متفرق مضامین

ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب

(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات حصہ یاز دہم)

ایک خادم کا توازن برقرار نہ رکھ سکنا

۲۲؍ مئی ۲۰۱۶ء کو ظہر اور عصر کی نمازوں کی ادائیگی کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک خادم جو سیکیورٹی ڈیوٹی کر رہے تھے، اپنا توازن کھو بیٹھے اور زمین پر گرنے ہی والے تھے کہ دو خدام نے انہیں دیکھ لیا اور ان کو گرنے سے بچا لیا۔ میرا خیال ہے کہ لمبے عرصے تک کھڑے رہنے کی وجہ سے وہ تھک گئے تھے۔

مجھے ذاتی طور پر ان سے ہمدردی ہوئی کیونکہ چند ماہ قبل میں نے مسجد فضل لندن میں اطفال کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی اور ایک ہی جگہ تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھا رہا تھا۔ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ میرا پاؤں کس قدر سُن ہو گیا ہے اس لیے جب میں کھڑا ہوا تو اپنا توازن کھو بیٹھا اور زمین پر گر گیا۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ بچے میری طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے میں کوئی مسخرہ ہوں۔ دراصل میری ایڑھی میں شدید موچ آئی تھی اور اس کو ٹھیک ہونے میں کئی ہفتے لگے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جس دن میں گرا تھا مَیں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو اس بارے میں بتایا تھا توآپ نے ہدایت فرمائی تھی کہ اگر کوئی شخص لمبے عرصے کے لیے بیٹھا رہے تو اس کو اپنے پاؤں کی پوزیشن وقفے وقفے سے بدلتے رہنا چاہیے۔

بعد ازاں حضور انور نے چند سال قبل جرمنی میں ہونے والے ایک واقعہ کابھی ذکر فرمایا جہاں حضور انور ایم ٹی اے کے ذریعہ جلسہ سالانہ قادیان کے آخری سیشن میں رونق افروز تھے۔ حضور انور نے فرمایا: ’’ایک بار میں جرمنی میں تھا اور جلسہ سالانہ قادیان کا آخری سیشن ہو رہا تھا۔ میں اپنی کرسی پر بیٹھا تھا جب میں نے محسوس کیا کہ جو خادم نظم پڑھ رہا تھا وہ اچانک اپنا توازن کھونے لگاہے۔ سٹیج پر موجود دوسرے لوگوں اور سیکیورٹی گارڈز اسے بھانپ نہیں سکے لیکن مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ کچھ مسئلہ ہے۔پھر میں خود اپنی کرسی سے اٹھا اور اس کو سہارا دینے کے لیے اسے پکڑا کیونکہ وہ گرنے ہی والا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کے زمین پر گرنے سے پہلے ہی میں نے اسے تھام لیا۔‘‘

حضور انور نے مزید فرمایا:’’ جب اس خادم کی طبیعت سنبھل گئی تو اس نے نظم جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے اسے چند مزید اشعار پڑھنے دیے اور پھر کہا کہ وہ جائے اور جا کر بیٹھ جائے اور آرام کرے اور بالکل پریشان نہ ہو۔ الحمدللہ کچھ دیر میں اس کی طبیعت بالکل سنبھل گئی۔‘‘

مجھے یاد ہے کہ وہ واقعہ سننے پر میں کس قدر حیران ہوا تھا۔جرمنی کے سٹیج پر درجنوں احباب بیٹھتے ہیں تاہم صرف حضورِانور نے اس خادم کی طبیعت کی خرابی کو بھانپ لیا۔ مجھے یہ خیال بھی آیا کہ وہ خادم کس قدر خوش قسمت تھا۔ ہماری روحانی نجات خلافت سے وابستہ ہے لیکن اس دن حضور انور اس خادم کے لیے جسمانی نجات کا ذریعہ بھی بنے اور مسیحائی کا رنگ دکھایا۔

اس میں یہ سبق بھی تھا کہ ایسے معاملات کو کیسے سنبھالا جاتا ہے، کوئی خوف یا پریشانی کا ماحول پیدا نہیں ہوا بلکہ حضور انور نہایت بردباری سے کھڑے ہوئے اور اس خادم کو سہارا دیا اور جب اس کی طبیعت سنبھل گئی تو اس کو آرام کرنے کا فرمایا۔

احمدیوں کے جذبات

اس دن پچھلے پہر، میری ملاقات ایک نوجوان خادم فہیم طاہر (بعمر اٹھارہ سال )سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ جامعہ احمدیہ میں داخلہ لینا چاہتےاور مبلغ بننا چاہتے ہیں۔ یہ نوجوان باوجود کم عمری کے نہایت مدبرانہ طریق پر بات کر رہے تھےاور میں دیکھ سکتا تھا کہ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی موجود گی نے اس خادم پر کیسا اچھا اثر ڈالا تھا۔ فہیم صاحب نے بتایا کہ مجھے ہمیشہ سے مذہب کے بارے میں پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ احمدیت ہر سوال کا نہایت پُر حکمت اور مدلل جواب دیتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خلافت ہماری سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کر رہی ہے۔ فہیم صاحب نے مزید بتایا کہ حضور انور کی موجودگی کی وجہ سے جو جوش میں محسوس کر رہا ہوں وہ ایسا ہے کہ میں جماعت کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ زندگی ایک عارضی زندگی ہے اور ہماری تمام تر توجہ اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف ہونی چاہیے۔ ہر روز میں اپنے تئیں یاد کرواتا ہوں کہ یہ زندگی اخروی زندگی کے لیے بطور ایک امتحان کے ہے۔ میں اپنے تئیں خلافت کا ایمبیسڈر سمجھتا ہوں اس لیے سکول میں ہر کسی سے محبت،عزت اور عفو و درگزر سے پیش آتا ہوں۔

