جلسہ سالانہ

جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۳ء: اجلاس مستورات کی کارروائی

جلسہ گاہ مستورات ميں جلسے کي کارروائي کا آغاز ٹھيک صبح دس بجے ہوا۔ اس اجلاس کي صدارت محترمہ ڈاکٹر فریحہ خان صاحبہ نے کي۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کريم سے ہوا۔ مکرمہ رضوانہ شمس صاحبہ نے تلاوت کی اور ان آیات کا اردو ترجمہ امۃالودود چیمہ صاحبہ نےپیش کیا۔ بعد ازاں ساعدہ عروج صدیقی صاحبہ نے حضرت مسیح موعود ؑکے اردو منظوم کلام میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔

ہے شکر رب عز و جل خارج از بیاں

جس کی کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں

نظم کے بعد محترمہ فرزانہ یوسف صاحبہ نے ’’خلافت کی بابرکت راہنمائی میں لجنہ اماءاللہ کی ترقی‘‘ کے عنوان پر تقریر کی۔

انہوں نے کہا کہ آج خلافت کی بابرکت راہنمائی میں لجنہ اماء اللہ کی ترقی کے موضوع پر اس شاندار روحانی اجتماع سے خطاب کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ لجنہ اماء اللہ کی ترقی اس قدر وسیع ہے کہ اس مختصر تقریر میں گذشتہ ۱۰۰ سالوں میں ان ترقیات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے جو خلفائے کرام کی راہنمائی میں حاصل ہوئیں۔ہم ان خواتین کے مسائل کو جانےبغیر لجنہ اماء اللہ کی ترقی کا صحیح معنوں میں اندازہ نہیں لگا سکتے جن کو خلافت کی بابرکت راہنمائی میسر نہیں۔ معاشرے میں خواتین کی ترقی کئی دہائیوں سے میڈیا میں بحث کا موضوع رہی ہے۔ایک ہفتہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کے بارے میں کوئی رپورٹ نہ پیش کی جاتی ہو۔عورتیں اپنی آواز سنانے، مساوات اور تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہیں۔ وہ انصاف اور مساوات چاہتی ہیں اور جب ان کی جائز اپیلوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے تو وہ ناراض ہوجاتی ہیں۔ ایک طرف دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں احتجاج کرنے والی خواتین کی خبریں اور انصاف کے لیے ان کے مایوس کن بیانات گردش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، خواتین کے ایک دلکش امیج کو خواتین کی ترقی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ خواتین کو دکھایا جانے والاجعلی feminism، سرسبز اور پرتعیش نظر آتا ہے، لیکن بہت سی خواتین کے لیے حقیقت ان میں سے کسی بھی چیز سے بہت دور ہے۔

اب تک خواتین کے لیے انصاف کی فراہمی میں اس قدر واضح کمی ہے کہ اقوام متحدہ نے اس سال خواتین کے عالمی دن کو خواتین کے لیے مساوات اور برابری کے موضوع کے لیے وقف کر دیا۔اقوام متحدہ کی تشویش حقیقت پر مبنی ہے۔ اسلام احمدیت سے باہر خواتین آج بھی روحانی، اخلاقی، فکری اور معاشی ترقی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

اسلام نے عورتوں کو روشن خیالی، انفرادی آزادی دی اور معاشرے کی زنجیروں سے آزاد کر کے ان کی حقیقی عزت اور تقدس کو بحال کیا ہے۔اسلام نے عورتوں کو جو آزادی دی ہے اس کی وجہ سے خلافت کی بابرکت راہنمائی کے ذریعے لجنہ اماء اللہ کی ترقی دوچندہو گئی ہے۔اسلام سے پہلے عورتیں اندھیرے، محرومی اور مایوسی میں زندگی بسر کرتی تھیں۔ لڑکیوں کو لعنت سمجھا جاتا تھا، عورتوں کو جائیداد سمجھا جاتا تھا اور غلاموں سے کم تر سمجھا جاتا تھا۔انسانی حقوق سے بھی محروم تھیں۔اسلام نے ان ناانصافیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے عورتوں کی روحانی، فکری، اخلاقی اور معاشی حیثیت کو بلند کیا اور انہیں حقوق دیے۔اسلام نے خواتین کو وراثت کے حقوق، تعلیم کے حقوق، تحفظ، مساوات اور بااختیار بنانے کے حقوق ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے دیے۔ جبکہ مغرب کو اب احساس ہوا ہے۔

اسلام نے عورتوں کی روحانی، فکری، اخلاقی اور معاشی معیار کو اس قدر بلند کیا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام میں عورت کے مقام کی گواہی مسلم خواتین کے ان بے نظیر تاریخی واقعات سے بھی ملتی ہے، جو اسلامی تاریخ میں عورت کا بلند مقام ظاہر کرتےہیں۔

سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی شخصیت بھی ایک عورت ہی تھیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کی بیوی حضرت خدیجہؓ جو کہ ایسا بلند روحانی مقام رکھتی ہیں کہ انہیں ام المومنین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا کہ دین کا نصف علم عائشہ صدیقہؓ سے سیکھو۔جن کا حافظہ اس قدر زیادہ تھا کہ ہزاروں احادیث ان سے مروی ہیں۔ اور مردوعورت دونوں کو اسلام سکھانے والی کہلاتی ہیں۔

