تقریر جلسہ سالانہ

آنحضرتﷺ کا اسوۂ حسنہ امن عالم کا ضامن ہے (تقریر برموقع جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۳ء )

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

قرآن کریم میں امن کے پیامبر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبیاء :۱۰۸)ترجمہ:اور ہم نے تجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت کے طور پر بناکر بھیجا ہے۔

پس آنحضرتﷺ تمام بنی نوع انسان کے لیے رسول اور رحمۃ للعالمین بن کر دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے تشریف لائے۔

آپؐ پر ایک کامل شریعت قرآن کریم نازل کی گئی جس میں امن عامہ کی بہترین تعلیم دی گئی جسے آپؐ نے دنیا میں قائم کرنے کا بہترین نمونہ بھی عطا فرمایا۔آج مجھے آنحضرتﷺ کے اسوۂ حسنہ اور امن عالم کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔لیکن اس سے قبل کہ اس رحمۃ للعالمین کا ذکر خیر کیا جائے ایک نظر چودہ سو سال قبل بے امن معاشرہ پر بھی ڈالنا ضروری ہے تبھی رحمت کے اس بحر بے کنار کا وجودسراج منیر کی طرح اپنی پوری آب وتاب سے سب پر آشکار ہوگا۔

عالمی منظر نامہ

رسول اللہ ﷺکے دور میں چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں دنیا کے تمام مذاہب اپنی اصلی شکل کھوچکے تھے! یہود کا مذہب کچھ بے جان رسموں کا مجموعہ تھا۔جس میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ تھی۔روم کے نصرانیوں کی بت پرستی اس کے خون میں گھل گئی تھی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات شرک کے ملبے تلے دبی ہوئی تھی۔

سیاسی، سماجی، روحانی اور اقتصادی زنجیروں کی گرفت سے بچنے کی ہر سعی ناکام ہوچکی تھی۔ الغرض کیا یہود،کیا ہنود،کیا نصاریٰ تو کیا مجوس دنیا ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی البَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:۴۲)کا نمونہ بن چکی تھی۔ہر طرف کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ عرب کی سرزمین بھی شرک اور بدامنی کا گہوارہ بن چکی تھیں۔

ظہور اسلام سے قبل عرب کے حالات

عرب کے لوگ سخت مزاج اور وحشی تھے۔ وہاں امن،عدل و انصاف کا کوئی نام ونشان ہی نہ تھا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون جاری تھا۔ قبائل کے درمیان جنگ و جدل عام بات تھی۔ چھوٹی سے چھوٹی بات پرسالہا سال کی دشمنی اس قوم کا وطیرہ تھی اور کئی نسلوں تک ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کے خون کا پیاسا رہتا تھا۔

مردوں اور عورتوں کوقید کرنے اور لونڈی و غلام بنانے کا رواج عام تھا۔ عورتوں کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ نہ بیٹی کے لحاظ سے، نہ بیوی کے لحاظ سے اور نہ ماں کے لحاظ سے۔

الغرض آپﷺ کی بعثت سے قبل دنیا گمراہی کی اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔امام الزّماں حضرت اقدس مسیح موعودؑفرماتے ہیں:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا زادبوم ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں… اس ملک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیاشی اور بدمستی اور شراب خوری اور قماربازی وغیرہ فسق کے طریقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانا اور چوری اور قزّاقی اور خون ریزی اور دخترکشی اور یتیموں کا مال کھا جانے اور بیگانہ حقوق دبا لینے کو کچھ گناہ نہ سمجھنا۔ غرض ہریک طرح کی بُری حالت اور ہریک نوع کا اندھیرا اور ہرقسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہودہ ہے کہ کوئی متعصب مخالف بھی بشرطیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو اس سے انکار نہیں کرسکتا اور پھر یہ امر بھی ہریک منصف پر ظاہر ہے کہ وہی جاہل اور وحشی اور یا وہ اور ناپارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد کیسے ہوگئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصومﷺ نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یکلخت ایسا مبدل کردیا کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہوگئے اور محبت دنیا کے بعد الٰہی محبت میں ایسے کھوئے گئے کہ اپنے وطنوں اپنے مالوں اپنے عزیزوں اپنی عزتوں اپنی جان کے آراموں کو اللہ جل شانہٗ کے راضی کرنے کے لئے چھوڑ دیا۔‘‘(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد ۲صفحہ ۷۶تا ۷۷، حاشیہ)

الغرض انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی۔ایسے حالات میں اللہ رب العزت نے انسانیت پر احسان فرمایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانوں کے لیے رحمت عالم بناکر مبعوث فرمایا۔

ایسے بد امنی کے وقت میں خدا تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لیے پیکر محبت اور امن کے شہزادے محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ بنا کر مبعوث فرمایا جس نے اپنی خدا داد قوّت قدسی کے طفیل اس وحشی اور خونخوار جنگجو قوم کے دلوں کو محبت اور دلائل کے ذریعہ ایسا گھائل اور قائل کیا کہ وہ لوگ ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ اور محبت و اخوت کے وہ بے نظیر نمونے دکھلائے کہ قیامت تک دنیا کی ہدایت کے لیے ستاروں کی مانند ٹھہرے اور باخدا بلکہ خدانماانسان بن گئے اور آپؐ نے بچیوں کو رحمت کا خطاب دے کر عورت کے صرف حقوق ہی نہیں قائم کیے بلکہ آپﷺ نے اولاد کے لیے جنت کی کنجی ماں کے قدموں تلے رکھ دی۔

سلطان القلم بانیٔ سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدئ معہود علیہ السلام اس معجزہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اشعار میں فرماتے ہیں۔

کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں

وحشیوں میں دیں کا پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار

پر بنانا آدمی، وحشی کو ہے اک معجزہ

معنیٔ راز نبوت ہے اسی سے آشکار

گویا امن کے قیام کے لیے بعض دفعہ جنگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کبھی انسان کا دماغ فطرت سے اتنا بعید ہوجاتا ہے اور انسانی عقیدے مرکز سے اتنے پرے ہٹ جاتے ہیں کہ وہ حُریّتِ ضمیر کو بھی باطل کرنا چاہتے ہیں۔ پس اُن سے جنگ امن قائم کرنے کے لیے ہوگی۔ جیسے جسم کا کوئی عضو سڑ جائے تو انسان فیس خرچ کرکے بھی اُس کو ڈاکٹر سے کٹوادیتا ہے۔اسی طرح ایسے گروہ کا آپریشن ضروری ہوجاتا ہے جو سرطان کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں تاکہ وہ باقی قوم کو ناپاک نہ کردیں۔ پس آگے فرمایا: وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (البقرۃ:۲۵۲) یعنی اللہ صرف قوم کو ہی امن نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ ساری دنیاکو باامن دیکھنا چاہتا ہے۔اس لیے امن برباد کرنے والوں سے تب تک جنگ کی جاتی ہے جب تک وہ خلافِ امن حرکات سے باز نہ آجائیں۔

پس امن کے قیام کے حوالے سے بھی رسول کریمﷺ کا وجود دنیا کا سب سے بڑا محسن ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت آپؐ پر درود بھیجیں کہیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔(الاحزاب:۵۷)۔ اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔(خلاصہ تقریر’’آنحضرتﷺاور امن عالم‘‘ انوار العلوم جلد۱۵)

دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے آنحضورﷺ کے بیان فرمودہ زرّیں اصول اور اسوۂ حسنہ

رسول اللہﷺنے امن کے قیام کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں اور اپنے عملی نمونے سے ثابت کردیا کہ اگر دنیا میں قیام امن کے لیے حقیقی کوشش کی جائے تو ایک پرامن معاشرے کا قیام ممکن ہے۔ آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو اعلیٰ اخلاق کا درس دیا اور اپنی قوت قدسیہ کے ذریعہ ایسی بے نفس جماعت تیار کردی جو حق اللہ اور حق العباد کی ادائیگی میں سبقت لے جانے والی تھی۔ آپؐ نے یہ صدائے عام دی کہ اگر حقیقی امن چاہتے ہو توسلامتی اور عافیت کے دین میں داخل ہوجاؤ اورمیری لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرو۔

