از افاضاتِ خلفائے احمدیت

بچپن سے ہی بچوں کے دل میں محبت الٰہی ڈالیں (حصہ اول)

(فہمیدہ بٹ۔ جرمنی)

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق بالخصوص اشرف المخلوقات سے بذات خود بہت محبت کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات اور دن کے آگے پیچھے آنے اور ان کشتیوں میں جو انسانوں کو نفع دینے والی چیزیں لیکر سمندر میں چلتی ہیں اور اس پانی میں جسے اللہ نے بادل سے اتارا، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا اور اس میں ہر ایک قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کے ادھر ادھر پھیلانے میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں (یقیناً) اس قوم کے لئے جو عقل سے کام لیتی ہے کئی (قسم کے) نشان ہیں۔(سورة البقرہ آیت ۱۶۵ ترجمہ از تفسیر صغیر)

اللہ تعالیٰ نے ا نسان کو پیدا کرنے کے لیے اس پوری کائنات کی تخلیق کی اور اس نے اپنے بندے کو ہر آرام و آسائش کا سامان بخشا۔ یہ اس کی محبت ہی تو ہے۔

محبت ایک فطری جذبہ ہے اور انسان کے خمیر کو نہایت ہی محبت سے گوندھا اور تراشا گیا ہےاور اس لطیف جذبے سے اس کو سنوارا گیا۔ حقیقی محبت یہ ہے کہ آپ مکمل طور پر خود کو اس کے حوالے کر دیں جس سے آپ کو محبت ہے۔یہاں تک کہ آپ کی ہر چیز اس کی مرضی اور رضا کے تابع ہوجائے۔آپ کا کچھ باقی نہ رہے۔ آپ کی ذات کی نفی ہو جائے۔ اللہ کی سچی اورحقیقی محبت دیگر تمام محبتوں پر غالب اور مقدم ہو۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ( ہی )سے محبت کرتے ہیں۔(سورةالبقرہ آیت ۱۶۶ ترجمہ ازتفسیر صغیر )

ایک مومن اپنا مطلوب و مقصود اور محبوب صرف اور صرف اللہ کو بناتا ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتا ہے، اسی کے لیے مرتا ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام:۱۶۳)یعنی میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو لا محدود انعامات و نوازشات سے سر فراز کیاہے۔ ان میں سے ہی ایک اولاد ہے۔ اولاد کے حصول کی تمنا ایک فطری عمل ہے۔ ہر شادی شدہ جوڑے کو اولاد کے حصول کی خواہش ہوتی ہے کسی کو اللہ جلد اولاد سے نواز دیتا ہے اور کسی کو کچھ وقفے سے نوازتا ہے۔ اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بے مثال نعمت ہے۔

زمانے کے بد اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اولاد کی خواہش اور اولاد کی پیدائش سے پہلے مردوعورت دونوں نیکیوں پر عمل کرنے والے ہوں۔ صالح اولاد کی خواہش کے لیے یہ دعا مردوعورت دونوں کو سکھائی:رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا(الفرقان:۷۵)یعنی اے ہمارے رب! ہمیں زندگی کے ایسے ساتھی اور ایسی اولاد عطا فرما جو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں تقو یٰ کی راہوں پر چلنے والے ہوں اور ہمیں بھی تقو یٰ کی اتنی دولت نصیب ہو کہ ہم اپنی متقی اولاد کے امام بن جائیں۔ آمین

آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ’’ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا مجوسی بناتے ہیں (یعنی قریبی ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہوتا ہے) جیسے جانور کا بچہ صحیح وسالم ہوتا ہے کیا تمہیں ان میں کوئی کان کٹا نظر آتا ہے۔‘‘(صحیح مسلم کتاب القدرباب معنی مولاد یواد علی الفطرہ)بچے کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے، اس پر جو بھی لکھا جائے وہ پتھر پر لکیر کا کام دیتا ہے۔ ابتدا میں جو بات ان کے دل و دماغ میں ڈال دی جائے وہ مضبوط اور مستحکم ہو جاتی ہے۔بچوں کی تربیت کا کام والدین کی اصل ذمہ داری ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُہَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَیَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ (التحریم: ۷) یعنی اے مومنو! اپنے اہل کو بھی اور اپنی جانوں کو بھی دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن خاص لوگ (یعنی کافر) ہونگے اور اسی طرح پتھر (جن سے بت بنے) اس (دوزخ) پر ایسے ملائکہ مقرر ہیں جو کسی کی منت سماجت سننے والے نہیں بلکہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں بڑے سخت ہیں اور اللہ نے ان کو جو حکم دیا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے اور جو کچھ کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔(ترجمہ ازتفسیر صغیر )اس آیت میں بالخصوص گھر کے سر براہ ہونے کی حیثیت سے اہل خانہ کی ہرطرح کی ضرورت کا متکفل ہونے کے ساتھ ساتھ اسے تعلیم وتربیت کا بھی نگران مقرر کیا گیا ہے۔ بچوں کی سب سے پہلی درسگاہ ماں ہوتی ہے۔ ماں اگر دین دار تعلیم یافتہ اور تقویٰ کی راہوں پرقدم مارنے والی ہوگی تو بچے بھی اسی راہ پر چلنے لگیں گے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’اچھے بچے پیدا کرنے کے لیے آپ کو اچھی مائیں بننا ہو گا۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آپ اچھی مائیں نہ بنیں اور اپنے بچوں کے لیےدعائیں کرتی رہیں اور دعائیں منگواتی رہیں کہ اِن کو خدا اچھا بنا دے‘‘

(خطاب لجنہ اماء اللہ کینیڈا بمقام ٹورانٹو ۶؍ جولائی۱۹۹۱ء)(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button