حضرت ام سلمہ اسماءؓ نے مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ تقریر میں ایسا ملکہ رکھتی تھیں کہ انہیں خطیبۃ النساء کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو عظمت کا شاندار لباس عطا کیا ہے۔اسلام نے خواتین کے لیے ایک بہترین اکسیر فراہم کیا ہے اور خلافت اس کے اظہار کا ذریعہ ہے۔خلافت اور اسلامی نظام کی بحالی کے بغیر احمدی مسلم خواتین اور لجنہ اماء اللہ کی ترقی ناقابل تصور تھی۔لجنہ خلیفہ وقت کی ہدایات اور خلافت کی اطاعت کی وجہ سےترقیات کی چوٹی کی طرف گامزن ہیں اور انہیں اندھیروں میں ان مسائل کے حل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں جن کا حل اسلام نے پہلے ہی دنیا کو پیش کر دیا ہے۔

مقررہ نے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اقتباس پیش کیا اور کہا کہ خلافت کی اطاعت ہی لجنہ کی ترقی کی بنیاد رہی ہے۔

اپنی اہلیہ حضرت امۃ الحئی ؓکے ساتھ دینے پر حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ اماء اللہ کا قیام ۲۵؍ دسمبر ۱۹۲۲ء کو فرمایا جس کی پہلی ۱۴؍ ممبران تھیں اور ۱۷ اہم مقاصد بیان فرمائے جن میں اتحاد، تجدید، اخلاق اور اولاد کی تعلیم و تربیت کے اہم فرائض شامل ہیں۔ تب سے لجنہ اماءاللہ اسلام کی خدمت میں ہمیشہ کے لیے سرگرم ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک اسلام کی ترقی عورتوں کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں مدرسۃالخواتین کا افتتاح کیا جس کا مقصد خواتین کی تعلیم اور ہنر وغیرہ سکھانا تھا۔دینیات کلاس کا بھی آغاز فرمایا جس میں خواتین کو قرآن،حدیث،فقہ،تاریخ، اسلام کے سنہری واقعات، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا علم سکھایا جاتا تھا، اس کے علاوہ تقریر کرنے کا ہنر بھی سکھایا جاتا تھا۔

۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ناصرات الاحمدیہ کا قیام فرمایا جو کہ لجنہ اماء اللہ قادیان کے تحت ہی ایک تنظیم ہے تاکہ لڑکیوں کو کم عمری سے ہی دین کا علم سکھایا جا سکے۔ بچے کم عمر میں جلدی سیکھتے ہیں تو ان کی اخلاقی تربیت بھی زیادہ اعلیٰ رنگ میں ہوتی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس شوریٰ میں عورتوں کو نمائندگی کا حق دیا تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ بات کرسکیں، یہ اس لیے تھا کہ عورت کا کردار اسلام کی ترقی کے لیے ضروری سمجھا گیا۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔لجنہ اماء اللہ کے قیام سے اب تک تعلیمِ قرآن کے لیے خلفاء کی خصوصی توجہ رہی۔ آج خلافت احمدیہ کی راہنمائی میں لجنہ دنیا بھر میں کلاسز اور کورسز کے ذریعہ اشاعت تعلیمِ قرآن کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں۔ اسی سلسلہ میں حضور انور ایدہ اللہ کی راہنمائی سے یوکے میں عائشہ اکیڈمی کا قیام ہوا۔جہاں ورکشاپس اور کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لجنہ کے علمی معیار کو بڑھانے کے لیے ریفریشر کورسز میں دینی معلومات اور روحانی معیار کو بڑھانے کے طریق بتائے جاتے ہیں۔

خواتین کی تعلیم کے سلسلہ میں بھی خلفائے کرام نے خصوصی توجہ کی۔ قادیان اور ربوہ میں سکول کالجز کا قیام ہوا، ۱۹۰۹ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے قائم کردہ مدرسة البنات کا حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اجرا فرمایا۔ ۱۹۰۸ء میں سر ولیم ولسن نے امپیریل گزٹ آف انڈیا میں لکھا کہ آخری مردم شماری کے مطابق انڈیا میں خواتین کی ۰.۶ فیصد شرح خواندگی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے توجہ کی اور دینی و دنیاوی تعلیم کو یقینی بنایا۔

آج احمدی خواتین ڈاکٹرز، ٹیچرز، بزنس ویمن اور جرنلسٹ بن کر انسانیت کی خدمت بجا لا رہی ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی قائم کردہ نصرت جہاں سکیم کے تحت متعدد احمدی خواتین ٹیچرز و ڈاکٹرز نے پسماندہ ملکوں میں خدمات بجالائیں۔کئی خواتین انسانیت کی خدمت کی خاطر جماعتی سکولز اور ہسپتالوں میں خدمت بجا لاتی ہیں۔ خواتین کے معاشی استحکام کےلیے خلیفۂ وقت کی راہنمائی سے اس وقت لڑکیوں کے لیے دستکاری سیکھنے کے لیے کئی ادارے قائم ہیں۔ جہاں سے سیکھ کر وہ اپنا کاروبار کر رہی ہیں اور اپنا گھر بار سنبھال رہی ہیں۔ اور اس طرح ان کو مالی قربانی کرنے کی توفیق بھی مل رہی ہے۔لجنہ اماء اللہ نے ۱۹۲۶ء میں مسجد فضل لندن، پھر مبارک مسجدہالینڈ اور ڈنمارک کی مسجد نصرت جہاں کے لیے مالی قربانی پیش کی۔حضرت خلیفة المسیح الرابعؓ نے ۲۰۰۳ء میں مریم شادی فنڈ کی بنیاد رکھی۔ اس ضمن میں لجنہ نے نمایاںمالی و عملی خدمات بجالائیں۔صد سالہ جوبلی کے موقع پر لجنہ اماء اللہ یوکے سیرالیون میں میٹرنٹی ہسپتال کےقیام کے لیے فنڈز اکٹھے کر رہی ہیں جہاں احمدی خواتین ڈاکٹر خدمات بجا لائیں گی۔

