متفرق مضامین

ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (ذہن کے متعلق نمبر۱۰) (قسط ۳۵)

(ڈاکٹر شاہد اقبال)

(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)

ہیلونیس Helonias

٭…ہیلونیس کی ایک اور علامت یہ ہے کہ حیض جلدی جلدی ہوتا ہے یا پھر کئی کئی ماہ کے لیے بند ہوجاتا ہے۔سخت افسردگی کے دورے پڑتے ہیں اور مریضہ بہت سست ہو جاتی ہے۔شدید لیکوریا آتا ہے جس کے ساتھ خارش بھی ہوتی ہے۔ (صفحہ۴۳۶)

ہیپر سلفیورس کلکیریم

Hepar sulphuris calcareum

(Calcium Sulphide)

٭…ہیپر سلف کا مریض ضرورت سے زیادہ حساس ہوتا ہے۔ ماحول سے بہت متاثر ہوتا ہے اور ہر قسم کے درد کو نمایاں طور پر محسوس کرتا ہے۔اس کے مزاج میں تندی اور غصہ پائے جاتے ہیں۔مریض عام طور پر کتنا ہی رحم دل ہو بیماری کے دوران ایک دم جوش میں آجاتا ہے۔ حتیٰ کہ اپنے قریبی دوست کو بھی قتل کر سکتا ہے۔گو میرے علم میں آج تک کبھی کوئی اس قسم کا مریض نہیں آیا۔ پاگل مریضوں میں تو ایسا ہونا ممکن ہے لیکن کتابو ں میں یہ عام مریضوں کی علامت بتائی جاتی ہے جو کچھ مبالغہ معلوم ہوتا ہے۔(صفحہ۴۳۸)

ہائیڈراسٹس

Hydrastis (Golden Seal)

٭…ہائیڈ راسٹس عموما ً بوڑھے،نحیف اور جلد تھکنے والے لوگوں کی بیماریوں میں نمایاں اثر کرنے والی دوا ہے۔ اس کا مریض پژ مردہ رہتا ہے۔ اسے اپنی جلد موت کا یقین سا ہوجاتا ہے۔بلکہ مرنے کی تمنا بھی رکھتا ہے۔ سست رو اور پست ہمت ہوتا ہے۔ (صفحہ۴۴۸)

ہائیڈروسائینک ایسڈ

Hydrocyanic acid

٭…اگر کسی عورت کو ہسٹیریا کے دورے پڑتے ہوں اور مرگی بھی ہوجائے تو اس کے لیے بھی یہ بہت مؤثر دوا ہے۔اگر تشنج کی وجہ سے دماغ میں خون رک جائے تو چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور مریض بے ہوش ہوجاتا ہے یا اس کی یاداشت ختم ہو جاتی ہے جو آہستہ آہستہ واپس آتی ہے یا مستقل طورپر ضائع ہوجاتی ہے۔اس بیماری کو کیٹے لیپسی(Catalepsy) کہاجاتا ہے۔ اس میں ہائیڈروسائینک ایسڈ مفید ثابت ہوتی ہے۔ (صفحہ۴۵۴)

ہائیڈروفوبینم

Hydrophobinum

٭…مریض کو تیز روشنی، چمک دار اشیاء یا پانی دکھائی دے تو اسے تشنج ہو جاتا ہے۔ ویسے تو اس تشنج اور خوف کا تعلق پانی دیکھنے سے ہے لیکن خوف کی وجہ سے مریض آنکھیں بند کرکے بھی پانی کا گھونٹ نہیں بھر سکتا۔ (صفحہ۴۵۵)

ہائیوسمس

Hyoscyamus(Henbane)