نبی کریمﷺ جو دین لے کر مبعوث ہوئے،اللہ تعالیٰ نے اُس کا نام اسلام رکھاہے۔اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ (آل عمران:۲۰)یقیناًدین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔جبکہ اسلام میں شامل ہونے والوں کا نام مسلمان رکھا گیا ہے۔ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ(الحج:۷۹)اُس(یعنی اللہ)نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔

اسلام عربی زبان کا لفظ ہے جو سَلِمَ سے نکلا ہے۔ سَلِمَ کا مطلب ہے امن وسلامتی۔پس آنحضورﷺ کے اوپر نازل ہونے والی تعلیم امن وسلامتی اور صلح وآشتی پر مبنی ہے۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:وَ اللّٰہُ یَدْعُوٓا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ (یونس:۲۶)اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد مبارک ہے:اَلسَّلَامُ مِنَ الْاِسلَامِ امن و سلامتی اسلام سے ہی ہے۔آپﷺ نے ایک مسلمان کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہاَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدَہٖ وَاْلمُؤمِنُ مَنْ اَمِنَہُ النَّاسُ عَلٰی دِمَائِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ۔(سنن نسائی کتاب الایمان بَاب صِفَۃُ المُومِنِ حدیث۵۰۰۰)مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے انسان امن میں رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ رہیں۔

آپﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ ہر آسانی پیدا کرنے والا، نرم خو، نرم دل اور لوگوں کے قریب رہنے والا اہل جنت میں شامل ہے۔(المعجم الصغیر طبرانی جلد ۱صفحہ۷۲حدیث نمبر ۸۹مکتب اسلامی بیروت ۱۹۸۵ء طبع اوّل)

امن کے پیامبر

نبی کریمﷺ ابتدائی عمر سے ہی امن کے داعی اور انسانوں کی تکلیفوں کو دُور کرنے میں پیش پیش تھے۔ایام جاہلیت میں قریش کے بعض قبیلوں بنوہاشم، بنوعبدالمطلب، بنواسد، بنوزہرہ اور بنو تیم نے آپس میں ایک معاہدہ کیا کہ ہم ہر مظلوم کی مددکیا کریں گے۔ اس معاہدے کو ’’حلف الفضول‘‘ اور ’’حلف المطیّبین‘‘ ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:شَھِدْتُ حِلْفَ المُطَیَّبِیْنَ مَعَ عُمُومَتِی، وَاَنَا غُلَامٌ، فَمَا اُحِبُّ اَنَّ لِی حُمْرَ النَّعَمِ،وَانَّی اَنْکُثُہُ(مسند احمد بن حنبل، مسند العشرۃ المبشرۃ،حِدیَث عَبدُ الرَّحمٰنِ بنُ عَوفٍ الزُّھرِی حدیث نمبر۱۶۵۵)

جبکہ ابھی میں نوعمر تھاحلف المطیبین جسے حلف الفضول بھی کہا جاتا ہے میں شریک ہوا تھا، مجھے پسند نہیں کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں اگرچہ مجھے اس کے بدلہ میں سرخ اونٹ بھی دیے جائیں۔

اس معاہدے کی شرائط میں دو باتیں خاص طور پر شامل تھیں:

٭…حدودِ شہر میں وہ کسی پر ظلم نہ ہونے دیں گے (شہری ہو یا اجنبی)

٭…مظلوم کی مدد کرکے ظالم سے اس کا حق دلائیں گے۔(ماہنامہ الفرقان۔دسمبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۳۴)

پس نوعمری میں امن کے قیام میں مدد دینے والے اس معاہدے میں شامل ہونا اور منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد بھی اس معاہدے کی پاسداری کرنا ثابت کرتا ہے کہ آپؐ نہ صرف امن کے داعی ہیں بلکہ عملی طور پر امن پھیلانے والے عالی وجود ہیں۔ نبی کریمﷺکی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے ہمیشہ اس معاہدے کو نبھایا اور جب کبھی کوئی مظلوم آپ کے پاس کسی ظالم سے اپنا حق دلانے کی درخواست کرتا آپؐ فوراً اُس کی مدد کے لیے تیار ہوجاتے اور ظالم سے مظلوم کو اُس کا حق دلا کررہتے۔ ایک مرتبہ دشمن اسلام ابوجہل کی شکایت ہونے پر بلاخوف وخطر مظلوم کی داد رسی کے لیے اُس کے گھر تشریف لے گئے اور مظلوم کو اُس کا حق دلوادیا۔یہ واقعہ دیکھ کر قریش کے سرداروں نے ابوجہل سے پوچھا کہ اے ابوالحکم!تمہیں کیا ہوگیا تھا کہ محمدؐ سے اس قدر ڈرگئے۔اُس نے کہا۔ خدا کی قسم! جب مَیں نے محمدؐکو اپنے دروازے پر دیکھا تو مجھے یوں نظر آیا کہ اُس کے ساتھ ایک مَست اور غضبناک اونٹ کھڑاہے اور مَیں سمجھتا تھا کہ اگر ذرا بھی چون وچرا کروں گا تو وہ مجھے چباجائے گا۔(سیرۃ ابن ہشام بحوالہ سیرۃ خاتم النبیینؐ ازحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ صفحہ ۱۶۳)

تاریخ کا علم رکھنے والے عربوں کے مزاج کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بناکر وہ سالہا سال تک جنگ وجدل کا بازار گرم رکھا کرتے تھے۔پس اس نازک موقع پر امانت دار نے امانت کا حق خوب اچھی طرح ادا کیا اور دنیا میں امن و سلامتی کی حقیقی علامت بیت اللہ کی تعمیرنو کے وقت پیدا ہونے والے ایک بڑے فساد کو نہایت حکمت اور دانائی کے ساتھ فرو کرکے سب کو امن کے سائے تلے لا کھڑا کیا۔ آپؐ نے فرمایا۔ ہر قبیلہ اس چادر کا ایک کونا پکڑ لے پھر سب مل کر حجراسود کو اٹھاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسے ہی کیا یہاں تک کہ جب وہ حجراسود رکھنے کی جگہ کے پاس پہنچ گئے تو آنحضورﷺ نے حجراسود کو اپنے ہاتھ سے اس کی جگہ پر نصب فرما دیا۔

آنحضورﷺ کا ارشاد مبارک ہے: وَاللّٰہِ اِنِّی لَأمِیْنٌ فِی السَّمَآءِ وَأَمِیْنٌ فِی الْاَرْضِ۔(الشفاء لقاضی عیاض۔ الفصل العشرون۔ عدلہ و امانتہ)اللہ کی قسم! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں۔

گھر کی بنیادی اکائی سے امن کی ابتدا

آنحضورﷺنے انسانی معاشرت کی اس بنیادی اکائی کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے راہ نما اصول متعین فرمادیے ہیں تاکہ آپ کے ماننے والے ان زرّیں نصائح پر عمل کرکے نہ صرف خود امن سے رہ پائیں بلکہ وہ غیروں کے لیے امن اور سلامتی کا موجب بھی بنیں۔ گھروں میں امن کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کادرج ذیل ارشاد بہت ہی قابل عمل ہے۔ آپؐ نے فرمایا: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّم یَرحَم صَغِیْرَنَا وَیَعْرِفْ حَقَّ کَبِیرِنَا۔(الادب المفرد للبخاری باب رحمۃ الصغیر)وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بچوں سے رحم کا سلوک نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کا پاس نہیں کرتا۔

میاں بیوی کے بنیادی یونٹ کے ذریعہ امن کا قیام

گھروں میں امن وسلامتی کا دوسرا اہم رکن انسانی زندگی میں میاں بیوی کاباہمی تعلق ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔یہ تعلق جس قدر پائیدار اورمضبوط ہوگا سوسائٹی میں امن کا موجب ہوگا۔ نبی کریمﷺ نے بحیثیت خاوند ایسا عملی نمونہ پیش فرمایا ہے کہ جس پر عمل کرنے سے گھروں کے نظام کو اچھے طریق پر چلا کر اُن کا امن برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

