ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر:۱۴۷)
۱۴؍اکتوبر۱۹۰۳ءدربارشام دنیا کی تلخیاں
’’تعجب ہے کہ انسان اس (دنیا)میں راحت اور آرام طلب کرتاہے حالانکہ اس میں بڑی بڑی تلخیاں ہیں۔خویش و اقارب کو ترک کرنا۔دوستوں کا جدا ہونا۔ہر ایک محبوب سے کنارہ کشی کرنا۔البتہ آرام کی صورت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ دل لگایا جاوے جیسے کہا ہے کہ
جز بخلوت گاہے حق آرام نیست
انسان ایک لحظہ میں خوشی کرتاہے تو دوسرے لحظہ میں اسے رنج ہوتاہے لیکن اگر رنج نہ ہوتو پھر خوشی کا مزا نہیں آتا جیسے کہ پانی کا مزا اسی وقت آتاہے جبکہ پیاس کا درد محسوس ہو اس لیے درد مقدم ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد ششم صفحہ ۱۵۴-۱۵۵، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
تفصیل :اس حصہ ملفوظات میں مثنوی مولانا روم کے ایک شعر کا دوسرا مصرع ’’جز بخلوت گاہِ حق آرام نیست‘‘آیا ہےمکمل شعر کچھ یوں ہے۔
ھِیْچ کُنْجِی بِیْ دَدْ وبِیْ دَامْ نِیْست
جُزْ بِخَلْوَتْ گَاہِ حَقْ آرَامْ نِیْسْت
ترجمہ:کوئی گوشہ درندے اور چرندے کے بغیر نہیں ہے۔حق (خداتعالیٰ )کی خلو ت گاہ کے سوا کہیں راحت نہیں ہے۔