متفرق مضامین

الفضل کا ارتقاء۔ قادیان سے لندن تک کا سفر

(درِ ثمین احمد۔ جرمنی)

وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ۔(سورۃ التکویر : ۱۱) ’’اور جب کتابیں پھلا دی جائیں گی۔‘‘ یعنی پریس کثرت سے ہوں گے۔

(ترجمہ و تفسیر،بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:…قرآن شریف میں آخری زمانہ کی نسبت اور بھی پیشگوئیاں ہیں ان میں سےایک یہ پیشگوئی بھی ہے وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ یعنی آخری زمانہ وہ ہوگا جبکہ کتابوں اور صحیفوں کی اشاعت بہت ہوگی گویا اس سے پہلے کبھی ایسی اشاعت نہیں ہوئی تھی۔یہ ان کلوں کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ سے آج کل کتابیں چھپتی ہیں اور پھر ریل گاڑی کے ذریعہ سےہزاروں کوسوں تک پہنچائی جاتی ہیں۔(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ۳۲۲ایڈیشن۲۰۰۸ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سورۃ التکویر کی اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں :’’قرآن کریم کی اس سورۃمیں آخری زمانہ کے خدوخال کا نقشہ جس خوبصورت ترتیب اور منظم انداز میں کھینچا گیا ہے اس پر کسی ماہر مصور کی پینٹنگ کا گمان ہوتا ہے … گیارہویں آیت میں بھی معاشی اورسیاسی ترقیات کےذکر سےاسی موضوع کو طاقت ور ذرائع رسل و رسائل یعنی ادب،اخبارات اور رسائل کی وسیع تر اشاعت کے حوالہ سے دوبارہ بیان کیا گیا ہے۔مذکورہ بالا سب کے سب ذرائع نے بنی نوع انسان کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ان کو باہم ملانے میں پریس نے جو کردار ادا کیا ہے کوئی اور ذریعہ نہ تو اس کی اہمیت کو کم کرسکتا ہے اور نہ ہی اسکی جگہ لے سکتا ہے۔اگر اس زمانہ سے مطبوعہ لٹریچر کے کردار کو نکال دیں تو فاصلوں کے سمٹ جانے کے باوجود بنی نوع انسان ایک دفعہ پھر منتشر اور بٹے ہوئے دکھائی دیں گے۔زیر بحث آیت میں جدید دور کے انہی ذرائع ابلاغ اور وسیع پیمانہ پر لٹریچر کی اشاعت کا ذکر ہے۔ ( الہام عقل علم و سچائی صفحہ ۵۲۴،۵۲۵)

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے دور میں الفضل ہندوستان کی اردو صحافت کا قدیم ترین اخبار ہے جوآج سے ۱۱۰ سال قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اجازت اور دعاؤں سے۱۸؍جون ۱۹۱۳ء کو جاری فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےدور میں جماعت کے دو اخبار الحکم اور البدر تھے۔ جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دو بازوقرار دیا۔ ایک موقع پر ان دونوں اخبارات کی افادیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ بھی وقت پر کیا کام آتے ہیں۔ الہامات وغیرہ جھٹ چھپ کر ان کے ذریعے شائع ہو جاتے ہیں ورنہ اگر کتابوں کی انتظار کی جاوےتو ایک ایک کتاب کو چھپتے بھی کتنی دیرلگ جاتی ہے اور اس قدر اشاعت بھی نہ ہوتی۔‘‘(ملفوظات جلد۳ صفحہ۴۵۰) اس طرح خلافت احمدیہ کے آغاز میں الحکم اوربدراخبارات کے ساتھ خلیفہ ٔ وقت کی آواز بننے کا اعزاز الفضل کے حصہ میں آیا جس کے ذریعے خلافت کے استحکام کے ساتھ ساتھ تبلیغ اور تربیت کی نئی راہیں بھی کھلیں۔ اس اخبار کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ۱۱؍فروری۱۹۰۶ءکو الہام ہوا فرمایا: ’’الہاماً میری زبان پر جاری ہؤادیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ۵۰۸)

