حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

نظام شوریٰ

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍ مارچ۲۰۰۵ء)

تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی:

فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ(اٰلِ عمران:160)

پھر فرمایا:حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو آخری شرعی نبی تھے اور تمام دنیا کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ جن پر خداتعالیٰ نے وہ کلام اتارا جس نے تمام امور کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، اللہ تعالیٰ قدم قدم پر آپؐ کی رہنمائی فرماتا تھا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ ’’شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ‘‘ کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !تو ہر اہم قومی معاملے میں اپنے لوگوں سے، اپنے ماننے والوں سے، اپنی ریاست میں رہنے والوں سے، اپنی حکومت کے زیر انتظام رہنے والوں سے، مشورہ لے لیاکر۔ تو اس آیت کے مکمل مضمون سے بھی اس امر کی وضاحت ہوتی ہے۔ یہ تمام حکم جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمایا، یہ آیت جو نازل فرمائی یہ منافقین اور معترضین کی باتوں کا جواب ہے کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ یہ نبی بڑا سخت دل اور اپنی مرضی ٹھونسنے والا ہے، کسی کی بات نہیں سنتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے تو ان کے لئے اتنا نرم دل واقع ہوا ہے کہ جس کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ تُوتو اپنوں کے لئے بھی مجسم رحمت ہے اور غیروں کے لئے بھی عفو اور درگزر کی تلاش میں رہتا ہے۔ اور اتنا نرم دل واقع ہوا ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ تُواے نبی! منافقین سے بھی صَرفِ نظرکرتے ہوئے نرمی کا سلوک کرتا ہے اور دشمنوں سے بھی نرمی کا سلوک کرتا ہے اور نہ صرف نرمی کرتا ہے بلکہ ریاستی معاملات میں بھی مشورہ کر لیتا ہے۔ قومی معاملات میں مشورہ بھی کر لیتا ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کو بھی جنگ کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے مشورے میں آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شامل فرمایا تھا۔ اور ان منافقین کی اس بات کو رد کرنے کے لئے یہ دلیل بھی کافی ہے کہ جس طرح پروانوں کی طرح تیرے ارد گرد یہ ایمان والے اکٹھے رہتے ہیں اگر سخت دل ہوتا تو کبھی اس طرح اکٹھے نہ ہوتے بلکہ دور بھاگنے والے ہوتے۔ اور آپؐ کی ہمدردی اور لوگوں کو اہمیت دینے سے جو بہت سے دور ہٹے ہوئے تھے، جن کو منافقین نے خراب کیا ہوا تھا، وہ بھی نرمی اور اس حسن سلوک کی وجہ سے اپنی اصلاح کرتے ہوئے آپؐ کے قریب آ گئے۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے قریب آنے کی توفیق دی۔ اور منافقین کو یہ بھی جواب ہے کہ یہ نبی تونہ صرف اس تعلیم کے مطابق مشوروں پر بہت زور دیتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کم علمی یا بشری کمزوریوں کی وجہ سے بعض غلط مشورے دینے والوں سے درگزر کا سلوک بھی کرتا ہے اور ان کے لئے بخشش اور مغفرت کی دعا بھی مانگتا ہے۔ بہرحال یہ ہے جس کی وجہ سے ان کو اعتراض ہے کہ یہ اپنا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ نبی کو مشورے لینے کے بعد فیصلے کرنے کا اختیار ہے اور کیونکہ یہ خداتعالیٰ کا نبی ہے اس لئے جب تمام مشوروں کے بعد کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسی پر توکل کرتا ہے۔ پھر بہتر نتائج کی امید، اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ پہ ہی رکھتا ہے۔ اور یہی وہ عمل ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنایا ہوا ہے۔ اور یہی وہ اسوہ ہے جس پر چلنے کے لئے درجہ بدرجہ اپنے دائرہ اختیار کے مطابق اللہ تعالیٰ نے امت کو بھی نصیحت فرمائی ہے۔ نظام خلافت اور نظام جماعت کو بھی نصیحت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شدت سے مشوروں کی طرف توجہ دینا یہ صرف اس لئے تھا، اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امت میں بھی مشوروں کی اہمیت اجاگر ہو، اُمّت کو بھی مشوروں کی اہمیت کا پتہ لگے۔

چنانچہ اس حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرچہ اللہ اور اس کا رسول اس سے مستغنی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میری امت کے لئے رحمت کا باعث بنایا ہے۔ پس ان میں سے جو مشورہ کرے گا وہ رشد و ہدایت سے محروم نہیں رہے گا۔ اور جو مشورے کو ترک کرے گا وہ ذلت سے نہ بچ سکے گا۔ (شعب الایمان للبیھقی۔ الحادی والخمسون من شعب الایمان وھو باب فی الحکم بین الناس)