آنحضرتﷺ کا ارشاد مبارک ہے: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہٖ(ترمذی کتاب المناقب باب فضل أزواج النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم)یعنی تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے۔رسول کریمﷺ مسکراہٹیں بکھیرنے والے بابرکت وجود تھے۔آپؐ کے گھر کی چاردیواری میں بسنے والے بھی اُن مسکراہٹوں کا مورد بنا کرتے تھے۔ آپؐ ہر کسی سے نرمی اور حسن سلوک کا معاملہ کرتے جبکہ گھر کے اندر آپؐ کی نرمی اور نرم دلی مزید بڑھ جاتی۔ کسی کو برابھلا کہنا آپؐ کی عادت نہ تھی۔گھر کے افراد کو کسی تکلیف میں ڈالنے کی بجائے خود تکلیف برداشت کرلیا کرتے تاکہ اُن کے لیے آسانی پیدا ہو۔

پس اگرگھروں کے اندر باہمی احترام، پیار، محبت اور عدل وانصاف کی فضا قائم ہوجائے تو اس سے نہ صرف گھروں کا امن برقرار رہے گابلکہ اُس کا اثر ارد گرد کے ماحول میں بھی ظاہر ہو گا۔

رحمی رشتوں کے ذریعہ امن کا قیام

رسول کریمﷺ نے رحم سے تعلق رکھنے والے رشتوں کے متعلق خاص ہدایات ارشاد فرمائی ہیں اور اُن کی فضیلت و برکات سے آگاہ فرمایا ہے۔ آپﷺ جس تعلیم کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں، اس میں رحمی رشتوں کو جوڑنے کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے۔

پس رحمی رشتوں کے حقوق کی ادائیگی اور اُن کے ساتھ حسن سلوک معاشرے میں امن وامان کے قیام میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔

نوع انسان سے حسن سلوک کی تعلیم

رسول کریمﷺ نے صرف گھر کے افراد یا رشتہ داروں سے ہی حسن سلوک کی تعلیم نہیں دی بلکہ آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو دنیا کے ہر انسان سے پیار، محبت اور خیرخواہی کی تعلیم دی ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کو رَوا نہیں رکھا۔ آپؐ کا ارشاد مبارک ہے: مَنْ لَا یَرْحَمُ النَّاسَ لَا یَرْحَمْہُ اللّٰہُ۔ جو لوگوں پر رحم نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ اُس پر رحم نہیں کرے گا۔(جامع ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین)

مسلمان معاشرے میں امن کا قیام

نبی کریمﷺ نے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دے کر ہر ضرورت کے وقت اُس کی مدد کی تعلیم دی ہے تاکہ ان کے باہمی تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہیں اور اُن میں تعاون کا جذبہ فروغ پاتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی یہ نشانی بیان فرمائی ہے کہ اُن کے اندرایثار کا جذبہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے نفسوں پردوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس سے باہمی الفت ویگانگت میں اضافہ ہوتا ہے اور دل دلوں کے قریب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت مومنین کی یہ خوبی بیان فرمائی ہے کہوَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنفُسِھِمْ وَلَو کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (الحشر: ۱۰)اور خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی درپیش تھی۔یہ ایک ایسی اعلیٰ تعلیم ہے جو امنِ عالم کی گارنٹی دیتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ وہ نہ اس کی خیانت کرتا ہے اور نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے۔ مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ اس کی عزت بھی۔ اس کا مال بھی اور اس کا خون بھی۔ (حضورؐ نے دل کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) تقویٰ یہاں ہے۔ کسی شخص کے شر کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(جامع ترمذی کتاب البر والصلۃ بَاب مَا جَآئَ فِی شَفقَۃِ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ (صحابہؓ نے) کہا: یارسول اللہؐ!مظلوم کی تو ہم مدد کریں گے کیونکہ وہ مظلوم ہے، لیکن ظالم ہو تو اُس کی کیسے مدد کریں؟ آپؐ نے فرمایا: اُس کے ہاتھوں کو پکڑلو۔ یعنی ظلم سے روک کر۔ (صحیح بخاری کتاب المظالم بَاب أَعِنْ اَخَاکَ ظَالِمًا اَو مَظلُومًا حدیث۲۴۴۳)

ہمسایوں سے حسن سلوک، پُر امن معاشرہ کا قیام

نبی کریمؐ نے اس لیے قیامِ امن کا سبق پہلے انفرادی سطح سے اور پھر گھر سے شروع کیا۔ انفرادی تعلق میں دوستی کے حقوق ایک دوسرے پر قائم ہوتے ہیں اور ایک گھر کے تعلق میں ہمسائیگی کا حق قائم ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺکے جب اور جہاں بھی یہ تعلق قائم ہوئے آپ نے خوب نبھائے اور ان کا حق ادا کرکے دکھایا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق جس سے بھی قائم ہوا آپؐ نے ہمیشہ اس کا لحاظ رکھا۔ حقِ ہمسائیگی کا بھی آپؐ ہمیشہ خیال رکھتے۔ فرماتے تھے کہ ’’جبریل نے مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کی اس قدر تلقین کی یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ ہمسایہ کو شاید حق وراثت میں بھی شامل کرنے کی ہدایت کریں گے۔‘‘(بخاری کتاب الادب باب۲۸)

اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ’’کسی کے حسن و قبح کا معیار اس کا ہمسایوں سے سلوک ہے۔ اگر تمہارے ہمسائے یہ کہیں کہ تم اچھے ہو تو واقعی تم اچھے ہو اور اگر ہمسائے کہیں کہ تم برے ہو تو واقعی تم برے ہو۔‘‘(ابن ماجہ کتاب الزہد باب ۲۵)

جس طرح فرد کے فرد کے ساتھ خوشگوار تعلقات معاشرہ کے امن و استحکام کی ضمانت ہیں۔ اسی طرح ایک گھرانے کے گھرانے سے محبت بھرے تعلقات کے نتیجہ میں بھی ماحول میں وحدت پیدا ہوتی ہے۔ رسول کریمؐ نے اس پہلو سے ہمسایوں سے حسن سلوک کی تعلیم دے کر اس مضمون کو بہت وسیع کردیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’چالیس گھروں تک ہمسایہ کا حق ہوتا ہے۔‘‘

تمام دنیا جو محمد مصطفیٰ ؐسے منسوب ہوتی ہے۔ آپؐ سے محض حق ہمسائیگی ادا کرنا ہی سیکھ لے اور اس بارے میں آپ کی تعلیم پر عمل پیرا ہوتو ایک فرد اپنے ساتھی کا خیال رکھے، ہرگھرانہ اپنے ہمسایہ گھرانے کا خیال رکھے پھرایک محلہ ہمسایہ محلے کا،ایک شہر ہمسایہ شہرکا اورایک ملک ہمسایہ ملک کے حقوق ہمسائیگی کا خیال رکھے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ الغرض حق ہمسائیگی کے بارے میں نبی کریم ؐکی تعلیم بے نظیر ہے۔

رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک اچھے دوست وہ ہیں جو اپنے دوست کے لیے بہتر ہیں۔ اور بہترین ہمسائے اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو اپنے ہمسائے کے لیے بہتر ہیں۔ (سنن ترمذی کتاب البر والصلہ باب۲۸)

نیز فرمایاکہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے اپنے ہمسایوں میں محبوب بنا دیتا ہے۔(مسند احمد جلد۴صفحہ۲۰۰)

حضرت ابوذرؓ بیان کرتے تھے کہ رسول کریمﷺ نے مجھے نصیحت فرمائی کہ جب سالن کاشوربہ بناؤ تو پانی زیادہ ڈال لیا کرو۔ اپنے ہمسایوں میں سے کسی کو تحفہ بھجوادو۔(مسلم کتاب البروالصلۃ والادب باب۴۲)

