روحوں کی ہدایت کا ذریعہ بھی ہے۔

الفضل تاریخ احمدیت کا بنیادی ماخذ ہے۔ اب تو بہت سے ممالک سے جماعت کے رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں لیکن ماضی میں الفضل ہی تھا جس نے جماعتی ریکارڈ اور تاریخ جمع کرنے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ‘‘ (روزنامہ الفضل صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء)

یہ بحر علم ہے اس کی تہوں تک کون جائے گا

زمانے نے ابھی دیکھے کنارے الفضل کے ہیں

ہر اک صفحے پہ الفت ہے، محبت ہے، عنایت ہے

ورق کتنے ہی نظروں سے گزارے الفضل کے ہیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button