اس وقت جماعت میں الحکم اور البدر جاری تھے۔اس لیے اس سے مراد کسی آئندہ زمانہ میں شائع ہونے والا اخبار ہے۔جس کا مصداق ’الفضل ‘بھی ہوسکتا ہے۔’’دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا‘‘کے اعداد اپنے اندر عجیب حکمت رکھتے ہیں جس کا ایک تعلق الفضل انٹرنیشنل سے ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل صد سالہ جوبلی سوونیئر۲۰۱۳ءصفحہ۱۲کالم۴)

سلسلہ کو اخبار کی ضرورت

اس کا آغازخلافتِ اولیٰ کے اُس دور میں ہوا جب بالخصوص دور افتادہ احباب ِجماعت کے لیے اخبارات اور رسائل رابطہ کا واحد ذریعہ تھے۔خلافت ِاولیٰ کے دوران جماعت کے ایک حصہ پر نظامِ خلافت کی اہمیت پوری طرح واضح نہیں تھی اور نہ ہی ان میں خلافت کے احترام کی اعلیٰ روایات مستحکم ہوئی تھیں۔ اس وجہ سے جماعت کے جرائد پریہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ خلیفہ وقت اور جماعت کے درمیان رابطے کاذریعہ بنیں اوراس حوالے سے جماعت کی مسلسل تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس نازک موڑ پرذرا سی لغزش بھی خوفناک نتائج پیدا کر سکتی تھی۔ کیونکہ ایک طبقہ کی طرف سے جو رویہ ظاہر ہو رہا تھا وہ اپنے زیر ِ اثر احباب کو نظام خلافت سے دور لے جانے والا تھا۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی باریک بین نگاہ نے اس دور کے حالات کوبر وقت بھانپ لیا اور یہ اخبار جاری فرمایا۔ اسی حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سوانح فضل عمر میں تحریرفرماتے ہیں: ’’ تشحيذاگرچہ جماعت کی علمی ضروریات کو بہت حدتک بڑی عمدگی سے پوری کررہا تھا، لیکن حضرت صاحبزادہ صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ۔ناقل) نے بجا طور پر یہ ضرورت محسوس کی کہ جب تک سلسلہ کا ایک باقاعدہ اخبار جاری نہ ہو صحیح معنوں میں مرکز اور جماعت کے مابین رابطہ قائم نہیں ہوسکتا۔چنانچہ اس شدید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آپؒ نے جون ۱۹۱۳ء میں الفضل اخبار کا اجرا فرمایا۔یہ اخبار آج تک جماعت احمدیہ کا مرکزی روزنامہ چلا آرہاہے۔ اس بارے میں ’’اعلانِ فضل‘‘ کے عنوان کے تحت آپ نے ایک اشتہار شائع کیا جس میں آپ نے اس فلسفہ پر روشنی ڈالی کہ بعض چھوٹے چھوٹے امور کس طرح بڑے ہو جاتے ہیں اور ایک چھوٹے سے بیج سے کس طرح بڑے بڑے عظیم القامت درخت بن جاتے ہیں۔ فرمایا: یہی مثال روحانی سلسلوں کی ہے گذشتہ الٰہی سلسلوں کی طرح جماعت احمدیہ کی ضروریات بھی بڑھتی چلی جاری ہیں۔ پھر فرمایا:’’اس لیے بموجب ارشاد حضرت خلیفۃالمسیح توکلاً علی ﷲ اس اخبار کو شائع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ہمارا کام کوشش ہے۔ برکت اور اتمام خداتعالیٰ کے اختیارمیں ہے۔ لیکن چونکہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اس لئے اس کی مدد کا یقین ہے۔ بے شک ہماری جماعت غریب ہے لیکن ہمارا خدا غریب نہیں ہے اور اس نے ہمیں غریب دل نہیں دیئے۔پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف پوری توجہ کرے گی۔ اور اپنی بے نظیرہمت اور استقلال سے کام لے کر، جو وہ اب تک ہر ایک کام میں دکھاتی رہی ہے اس کام کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرے گی اور میں دعا کرتا ہوں کہ الله تعالیٰ مذکورہ بالا تحریر کو صرف ارادوں اور خواہشوں تک ہی نہ رہنے دے۔ اور سلسلہ کی ضروریات کے پورا کرنے میں ہمارا ہاتھ بٹائے۔‘‘(سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ۲۳۹،۲۳۸)

