متفرق شعراء

غزل

میں نے اس رنگ میں بھی رب کی عبادت کی ہے

اس کی مخلوق کو چاہا ہے، محبت کی ہے

کیوں نہ روؤں کہ اُس اک شخص نے نفرت کی ہے

خام سے کام میں دن رات کی محنت کی ہے

درد پائے ہیں محبت کے صلے میں مَیں نے

مجھ سے دنیا کے اصولوں نے عداوت کی ہے

شعرگوئی کوئی جذبات کا تو کھیل نہیں

بات ساری ہی یہاں فہم و فراست کی ہے

جو نہ حاصل ہوا کچھ بھی تو سمجھ آیا مجھے

بات نیّت کی نہیں، بات تو ہمّت کی ہے

جس نے اِس ملک میں سچ بولنے کی جرأت کی

اُس نے دستورِ ریاست سے بغاوت کی ہے

اس نے رکھے ہیں روابط جو رقیبوں سے تو کیا

اس کو الفت بھی تو اک شاخ سیاست کی ہے

ان کو دل دے کے یہ احساس ہوا ہے ثاقبؔ

میں نے واپس انہیں ان ہی کی امانت کی ہے

(ثاقبؔ  محمود)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button