بطور ایک نوجوان مسلمان کے اپنی زندگی سویڈن میں گزارنے کے متعلق فہیم صاحب نے بتایاکہ سویڈن ایک نہایت لبرل ملک ہے اور مکمل طور پر غیر مذہبی ہے۔ یوں اس ملک کے اکثر نوجوان ایمان سے عاری ہیں تاہم ہماری جماعت کے نوجوان اپنے دین پر فخر کرتے ہیں اور حقیقی اسلامی تعلیمات پر نازاں ہیں۔

ایسے پُرجوش خادم سے ملنے کے بعد میری ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جو بہت پُرجوش ہونے کے ساتھ ساتھ جذبات سے بھی مغلوب تھے۔ ان کا نام مکرم لیاقت علی (بعمر ۶۶؍ سال )تھا اور موصوف ناروے سے حضور انور سے ملاقات کی غرض سے سویڈن آئے تھے۔ ہماری ملاقات کے دوران وہ مستقل اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کر رہے تھے خاص طور پر جب انہوں نے حضور انور سے ملاقات کا تذکرہ کیا۔

مکرم لیاقت صاحب نے بتایا کہ آج میری زندگی کا بے حد خوشی کا دن ہے۔ میری کیا حیثیت ہے کہ میں خلیفہ(وقت) سے ملوں۔ میری کیا حیثیت ہے کہ میں آپ سے گفتگو کر سکوں۔

انہوں نے مجھے اپنی زندگی میں پیش آنے والی بعض مشکلات کے متعلق بتایا کہ میں کراچی میں رہتا تھا اور بہت آسودہ حال تھا لیکن ایک دن احمدی ہونے کی وجہ سے مجھ سے سب کچھ چھین لیا گیا۔ پھر جب میں بارہ سال قبل ناروے آیا تو میرے پاس کوئی پیسہ نہ تھا لیکن حقیقت میں لاکھوں گنا زیادہ امیر تھا کیونکہ یہاں میں خلیفۂ وقت کو آزادی سے سن سکتا تھا اور میری فیملی آزادانہ طور پر جماعت کی خدمت بجا لا سکتی تھی۔ یہی حقیقی دولت ہے اور یہی حقیقی عزت ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں شکر گزار ہوں کہ میری دنیاوی دولت مجھ سے چھن گئی کیونکہ اس کے بعد ہی مجھے روحانی دولت نصیب ہوئی اور مجھے اور میری آئندہ نسلوں کو اس دنیا میں اور آخرت دونوں میں مالدار بنائے گی۔ (ان شاء اللہ)۔ انہوں نے آنکھوں سے بے اختیار لگی جھڑی کے ساتھ مجھے بتایا۔

اس دورے کے دوران میں نے مستقل ایک خادم کو ڈیوٹی پر دیکھا اور جب کبھی بھی میں اسے دیکھتا تو وہ مسکراتا اور بآواز بلند سلام کہتا تو( دورے کے) آخری دن میں اس کو ملا اور ہماری کچھ بات چیت ہوئی۔ اس خادم کا نام بلال ملک (بعمر ۲۴ سال )تھا اور وہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ وہ حضورِانور کے دورے کے آغاز پر ڈنمارک آیا ہے۔ اپنے تجربات کے متعلق اس نے بتایا کہ اس دورے کے دوران میرا سیکیورٹی ڈیوٹی کرنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن کوپن ہیگن (Copenhagen) میں ایک موقع پر حضور انور میرے پاس سے گزرے اور آپ مسکرائے اور میری طرف دیکھ کر ہاتھ بھی ہلایا۔ وہ لمحہ میری زندگی کو بدل دینے والا تھا۔ اس دن سے میں نے ہر روز سیکیورٹی ڈیوٹی کی ہے اور مَیں نہیں چاہتا کہ اب یہ دورہ کبھی اختتام پذیر ہو۔

عزیزم بلال نے مجھےان مشکلات کے بارے میں بھی آگاہ کیا جن کا انہیں سیکیورٹی ڈیوٹی کے دوران سامنا تھا۔ بلال صاحب نے بتایا کہ میری یونیورسٹی ان دنوں میں چھٹی کی اجازت نہیں دے رہی تھی جیسا کہ ان دنوں ہمارے امتحان چل رہے ہیں۔ میں نے دو مرتبہ درخواست کی لیکن دونوں مرتبہ انہوں نے میری درخواست مسترد کر دی۔ بالآخر میں نے فیصلہ کیا کہ میں یونیورسٹی نہیں جاؤں گا۔ ممکن ہے کہ وہ مجھے ایک سال repeatکرنے کا کہیں۔ لیکن مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ خدا کا چنیدہ نمائندہ یہاں تشریف لایا ہوا ہے اس لیے میں کہیں اور ہونا پسند نہیں کرتا۔ اگر وہ مجھے یونیورسٹی سے نکال بھی دیں تو بھی میں اس کو ایک اعزاز سمجھوں گا اور اس پر فخر محسوس کروں گا۔

مجھے یہ تو نہیں پتا کہ اس کا امتحان چھوڑنے کا فیصلہ درست تھا یا نہیں تاہم اس کا جوش اور خلافت کے لیے سچی محبت نہایت واضح تھی۔ اس لیے میں نے اس کے اعتماد میں اس کا ساتھ دیا کہ اللہ تعالیٰ اس کے نیک خیالات کے باعث اس پر فضل فرمائے گا۔ ان شاء اللہ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button