خلافت احمدیہ کے زیرسایہ لجنہ اماء اللہ اسلام کی ایک زبردست آواز بن چکی ہے۔ ایم ٹی اے پر، سوشل میڈیا پر، ریڈیو پر خواتین اور ان کے حقوق کے لیے روشنی فراہم کررہی ہے لجنہ اماء اللہ کے پیس سمپوزیم میں سینکڑوں خواتین شامل ہوتی ہیں۔خلافت احمدیہ کی راہنمائی میں لجنہ اماء اللہ آزاد رہنا، معاشرے میں حیادار لباس، انسانیت کے لیے خدمت کے مواقع فراہم کرنا، ماں، بہن بیٹی کے طور پر مردوں کے سایہ کے بغیر بھی چلنا سکھاتی ہے۔

لجنہ اماء اللہ کو اس بات پر فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ خادمائیں تبلیغ اسلام میں کوشاں ہیں۔ اس تنظیم میں شامل ہو کر تقویٰ کی شاہراہ پر چلنا آسان ہے۔ لجنہ کی کئی نسلوں نے خلفاء کی دعائیں سمیٹی ہیں اور ان دعاؤں کا پورا ہونا مشاہدہ کیا ہے۔ جس کی ایک جھلک پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

خلافت امید کی وہ کرن ہے جولجنہ اماء اللہ کو تحفظ اور خدائی ہدایت کی پوشاک عطا کرتی ہے۔ لجنہ اماء اللہ کا اس کے علاوہ کوئی مطمح نظر نہیں کہ وہ آئندہ نسل کے راستی کے معیار بلند کریں۔ لجنہ قومیں بناتی ہے یعنی ہم قومیں بنانے والی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انورکی دعاؤں کا وارث بنائے اور ہمیں ہمارے اہداف کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے گھروں، شہروں قوموں اور پوری دنیا میں روحانی انقلاب لانے والا بنائے۔

اگلی تقریر محترمہ شرمین بٹ صاحبہ، سلاؤ جماعت کی تھی جس کا عنوان ’’معاشرے میں امن پیدا کرنے میں احمدی خواتین کا کردار‘‘ تھا۔

انہوں نے تقریر کے شروع میں سورة الحشر کی آیت ۲۴ مع ترجمہ پیش کی۔ اور اس سوال کہ ایک احمدی مسلمان کے لیے امن کے اصل مفہوم کیا ہے؟ کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ کا اقتباس کے حوالہ سے بتا یا کہ ’’اللہ تعالیٰ کا ایک نام مُؤْمِن ہے۔ جو ترجمہ مَیں نے پڑھا ہے، اس میں مُؤْمِنْ کے معنی امن دینے والے کے کیے گئے ہیں۔ پس ہر شخص کا انفرادی امن بھی اور معاشرے کا امن بھی اور دنیا کا امن بھی اُس ذات کے ساتھ وابستہ رہنے سے ہے جو امن دینے والی ذات ہے جس کا ایک صفاتی نام جیسا کہ آپ نے سنا اَلْمُؤْمِنْ ہے۔ پس اِس نام سے فیض بھی وہی پائے گا جو اللہ تعالیٰ کے حکم صِبْغَۃَ اللّٰہ کہ اللہ کے رنگ میں رنگین ہو، پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘

مقررہ نے حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد کے حوالہ سے بتایا کہ معاشرے کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں۔ گو مختلف صنف سے اُن کا تعلق ہے لیکن میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ اگر اِس اکائی میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں کیونکہ ایک سے دو اور دو سے چار بن کے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ حضور نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تقویٰ سلامتی کا تعویذ ہے۔

مقررہ نے کہا کہ امن کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور معاشرے کی بنیادی اکائی میاں اور بیوی ہیں، چنانچہ معاشرے میں امن پیدا کرنےکا آغاز ایک پُر امن گھر سے ہوتا ہے اور گھر کی روایتی ذمہ داری عورت کی ہے اور میرا عنوان معاشرتی امن کے پیدا کرنے میں بالخصوص احمدی خواتین کے کردار سے ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اسلامی تعلیم کے لحاظ سے معاشرے کے امن کی تشکیل کی بنیادی اینٹ یعنی فرد کے اعلیٰ اوصاف میں مسابقت فی الخیرات، اعزہ و اقرباء سے محبت، خدمتِ خلق، رضائے باری تعالیٰ کا حصول، لوگوں کے دکھ درد سے ہمیشہ باخبر رہنا اور محبت و شفقت کو بھی شامل فرمایا۔

اسلام کی خوبصورت تعلیمات ایک پرامن معاشرے کی ضامن ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ا ن کی تجدید فرما کر دنیا اور جماعت کو نصائح کیں۔ جن سے ۱۳۴؍ سالوں میں احمدی خواتین کی پرامن معاشرہ پیدا کرنے کی کاوشوں میں راہنمائی ہوئی۔ بے شمار احمدی خواتین معاشرے کو پُرامن بنانے کی کوشش میں انفرادی طور پر بھی،بیٹی، بہن، ماں، بیوی، ساس اور بہو کی حیثیت سے بھی اسلام کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک لجنہ ممبر کی حیثیت سے بھی اور ایک شہری کی حیثیت سے بھی بھر پور کردار ادا کرتی ہیں۔

احمدی خواتین کے کردارمیں لازم ہے کہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا زوجہ محترمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ہو جنہیں ہم احمدی حضرت اماں جان کہتے ہیں۔

حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے اپنی مثالی شخصیت کے ذریعہ گھروں میں، معاشرے میں امن پیدا کرنے میں عظیم الشان کردار ادا کیا جو احمدی خواتین کے لیے ایک لائحہ عمل بن گیا۔ ضروری ہے کہ ہماری نسلیں اِس لائحہ عمل کو جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کےبیان کردہ بنیادی اوصاف وسیع دائرہ میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی ذات میں نمایاں تھے۔