رسول کریم ﷺنے بڑی تفصیل سے ہمسائے کے حقوق بیان کیے اور فرمایا جو شخص اپنا دروازہ اپنے ہمسائے پر بند رکھتا ہے کہ اس کے اہل یا مال کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تو وہ مومن نہیں ہے اور وہ بھی مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہیں۔جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے؟ جب پڑوسی کوئی مددطلب کرے تو اس کی مدد کرو۔ جب وہ قرض مانگے تو اسے قرض دو۔ جب اسے کوئی حاجت ہو تو وہ پوری کرو۔ جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو۔ جب اسے کوئی خوشی پہنچے تو مبارک باد دو۔ جب اسے کوئی رنج پہنچے تو اس سے تعزیت کرو۔ جب اس کی وفات ہو تو جنازہ میں شامل ہو۔اپنے مکان کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسائے کی ہوا رُک جائے۔ ہاں اس کی رضامندی سے ایسا کرسکتے ہو۔ اپنی ہنڈیا کی خوشبو سے اس کا دل نہ دکھاؤ بلکہ اسے بھی کچھ سالن بھجوادو۔ اگر پھل خریدوتو اس میں سے بھی تحفہ بھجواؤ۔ نہیں دے سکتے تو پھر گھر میں خاموشی سے وہ پھل لے جاؤ۔ تمہارے بچے وہ پھل لے کر باہرنہ جائیں مبادا اس کے بچوں کی دلآزاری ہو۔ (والترغیب والترھیب للمنذری جلد۳صفحہ۳۵۷)

رسول کریمؐ نے اپنے نمونہ سے ہمیں یہ سبق دیا کہ اگر کوئی شخص ہمسائے کا حق ادا نہیں کرتا تو پورے معاشرہ کو اس مظلوم کے حق میں جہادکرنا چاہیے۔

یہ وہ پاکیزہ معاشرہ ہے جو نبی کریمؐ انفرادی یا گھریلوسطح پرقائم فرماناچاہتے تھے۔ اور اسی معاشرہ کا قیام ہم سب کا مطمح نظرہوناچاہیے۔

تکلیفیں اٹھائیں لیکن ملک کا امن برقرار رکھا

آنحضو رﷺ ایک ایسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے جو جہالت کی تاریکیوں میں گم اور تنزل کی اتھاہ گہرائیوں میں گری ہوئی تھی۔ آپﷺ نے چاہا کہ اس قوم کی اصلاح کریں اور اسے جہالت کے مہیب سایوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کردیں لیکن آپؐ کی قوم مخالفت پر کمربستہ ہوگئی اور قوم کا بچہ بچہ مخالفت پر اُتر آیا۔ اصلاح خلق کی کوئی بھی تحریک انہیں سیخ پا کردیتی اوروہ آپؐ کی بات سننے کی بجائے سختی پر اُتر آتے بلکہ اُن کی اکثریت آپؐ کی جان کے درپے ہوگئی۔ آپ کے ماننے والے بھی ان ظلموں کا نشانہ بننے لگے، مردوں کو بےعزت کیا جاتااور عورتوں کی بے حرمتی روز کا معمول بن گیا۔ ان انتہائی مشکل اور نازک حالات میں بھی آپؐ نے اپنا مشن جاری رکھا اور حق بات کا پرچار کرتے رہے۔ آپؐ تیرہ سال تک ایک ظالم، جابر، دینی شعائر کی بے حرمتی کرنے والی اور دین کے معاملات میں جبر سے کام لینے والی حکومت کے ماتحت زندگی گزارتے رہے لیکن نہ تو حکومت کے خلاف کوئی سازش کی اورنہ ہی کوئی خفیہ تحریک چلائی۔ بلکہ ملک کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی کی نصیحت فرماتے رہے۔

ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے صحابہ ؓکو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کی راہ میں جتنا مجھے ڈرانے کی کوشش کی گئی کسی اَور کے لیے ایسی کوشش نہیں ہوئی اور راہ مولیٰ میں جتنی اذیت مجھے دی گئی اتنی کسی اَور کو نہیں دی گئی۔(جامع ترمذی کتاب القیامۃ حدیث۲۳۹۶)

امن کی خاطرحبشہ کی طرف ہجرت

کفار مکہ کی شدید مخالفت کے باوجود نبی کریمﷺ بڑی ثابت قدمی سے امن اورسلامتی کے پیغام کو پھیلاتے رہے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی تو کفار مکہ نے اسے اپنے لیے بہت بڑا خطرہ جانا اورمخالفت میں مزید شدت پیدا کردی۔ مسلمانوں کوسخت تکالیف میں دیکھ کر نبی کریمﷺ نے صحابہؓ کے مشوروںسے فیصلہ فرمایا کہ لڑائی جھگڑے کی بجائے جو لوگ آسانی سے ہجرت کرسکتے ہیں وہ اللہ کی خاطر اپنا پیارا وطن چھوڑ کر پڑوسی ملک حبشہ میں پناہ لے لیں۔ چنانچہ دو مختلف مواقع پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنا وطن چھوڑ کر حبشہ میں پناہ گزیں ہوگئی۔ ہجرت حبشہ کے واقعات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے مردوزن پرمشتمل دو وفودپہلے بارہ اور پھر اسّی اصحاب حبشہ ہجرت کر گئے۔ قریش نے وہاں بھی مسلمانوں کا تعاقب جاری رکھا اورنجاشی اور اس کے سرداروں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ عادل نجاشی نے اپنے دربار میں مسلمانوں کو بلا کر ان کا موقف سنا۔ حضرت جعفر طیارؓ نے مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر سورۃ مریم کی تلاوت کر کے اسلام کی تعلیم پیش کی۔ بادشاہ پر اس کابہت گہرا اثر ہوا اور وہ بھی بالآخر مسلمان ہوگیا۔(مسند احمد بن حنبل جلد۵صفحہ۲۲۹مطبوعہ بیروت)

شعب ابی طالب میں قیدوبند

حبشہ کی طرف ہجرت سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد امن میں آگئی لیکن قریش کا غیض وغضب مزید بڑھ گیا اور وہ مسلمانوں کی تبلیغی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ چنانچہ نبوت کے ساتویں سال ستمبر ۶۱۵ء میں کفار مکہ نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے خلاف ایک معاہدہ طے کیا اور انہیں شعب ابی طالب میں محصورکردیا۔ مسلمانوں کے ساتھ بنوہاشم اور بنومطلب کے ایسے افراد بھی محصور کردیے گئے جو ابھی مسلمان تو نہ ہوئے تھے لیکن اپنے دلوں میں مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ قریش مکہ نے اس معاہدہ میں لکھا کہ جب تک محمدؐ کو ہمارے حوالے نہ کیا جائے مسلمانوں اور ان کے حامیوں کے ساتھ شادی بیاہ ہوگا نہ خرید و فروخت۔ مسلمانوں کے ساتھ لین دین اور میل ملاپ بھی بند کردیا گیا۔ بغرض توثیق یہ معاہدہ خانہ کعبہ میں آویزاں کردیاگیا۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد۱صفحہ۳۸۶)

مسلمانوں کا یہ معاشرتی مقاطعہ محرم ۱۰؍ نبوی تک تقریباً تین سال تک جاری رہا۔ رسول کریمﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں نے نہایت تکلیف دہ اورمشکل حالات میں یہ وقت گزارا۔ آپؐ کے ساتھیوں کو بسا اوقات بھوک مٹانے کے لیے درختوں کی جڑیں کھانا پڑتیں اور کبھی پیٹ پر چمڑا باندھنا پڑتا لیکن ان مشکل حالات کے باوجود امن عالم کے داعی اعظمﷺ نے نہ تو کبھی حکومت وقت کے خلاف کسی قسم کی کوئی سازش تیار کی اور نہ ہی ملکی نظم ونسق کو خراب کرنے کی کوئی ادنیٰ سی کوشش کی۔