اجرا کا پس منظر

خود حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ الفضل کے اجرا کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بدر‘‘ اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا ’’الحکم‘‘ اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھی نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہوچکی تھیں۔ بہت گراں گزرتا تھا۔ ’’ریویو‘‘ ایک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میں بے مال و زر تھا۔ جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ ان کی سستی کو جھاڑے۔ ان کی محبت کو ابھارے۔ ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لیے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش، نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔ امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔‘‘(انوارالعلوم جلد۸ صفحہ۳۶۹)

اگرچہ کہ اخبار الحکم اور بدر نے بھی اس دور میں جماعت ِ احمدیہ اور خلیفہ وقت میں رابطہ کا اہم کردار ادا کیا مگرالفضل نے اپنے آغاز ہی سے ایک ایسا انداز اختیار کیا جو ایک اعلیٰ روایت کے طور پر جماعت میں مستحکم ہو گیا اوراب دنیا بھر میں جماعتی اخبارات اور رسائل اسی طرزکو اپنائے ہوئے ہیں۔ الفضل کا شائع ہونے والا پہلا شمارہ ہی دیکھ لیں۔پہلے صفحہ کے پہلے کالم کا آغاز خطبہ جمعہ سے ہوتا ہے جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے ۱۳؍جون ۱۹۱۳ء کو ارشاد فرمایا تھا۔ اور اس کے بعد پہلے صفحہ پر مدینۃ المسیح کے عنوان سے جو خبریں ہیں اس میں پہلی خبر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی مصروفیات کے بارے میں ہے۔ اور بعد کے شماروں میں بھی الفضل کی یہ روایت رہی کہ پہلے صفحہ پر پہلے کالم کا آغاز مدینۃ المسیح اور ایوان ِ خلافت کے عنوان کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی صحت کی خبر، آپ کی مصروفیات اور آپ کے ارشادات سے ہوتا تھا۔

استخارہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اجازت

اخبار کے اجرا سے قبل آپؓ نے استخارہ کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں اجازت کے لیے عرض کیا تو آپؓ نے فرمایا:’’ہفتہ وار پبلک اخبار کا ہونا بہت ہی ضروری ہے جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الٰہی حسن نیت اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے زمیندار، ہندوستان، پیسہ اخبار میں اور کیا اعجاز ہے؟ وہاں تو صرف د لچسپی ہے اور یہاں دعا، نصرت الہیہ کی امید بلکہ یقین تَوَکُّلاً عَلَی اللّٰہِ کام شروع کردیں۔‘‘(انوار العلوم جلد۱ صفحہ۴۴۱)

الفضل کا نام بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے عطا فرمایا۔ الفضل ۱۹۱۴ء کے ایک اداریہ میں درج ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا:’’مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو۔‘‘(الفضل ۱۹؍نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ۳)

چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔(یادایام،انوارالعلوم جلد۸ صفحہ۳۷۱)