ایک بیوی کی حیثیت سے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا کردار، کے بارہ میں ان کی اپنی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تحریر کرتی ہیں: ’’حضرت اماں جان کا وجود بھی اس زمانہ کی مستورات کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ بنا کر اپنے مُرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی موعود علیہ السلام کے لئے رفیقِ حیات منتخب فرما کر بھیجا تھا اور آپ کی تمام حیات، آپ کی زندگی کا ہر پہلو اِس پر روشن شہادت دیتا رہا اور دے رہا ہے اور ہمیشہ تاریخِ احمدیت میں مہرِ درخشاں کی مانند چمک دکھلا کر شہادت دیتا رہے گا۔ آپ نیک عصمت مآب اور تابعدار بیٹی رہیں۔ بہترین رفیق اشاروں پر چلنے والی سچے دل سے ایمان لانے والی اور اپنے عالی شان شوہر کی عاشق بیوی رہیں۔ ‘‘

ایک ماں گھر کی فضا پر امن بناتی ہے جومعاشرے پر اثر انداز ہوا ہے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں:’’آپ بہترین ماں تھیں آپ کا پُر از محبت سینہ صافی نازک ترین مادرانہ جذبات کا حامل تھا۔ اتنا پیار اور اتنا خیال آخر ضعیفی کی عمر تک شاید ہی کسی ماں سے اولاد کو ملا ہو گا۔ ‘‘

حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی ذات میں لوگوں کے دکھ درد سے ہمیشہ باخبر رہنا اور محبت و شفقت کا وسیع دائرہ بےحد نمایاں اوصاف تھے۔ مقررہ نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی تحریرات سے حضرت اماں جان کے اوصاف وعادات بتائے۔

حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اس اسوہ کو احمدی خواتین نے اپنی زندگیوں میں ذاتی طور پر بھی اور مِن حَیثُ الجماعت بھی اپنانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ اور یہاں اس اثنا میں لجنہ اماء اللہ نے ایک تنظیم کی حیثیت سے جو کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہے، اُس کا ذکر بھی ضروری ہے۔

امسال الحمد للہ لجنہ کے قیام کو ایک سو سال پورے ہو گئے ہیں۔ لجنہ کی تنظیم کی بنیاداسلامی اصولوں پر رکھی گئی تا احمدی عورتیں تعلیمی ذہنی، فکری اورعملی ترقی کریں۔ یہ ایک زبردست احسان تھا ہم سب پر۔ قادیان میں چودہ ممبرات سے شروع ہونے والی وہ تنظیم جلد ہی ایک بین الاقوامی تنظیم بن گئی۔ لجنہ کی تنظیم بنانے سے قبل حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اِس کے سترہ بنیادی مقاصد بیان فرمائے۔اِن میں سے دو کا تعلق براہِ راست معاشرے میں امن پیدا کرنے سے ہے۔

مقصد نمبر پندرہ میں بیان فرمایا: چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں۔ چھوٹے بڑے، امیر غریب سب کا نام جماعت ہے اس لیے ضروری ہے کہ انجمن میں غریب و امیر کی تفریق نہ ہو بلکہ غریب و امیر دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔

اور مقصد نمبرسولہ میں مز ید فرمایا: اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمتِ اسلام کے لیے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لیے بعض طریق تجویز کیے جائیں اور اُن کے مطابق عمل کیا جائے۔

معاشرے کو پُر امن بنانے کے لیے یہ جامع تدابیر ہیں۔ پچھلے ایک سو سال میں لجنہ نے اِن مقاصد پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور یقیناً یہ کوشش جاری ہے۔ لجنہ کےدوسرے ملکوں میں قیام سے اِن کاموں کی نوعیت بین الا قوامی ہو گئی اور معاشرے میں امن پھیلانے کے اِن اقدام پر دنیا میں ہر جگہ عمل درآمد ہونے لگا۔

لجنہ کے تمام شعبے کسی نہ کسی رنگ میں معاشرے میں امن قائم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ لجنہ کی اپنی تنظیم آپس میں پیار محبت اور مساوات کو اس طرح فروغ دیتی ہے کہ یہ سب ہماری زندگیوں کا حصہ بن گیا ہے اور یہ ہماری بے حد خوش قسمتی ہے کہ ہم اِس خوبصورت نظام میں بندھے ہیں۔

لجنہ کے دو شعبے خدمت خلق اور تبلیغ خاص طور پر اور فعال طور پر معاشرے میں امن اور ہم آہنگی پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں۔

خدمت خلق کا شعبہ معاشرے میں مستحقین کی مدد، بنی نوع انسان کے دکھ درد کو دور کرنے اور نسل، ثقافت اور مسلک سے بالاتر ہو کر معاشرے میں محبت اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے کاموں میں شامل ہو کر احمدی خواتین اپنے اپنے دائرے میں امن کی فضا پیدا کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔

پھر شعبہ تبلیغ کا بنیادی مقصد اسلام اور احمدیت کا صحیح پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے۔ یہ کام مختلف اقدامات، اور تقریبات منعقد کرنے کے ذریعے سےحاصل کیا جاتا ہے، جن میں بین المذاہب سمپوزیم، امن سمپوزیم شامل ہیں۔ یہ نقطہ کہ تبلیغ کا پیغام جو کہ حقیقی اسلام کا پیغام ہے مکمل طور پر امن اور ہم آہنگی پر مبنی ہے اور ہمارا مَقُولہ یا ماٹو محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں، اِس بات کا ضامن ہے کہ لجنہ کا یہ کام کُلیۃً معاشرے میں امن پیدا کرنے اور اُسے فروغ دینے کا کام ہے جو احمدی خواتین ایک سو سال سے سر انجام دے رہی ہیں۔