٭…ہائیوسمس میں سارا اعصابی نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہےکہ گویا دماغ پر کسی غیر معمولی طاقت نے قبضہ کرلیا ہے۔ مریض ہذیان بکتا ہے اور پاگلوں والی حرکتیں کرتا ہے۔ اگر ٹائیفائیڈ کے مریض میں ہائیوسمس کی علامتیں پائی جائیں تو مریض سوتے میں بھی بولتا رہتا ہے۔ کپڑے اور بستر کی چادر چنتا ہے جیسے چٹکیاں بھر رہا ہو۔گندی شرمناک باتیں کرتا ہے جس کی وجہ جنسی اعضاء کی سوزش ہے۔اچھا بھلا شریف انسان بھی جب بیمار ہوتواس کی زبان بہت فحش ہوجاتی ہے۔ایسی باتیں وہ ہوش میں کر ہی نہیں سکتا۔اگر کوئی بچی بیمار ہو تو بعض ماں باپ شرم کی وجہ سے ڈاکٹر کو بھی نہیں بلاتے حالانکہ اس کا کوئی تعلق بھی بالارادہ جنسی بے راہ روی سے نہیں ہوتا بلکہ یہ ہائیوسمس کی خاص علامت ہے جو جنسی اعضاء میں ایسی سوزش پیدا کرتا ہے جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اورمریض ایسی بےہودہ باتیں کرنے لگتا ہے جو وہ صحت کی حالت میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ ہیجانی کیفیت بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہےاور یہی علامت کینتھرس (Cantharis)میں بھی کسی حد تک پاِئی جاتی ہے۔ (صفحہ۴۵۷)

٭…ہائیوسمس کے مریض میں سوتے ہوئے یا بے ہوشی کے دوران ہذیان بکنےکی علامت پائی جاتی ہے جو ہوش آنے پر باقی نہیں رہتی۔ (صفحہ۴۵۸)

٭…ہائیوسمس میں ہر قسم کی دماغی بیماریاں پائی جاتی ہیں لیکن ان میں مارکٹائی کا رجحان کم ہوتا ہے۔بیلاڈونا کے پاگل پن میں یہ رجحان بہت زیادہ ملتا ہے۔ ہائیوسمس میں مریض زیادہ تر وہم کا شکار ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ کوئی اس کے پاس کھڑا ہے۔ پس وہ اس خیالی وجود سے باتیں کرنے لگتا ہے یااسے یہ وہم ہو جاتا ہے کہ کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے جسے وہ مڑ مڑ کر دیکھے گا۔ سخت شکی مزاج ہوجاتا ہے جو لیکیسس کی بھی علامت ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کے قریبی عزیزوں نے دوامیں زہر ملا دیا ہے۔ ہائیوسمس میں بھی یہ علامت نمایاں ہے۔اگر کوئی مریض اس خوف سے دوا استعمال نہ کرے کہ اس میں کچھ ملا نہ دیا ہو تو اسے یہ دوا پانی میں ایک آدھ قطرہ ملاکر دینی چاہئے۔ہائیوسمس میں مریض نیم بے ہوشی کے عالم میں اپنے آپ سے بھی باتیں کرتا ہے پھر بہت چیخیں مارتا ہےاور بے ہوش ہوجاتا ہے۔اپنے آپ سے باتیں کرنے کی عادت تو بعض اچھے بھلے لوگوں میں بھی ہوتی ہےمگر ہائیوسمس کے مریض میں اپنے آپ سے باتیں کرنے کا رجحان صرف بیماری کےدوران ملتاہے۔ (صفحہ۴۵۸)

٭…جو توہمات دل میں جگہ بنا لیتے ہیں ان میں ایک یہ وہم بھی ہوتا ہے کہ میری بخشش کا زمانہ گزر گیا ہے، اب کبھی بخشا نہیں جاؤں گا۔ بعض دفعہ فرضی جرائم کا خیا ل بھی دماغ پر قبضہ کر لیتا ہے۔ مثلاً یہ وہم کہ اس نے قتل یا کوئی اور بھیانک جرم کیا ہوا ہے جو درحقیقت اس نے کیا نہیں ہوتا۔ یہ صرف وہم ہوتا ہے۔حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔(ص۴۵۹)

٭…ہائیوسمس کی ایک علامت گلونائن اور لیکیسس سے ملتی ہے کہ مریض راستہ چلتے ہو ئے بھول جاتا ہے کہ میں کہا ں ہوں۔ گھرپر ہو تو سمجھتا ہے کہ گھر پر نہیں ہوں۔ اگر باہر ہو تو سمجھ نہیں آئے گی کہ کہاں ہوں،اجنبیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔(صفحہ۴۵۹)