ڈیکلریشن کا حصول

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے الفضل کے ڈیکلریشن کے سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ کا یوں ذکر فرمایا ہے: ’’۱۹۱۳ء میں حضرت خلیفہ اولؓ کے عہد خلافت میں جب میں نے ’’الفضل‘‘ جاری کیا تو ڈیکلریشن کے لئے گورداسپور جانے لگا۔ ایک دوست نے دریافت کیا کہ آپ کہاں جاتے ہیں۔ میں نے بتایا تو کہنے لگے کہ آج تومنگل ہے، آج نہ جائیں۔ میں نے کہا کہ منگل ہے تو کیا حرج ہے۔ کہنے لگے کہ یہ تو بڑا منحوس دن ہے۔ آپ نہ جائیں۔ میں نے کہا میں نے تو اس کی نحوست کوئی نہیں دیکھی اور اگر اللہ تعالیٰ کی برکت ہو تو منگل کی نحوست کیا کرسکتی ہے اور میں تو ضرور آج ہی جاؤں گا۔ کہنے لگے کہ آپ چلے جائیں لیکن یاد رکھیں کہ اول تو ٹانگہ رستہ میں ہی ٹوٹے گا نہیں تو ڈپٹی کمشنر دورہ پر ہوگا اور اگر وہ دورہ پر نہ ہوا تو بھی اسے کوئی ایسا کام درپیش ہوگا کہ مل نہیں سکے گا اور اگر ملنے کا موقع بھی مل جائے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ درخواست رد نہ کر دے مگر میں نے کہا کہ چاہے کچھ ہومیں تو ضرور منگل کو ہی جاؤں گا۔ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی میرے ساتھ تھے۔ چنانچہ ہم گئے تو ڈپٹی کمشنر وہیں تھا۔ ہم اس کے مکان پر گئے اور جا کر اطلاع کرائی کہ ڈیکلریشن داخل کرنا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کچہری چلیں میں ابھی آتا ہوں۔ چنانچہ وہ فوراً کچہری آگیا اور چند منٹ میں اس نے ڈیکلریشن منظور کرلیا اور ہم جلدی ہی فارغ ہوگئے۔ یہاں سے کوئی سات آٹھ بجے چلے تھے اور کوئی تین چار بجے واپس آگئے۔ چونکہ ان دنوں یکوں میں سفر ہوتا تھا اور اس کے یکطرفہ سفر پر ہی کئی گھنٹے لگ جاتے تھے، جب اس دوست نے ہمیں واپس آتے دیکھا تو یقین کرلیا کہ یہ اس قدر جلد جو واپس آئے ہیں تو ضرور ناکام آئے ہوں گے اس لئے دیکھتے ہی کہا کہ اچھا آپ واپس آگئے۔ ڈپٹی کمشنر غالباً وہاں نہیں ہوگا۔ میں نے کہا کہ وہ وہیں تھا، مل بھی گیا اور کام بھی ہوگیا۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ اس نے اتنی جلدی آپ کو فارغ کر دیا ہو۔ میں نے کہا منگل جو تھا۔‘‘(الفضل ۲۲؍جون ۱۹۳۸ءصفحہ۴)

الفضل کی اشاعت کا ایک خاص معاون

الفضل کی اشاعت کے ابتدائی مراحل میں جس شخصیت نے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی مدد کی ان کے بارے میں حضورؓ ہی کی زبان مبارک سے ملاحظہ کریں ’’جب الفضل نکلا ہے اس وقت ایک شخص جس نے اس اخبار کی اشاعت میں شاید مجھ سے بھی بڑھ کر حصہ لیا وہ قاضی ظہورالدین صاحب اکمل ہیں۔اصل میں سارے کام وہی کرتے تھے۔ اگر ان کی مدد نہ ہوتی تو مجھ سے اس اخبار کا چلانا مشکل ہوتا۔رات دن انہوں نے ایک کردیاتھا۔ اس کی ترقی کا ان کو اس قدر خیال تھا کہ کئی دن انہوں نے مجھ سے اس امر میں بحث پر خرچ کئے کہ اس کے ڈیکلریشن کے لئے مجھے منگل کو نہیں جانا چاہئے کیونکہ یہ دن نا مبارک ہوتا ہے۔ مگر مجھے یہ ضد کہ برکت اور نحوست خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔مجھے منگل کوہی جانا چاہئے۔تا یہ وہم ٹوٹے۔میرا خیال ہے اس امر میں مجھے قاضی صاحب پر فتح ہوئی۔کیونکہ میں منگل کو ہی گیا اور خداتعالیٰ کے فضل سے ڈیکلریشن بھی مل گیا۔ جس کی نسبت قاضی صاحب کو یقین تھا کہ اگر میں منگل کو گیا تو کبھی نہیں ملے گااور اخبار بھی مبارک ہوا۔بعد میں گو ایک مینیجر رکھ لیا گیا مگر شروع میں قاضی صاحب ہی مینیجری کا بھی بیشتر کام کرتے تھے اور مضمون نویسی میں بھی میری مدد کرتے تھے۔‘‘(روز نامہ صد سالہ جوبلی سووئنیر ۲۰۱۳ء صفحہ ۱۹کالم۲,۱)

پہلا پرچہ

۱۸؍جون کو ہفت روزہ الفضل کا پہلا پرچہ صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب(رضی اللہ عنہ۔ناقل) کی ادارت میں شائع ہوا۔ آپؓ ہی اس کے پروپرائٹر، پرنٹراور پبلشر تھے۔ پہلا پرچہ کے ۱۶صفحات پر مشتمل تھا۔ یہ ۱۲رجب ۱۳۳۱ھ کا دن تھا۔ پہلے پرچہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍جون ۱۹۱۳ء درج کیا گیا۔