مقررہ نے آخر میں حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اقتباس پیش کیا۔ جس میں حضور انور نے فرمایا تھا کہ ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو، اُن سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ یہ حسنِ سلوک ہے جس سے تمہارے معاشرے میں صلح اور سلامتی کا قیام ہو گا قریبی رشتہ داروں میں تمام رحمی رشتہ دارہیں… یہ سلوک ہے جو اللہ کے سلامتی کے پیغام کے ساتھ سلامتی پھیلانے والا ہوگا۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اِن تمام تر فیضان سے فائدہ اٹھا کر معاشرے میں امن کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔

اس کے بعد محترمہ قدسیہ وارڈ صاحبہ نے اپنے قبولِ احمدیت کے واقعات پر مشتمل تقریر کی۔ انہوں نے کہا کہ میری گفتگو کا موضوع ’’میرا احمدیت کی جانب سفر‘‘ ہے۔

یہ ۱۹۷۰ء کے موسم خزاں کی بات ہے جب میں نے پہلی بار اسلام احمدیت کے بارے میں سنا۔ لیکن میرا یقین ہے کہ میرا سفر اس سے بہت قبل شروع ہو چکا تھا۔

میں جب پیچھے نظر دوڑاتی ہوں تو یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری زندگی کے اس سفر میں میری راہنمائی کی ہے۔اور میری اسلام کی طرف راہنمائی کی اور مجھے میرا سفر جاری رکھنے میں مدد کی اور میرے اسلام کے علم میں جماعت احمدیہ،حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعودؑاور مہدی معہودؑ اور خلفاء کی تعلیمات کے ذریعے اضافہ کیا۔

میری پیدائش مغربی مڈ لینڈ ز برطانیہ میں ایک متوسط گھرانے میں ہوئی اور میرا پانچ بہن بھائیوں میں چوتھا نمبر ہے۔عقائد کے لحاظ سے مسیحی،لیکن سختی سے ان پر عمل پیرا نہ ہوتے ہوئے میرے والدین نے وہی کیا جو اس وقت اکثر لوگ کیا کرتے تھے۔ جب میں بچی تھی تو مجھے چرچ آف انگلینڈ میں بپتسمہ دیا گیا پھرایک چرچ کے ایک سنڈے سکول میں بھیجا گیا۔

سنڈے سکول میں میں نے بائبل کی کہانیاں،نظمیں اور دعائیں سیکھیں۔ میری والدہ مجھے کھانے سے پہلے اور سونے سے پہلے کی دعائیں سکھاتی تھیں سکول کی ابتدا بھی مسیحی دعاؤں اور نظموں سے ہوتی تھی۔

میرے خیال میں اپنے بچپن اور ابتدائی جوانی کی عمر میں میں ایک باعمل مسیحی تھی۔ میری سماجی زندگی کلیسا کے کاموں،براؤنیزمیتھوڈسٹ چرچ،بپٹسٹ چرچ کی گرلز بریگیڈاور بعد میں یوتھ کلب کے ساتھ جڑ ی ہوئی تھی۔ گیارہ سے سولہ سال کی عمر کے درمیان میں نے مسیحیت پر عمل پیرا ہونے کا انتخاب کیا۔میں بپتسمہ لینا چاہتی تھی۔لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔اور یہ نہ ہو سکا۔اس کو میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے سفر کی جانب پہلا قدم سمجھتی ہوں۔

اپنی نوجوانی کی عمر میں میں نے چرچ کے کاموں میں شامل ہونا اور میل جول چھوڑ دیا۔اور میں نے باسکٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔میں اپنی پڑھائی کی طرف متوجہ ہو گئی اور اس طرح میں کلیسا سے دور ہوتی چلی گئی۔اگرچہ میں نے جی سی ای ’او‘ لیول میں مذہبی علوم کا بھی انتخاب کیا تھا۔

میں نے اساتذہ کی تربیت کے ایک کالج میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔کلیرنگ سسٹم کے ذریعے مجھے ایک ایسے کالج میں نشست ملی جو میری فہرست میں نہیں تھا۔یہ کالج ڈونکاسٹر جنوبی یارکشائر میں تھا۔ یہ دوسرا قدم تھا۔

کالج کے آغاز کے ابتدائی ہفتوں میں میری ملاقات Nevilleسے ہوئی۔ اس نے بھی خود اس کالج کا انتخاب نہیں کیا تھا بلکہ کلیرنگ سسٹم کے ذریعے ہی اس کو بھی وہاں نشست ملی تھی۔بعد میں وہ میرے شوہر بن گئے اوروہ اس سفر میں گذشتہ پچاس سال سے میرے ساتھ ہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی ملاقات میں ہم نے حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰؑ کی والدہ کے متعلق بات کی۔میرا خیال ہے کہ اس موضوع کے متعلق ہم کچھ علم اور اپنی مخصوص رائے رکھتے تھے۔ یہ تیسرا قدم تھا۔

جب ہم نے اپنی ٹریننگ مکمل کی تو نویل اور میں نے اساتذہ کی نشستوں پر برمنگھم شہر میں عرضی گزارنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں ہینڈ ورتھ میں تعینات کر دیا گیاجو کہ اس وقت بھی برمنگھم کا کثیر ثقافتوں پر مبنی علاقہ تھا۔ یہ چوتھا قدم تھا۔