امن کی خاطر وطن سے بے وطن

جب کفار مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو شاہ مکی ومدنیﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہجرت کا فیصلہ فرمایااور امن کی خاطر اپنی خوابوں کی بستی کوچھوڑ کر مدینے میں جابسے۔ رسول کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے یہود، مشرکین اور دیگر قبائل مدینہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے۔ یہ معاہدہ مذہبی آزادی اور حریّت ضمیر کی بہترین ضمانت ہے۔ اس معاہدے میں درج مذہبی آزادی سے متعلق چند شقوں کو اس جگہ درج کیا جارہا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آپؐ مذہبی آزادی اور امن کے کس قدر حامی تھے۔

اس معاہدے کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں کچھ حقوق انہیں حاصل ہوں گے اور کچھ ذمہ داریاں ان پر عائد ہوں گی۔

دوسری اہم شق یہ تھی کہ مدینہ کے مسلمان مہاجرین وانصار اور یہود اس معاہدے کی رُو سے ’’اُمّتِ واحدہ‘‘ہوں گے۔ یعنی سب اپنی اپنی جگہ مذہبی آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے سیاسی طور پر ایک تصور کیے جائیں گے۔

تیسری شق میں صراحت ہے کہ بنی عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی امت ہوں گے۔ یہود کو اپنے دین کی آزادی اور مسلمانوں کو اپنے دین میں مکمل آزادی ہوگی۔

چوتھی شق کے مطابق مسلمانوں اور یہود کو مدینہ پر حملے کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد لازم تھی۔ مسلمان اور یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار خود ہوں گے البتہ جنگ میں باہم مل کر خرچ کریں گے۔

پانچویں شق کے مطابق فریقین ایک دوسرے سے خیرخواہی کریں گے اور نقصان نہیں پہنچائیں گے۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام جلد ۲صفحہ ۱۴۷تا۱۵۰)

اس معاہدے کے متعلق سیرت ابن ہشام میں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کی ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں اور دیگر قبائل کے درمیان میثاق مدینہ طے پایا جس کی ایک شق یہ تھی کہ یہود، بنی عوف مومنوں کے ساتھ مل کر ایک قوم ہوں گے۔ یہود کو اپنے دین پر اور مسلمانوں کو اپنے دین پر قائم رہنے کی آزادی ہے۔ وہاں جو ظلم کرے اور گناہ کرے وہ اپنے نفس کو اور اپنے اہل بیت کو نقصان پہنچائے گا۔(سیرت ابن ہشام جلد ۱صفحہ ۵۰۳۔کتابہ بین المہاجرین والانصار موادعۃ یہود)

رسول کریمﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد سربراہِ مملکت اور حاکم وقت کے طور پر دس سال تک عملاً امورِ مملکت چلائے۔ یہاں تک کہ مدینہ کی محدود شہری مملکت ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پورے عرب کی وسعتوں پر چھاگئی۔ محسن انسانیتﷺ کی زیر نگرانی چلنے والی مملکت میں ہر خاص و عام اور مسلم و غیر مسلم کے معاشی تحفظ اور اُن کی معاشرت کاخاص خیال رکھا گیا۔ یہاں تک کہ مملکت کی حدود میں بسنے والے تمام باشندے بلا امتیاز ہر قسم کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی سہولتوں سے متمتع ہوتے رہے۔ آپؐ نے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اسلامی شریعت کے جامع اُصول و ضوابط بیان فرمائے اور انہیں باور کرایا کہ حقوق انسانی کی ادائیگی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔

جارحانہ جنگوں میں امن کی تلاش

آنحضورﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ مسلسل تیرہ سال تک کفار مکہ کے ہاتھوں، اذیتیں، دکھ اور تکالیف اُٹھاتے رہے۔ اُن میں سے بعض شہید بھی کردیے گئے لیکن آپؐ اپنے ماننے والوں کو ان مظالم کا جواب دینے کی بجائے انسانوں سے شفقت اور ملکی امن کی خاطر صبر سے کام لینے کی تلقین فرماتے رہے۔ اگر کبھی صحابہؓ نے آنحضورﷺ سے دشمنوں کے ساتھ مقابلے کی اجازت مانگی تو آپؐ نے انہیں جواب دیا اِنِّی اُمِرْتُ بِالْعَفْوِِ(النسائی کتاب الجہاد باب وجوب الجہاد)مجھے تو عفو، درگزر اور معاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے مَیں کیونکرتمہیں مقابلے کی اجازت دے سکتا ہوں۔ آنحضورﷺ ہمیشہ جنگ وجِدال اور لڑائی سے بچتے تھے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو بھی یہی تلقین فرمائی ہے کہ وہ جنگ کی خواہش نہ کیا کریں۔ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے: لَا تَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّفَاِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا(صحیح مسلم کتاب الجھادوالسیربَاب کَرَاھَۃُ تَمَنِّی لِقَاء العَدُوِ…)دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو اور جب ان سے مڈھ بھیڑ ہوجائے تو ثابت قدم رہو۔ پس مسلسل تیرہ سال تک آپؐ اور صحابہؓ ہر طرح کے مظالم برداشت کرتے رہے لیکن لڑائی جھگڑے اور فساد پھیلانے میں حصہ نہ لیااور بالآخر ملکی امن کی خاطر اپنے آباءواجداد کے وطن کو چھوڑ کر مدینہ میں آباد ہوگئے۔

رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی تعلیم میں مذہبی جنگوں کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے جبکہ مسلمانوں کو صرف دفاعی جنگ کی اجازت دی گئی ہے:وَقَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡاؕاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ۔ (البقرۃ:۱۹۱) اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

تاریخ کا مطالعہ کرنے والے بخوبی واقف ہیں کہ ہجرت کے بعددس سالہ دَور نبوت میں ۷۰کے قریب ایسے مواقع پیش آئے جو جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے تھے لیکن نبی کریمﷺ کی انسان دوست اور امن پسند طبیعت نے نہایت فراست اور کامیاب حکمت عملی سے دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا اور ان خونریز جنگوں کو ٹال دیا۔ پس رسول کریمﷺ کے عمل سے ثابت ہے کہ آپؐ جنگوں کے لیے نہیں بلکہ انسانوں کو انسانوں کے قریب کرنے اور انہیں خدا تعالیٰ کا عبد بنانے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں۔ اگرچہ آنحضورﷺ کو خود حفاظتی کی خاطر مجبوراً جنگیں بھی لڑنا پڑیں لیکن اُن جنگوں کے دوران بھی آپؐ کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ کسی طرح جنگ ٹل جائے، خونریزی نہ ہواور امن کی فضا پیدا ہوجائے۔

پابندیٔ معاہدات کے متعلق قرآنی تعلیم

دنیا میں قیام امن کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ معاہدوں کی پاسداری نہ کرنا ہے۔ ترقی کے اس دَور میں بظاہر مہذب کہلانے والی بڑی بڑی حکومتیں کمزور ملکوں سے جو معاہدے کرتی ہیں اُس میں ایک تو انصاف سے کام نہیں لیتیں دوسرے جب اپنا مطلب نکل آئے تو اُن معاہدوں کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے کمزور ملکوں کو شدید نقصان سے دوچار کردیتی ہیں۔آنحضورﷺ پر نازل ہونے والی تعلیم میں امن کے قیام کے لیے تمام قوموں کے سامنے یہ راہ نما اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر حال میں معاہدوں کی پابندی کرنی چاہیے خواہ اس کے نتیجے میں کچھ نقصان ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے۔ اللہ تعالیٰ غیر قوموں کے ساتھ تعلقات کے سلسلہ میں معاہدے کی پاسداری کا حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا۔(بنی اسرائیل:۳۵)اور عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