الفضل کے مقاصد

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس اخبار کے پہلے پرچہ میں اخبار کے مقاصد تحریر فرماتے ہوئے یہ دعائیہ فقرے بھی تحریر فرمائے کہ’’اے میرے مولا ……لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔ اس کے سبب سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔‘‘(الفضل ۱۸؍جون ۱۹۱۳ء صفحہ۳)

الفضل پر خلیفۃ المسیح الاوّل کی شفقت

یوں تو یہ اخبار روز اول سے خلفائے سلسلہ کی خاص شفقتوں اور عنایتوں کا وارث رہا ہے اور ان کی سرپرستی اور راہنمائی میں پروان چڑھا ہے۔جماعت احمدیہ کی مبارک تاریخ بتاتی ہے کہ خلفائے عظام جماعتی آرگن الفضل کا باقاعدگی سے مطالعہ فرماتے رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے متعلق الفضل میں شائع ہوا کہ ’’حضور [خلیفۃ المسیح الاوّل] اخبار الفضل کو بڑے شوق سے مطالعہ فرماتے ہیں۔‘‘(الفضل ۸؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء)

الفضل کے لیے ابتدائی قربانیاں

الفضل کے لیے ابتدائی قربانیاں پیش کرنے والی پاکباز اور عظیم شخصیات کے دلنشیں اور پُر اثر تذکرے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی زبانی پڑھیے:’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو جو اس زمانہ میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔اپنے دو زیور مجھے دے دئیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کردوں ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کے لئے رکھے ہوئے تھے۔میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔الفضل اپنے ساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گااور میرے لئے تو اس کا ہراک پرچہ گوناگوں کیفیات کا پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔بارہا وہ مجھے جماعت کی وہ حالت یاد دلاتا ہے جس کے لئے اخبار کی ضرورت تھی بارہا وہ مجھے اپنی بیوی کی وہ قربانی یاد دلاتا ہے جس کا مستحق نہ میں اپنے پہلے سلوک کے سبب سے تھا نہ بعد کے سلوک نے مجھے اس کا مستحق ثابت کیا۔وہ بیوی جن کو میں نے اس وقت تک ایک سونے کی انگوٹھی بھی شاید بنا کر نہ دی تھی اور جن کو بعد میں اس وقت تک میں نے صرف ایک انگوٹھی بنوا کر دی ہے ان کی یہ قربانی میرے دل پر نقش ہے۔اگر ان کی اور قربانیاں اور ہمدردیاں اور اپنی سختیاں اور تیزیاں میں نظر انداز بھی کردوں تو ان کا یہ سلوک مجھے شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اورمیرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کردیا۔کیا ہی یہ سچی بات ہے کہ عورت ایک خاموش کارکن ہوتی ہے۔اس کی مثال اس گلاب کے پھول کی سی ہے جس سے عطر تیار کیا جاتا ہے۔لوگ اس دکان کو تو یاد رکھتے ہیں جہاں سے عطر خریدتے ہیں مگر اس گلاب کا کسی کو خیال نہیں آتا جس نے مر کر ان کی خوشی کا سامان پیدا کیا۔میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا۔اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتااور جماعت میں روز مرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دور کیا جاسکتا۔‘‘(یادایام، انوارالعلوم جلد۸صفحہ۳۶۹تا۳۷۰)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سوانح فضل عمر میں مذکورہ زیور کے فروخت کے بارے میں لکھتے ہیں:’’یہ زیورحضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانی ؓ) نے خود لاہور جاکر پونے پانچ سوروپے میں فروخت کئے۔یہ تھا الفضل کا ابتدائی سرمایہ جیسی قیمتی امداد تھی اس کا اندازہ حضرت صاحبزادہ صاحب (خلیفۃ المسیح الثانیؓ)کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتاہے۔

’’اس حسن سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوااور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کردیا…‘‘(الفضل قادیان۲۸؍دسمبر۱۹۳۹ء، سوانح فضل عمر جلداول صفحہ ۲۴۰)