کچھ ہفتوں بعد نویل نے میری ملاقات ایک ہم منصب استاد سے کروائی جوسکول میں اس کا trainer تھا جہاں وہ کام کرتا تھا اور وہ دونوں ہی چھٹے سال کے طلبہ کو پڑھاتے تھے۔یہ مطیع اللہ ڈار صاحب تھے جو ایک احمدی مسلم تھے اور میرا خیال ہے کہ وہ اس جماعت احمدیہ برمنگھم کے صدر تھے۔ڈار صاحب نے اسی طرح سے ہمیں تبلیغ کی جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہمیں بعد میں تبلیغ کرنا سکھایا جب وہ یہاں بعد میں یوکے آگئے تھے۔لیکن مجھے اور نویل کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ڈار صاحب ہمیں بھی اسی طرح تبلیغ کر رہے تھے۔

جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو سمجھ آتا ہےکہ یہ نظام کتنا مؤثر ہے۔ڈار صاحب نے مجھے اور نویل کو اپنی گاڑی میں میرے گھر تک چھوڑنا شروع کیا۔ ابتدا میں تو انہوں نے کافی یا چائے کے کپ کے لیے میرے گھرآنے سے منع کیا لیکن کچھ ہفتوں کے بعد انہوں نےاس پیشکش کو قبول کر لیا۔ یہ پانچواں قدم تھا۔

ڈار صاحب کو پہلے سے ہی علم ہو گیا تھا کہ نویل کو تاریخ میں دلچسپی ہے۔چنانچہ رومن تاریخ اور مشرق وسطیٰ میں رومیوں سے شروع ہونے والی بحث جلد ہی حضرت عیسیٰ اور ان کے قرآن میں ذکر کی طرف مڑ گئی۔اس موقع پر میں زیادہ سرگرمی سے اس بحث میں شامل ہو گئی کیونکہ میں نے سکول اور کالج میں مذہبی علم حاصل کیا ہوا تھا۔ اور میں ایک باعمل مسیحی رہ چکی تھی۔

ہم دونوں کو ان کی فراہم کردہ معلومات متاثر کن لگیں۔اور گفتگو کا یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک چلا۔میں دیکھ رہی تھی کہ نویل سنجیدگی کے ساتھ ان خیالات کی طرف مائل ہو رہا تھا۔ چنانچہ اس سال جب نویل کی سالگرہ قریب آرہی تھی تو میں نے ڈار صاحب کو کہا کہ کیا وہ ان موضوعات کے متعلق کتابیں مہیا کر سکتے ہیں جن پر ہم گفتگو کرتے ہیں کیونکہ میں یہ کتابیں نویل کو اس کی سالگرہ کے موقع پر تحفہ کے طور پر دینا چاہتی ہوں۔میں نے کتابیں خریدنے کےلیے ان کو دس پاؤنڈز یا اس وقت دس شلنگ دیے۔

یہ جنوری۱۹۷۱ء کی بات ہے۔ہم اسی طرح سے چلتے رہے کہ سکول کے بعد چائے کے ساتھ پر لطف گفتگو اور کتابیں پڑھنا۔نویل اور مجھے لند ن میں مسجد فضل کے بارے میں کچھ پتا چلا اور اگلی چھٹیوں کے دوران ہم نے اس مسجد میں جانے کا فیصلہ کیا۔

وہاں پہنچے تو ایک نرم خو نوجوان نے دروازہ کھولا۔ اورہمارے آنے کامقصد دریافت کیا اور ہمیں اندر آنے کی دعوت دی۔یہ عطاء المجیب راشد صاحب سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔جو اس وقت مسجد کے نائب امام تھے۔انہوں نےکافی وقت ہمارے ساتھ بات کرنے میں گزارا۔ ہمیں چائے اور بسکٹ پیش کیے اور محمود ہال کے اوپر لائبریری دکھائی۔انہوں نے ہمیں وہاں چھوڑا اور نماز پڑھانے چلے گئے اور پھر واپس ہمارے پاس آکر شریک گفتگو ہو گئے۔میرا خیال ہے کہ ہم نے وہاں کئی گھنٹے گزارے۔

جب ہم برمنگھم واپس آئے تو ہم نے یہ گفتگو اور کتابیں پڑھنا جاری رکھا۔ زیادہ تر کتب چودھری سر ظفر اللہ خان صاحبؓ کی تھیں۔

کئی ماہ تک گفتگو، کتابوں اور کافی کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔بتدریج میں ایک ایسے مقام پر آگئی جہاں میں نے کہا کہ ’’اب یہ سب قابل فہم ہے‘‘۔یہ بہت ساری باتوں کی وضاحت کرتا ہے۔مذہب کو بامقصد ثابت کرتا ہےاور مذہبی تاریخ اور سائنس کو ایسے انداز میں جوڑتا ہے جو کہ مکمل طور پر منطقی ہے۔اس سب سے یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ دنیا میں کیوں اتنے سارے مذاہب پر عمل کیا جا رہا ہے۔

میں نے فیصلہ کیا کہ ایک طریقہ ہے کہ جس سے سو فیصد یقین ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا سے خود پوچھا جائے۔میں اپنے مسیحی پس منظر کی وجہ سے جانتی تھی کہ عیسیٰ ؑ نے کہا ہےکہ ’’پوچھو تمہیں بتایا جائے گا، تلاش کرو تو تم پا لو گے‘‘۔ چنانچہ میں نےپوچھنے کا فیصلہ کیا۔اس وقت تک ہم ابھی جماعت کے کسی اور ممبر سے نہیں ملے تھے۔

