جلسہ سالانہخطاب حضور انوریورپ (رپورٹس)

اسوۂ صحابیاتؓ کی روشنی میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی تلقین (حضور انور کا مستورات سے خطاب)

صحابیاتؓ کی سیرت سے بعض ایمان افروز واقعات کا بیان

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا جلسہ سالانہ برطانیہ کے اجلاس مستورات سے ولولہ انگیز خطاب

(حدیقۃ المہدی،۲۹؍جولائی۲۰۲۳ء، ٹیم الفضل انٹرنیشنل) جلسہ سالانہ برطانیہ کے دوسرے روز حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حسب روایت مستورات سے خطاب فرماتے ہیں۔ مستورات سے خطاب کے لیے حضورِ انور بارہ بج کر نو منٹ پر خواتین کی جانب سے لگائے جانے والے والہانہ نعروں کی گونج میں جلسہ گاہ مستورات میں رونق افروز ہوئے اور السلام علیکم و رحمۃ اللہ کا تحفہ عنایت فرمایا۔ بعدازاں اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرمہ ہبۃ الرحمٰن الجابی صاحبہ نے سورۃ الحدید کی آیات۲۱ تا ۲۴ کی تلاوت کی۔ ان آیات کا اردو ترجمہ مکرمہ قرۃ العین طاہر صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ترجمۃ القرآن سے پیش کیا۔ بعد ازاں مکرمہ براء رشاد عودہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعودؑ کا عربی قصیدہ

بِکَ الْحَوْلُ یَا قَیُّوْمُ یَا مَنْبَعَ الْھُدٰی

فَوَفِّقْ لِیْ اَنْ اُثْنِیْ عَلَیْکَ وَ اَحْمَدَا

خوش الحانی سے پیش کیا جبکہ اس کا اردو ترجمہ مکرمہ درّعجم صاحبہ نے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد مکرمہ کاشفہ قمر صاحبہ نے حضرت مصلح موعودؓ کے منظوم کلام

بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے

حاصل ہو تم کو دید کی لذّت خدا کرے

میں سے منتخب اشعار خوش الحانی سے پیش کیے۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی بابرکت موجودگی میں سیکرٹری صاحبہ امور طالبات لجنہ اماء اللہ یوکے نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی طالبات کے ناموں کی فہرست پیش کی۔

جی سی ایس ای

بارعہ طاہر، آنسہ نورین، مریم طاہر، شمائلہ قدوس، قرة العین احمد، فریحہ ہارون، قانتہ اسلام ملک، دانیہ داؤد، غراضہ ملک، انیقہ احمد، ماریہ احمد رانا، خلت امة الحئی بلوچ، کائنات ظہیر، کاشفہ شعیب، نشیطہ ملک، صبیرہ باسط، عافیہ بشیر احمد، عمرانہ پرویز، طوبیٰ احمد، ماہم امة الشکور حسین، شافعہ کامران، لائبہ اعجاز، صالحہ صدیقہ، سیدہ عائلہ صادق، سحرش مسعود، حمامة البشریٰ، زنیرہ ایمان شاہین، انیقہ رانا، نزہت احمد، غزالہ حبیب، بارعہ گلزار، نادیہ مجید، فریحہ باجوہ، زارا امة السبوح روزی، شمائلہ اسما چودھری، طوبیٰ آصف، حرا نعیم، عاطفہ وسیم، ھُنیہ یاسمین احمد، نداء النصر چودھری۔

اے لیول

سبیکہ احمد، ناہیہ احمد، ثناء عنبر خان،روبینہ طاہر، مشا میر، فاتحہ احمد، عائلہ بھٹی، در نایاب مرزا، امة الرافع، بارعہ عفت خان، صوفیہ انصاری، سعدیہ محمود، نوشین ملک، امة الرقیب بھٹی، ماہم کاشف، نوشابہ سحر احمد، زویا دانیال، ثناء عمارہ ڈار، ماریہ مجید، اسراء بشریٰ گلزار، آمنہ رداء، فارعہ چودھری، عزا ساجد، وریشہ علی رانجھا، سائرہ منظور،عائشہ انور، ہانیہ احمد، سدرہ نعمان محمد، ہالہ معمر کھارا، عروسہ عابد، خولہ سعید، خلود احمد، صبیحہ اوپل، راحیلہ ارشد، ایمان فرید،بریرہ عروبہ احمد۔