اولین مددگار

پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اخبار ’’الفضل‘‘ دراصل ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتا تھا کہ وہ فضل خداوندی جو خلافت علی منہاج النبوۃ کی صورت میں ظاہر ہوا اب جاری و ساری ہے اور اس کا آغاز بھی خلافت کی بھرپور تائید سے ہوا ہے۔

تاریخ احمدیت سے معلوم ہوتا ہے کہ الفضل کے لیے جن مبارک ہستیوں نے سرمایہ مہیا کیا ان میں دو اور وجود بھی تھے۔ایک تو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ۔آپؓ نے اپنی ایک زمین مالیتی ایک ہزار روپے الفضل کے لیے عنایت فرمائی۔دوسرے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ جنہوں نے نقد رقم کے علاوہ زمین بھی دےدی جو ۱۳۰۰سو روپیہ میں فروخت ہوئی۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ۳صفحہ ۴۴۶)

حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا احسان

حضرت اماں جان ؓ کے عظیم احسان کا ذکرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس طرح فرماتے ہیں:’’دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کے دل میں پیدا کی اور آپ نے اپنی ایک زمین جو قریباً ایک ہزار روپیہ میں بکی الفضل کے لئے دے دی۔ مائیں دنیا میں خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگر ہماری والدہ کو ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہےاور احسان مندی صرف ہمارے حصہ میں آئی ہے۔‘‘(یادایام،انوارالعلوم جلد۸صفحہ۳۷۰تا۳۷۱)

خریداری میں مشکلات

الفضل کو آغاز میں نہایت مالی تنگی کا سامنا رہا۔قدیم اخباروں اور پیغام صلح کی موجودگی میں خریداروں کی اس طرف توجہ مشکل تھی۔جماعت کے مخصوص عنصر نے تو شروع ہی سے جو آپ کا مخالف تھا ڈٹ کر مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ خصوصاً ادارہ پیغام صلح نے تو حد ہی کر دی مگر آپ نے اس کی چنداں پروا نہیں کی بلکہ اس مزاحمت کو نیک فال سمجھا اور خدائی بشارتوں کے ماتحت اپنا قدم اور آگے بڑھاتے چلے گئے۔( ماخوذ ازالفضل ۱۹؍نومبر۱۹۱۴صفحہ۳)

مورخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد لکھتے ہیں:’’سیدنا مصلح موعود ؓنے جب اخبار الفضل جاری فرمایا تو منکرین خلافت کے زیر اثر احمدیوں تک نے اس کی زبردست مخالفت کی اور بعض جماعتوں نے اس کی خریداری سے بالکل انکار کردیا۔ان ہی دنوں آپ کو خواب میں دیکھایا گیا کہ ایک ستارہ ٹوٹا ہے اور بجائے نیچے جانے کے اوپر کی طرف چلا گیا ہے۔(مکتوب مصلح موعود بنام شیخ فضل احمد بٹالوی)…چنانچہ وہ ستارہ اوپر ہی چلتا چلا گیا۔ابتدائی مختصر سرمایہ بلکہ خلوص اور محبت کو خدا نے قبول فرمایا اور نہ صرف اس اخبار کو لمبی زندگی عطا فرمائی بلکہ اس معمولی رقم کو بھی لاکھوں میں تبدیل کردیا۔(روز نامہ الفضل صد سالہ سوونیئر ۲۰۱۳ءصفحہ ۲۲کالم۴)

اخبار الفضل کا وقف ہونا

الفضل کی ارتقا ءمیں ۱۹۱۷ء کا سال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے ابتدا میں یہ اخبار حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ذاتی روپیہ سے جاری فرمایا تھا۔تاہم بعدازاں ۱۹۱۷ء میں اسے یہ اعزاز حاصل ہوا حضورؓ نے اسے جماعت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔

لاہور سے الفضل کا اجرا

’’ …جون ۱۹۱۳ءسے لے کر اگست ۱۹۴۷ء تک روز نامہ الفضل متحدہ ہندوستان سے شائع ہوتا رہا۔‘‘(روز نامہ صد سالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء صفحہ ۱۷۳کالم,۱)تقسیم ملک کے بعد ہنگامی حالات اور مالی وسائل کی شدیدکمی کے باعث الفضل کو فوری طور پر پاکستان سے جاری کرنا ایک نہایت مشکل کام نظرآ رہا تھا۔پھر اخبار جاری کرنے کے لیے قانونی اجازت لینے کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن ان سب مشکلات کے باوجود حضور کی آمد کے صرف پندرہ روز کے بعد، یعنی ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو لاہور سے مکرم روشن دین تنویر کی ادارت میں الفضل کو جاری کر دیا گیا۔اب تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔ جس طرح ۱۹۱۳ء میں نہایت نازک حالات میں مالی وسائل کی شدید کمی کے باوجود قادیان سے حضرت مصلح موعودؓنے الفضل جاری فرمایاتھا۔ اب ۱۹۴۷ء میں نہایت خطرناک حالات میں مالی وسائل کی شدید کمی کے با وجود لاہور سے الفضل جاری کیا جا رہا تھا۔ لاہور سے شائع ہونے والے پہلے شمارے کے صفحہ اوّل پر حضرت مصلح موعودؓ کا تحریر فرمودہ جو پیغام شائع ہوا، اس کا عنوان تھا۔’’کیا آپ سچے احمدی ہیں؟‘‘اس پیغام کا ابتدائی حصہ درج کیا جاتا ہے، جس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے، کہ اس وقت حالات کتنے سنگین تھے۔ حضورؓ تحریر فرماتے ہیں:(۱) اگر آپ سچے احمدی ہیں توآج ہی سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں۔دعاؤں پر زور دیں۔ نمازوں پر زور دیں۔ اگر آپ کی بیوی نماز میں کمزور ہے اسے سمجھائیں۔باز نہ آئے طلاق دے دیں۔اگر آپ کا خاوند نماز میں کمزور ہے اسے سمجھائیں۔ اگر اصلاح نہ کرے اس سے خلع کرالیں۔اگر آپ کے بچے نماز میں کمزور ہیں تو ان کا اس وقت تک کے لئے مقاطعہ کردیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔

(۲) جب موقع ملے نفلی روزہ رکھیں۔ اور گزشتہ رمضانوں کے روزوں میں سے کوئی کمی رہ گئی ہو تو جلد سے جلد وہ قرض اتاریں۔

(۳) ان دنوں میں مسلمانوں پر بڑی مصیبت آئی ہوئی ہے۔ آپ اس مصیبت میں حکومت اور افراد کی پوری مدد کریں۔

(۴) آج ہی اپنے دل میں عہد کرلیں کہ قادیان کی حفاظت کرتے چلے جانا ہے۔اور اس بارے میں جو سکیم بنی ہے اس پر فوری عمل شروع کر دیں۔ وہ سکیم دوسری جگہ پر درج ہے۔ اور اگر ہندوستانی حکومت کے دباؤ سے ہمیں قادیان خدانخواستہ خالی کرنا پڑے۔ تو ہر ایک احمدی قسم کھائے کہ وہ اسے واپس لے کر چھوڑے گا۔ اور اگر اس میں دیر ہو تو ہر بچہ جوان ہو اس سے قسم لی جایا کرے۔یاد رکھو قادیان خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ مرکز ہے۔ اور ضرور تمہارے پاس رہنا چاہیے۔ اور رہے گا ان شاء اللہ…‘‘

الفضل کے اسی شمارے میں حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے یہ پیغام شائع ہوا کہ تمام جماعتیں ۱۸ سال سے ۵۵ سال کے افراد کی فہرست بنا کر قرعہ اندازی کر کے ان کا ۸/۱حصہ قادیان کی حفاظت کے لئے بھجوائیں اور قادیان کی آبادی کا ۵/۱ حصہ قادیان میں قادیان کی حفاظت کے لئے رہے گا۔ اس سے اگلے شمارے میں جو کہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو شائع ہوا حضور کا وہ خطبہ جمعہ شائع ہوا جوکہ حضورؓ نے ۵؍ستمبر۱۹۴۷ء کو ارشاد فرمایا تھا۔ اس وقت الفضل میں جماعت کے انتظامی اعلانات ہو رہے تھے۔ پناہ گزینوں کی راہنمائی کی جا رہی تھی۔ جماعتی عہدیداروں کے نام پیغامات شائع کیے جا رہے تھے۔ احباب ِ جماعت کو مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی جا رہی تھی۔ سب سے بڑھ کر خلیفہ وقت کے پیغام شائع کیے جا رہے تھے۔ الفضل حضرت مصلح موعودؓ کی راہنمائی پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ بنا ہوا تھا۔ اور اس ذریعہ سے جماعت اور خلیفہ وقت کے درمیان مسلسل رابطہ قائم تھا۔( ماخوذ از الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء)