اسلام میں پابندئ عہد کی بہت زیادہ اہمیت ہے حالت امن میں کیا گیا معاہدہ ہو یا میدان کارزار میں۔ ہردوحالتوں میں عہد کی پاسداری لازم ہے خواہ کتنا نقصان ہوجائے۔ اسلام نےدشمنوں کے حقوق کے سلسلے میں کیے گئے معاہدات کی پابندی مسلمانوں کی اولین ذمہ داری قرار فرمایا۔

پابندئ معاہدات میں اسوہٴ رسولﷺ

رسول اللہﷺ نے جتنے بھی معاہدات یا امان نامے عطا فرمائے ان کا بنیادی مقصد دشمنوں کے حقوق کا قیام تھا۔ چنانچہ اس کےلیے آپؐ نے اپنے صحابہ ؓکو اس کی پابندی کا عملی نمونہ بھی عطا فرمایا۔

حالت جنگ میں آپﷺ کی پابندئ معاہدہ اور پاسداری عہد کی ایک اعلیٰ مثال جنگ بدر کے موقع کی ہے۔ جس کے متعلق حضرت حذیفہ بن یمانؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بدر میں آنے سے کسی چیز نے نہ روکا۔ میں اور میرے والدحسیلؓ روانہ ہوئے کہ کفار قریش نے ہمیں آن پکڑا اور کہا کہ تم محمدﷺ کے پاس جانا چاہتے ؟ تو ہم نے کہا کہ ہم ان کے پاس نہیں بلکہ مدینہ جانا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم پھر مدینہ کو جائیں گے اور محمدﷺ کے ساتھ ہوکر نہیں لڑیں گے۔ جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو ہم نے یہ سارا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’تم دونوں مدینہ چلے جاؤ ہم ان کے عہد کی پاسداری کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں گے۔‘‘(صحیح مسلم کتاب الجہاد والسیر باب الوفاء بالعھد)

دوسری مثال حالتِ امن میں صلح حدیبیہ کے موقع کی ہے جب رسول اللہﷺ اور(قریش کا نمائندہ)سہیل بن عمرو۔ حدیبیہ میں دس سال کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اورابھی معاہدہ مکمل نہ ہواتھا کہ اسی سہیل کے بیٹے ابوجندلؓ مکہ سے فرار ہوکر بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے وہاں آپہنچے۔ سہیل نے معاہدہ کی اس شرط کے مطابق اپنے بیٹے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ صحابہؓ اس پر رضامند نہ تھے۔ سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا تو صلح بھی نہیں ہو سکتی۔ نبی کریمﷺ نے اس کی شرط کوتسلیم کرتے ہوئے ابوجندل بن سہیلؓ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کردیا۔ چنانچہ(مدتِ صلح میں مکہ سے فرار ہوکر)جو بھی آتا نبی کریمﷺ (معاہدہ کاپاس رکھتے ہوئے)اسے واپس کر دیتے، خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیۃ)

رسول اللہﷺ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی کسی معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کی۔اسی طرح نجران کے نصاریٰ سے بھی جو معاہدات ہوئے ان کی پابندی و ایفاکی نگرانی کے لیےان کی درخواست پر آپﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کو’’امین الامت‘‘ کا خطاب دیتے ہوئے وہاں بھجوایا اور انہوں نے واقعی اس خطاب کاحق ادا کردکھایا۔(بخاری کتاب المغازی باب قِصَّۃِ أَہْلِ نَجْرَانَ)

الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پابندئ معاہدات میں بھی ایک مثالی نمونہ پیش فرمایاہے اور معاہدین کے جان و مال اور عزت کی ہر طرح سے حفاظت فرمائی۔

سینٹ کیتھرین کے راہبوں کو امان نامہ

عہدنبویؐ میں سینٹ کیتھرین کے راہبوں کونہایت اہم تاریخی امان نامہ عطا ہوا۔ جس کی تمام شقیں قرآنی تعلیم کے مطابق مذہبی آزادی اور عدل و انصاف پرمبنی اور ان کے حقوق کی ضمانت تھیں۔ اس معاہدہ کی اہم شرائط یہ ہیں: ’’ان پرکسی بھی معاملہ میں کسی قسم کاکوئی جبراورزبردستی نہیں۔ ان کا کوئی پادری یا راہب تبدیل نہیں کیا جائے گا، اسی طرح نہ ہی کسی گرجے میں رہنے والے اور نہ ہی کسی زائر کو زیارت سے روکا جائے گا۔ ان کی کسی مذہبی عمارت کو مسمار نہیں کیا جائے گا۔ جو کوئی ایسے فعل کا مرتکب ہوگا تو اس نے اللہ سے عہد شکنی کی اور اپنے رسولؐ کی مخالف کی۔ راہبوں، پادریوں اور عابدوں پرکسی قسم کا جزیہ لاگو نہ ہوگا۔ اور مَیں (رسول اللہﷺ) ان کے ذمہ کی حفاظت کروں گا وہ خشکی و تری، مشرق و مغرب وغیرہ جہاں کہیں بھی ہوں۔ ان سے احسن طریق سے بحث کی جائے۔ ان سے رحمدلی کا سلوک کیا جائے۔ عیسائیوں سے جہاں کہیں بھی وہ مقیم ہوں، ناپسندیدہ معاملہ نہیں کیا جائیگا۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان کے ہاں ہو تو اس مسلمان کے ذمہ ہوگا کہ وہ اس عیسائی عورت کی مرضی اور خواہش کے مطابق اس کے گرجے میں اس کو نماز ادا کرنے دے اوروہ اس عورت کے درمیان اور اس کے دین کی خواہش کے درمیان حائل نہیں ہوگا۔ اگر عیسائیوں کو اپنے گرجوں وغیرہ کی تعمیر یا کسی مذہبی امر میں مدد کی ضرورت ہوتو مسلمانوں کو ہر طرح کی اعانت کرنی چاہیے۔ اس سے ان کے مذہب میں شرکت نہیں ہوگی صرف ان کے احتیاج کو رفع کرنا مقصود ہے۔‘‘(مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ للعہد النبوی والخلافۃ الراشدۃ جز۱ صفحہ۵۶۱تا۵۶۳)

پس رسول اللہﷺ نے غیر مسلموں کے حقوق کے لیےان معاہدات کے علاوہ اور بھی کئی معاہدات کیے اورامان نامے عطا فرمائے جن میں ان کے تمام حقوق کا بخوبی خیال رکھا گیا۔

عدل و انصاف کے ذریعہ امن کا قیام

دنیا کے امن کو تباہ کرنے میں ناانصافی کا بہت عمل دخل ہے جس کی وجہ سے رقابتوں میں اضافہ ہوتا ہے، عداوتیں بڑھتی ہیں اور نفرتیں پھولتی پھلتی ہیں۔ اسلام نے بلاتفریق مذہب وملت انصاف سے بڑھ کر احسان کا حکم دیا ہے تاکہ دلوں میں نفرتوں کی بجائے محبتوں کی کھیتیاں پھولیں پھلیں، امن کی فصلیں پروان چڑھیں اور وہ ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:اِنَّ اللّٰہَ یَأۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی(النحل: ۹۱) یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا حکم دیتا ہے۔…

دنیا میں عام دستور چلا آرہاہے کہ جب قوم کا کوئی بااثر فرد جرم کرے تو اُسے معاف کر دیا جاتا ہے لیکن کمزورطبقے کو چھوٹے چھوٹے جرائم میں سزا ئیں دی جاتی ہے۔ آنحضورﷺ نے ناانصافی کے اس طریق کونہ صرف سخت ناپسند فرمایاہے بلکہ آپؐ نے معاشرے کے ہر فرد کے لیے عدل وانصاف کے یکساں اصول متعین فرمائے اور انہی کے مطابق عمل بھی کروایا۔ آپؐ کا ارشاد مبارک ہے:اِنَّمَا اَھْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ اِنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَاِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ۔ وَایْمُ اللّٰہِ لَو اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنَۃَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا۔(صحیح بخاری۔ کتاب احادیث الانبیاء۔ باب حدیث الغار۔ روایت نمبر ۳۴۷۵)

تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا کوئی بڑا اور بااثر آدمی چوری کرتا تو اس کو چھوڑدیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے۔ خدا کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔

پس عدل و انصاف اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے اہم اصول ہیں جن کے بغیر کسی بھی معاشرے میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔اسلامی معاشرے میں بسنے والی غیر مسلم رعایا کواسلام کے نظام عدل میں برابر شریک کیا گیاہے اور اُنہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو ایک مسلمان کو دیے گئے ہیں۔مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں غیرحکومتوں اور غیر قوموں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کا بنیادی اصول بتایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا بنیادی اصول ہے جس پر کاربند ہوکر بین الملکی اور بین الاقوامی تعلقات کو خوشگوار رکھا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ایک ایسا دل عطاکیا تھا جوساری مخلوق کے لیے سراسر رحمت تھا۔آپؐ کی زندگی کا ہر پہلو مخلوق خدا کی ہمدردی اور اُن کی خیرخواہی کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا اورآپؐ کی جودوسخاسب کے لیے عام تھی۔ہرکوئی آپؐ کے حسن واحسان سے بہرہ ورہوتا اور ہر کسی کو اس چشمۂ رحمت سے فیضیاب ہونے کا موقع ملتا۔آپﷺ کی لائی ہوئی تعلیم میں غیر قوموں کے ساتھ نہ صرف تمدنی تعلقات قائم کرنے کی ہدایت موجود ہے بلکہ ان کے ساتھ انصاف سے پیش آنے کی نصیحت بھی فرمائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:لَا یَنۡہٰٮکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ وَلَمۡ یُخۡرِجُوۡکُمۡ مِّنۡ دِیَارِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡہُمۡ وَتُقۡسِطُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ۔(الممتحنۃ:۹)اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم اُن سے نیکی کرو اور اُن سے انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اسلام نے دشمنوں کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں پر بھی قیام امن کی خاطر بدی کے برابر بدلہ لینے کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم عفوودرگزر سے کام لو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارا یہ عمل زیادہ پسندیدہ قرار پائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ۔(الشوریٰ:۴۱) اور بدی کا بدلہ، کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے۔ پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والاہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

عالمی امن کا قیام

وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَاۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡن۔(الحجرات :۱۰)ترجمہ:اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ (صحابہؓ نے) کہا:یارسول اللہؐ!مظلوم کی تو ہم مدد کریں گے کیونکہ وہ مظلوم ہے، لیکن ظالم ہو تو اُس کی کیسے مدد کریں؟ آپؐ نے فرمایا: اُس کے ہاتھوں کو پکڑلو۔

آنحضرت ﷺصلح کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے اور کسی رنگ و نسل،قومیت، وغیرہ کی پرواہ نہ کرتے بلکہ مظلوم کو اس کا حق دلواتے۔فرمایا:’’تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حدقائم کرتے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘

یہ ہے امنِ عالم کی وہ بے نظیر تعلیم جو دنیا میں امن کی ضامن ہے۔جب حقدار کو اس کا حق ملے گا تبھی صلح وآشتی کا معاشرہ قائم ہوگا۔

انسانی مساوات کے اصول سے امن کا قیام

دنیا میں بڑے بڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ قومی تفاخرہے۔موجودہ دَور میں بظاہر Racismکو برا خیال کیا جاتا ہے اوراسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن دنیا کے اکثروبیشتر معاشروں میں Racismنہایت بھیانک شکل میں اپنا زہر گھول رہا ہے۔ جس کی وجہ سے انسانوں کے درمیان دُوریاں بڑھ رہی ہیں اور نفرت کی چنگاریاں آتش فشاں کا روپ دھار تی جا رہی ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ Racismکے نتیجے میں انسانی امن کو درپیش خطرات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آج کی دنیا میں جتنے فسادات ہیں اور انسان کو انسان سے جتنے خطرات لاحق ہیں ان میں جو بھی محرکات کارفرما ہیں، ان میں قومی برتری کا احساس سب سے طاقتور اور خطرناک محرک ہے۔اس کو Racismیا Racialismکہاجاتا ہے۔ یہ Racismاگرچہ بظاہر ناپسند کیا جاتا ہے لیکن آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح نازی دور میں جرمنی میں ہوا کرتا تھا۔یہ Racismسفید بھی ہے اور سیاہ بھی۔ اور سفید قوموں کے خلاف جو افریقن ممالک میں نفرتوں کے لاوے ابلتے رہتے ہیں، اس کو Blackیا سیاہ فام Racismکہا جاتا ہے۔ افسوس ہے کہ اب تک دنیا اس بھوت کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکی۔

یہ کوئی ایسا پودا نہیں ہے جسے آسانی سے اکھاڑ پھینک دیا جائے لیکن سب اہل حق جو سچ بات کو دیکھنا اور پہچاننا جانتے ہیں ان کو علم ہے کہ باوجود ہر قسم کی تقریروں اور Racismکے خلاف باتوں کے جگہ جگہ Racismکی جڑیں مختلف شکلوں میں مغرب کے تمام ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں اور مشرق کے تمام ممالک میں بھی پائی جاتی ہیں۔ کوئی دنیا کا خطہ ایسا نہیں جہاں نہ پائی جاتی ہوں۔ یہ ایسا زہر اور سخت جان پودا ہے کہ یہ معاشروں میں نہیں، فلسفوں میں بھی بڑی خاموشی کے ساتھ داخل ہوجاتا ہے۔ وہ ماہرین جو گہری نظر سے مغرب اور سفید فام روس اور چین کے تعلقات کا مطالعہ کرتے ہیں، خوب جانتے ہیں کہ دونوں مغرب اور سفید فام روس سفید Racismکو اشتراکیت پر ترجیح دیں گے اگر اشتراکیت کے پھیلاؤ کے ساتھ زرد فام چین اس دنیا پر غالب آجاتا ہے۔ دونوں ہی اپنی سفید فام برتری کو اس بات پر ترجیح دیں گے کہ اشتراکیت زرد فام چین سے متعلق ہوکر دنیا پر غالب آئے۔ کسی قیمت پر بھی وہ زرد فام چین کا دنیا پر غلبہ برداشت نہیں کرسکتے۔‘‘(عدل، احسان اور ایتاء ذی القربیٰ صفحہ ۲۲۹تا۲۳۰)

نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی تعلیم کے مطابق نسل پرستی کی ہر شکل نہایت مکروہ اور امن عالم کے لیے زہر قاتل ہے۔اسلامی تعلیم کے مطابق کوئی انسان اپنے خاندان، قبیلہ اور رنگ و نسل کی وجہ سے ممتاز نہیں ہوجاتااور نہ ہی پیدائشی طور پر کوئی انسان پاک یا ناپاک ہوتا ہے بلکہ بحیثیت انسان سب یکساں اور مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان قوموں اور قبائل کا فرق صرف تعارف اور پہچان کے لیے ہے۔ ہاں البتہ اگر کوئی فرق ہے تو وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے اعتبار سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے:یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّاُنۡثٰی وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔(الحجرات:۱۴)اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ باخبر ہے۔

اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’آنحضرتﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی عربی کو غیر عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ نہ ہی کسی غیر عربی کو عربی پر کوئی برتری ہے۔ آپﷺ نے سکھایا کہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ چنانچہ اسلام کی یہ واضح تعلیم ہے کہ تمام قوموں اور نسلوں کے لوگ برابر ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ سب لوگوں کو بلا امتیاز اور بلا تعصب یکساں حقوق ملنے چاہئیں۔ یہ وہ بنیادی اور سنہری اصول ہے جو بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کی بنیاد رکھتا ہے۔‘‘(عالمی بحران اور امن کی راہ،صفحہ ۷۵)