گریجوایٹ/ پوسٹ گریجوایٹ

ماریہ احمد ملک ستکوہی، ملائکہ مرزا، زارا سعید خان، مدیحہ امیر، ہانیہ ندیم ارائیں، وردہ لئیق، شانزے اختر، زہرہ عرفان، مدیحہ کومل رشید، صفا نور احمد، کومل ناصر، عروسہ احمد باجوہ، دردانہ ارشد، ثمرہ وسیم، جاذبہ احمد، سارہ احمد، شزین احمد عامر، بسمہ رحمان، مدیحہ مبارک چیمہ، سروش احمد، صبا جاوید خان، امة التسنیم ہانی ارشد، فارعہ خالد، ماہ رونہ فضل، رزنہ بشارت احمد، ماہ نور احمد، رملہ شاہ، مناہل ربانی، راحیلہ کاشف، نتاشہ پرویز بھٹی، سارہ نادیہ اعظم، سونیہ احمد اٹھوال، عالیہ منظور، فاطمہ بی کے سونکو، طوبیٰ ولانہ، اریبہ وڑائچ، بازلہ سمین، عائشہ نسیم، شہلا احمد، ماریہ یحیٰ احمد، ادیبہ محمود، شائستہ بٹ، نتاشہ طاہر، عظمیٰ خالد، عالیہ ماہم بٹ، کنزہ بشریٰ چودھری، ڈاکٹر منیزہ وسیم، ڈاکٹرمریم قدسیہ ساقی، ڈاکٹر فائزہ چیمہ، ڈاکٹر مریم ناہید چودھری، ڈاکٹرماریہ احمد، ڈاکٹر سائرہ سفیر، ڈاکٹر زاہدہ حمید، ڈاکٹر ذکیہ عبد الحق، ڈاکٹر سلمیٰ ولسن۔

باہر سے تعلیم مکمل کر نے والی طالبات

سارہ احمد باجوہ، عطیة الحفیظ، ثنا الیاس، ڈاکٹر ردا محمود، ضونہ طارق

پونے ایک بجے کے قریب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ منبر پر رونق افروز ہوئے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کا تحفہ عطا فرماکر حضور انور نے خطاب کا آغاز فرمایا۔

خطاب حضور انور

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ آج آپ کے سامنے بیان کرنےکے لیے مَیں نے صحابیاتؓ کے کچھ واقعات لیے ہیں۔ ان واقعات کو پڑھ کر، اور سُن کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ہر شعبہ زندگی میں ان صحابیاتؓ نے آنحضرتﷺ کی صحبت اور قوّتِ قدسی سے فیض پاکر ایسے نمونے قائم کیے کہ جو مثال بن کر ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔ مَیں صرف چند مثالیں ہی بیان کرسکوں گا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ صحابیاتؓ کی قربانیوں کی تمام مثالیں بیان ہوسکیں۔

یہ چند مثالیں جن کا مَیں نے انتخاب کیا ہے ان میں صحابیاتؓ کی عبادات، تعلق باللہ، رسول اللہﷺ سے عشق و محبت، بچوں کی تربیت، مالی و جانی قربانی اور اولاد کو قربانی کے لیے پیش کرنے کے واقعات ہیں۔ یہ وہ عورتیں تھیں جو اسلام لانےسے قبل دنیا سے پیار کرنے والی تھیں۔ لیکن جب اسلام قبول کیا تو اپنا سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے لیے قربان کردیا۔

تعلق باللہ کے حوالے سے حضرت حمنہ بنت جحشؓ کے متعلق روایت ملتی ہے کہ ایک مرتبہ آپؐ نے مسجد میں ایک رسّی لٹکی ہوئی دیکھی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ حمنہ بنت جحش کی رسّی ہے، وہ نماز پڑھتی ہیں اور جب تھک جاتی ہیں تو اس رسّی کا سہارا لیتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حمنہ کو چاہیے کہ جتنی طاقت ہے اتنی نماز پڑھے اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے۔ اسلام اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا عبادت کے معیار ضرور حاصل کرنے چاہئیں لیکن اپنے آپ کو اتنی تکلیف میں نہ ڈالو کہ اپنے جسم کی تکالیف کا خیال نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ عبادت کے اعلیٰ معیار ضرور حاصل کرنے کے لیے اس حد تک جاؤ جس میں باقاعدگی رہ سکے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک مرتبہ میرے پاس تشریف لائے۔ ایک عورت میرے پاس تھی۔ آپؐ نے پوچھا یہ کون ہے؟ مَیں نے عرض کیا کہ یہ عورت ساری رات سوتی نہیں بلکہ نماز پڑھتی رہتی ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا تمہیں چاہیے کہ وہ کام کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارا دین وہ ہے جس پر اُس کا بندہ دوام اختیار کرے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ اپنی والدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ کو روزے سے اس قدر محبت تھی کہ ہر سوموار اور جمعرات کے روز روزہ رکھا کرتیں۔