تو نہ تو اللہ تعالیٰ کو کسی بات کے فیصلے کے لئے مشورہ چاہئے۔ اور پھر اللہ کا رسولؐ ہے جس کو علاوہ قرآنی وحی کے بہت سی باتوں سے اللہ تعالیٰ وقت سے پہلے خود بھی آگاہ کر دیا کرتا تھا۔ تو جن باتوں کے بارے میں مشورہ لیا جا رہا ہے یا جن باتوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورے لیا کرتے تھے ان سے بھی اللہ تعالیٰ آگاہ کر سکتا تھا۔ نبی کو کسی رائے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ مشورے کی فضیلت بتانے کے لئے تاکہ امت بعد میں اس پر عمل پیرا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشورے لیا کرتے تھے۔ تو آپؐ نے بڑی وضاحت سے فرما دیا کہ میری تو اللہ تعالیٰ رہنمائی فرما ہی دیتا ہے۔ تم لوگ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو سمیٹنا چاہتے ہو تو مشوروں کو ضرور پیش نظر رکھنا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی اسی نصیحت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اسوہ کی وجہ سے جماعت میں شوریٰ کا نظام بھی رائج ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اسی شورٰی کے نظام کی وجہ سے بھی، اس نصیحت پر عمل کرنے کی وجہ سے جماعت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث بنتی نظر آتی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر جو مشورے لئے اس وقت میں ان کے کچھ واقعات بیان کروں گا جس سے آپؐ کے خلق کے اس عظیم پہلو پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق، جو آیت میں نے پڑھی ہے، اس قدر مشورے لیا کرتے تھے کہ ہر ایک کو صاف نظر آرہا ہوتا تھا کہ آپؐ جیسا مشورے لینے والا اور اچھے مشورے کی قدر کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ’’ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے اصحابؓ سے کسی کو مشورہ کرنے والا نہیں پایا۔ ‘‘(سنن الترمذی، ابواب فضائل الجھاد، باب ما جاء فی المشورۃ)

اور یہ سب کچھ جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں اس لئے تھا کہ لوگوں کو احساس ہو کہ میں جو اللہ تعالیٰ کا نبی ہو کر بعض اہم معاملات میں مشورہ لیتا ہوں یا ایسے معاملات میں مشورہ لیتا ہوں جن میں اللہ تعالیٰ کی براہ راست رہنمائی نہیں آئی ہوتی تو تم لوگوں پر اس پر عمل کرنا کس قدر ضروری ہے۔ پھر باوجود اس کے کہ آپؐ میں نور فراست اپنے صحابہؓ سے ہزاروں ہزار گنا زیادہ تھا لیکن کبھی صحابہ کے سامنے اس کا اظہار نہیں کیا بلکہ مشوروں کے وقت بھی اپنی اس عاجزی کے خُلق کو ہی سامنے رکھا۔

چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھجوانے کا ارادہ فرمایا تو حضورؐ نے صحابہؓ میں بہت سے لوگوں سے مشورہ طلب فرمایا۔ ان صحابہ میں ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، اور بہت سارے صحابہ تھے(رضی اللہ عنھم)۔ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کی کہ اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہم سے مشورہ نہ طلب فرماتے تو ہم کوئی بات نہ کرتے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جن امور کے بارے میں مجھے وحی نہیں ہوتی ان کے بارے میں میں تمہاری طرح ہی ہوتا ہوں۔ معاذؓ بتاتے ہیں کہ حضورکے اس فرمان کے مطابق جب حضور ؐ رائے لے رہے تھے قوم کے ہر شخص نے اپنی اپنی رائے بیان کی۔ اور اس کے بعد حضورؐ نے فرمایا معاذ! تم بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ تو میں نے عرض کی کہ میری وہی رائے ہے جو حضرت ابوبکرؓ کی ہے۔ (مجمع الزوائد للہیثمی کتاب العلم۔ باب الأجتھاد)

دیکھیں کس سادگی سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو۔ کیونکہ جن معاملات میں مجھے اللہ تعالیٰ نہیں بتاتا ان میں میں بھی تمہاری طرح کا ہی ایک انسان ہوں جس کومشوروں کی ضرورت ہے۔ پھر دیکھیں جب آپؐ کی سب سے چہیتی بیوی پر الزام لگا۔ اس وقت اگر آپؐ چاہتے اور یہ عین انصاف کے مطابق بھی ہے کہ حضرت عائشہؓ سے پوچھ کر اس الزام کا رد فرما سکتے تھے، غلط الزام تھا۔ لیکن منافقین کے فتنہ کو روکنے کے لئے آپؐ خاموش رہے اور صحابہؓ سے اس بارے میں مشورہ کیا۔ کیونکہ آپؐ سمجھتے تھے کہ یہ معاملہ اب ذات سے نکل کر معاشرے میں فتنہ پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button