اس طرح تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دے کر انسانی مساوات اور امن عالم کا ایسا منشور پیش کیا گیا جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں پائی جاتی۔اسلام نے انسانوں کے درمیان پائے جانے والے تمام امتیازات کو ختم کرکے انہیں باور کرا دیاکہ قومی ونسلی تفریق کا مقصد باہمی معرفت و الفت کا حصول ہے، نہ کہ اجنبیت اور نفور کا موجب۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر کسی کو کوئی شرف حاصل ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے۔

مذہبی رواداری کے اصول سے امن عالم کا قیام

تاریخ عالم اور مذاہب کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے رسول کریمﷺ کے ذریعہ مذہبی آزادی کی روایت قائم ہوئی اور آپؐ نے سب سے پہلے مذہبی رَواداری کا درس دیا۔اسلام کی امن پسندی کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسلام ایک تبلیغی دین ہے جس کی تعلیم دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہے لیکن اس کے باوجود اسلام نے مذہب کے معاملہ میں کسی انسان پر کوئی پابندی یا قدغن نہیں لگائی بلکہ ہر انسان کو اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کا اختیار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِینِ۔(الکافرون:۷) تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔نیز فرمایا: لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ (البقرۃ ۲۵۷) کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔

گویا اسلام نے مذہب کو ہرانسان کا ذاتی فعل قرار دیاہے۔اللہ تعالیٰ نے بانیٔ اسلامﷺکے ذریعہ یہ اعلان عام فرمایا ہے کہالۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (الکہف:۳۰)حق وہی ہے جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کردے۔

اسلام نے مذہبی رواداری کے سلسلے میں جس کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے اس کی ادنیٰ سی مثال کسی دوسرے مذہب یا فرقے میںدکھائی نہیں دیتی۔ لیکن اس کے باوجود امن کے دشمن، اسلام کو بدنام کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اس کے بالمقابل بانیٔ اسلامﷺنے دشمنوں کی زیادتیوں کے باوجود اپنے ماننے والوں کوصبرو تحمل اور برداشت کادرس دیاہے اورانہیں عفو ودرگزر کا حکم دے کر اُن کے دلوں کو ہر انسان کے لیے نرم بنا دیا ہے تاکہ اُس کے اس پسندیدہ رویے سے معاشرے میں امن وسکون اور بھائی چارہ کی فضا قائم کی جاسکے۔چنانچہ قرآن کریم کے ذریعہ سلامتی کے اس پیغام میں مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ غیرقوموں اور غیر مذاہب والوں کی دشمنی کے باوجود،اُن کی تمام تر زیادتیوں اور تکلیفوں کے باوجود تم نے زیادتی سے کام نہیں لینا اور انصاف کوہاتھ سے جانے نہیں دینا۔وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ اَنۡ صَدُّوۡکُمۡ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اَنۡ تَعۡتَدُوۡا۔(المائدۃ:۳)اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجدِ حرام سے روکاتھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو۔

اسی طرح مکہ کی فتح کے بعد طائف سے بنو ثقیف کا ایک وفد آیا تو حضور نبی کریمﷺنے ان کو مسجد نبویؐ میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر تواضع کا خاص اہتمام فرمایا۔اس پر بعض لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ یہ تو مشرک لوگ ہیں ان کو مسجد نبوی میں نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ قرآن کریم نے مشرکین کو نجس یعنی ناپاک قرار دیا ہے۔ اس پر حضور نبی کریمﷺنے فرمایا: اس آیت میں ظاہری ناپاکی کی بجائے دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے۔ (احکام القرآن للجصاص صفحہ جلد۳صفحہ۱۰۹)

ایک فرانسیسی مورخ ارنسٹ رینان (Ernest Renan) لکھتا ہے:

’’In short, Mahomet appears to us a man amiable, sensible, faithful, and free from hatred. His affections were sincere; his character in general inclined to benevolence. When they took his hand in greeting, he responded cordially, and was never the first to let go. He saluted little children, and showed great tenderness of heart for women and the weak.’’Paradise,’’said he,’’is at the feet of mothers’’(Studies of Religious History by Ernest Renan, by William Heinemann London 1893,pg.175)

اس کامفہوماً ترجمہ یہ ہے کہ محمد(ﷺ) ہمارے سامنے ایک محبت کرنے والے، معقول، باوفا اور نفرت کے جذبات سے پاک انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آپؐ کی محبت پر خلوص تھی اور آپ کی طبیعت میں رحم کی طرف زیادہ جھکاؤ تھا۔ جب وہ (عرب کے لوگ) آپ کا ہاتھ مصافحہ کرنے کے لیے پکڑتے تو آپؐ نہایت گرمجوشی سے اس کا جواب دیتے اور کبھی پہلے اپنا ہاتھ نہیں چھڑاتے تھے۔ آپؐ چھوٹے بچوں کو سلام کرتے اور کمزورں اور عورتوں سے بہت زیادہ شفقت سے پیش آتے۔ آپؐ نے فرمایا:’’جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔‘‘

پیشوایان مذاہب کے احترام کے اصول سے قیام امن

آنحضورﷺنے اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کا کوئی فرستادہ یا رسول نازل ہوا ہے اُس پر ایمان لاؤ اور اُنہیں خدا تعالیٰ کا مقرب جانتے ہوئے اُن کی عزت کرو اوراپنے دل میں اُن کا احترام کرو تاکہ اس کے نتیجے میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے دلوں میں اچھے جذبات پیدا ہوں اور باہمی تعلقات خوشگوار رہیں۔سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں۔ اور خدا نے کروڑ ہا دلوں میں ان کی عزت اورعظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اس اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔‘‘(تحفہ قیصریہ،روحانی خزائن جلد ۱۲صفحہ ۲۵۹)

اسی طرح آنحضورﷺ نے مذہبی بحثوں میں اختلاف کی صورت میں دوسرے مذاہب کی قابل احترام ہستیوں کے احترام کی تعلیم دی ہے۔یہ مذاہب کو مذاہب کے قریب لانے کے لیے ایک راہ نما اصول ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے دنیا میں امن کی کوششوں کو بہت تقویت ملے گی۔ ایک مرتبہ مدینہ میں ایک مسلمان اور یہودی کے مابین رسول خداﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا معاملہ اٹھا تو آپؐ نے کمال فراخدلی اور عاجزی کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا:لَا تُخَیِّرُونِی عَلٰی مُوسٰی یعنی مجھے موسیٰ ؑ پر فضیلت مت دو۔(بخاری کتاب الخصومات،باب مایذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیہود، حدیث نمبر۲۴۱۱)

آنحضورﷺ کی بعثت کے اوّلین مقصدمیں توحید باری تعالیٰ کا قیام اور اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت شامل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود امن عالم کی خاطر آپؐ کے پیدا کرنے والے نے آپؐ کے ذریعہ یہ تعلیم نازل کی ہے کہ اپنے ماننے والوں کو مشرکوں کے بتوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمادیجئے۔ کیونکہ مسلمانوں کے اس عمل سے مشرکوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی اور اُن کے اندر بے چینی پیدا ہوگی جس سے معاشرے کا امن خراب ہوسکتا ہے۔ ا للہ تعالیٰ فرماتاہےوَلَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِعِلۡمٍ(الانعام:۱۰۹)اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ وہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے اللہ کو گالیاں دیں گے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمان کس قدر خوش قسمت قوم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کی صورت میں ایک ایسا عظیم وجود اور راہ نما عطا فرمایاہے جواُن کی جسمانی اور روحانی زندگی کے لیے بہترین رول ماڈل ہے۔ آنحضورﷺ کی ذات اقدس تمام مخلوقات کے لیے سراپا امن وعافیت ہے جس کے انواروجمال جا بجا منکشف ہوکر ایک عالم کو منور کررہے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آپؐ کے ماننے والے اِن انواروجمال سے فائدہ اٹھائیں اور دنیا میں قیام امن کے لیے آپ کی تعلیم پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور اسے ساری دنیا میں پھیلانے کے لیے کوشش جاری رکھیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اَللّٰھمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِک وَسَلِّم اِنَّک حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button