ایک موقعے پر آنحضرتﷺ نے ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ کی نسبت فرمایا کہ وہ اوّاہ ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ اوّاہ کیا ہوتا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والا، اور بہت دعائیں کرنے والا،اور تضرع اختیار کرنے والا۔

عشقِ رسولﷺ کے حوالے سے خواتین کا معیارکیا تھا؟ اس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ احد کی جنگ میں جب رسول اللہﷺ کی شہادت کی غلط خبر پھیلی تو بعض عورتیں دیوانہ وار احد کی طرف بھاگیں۔ ایک عورت جب میدانِ جنگ میں پہنچی تو اس نے کسی مسلمان سے رسول اللہﷺ کی خیریت کے متعلق پوچھا۔ اس شخص نے جواب دیا کہ بی بی! تمہارا باپ مارا گیا۔ اس عورت نے کہا کہ مَیں اپنے باپ کے متعلق نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کے متعلق پوچھ رہی ہوں۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس شخص نے اُس عورت کو اس کے باپ، بھائی، خاوند اور بیٹے کی شہادت کی اطلاع دی۔ لیکن ہر بار اس عورت نے یہی جواب دیا کہ مَیں تم سے رسولِ کریمﷺ کی خیریت کے متعلق پوچھ رہی ہوں۔ جب اُس شخص نے کہا کہ رسول اللہﷺ خیریت سے ہیں تو بھی اُس عورت کی تسلّی نہ ہوئی اوروہ میدانِ جنگ کی طرف دوبارہ بھاگی اور یہ فقرہ کہتی جاتی کہ ہائے! رسول اللہﷺ نے یہ کیا کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ خاص زنانہ جملہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہ کیا کیا کہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ بالآخر جب اسے رسول اللہﷺ نظر آئے تو اس نے آپؐ کا دامن لپک کر پکڑ لیا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا مجھے افسوس ہے کہ تیرا باپ، بھائی اور خاوند اس جنگ میں مارے گئے۔ اُس عورت نے جواب دیا کہ جب آپؐ زندہ ہیں تو مجھے کسی اور کی موت کی پروا نہیں۔

احد کی جنگ سے واپسی پر آنحضرتﷺ نے حضرت سعد بن معاذؓ کی بوڑھی نابینا والدہ سے جب اُن کے ایک بیٹے کی شہادت پرافسوس کا اظہار کیا تواس بوڑھی نابیناعورت نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! جب مَیں نے آپؐ کو سلامت دیکھ لیا تو مَیں اپنے بیٹے کی موت کے صدمے کو بھون کر کھا جاؤں گی اور اب مجھے کوئی غم نہیں۔

صحابیاتؓ ذاتی معاملات میں بھی رسول اللہﷺ کی باتوں پر کس طرح عمل کیا کرتی تھیں اس حوالے سےروایات میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت امِ حبیبہ نے اپنے والد اور ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ نے اپنے بھائی کی وفات کے تین دن بعد خوشبو لگائی اور فرمایا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں لیکن رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے مرنے پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے سوائے اس کے خاوند کے۔ خاوند کا سوگ چار ماہ دس دن ہے۔

جب حضرت خدیجہؓ نے اسلام قبول کیا تو ان کو کیا معلوم تھا کہ اس اسلام کے نتیجے میں ان کے لیے کیا خدمات موجود ہیں۔ اپنا تمام مال اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور شعب ابی طالب میں بھی رہیں اور وہیں جانی قربانی بھی دے دی۔ اسی عملی نمونہ کی وجہ سے حضورﷺ کو آپ سے اتنی محبت تھی کہ ایک دن جب حضورﷺ نے حضرت خدیجہؓ کے ہار کو قیدی کی رہائی کے لیے دیکھا توآبدیدہ ہو گئے اور فرمایا کہ خدیجہ کی اس نشانی کو ان کی بیٹی کو واپس کر دو۔

حضور انور نے ازواج مطہرات کی مالی قربانی کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ ازواج نے حضورﷺ سے سوال کیا کہ کون سب سے پہلے آپ ﷺ سے ملے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس کے سب سے لمبے ہاتھ ہوں گے۔ چنانچہ ازواج مطہرات ہاتھ ناپنا شروع ہو گئیں لیکن وہ زوجہ جو کہ سب سے زیادہ صدقات دیتی تھیں وہ پہلے فوت ہوئیں اورحضورﷺ سے ملیں نہ کہ ظاہری طور پر لمبے ہاتھوں والی۔

صحابیاتؓ نے اپنے زیور دے کر اسلام کی خدمت کی اور الحمدللہ آج جماعت میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔

صحابیاتؓ نے جان کی قربانیاں دیں۔ حضرت سمیہؓ اور یاسرؓ کی تکالیف کو جب حضورﷺ نے دیکھا تو فرمایا صبر کرو اللہ کی جنت تمہارے نزدیک ہے۔ اس طرح دونوں خدا کی راہ میں شہید ہو گئے۔

جب مسلمانوں کی روم کے مقابلے میں جنگ ہوئی تو حضورﷺ نے فرمایا کہ بجائے اس کے کہ وہ ہم پر حملہ کریں مسلمان فوج لے کر پہلےنکل پڑے۔ ایک صحابی کو حضورﷺ نے کسی کام بھیجا تھا جب وہ واپس آئے تو حضورﷺ نکل چکے تھے جب یہ صحابی جو کہ سفر سے واپس آ کر اپنی بیوی کے پاس پیار کے لیے گئے تو صحابیہؓ نے جب خاوند کو اپنے پاس آتے دیکھا تو کہا کہ حضورﷺ تو جنگ پر گئے ہیں تمہیں آرام کی پڑی ہے یہ سن کر فوراً وہ صحابی اٹھے اور حضورﷺ کے پیچھے جنگ کے لیے نکل گئے۔

ایک اور صحابیہؓ کا واقعہ ہے کہ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو ان کو سخت اذیت دی جاتی تھی۔ دھوپ میں رکھتے اور کھانے میں گرم غذا دیتے۔ جب انہیں اسلام چھوڑنے کا کہتے تو وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دکھا دیتیں یعنی اس بات کا اعلان کرتیں کہ وہ توحید کو نہیں چھوڑیں گی۔

حضرت زنیرہؓ نے آغاز میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ لونڈی ہونے کی وجہ سے ابو جہل آپ کو اذیت دیتا۔ ان کی بینائی چلی گئی تومشرکین نے اعتراض کیا کہ یہ لات وعزیٰ کی مخالفت کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس پر اس صحابیہؓ نے فرمایا کہ یہ تو خدا کی مصلحت سے ہے۔ بتوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کون ان کو پوجتا ہے۔ اللہ میری بینائی واپس لوٹانے پر قادر ہے۔ اس کے بعد ان پر ایسا فضل ہوا کہ صبح اٹھیں تو ان کی بینائی واپس آگئی۔ لوگوں نے کہا کہ رات کو محمدﷺ نے جادو کیا ہے۔ ان کو بھی اذیت میں دیکھ کر حضرت ابو بکرؓ نے ان کو خرید کر آزاد کردیا۔

ایک اور صحابیہؓ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ اسلام لانے سے قبل ان کو مار مار کر تھک جاتے لیکن اس صحابیہ ؓنے اسلام نہ چھوڑا۔ حضرت ابو بکرؓ نے ان کی تکالیف کو دیکھا تو خرید کر آزاد کر دیا۔

حضرت خنساءؓ چار بیٹوں کو لے کر غزوہ میں آئیں اورفرمایا کہ کل فیصلہ کُن جنگ ہونے والی ہے۔ میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں کہ کیسے میں نے تمہاری پرورش کی۔ اگر کل تم فتح لیے بغیر آئے تو میں خدا کو کہوں گی کہ کوئی حق واپس نہیں۔ چنانچہ بیٹوں کو بھیج کر وہ جنگل نکل گئیں اور دعائیں کرنے لگیں۔ خدا نے فضل فرمایا اور مسلمان فتح یاب بھی ہوئے اور اس صحابیہ کے چار بیٹے بھی زندہ واپس آ گئے۔

صحابیاتؓ میں یہ تڑپ بھی رہتی تھی کہ پہلے دن سے ہی اپنی اولاد میں خدا تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت پیدا کریں۔ حضرت اسماء ؓ جب حاملہ تھیں تومکہ سے نکلیں تو مدینہ کے قریب قبا میں وضع حمل ہوا۔ وہ بچے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کھجورچبا کر اس کو گڑھتی دی اور دعا کی۔ عبداللہ بن زبیر پہلے بچے تھے جو ہجرت کے بعد پیدا ہوئے۔

بچپن میں تربیت کے حوالے سے حضرت انسؓ کا واقعہ بیان فرمایا۔ حضرت انس ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے رازداری سے کسی کام سے بھجوایا۔ وہ گھر دیر سے گئے۔ والدہ کے پوچھنے پر بھی نہ بتایا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا راز کسی کو نہ بتاؤں گا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی اور ان کی ماں کی تریبت اور تلقین تھی کی اس وقت بھی صحابہؓ کے پوچھنے پر نہیں بتایا۔ یہ تربیت ضروری ہے۔ جماعتی عہدیداروں کو جماعتی راز کی حفاظت کرنی چاہیے۔ جو بات پبلک میں کہنے والی نہیں وہ کسی کے سامنے بھی نہیں کہنی چاہیے۔ جماعتی باتیں بچوں کے سامنے نہیں کرنی چاہئیں۔ احتیاط کرنی چاہیے۔