٭…ہائیوسمس کا مریض پانی سے ڈرنے لگتا ہےاور پانی بہنے کی آواز طبیعت میں ہیجان پیدا کر دیتی ہے۔ڈاکٹر کینٹ نے لکھا ہے کہ بیلا ڈونا، ہائیوسمس،کینتھرس اور ہائیڈروفوبینم اس مرض کی بہترین دوائیں ہیں۔ میرے تجربہ میں ہے کہ سٹرامونیم اور ہائیڈروسائینک ایسڈ دونوں اس رجحان کا قلع قمع کرنے والی دوائیں ہیں۔اگر پانی پیتے ہوئے گلے میں تشنج پیدا ہوجائے تو اس میں یہ بہت مفید ہے۔پانی کا خوف (Hydrophobia)ہلکائے کتے کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے سٹرامونیم ہلکائے کتے کے کاٹے کا بہترین علاج ہے۔پرانے زمانے میں بعض اطباء ایسے مریضوں کو سٹرامونیم کھلایا کرتے تھے جس کے اچھے نتائج نکلتے تھے۔ہومیو پیتھی میں بھی یہ بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔بعض ایسے مریض جن میں ہلکائے کتے کے کاٹے کی علامتیں ظاہر ہوں، ان کو سٹرامونیم اور ہائیڈروفوبینم ملا کر دینی چاہیے۔اللہ کے فضل سے بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ اگر کسی جگہ ٹیکے میسر نہ ہوں تو خواہ یہ پتہ نہ بھی ہو کہ کاٹنے والا کتا پاگل تھا یا نہیں، فوراً یہ دونو ں دوائیں ملا کر دیں۔ چند دن روزانہ، پھر کچھ مہینے ہفتہ میں دو تین دفعہ کھلاتے رہیں۔ پھر آہستہ آہستہ بند کر دیں تو اللہ کے فضل سے پاگل پن کے آثار ظاہرہی نہیں ہوتے اور خطرہ مستقلاً ٹل جاتا ہے۔(صفحہ۴۵۹)

اگنیشیا Ignatia

٭…اگنیشیا غم کا اثر دور کرنے کے لیے چوٹی کی دوا ہے۔ اگنیشیا کا مزاج رکھنے والی عورتیں بہت حساس ہوتی ہیں، اپنی عادات وخصائل میں نہایت شائستہ اور لطیف احساسات کی مالک ہوتی ہیں مگر نہایت چھوئی موئی اور نازک مزاج۔غم یا صدمہ کا بہت گہرا اثر قبول کرتی ہیں۔(صفحہ۴۶۳)

٭…اگنیشیا کا مزاج رکھنے والی عورت کا غم کے اثرسے دل کی مریض یا دماغی مریض بن جانا بعید از قیاس نہیں ہے۔اسے بعض اوقات ہسٹیریا کے دورے بھی پڑنے لگتے ہیں۔(صفحہ۴۶۳)

٭…اس کا مریض بہت جذباتی ہو جائے تو کھل کر غصہ نکالنے کی بجائے تنہائی میں کڑھتا رہے گایا بہت افسردگی محسوس کرے گا۔سٹیفی سیگریا کے مریض میں بھی غصہ دبانے کا رجحان پایا جاتا ہے۔لیکن جب صورتحال حد سے بڑھ جائے تو پھر اس سے پیدا ہونے والی گھٹن جسمانی عوارض میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اگنیشیا میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ اگر اس کی مریض عورت کسی مجلس میں جائے اور وہاں اسے کوئی طعنہ دیا جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے تو وہ اسے خاموشی سے برداشت تو کر لے گی اور کوئی جواب نہیں دے گی لیکن گھر واپس آکر اسے شدید سردرد ہوگا اور اعصابی تناؤ اور بے چینی محسوس ہوگی۔ایسی کیفیت میں اگنیشیا کی ایک ہی خوراک اسے سکینت بخشے گی۔اور اسے جذبات دبانے کے بد اثرات سے محفوظ رکھے گی۔ (صفحہ۴۶۳-۴۶۴)

٭…اگنیشیا میں بچوں یا عزیزوں کی وفات کا صدمہ بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے اور دوررس گہرے بداثرات رہ جاتے ہیں۔ ان سب میں اگنیشیا مفید ثابت ہو سکتی ہے۔لیکن میرا تجربہ ہے کہ غم اور صدمہ تازہ ہوں تو یہ بہت مفید ہے اور غم کے باقی رہنے والے بداثرات سے بھی بچاتی ہے۔ہاں اگر جسمانی عوارض کو پیدا ہوئے دیر ہوجائے پھر یہ مفیدنہیں رہتی۔اگر غم کے بد اثرات جسم کا حصہ بن جائیں تو ان میں تین دوسری دوائیں یعنی ایمبرا گریسا،سلیشیا اور نیٹرم میور بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔ (صفحہ۴۶۴)