چالیس روز سے قبل ہی مجھے میری دعاؤں کا جواب مل گیا۔مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام احمدیت ہی درست راستہ ہے۔میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھے خواب آیا یا کشف ہوا یا کسی بیرونی شکل میں کوئی جواب ملا۔لیکن میں اس بات کو یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ مجھے خدا کی طرف سے یقین دہانی نصیب ہو گئی۔اس کےعلاوہ جو یقین ہے اور جو میری دعاؤں کے جواب کا حصہ ہے وہ یہ ہےکہ گذشتہ پچاس سالوں سے مجھے اس بات(احمدیت کی سچائی ) کا یقین مستحکم ہے۔ اور کبھی کسی شک نے مجھے اسلام احمدیت کی سچائی کے متعلق پریشان نہیں کیا۔

میں یہ تو نہیں کہتی کہ میں بہترین طریق پر خود کو انتہائی مطیع و فرمانبردار اور اپنے آپ کو مکمل طور پر سر نگوں کرنے والی ہوں۔ لیکن میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ یقین مستحکم نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا اور یہی وہ بات ہے جس کے لیے میں نے دعا کی تھی۔

بطور اساتذہ ہمارا پہلا سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔اور گرمیوں کی طویل چھٹیاں قریب آرہی تھیں۔مجھے پتا تھا کہ اب شاید ہماری گفتگو بھی اختتام کو پہنچ جائے۔میں نے ڈار صاحب کو پوچھا کہ اب ہم کیا کریں؟ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے جماعت میں شامل ہونے اور بیعت کرنے کا کہا۔چنانچہ جولائی ۱۹۷۱ء میں ہم باقاعدہ جماعت احمدیہ مسلمہ میں شامل ہو گئے۔اور برمنگھم میں باقی ممبران جماعت کو ملنا شروع کر دیا۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اور ان کی جرمن اہلیہ جولیانہ کو پ مین تھیں جن کو میں آنٹی خدیجہ کے نام سے جانتی تھی۔جب ہماری بیعت منظور ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے میرا نام قدسیہ رکھا اور میرے شوہر کا نام ناصر وسیم۔اس وقت سے میں قدسیہ ہی ہوں۔

ان گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہم میرے شوہر کے آبائی شہر لیڈز چلے گئے اور ایک مہم جو بن چکے تھے۔ہم اس وقت کے صدر جماعت لیڈز کے گھر گئے اور اپنا تعارف کروایا۔ بلاشک وشبہ ہمیں کشادہ دلی کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا۔چنانچہ جماعت کے ساتھ ہمارے وسیع پیمانے پر تعارف کا آغاز ہوا۔

اس وقت تک میں اور میرا شوہر شادی شدہ نہیں تھے۔ہم اس کے گھر والوں سے مل کر آئے اور شادی کی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا۔ ۲۱؍اکتوبر ۱۹۷۱ء کو ہم ایک عوامی تقریب میں قانونی طور شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ شاید رمضان کا پہلا دن تھا اور اس موقع پر خاندان کے افراد،ڈاکٹر نذیر اور آنٹی خدیجہ موجود تھیں۔تئیس اکتوبر کو ہم لندن گئے اور مسجد فضل میںباجوہ صاحب امام تھے جنہوں نے ہمارا نکاح پڑھایا۔ عطاء المجیب راشد صاحب اور عزیز دین صاحب گواہ تھے۔

چونکہ ہمارے خاندان کے افراد مسلمان نہیں تھے اس لیے ہمیں اسلامی شادی کے متعلق کچھ بھی علم نہیں تھا۔ چنانچہ ہم نے راشد صاحب سے مشورہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ جب نکاح کی تقریب ہوتی ہے تو شیرینی اور کھانے کی چیزیں بانٹی جاتی ہیں۔چنانچہ دوبارہ دس پاؤنڈز دیے گئے۔کیونکہ رمضان تھا اس لیے کھانا مغرب کے بعد پیش کیا گیا۔میرے علم کے بغیر اس وقت کی صدر لجنہ یوکے نے مقامی جماعت کے نئے شادی شدہ جوڑوں کو مسجد میں ہمارے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دے دی۔میں جانتی ہوں کہ آپ میں سے کچھ یہاں موجود ہیں جو اس وقت نئے شادی شدہ جوڑ وں میں شامل تھے۔مجھے یاد ہے کہ سلام صاحب مجھے مکمل سفید لباس میں دیکھ کر حیران ہوئے تھے کیونکہ دلہن کا یہ لباس برطانوی روایت ہے لیکن پاکستان کے برعکس جہاں یہ بیوہ کا لباس ہے۔انہوں نے مجھے اس بات پر قائل کیا کہ سفید دوپٹے کو سرخ سے تبدیل کر لیں۔ یہ میرا جماعتی اور اسلامی کلچر کے امتیاز کا پہلا موقع تھا۔میں اس کھانے کا تنوع دیکھ کر حیران رہ گئی جو دس پاؤنڈ میں راشد صاحب اور سلام صاحب نے تیار کیا تھا۔بہت سال بعد مجھے اس بات کا علم ہوا کہ وہ اصل میں افطاری تھی جس کے لیے رقم کسی اور نے مہیا کی تھی۔وہ جو کوئی بھی تھے اللہ ان کو اس دعوت کا اجر دے جو انہوں نے ہمیں دی تھی۔

برمنگھم واپسی پر اسلامی تعلیمات کے متعلق ہماری تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔چونکہ یہ رمضان تھا اس لیے ہم روزانہ سکول کے بعد مغرب کی نماز اور روزہ کھولنے کے لیے ڈاکٹر نذیر صاحب کے گھر جاتے جہاں کچھ دوسرے ممبران جماعت بھی پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب میں آنٹی خدیجہ کے پاس بیٹھتی تھی اور نماز اور روزہ کے متعلق بنیادی تعلیم حاصل کرتی اور اس کا مطلب جانتی تھی۔ہم نے ایسے بہت سے خوشگوار اوقات گزارے جہاں ہم یہ بات کرتےکہ کن چیزوں کی اہمیت ہے،اسلامی روایات کیا ہیں اور ثقافتی عادات کیاہیں۔یہ ایک ایسی دوستی تھی جو بہت سالوں تک چلی اورآنٹی خدیجہ میری اور میرے بچوں کی زندگی کے انتہائی اہم مواقع پر ساتھ رہیں۔