حضور انور نے حضرت مصلح موعودؓ کا بیان فرمودہ مضبوطی ایمان کا واقعہ بیان فرمایا۔ آدھی رات کو مسلمان جمع ہوئے جن میں مدینہ کے ۶۳؍افراد شامل تھے۔ ان میں دو عورتیں شامل تھیں۔ اس میں ام عمارہؓ بھی شامل تھیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی ایسی تربیت کی کہ جب ان کے بیٹے خبیبؓ یا بعض روایتوں کے مطابق حبیب کو مسیلمہ نے قید کر لیا۔ مسیلمہ نے ایک ایک کر کےان کے تمام اعضاء کاٹ دیے۔ لیکن انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اس کی رسالت کا اقرار نہ کیا۔ وہ خود بھی جنگوں میں شامل ہوئیں اور یہ ام عمارہؓ کی تربیت تھی جس نے ایمان بچوں کی رگوں میں دوڑا دیا تھا۔ یہ وہ معیار ہے جو ہمیں اپنے اور اپنے بچوں کے اندر پیدا کرنا ہے تاکہ اسلام کی نشأة ثانیہ میں ہم اپنا کردار ادا کر سکیں۔ یہ صرف سننے والی کہانیاں نہیں۔ خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لیے ان مثالوں کو زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ عبادات، عشق ِرسول، مالی و جانی قربانیوں کے معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ بے شک احمدی عورتیں قربانیوں کے معیار دکھا رہی ہیں لیکن خاص طور پر مالی لحاظ کشائش رکھنے والی خواتین اپنی حالتوں کو دیکھیں جن کے خاوند روک بنتے ہیں انہیں کہہ دیں کہ دین کے معاملے میں ہم تمہیں نہیں سنیں گی۔ پھر جہاں تک جانی قربانی کا تعلق ہےتو جماعت احمدیہ کو ہی دین کی خاطرجان قربان کرنے کا امتیاز حاصل ہے۔ اور یہ ماؤں کی تربیت کا اثر ہے۔ مردوں کی قربانیوں کا ثواب ان کی ماؤں کو بھی ملتا ہے۔ مجھ تک یہ بات پہنچی کہ بعض جب اولاد کو قربان کرنے کا عہد دہراتی ہیں تو سوچ میں پڑ جاتی ہیں۔ لیکن اب بھی ایسی خواتین ہیں جو اپنے بچوں کو تیار رکھتی ہیں کہ دین پر قربان جائیں۔ خطوط بھی لکھتی ہیں دعا کے لیے کہتی ہیں اور تربیت بھی کرتی ہیں۔

ہمیشہ یاد رکھیں دجال نے شیطانی حربوں کے جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ آج سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ عبادت، عشق رسول، میں بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ تربیت اولاد کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ ان کی گڑھتی میں ڈال دیں کہ وہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ اپنی دعاؤں میں اس قدر زور اور درد پیدا کریں کہ خدا کی رحمت جوش میں آئے اور ہمارے بچے دنیا کے ہواوہوس میں پڑنے کے بجائے خدا کے دین کو سیکھنے، تعلق پیدا کرنے اور عشقِ رسول کی تڑپ پیدا کرنے والے بن جائیں۔

اللہ ہر احمدی عورت کو یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آج عورتوں کی اس طرف توجہ ہی مردوں کی اصلاح کرنے کا باعث بھی بن جائے گی۔ اللہ کرے سب عورتیں مرد اور بچے بوڑھے مل کر حقیقی معاشرہ قائم کرنے والے بن جائیں جس کے قیام کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بھیجا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضور انور کا خطاب ایک بج کر پینتیس منٹ تک جاری رہا جس کے بعد حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی۔

دعا کے بعد خواتین اور بچیوں نے مختلف گروپس کی صورت میں ترانے پیش کیے۔ ترانے حسب ذیل زبانوں میں پیش کیے گئے: عربی،اردو، انگریزی، پنجابی، سپینش، بنگلہ، افریقی و دیگر زبانیں شامل تھیں۔

بعد ازاں ایک بج کر پچاس منٹ کے قریب حضور انور زنانہ جلسہ گاہ سے تشریف لے گئے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button