٭…بعض اوقات مریضہ نروس (Nervous)ہو تو وہ کانپتی ہے اور اعصاب جھر جھری سی محسوس کرتے ہیں۔یہ کیفیت بڑھ کر تشنج میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مریضہ بے ہوش ہو جاتی ہےجیسے ہسٹیریا کی مریضہ ہو۔ یہ بے ہوشی مرگی کی علامت نہیں ہے۔بلکہ ایسی عورتوں میں بے ہوشی کا دورہ پڑنا ان کی اعصابی کمزوری کی علامت ہوا کرتا ہے۔اس بے ہوشی میں مرگی کی دوسری علامتیں موجود نہیں ہوتیں۔غم یا خوف وغیرہ کے اثرات کی شدت کے وقت جو بے ہوشی ہوتی ہے وہ اعصابی کمزوری کی بے ہوشی ہے۔گرم ممالک میں ہجوم اور جمگھٹے میں کئی عورتیں بےہوش ہوجاتی ہیں۔اگنیشیا میں غم کے نتیجہ میں ایسے اثرات ظاہر ہوتے ہیں جو مرگی کی علامتوں سے مشابہ ہوتے ہیں۔اگنیشیا کی مریضہ میں مزاجی لحاظ سے یہ حیران کن بات پائی جاتی ہے کہ بعض دفعہ جب یہ توقع ہوتی ہے کہ اسے غصہ آجائے گا وہ خوش ہوتی ہے اور خوشی کی بات پر اچانک ناراض ہوجاتی ہے۔اسی طرح جسمانی عوارض میں بھی یہ تعجب انگیز بات دکھائی دیتی ہے کہ جوڑ سوج جانے سے سخت تناؤ ہو اور جلد پر سرخی اور تمازت ظاہر ہوجائیں تو اس کے باوجود مریضہ کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ غرضیکہ جس مریضہ میں نفسیاتی عوارض یا جسمانی عوارض میں تضادات پائے جائیں ان کے لیے اگنیشیا ایک لازمی ثابت ہوتی ہے۔ (صفحہ۴۶۴)

٭…اگنیشیا کی مریضہ اکثر ناامید اور مایوس رہتی ہے۔ کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی۔ یادداشت کمزور ہوجاتی ہےاور ہسٹیریا ہو جاتا ہے۔ اور اس وہم کا شکار رہتی ہے کہ کچھ ہوجائے گا۔عزیزوں کے مرنے کا خوف لاحق رہتا ہے۔بعض دفعہ نظارے دیکھتی ہے۔اگر ایسی مریضہ کو بروقت اگنیشیا نہ دی جائے تو یہ کیفیت بڑھ کر پاگل پن میں تبدیل ہو سکتی ہے۔اگر ایک دفعہ مریضہ پاگل ہو جائے تو پھر اگنیشیا کام نہیں آئی گی بلکہ نیٹرم میور بہت بہتر کام کرتی ہے۔(صفحہ۴۶۵)

٭…اگنیشیا میں بعض اور دواؤں کی طرح مریضہ اس وہم میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے کہ وہ سخت گناہ گار ہے اور اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں رہی۔ پلسٹیلا،ہیلی بورس، آرم، ہائیوسمس اور لیکیسس اور بعض دوسری دواؤں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے۔ (صفحہ۴۶۵)

٭…اگنیشیا کے مریض سے کبھی بحث نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ مثبت دلیل کے مقابل پر اوٹ پٹانگ بات کرے گااور بحث کو بڑھاتا ہی جائے گا۔ (صفحہ۴۶۶)

٭…اگنیشیا کے مریض کی نیند گہری نہیں ہوتی۔ سوتے ہی اعضاء میں جھٹکے لگتے ہیں یا غم اور فکر کے نتیجہ میں نیند اڑ جاتی ہے بسا اوقات غم اور صدمہ کے نتیجہ میں ایسی مریضہ کا حیض بند ہوجاتا ہے یا نظام میں سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ (صفحہ۴۶۶)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button