جب بھی میں اپنے گذشتہ پچاس سالوں پر نظر دوڑاتی ہوں تو میں وہ راستہ دیکھنے میں کامیاب رہتی ہوں۔ یعنی اسلام احمدیت کا راستہ۔

اللہ کے فضل سے یہ سفر جاری رہا اور مجھے یوکے میں جماعتوں، مڈلینڈز اور فرانس میں جماعت کے مختلف حصوں کا جز بننے کی سعادت ملتی رہی۔میں نے مختلف لوگوں سے جو مجھے ملے بہت کچھ سیکھا۔ان کے واقعات سننے اور ان کے اللہ اور جماعت سے تعلق کے تجربات میرا ایمان مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

میں نے خلافت کو یوکے آتے دیکھا ہے۔اور ان برکات کو جو خلافت یوکے جماعت کے لیے لائی۔اور آپ سب نے جماعت کی وہ ترقی بھی مشاہدہ کی ہے جو خلافت کی راہنمائی میں ہوئی ہے۔ان برکات میں سے ایک جو مجھے ملی وہ خلافت کی وسیع سمجھ بوجھ ہے جو مجھے اپنے ابتدائی ایام میں نہیں تھی۔

اگرچہ میرے سفر کا آغاز کتابوں سے ہوا تھا لیکن اپنی دائمی راہنمائی کے ساتھ خلافت،حضور انور ایدہ اللہ کا نماز کے قیام اور اللہ سے ذاتی تعلق پر زور،قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب ہی ہیں جو آپ کے دل اور روح تک پہنچتی ہیں۔اور آپ کو یہ سفر طے کرنے کے لیے سہارا مہیا کرتے ہیں۔یہ سب باتیں میں ترجمے کی وجہ سے ہی سمجھ پاتی ہوں۔اور میں دعا کرتی ہوں کہ تمام طاقتوں کا مالک اللہ ان سب پر بہت برکتیں نازل کرے جو ان کتب اور حضور انورایدہ اللہ کے الفاظ کا ترجمہ کرتے ہیں۔جب بھی میں یہ کتب پڑھتی ہوں تو انہی کے ذریعے مجھے علم ہوتا ہے کہ علم و دانش کی دولت میرے لیے موجود ہے۔ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور راہنمائی کےلیے یہ کتب موجود ہیں۔

سفر کا ایک بڑا حصہ لوگوں سے ملاقات اور ان چیزوں پر جو آپ سیکھتے ہیں اور تجربے جو آپ حاصل کرتے ہیں مشتمل ہوتا ہے جو آپ کے ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔اللہ کے فضل سے میں بہت سے ایسے افراد جماعت سے ملی ہوں جنہوں نے میرے ایمان کو مضبوط کیا ہے۔میں خوش قسمت تھی کہ میں بہت سی جماعتوں میں قیام پذیر رہی ہوں۔ اور ہر بار میں نے کوئی نئی چیز ہی سیکھی ہے۔نئے ایمان افروز واقعات سنے ہیں۔ان کی اور اپنی دعاؤں کو قبول ہوتے دیکھا ہے۔ میں سمندر پار جماعتوں کا بھی حصہ رہی ہوں اور جہاں بھی میں رہی ہوں میں نے حیرت انگیز جہاندیدہ نظام جماعت احمدیہ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔آپ جتنا زیادہ سیکھیں،تجربہ حاصل کریں،عقل و دانش کو سمجھیں اور خدا کا سہارا حاصل کریں اس طریق پر جس پر اس نے اپنا فضل کیا ہے تو اتنا ہی زیادہ آپ کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔

میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ہوں جس کو سچے خواب آتے ہوں یا کوئی خاص وحی ہوتی ہو۔لیکن میں نے ہزاروں چھوٹی،غیر اہم چیزوں کے ذریعے دیکھا ہےکہ کیسے اللہ حفاظت کرتاہے،مدد کرتا ہے او ر کیسے ان کی راہنمائی کرتا ہے جو اس پر یقین کرتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔وہ ہماری دعائیں سنتا ہے اور ان کا جواب دیتا ہے۔اسلام ہماری حفاظت کے لیے ہے۔ اور اللہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔اگر آپ دیانتداری سے اللہ پر یقین رکھیں اور اس کی طرف متوجہ ہوں وہ ضرور جواب دیتا ہے اوراس کا توجہ کرنا لا متناہی ہوتا ہے۔چنانچہ میرا سفر نہ ختم ہونے والا ہے اور میں دیکھتی ہوں نئی چیزیں خدا پر میرے ایمان کو بڑھاتی ہیں۔

مجھے یہ بات بھی حیرت میں مبتلا کرتی ہے کہ ہمارے چالیس سال کے اکٹھے سفر کے بعد جب میرے شوہر کواللہ نے اپنے پاس بلا لیا تا کہ اب وہ اپنا سفر اکیلے جاری رکھے وہ تب بھی حضرت مریمؑ، حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ کے متعلق سوچ رہا تھا، کیونکہ وہ قرآن کریم کی سورہ مریم کی اپنی تفسیر لکھ رہا تھا۔

اللہ کرے کہ اس کی رحمت اور عفو ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے اور وہ ہمیں اپنے قرب میں آنے کے لیے ہماری راہنمائی کرے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button