جیسا کہ بیان ہوچکاہے ’’ …جون ۱۹۱۳ءسے لے کر اگست ۱۹۴۷ء تک روز نامہ الفضل متحدہ ہندوستان سے شائع ہوتا رہا۔ آزادی کے بعد۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء روزنامہ الفضل لاہور پاکستان کے نام سے شائع ہونا شروع ہوا اور۲۶ فروری ۱۹۵۳تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔۱۹۵۳ءمیں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کے باعث ۲۷؍فروری ۱۹۵۳ء سے الفضل ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا۔۱۵؍مارچ ۱۹۵۴ء سے دوبارہ الفضل لاہور شائع ہونا شروع ہوا اور یہ دوسرا دور دسمبر ۱۹۵۴ء تک جاری رہا …۔(روز نامہ صد سالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء صفحہ ۱۷۳کالم ۲,۱)

لاہور سے ربوہ منتقلی

جلسہ سالانہ ۱۹۵۴ء کے ایام میں اسے لاہور سے ربوہ منتقل کر دیا گیا جہاں ۳۱؍ دسمبر ۱۹۵۴ء سے یہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ میں چھپنے لگا۔ اس طرح قریباً سات برس کے بعد دوبارہ مرکز احمدیت سے نکلنا شروع ہوا۔اس پرمسرت موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے قارئین کے نام ایک پیغام دیا جس کا متن یہ تھا۔

’’… اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے۔ اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ آپ کو ان امور پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔‘‘(الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۵۴ء)

الفضل خدا کا فضل

روزنامہ الفضل کی صد سالہ تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی کامیابی کے پیچھے دراصل نظام خلافت کا ہاتھ ہے جس کی ان گنت برکات سے جہاں احمدیت نے من حیث الجماعت اور افراد جماعت نے انفرادی سطح پر وافر حصہ پایا۔ وہاں جماعتی اداروں نے ہراعتبار سے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ ایک عام فہم شخص بھی بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ جماعتی ادارے خلیفۂ وقت کے فیضان نظر سے انتہائی نامساعد حالات میں اشاعت دین کے للّٰہی مقصد کی تکمیل میں خلیفۂ وقت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں اور ان کی مساعی اور استعداد کار میں کہیں کوئی رخنہ نظر نہیں آتا اور اگر ہماری سستی اور غفلت سے کسی جگہ رخنے کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں تو خلیفۂ وقت اپنی قوت قدسیہ سےفوراًاصلاح فرما دیتے ہیں۔الحمدللہ

آج یہ اخبارتاریخ احمدیت کا اہم ماخذ ہے۔ اس کی اہم ترین خدمت خلفائے احمدیہ کے ارشادات کو محفوظ کرنا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے زمانہ سے لے کر آج تک خلفائے احمدیہ کے خطابات، تقاریر، تحریکات، پیغامات، سوال و جواب اور دوروں کی رپورٹس شائع کرنے کا اولین اعزاز الفضل کو ہی حاصل ہے اور اس اخبار کا بیشتر حصہ انہی امور پر مشتمل ہے۔ اسی اخبار کی مدد سے خلفائے کرام کے خطابات وتقاریر نے کتابی صورت اختیار کی ہے۔ الفضل میں ہی ہمیں حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے پہلے دورہ یورپ سے لے کر آج تک خلفاء سلسلہ کے سفروں کی رودادپڑھنے کو ملتی ہے۔ پھر اس اخبار نے ہر ملک اورہر بڑے چھوٹے شہر میں پیغام حق پہنچانے کی تاریخ محفوظ کی ہے۔ خلافت رابعہ کے دورمیں ہجرت لندن کے بعد الفضل اخبار ہی جماعت کو خلافت کے نئے نئے پروگراموں سے باخبر کرتا رہااور ہجرت کے ابتدائی سالوں میں خلافت سےوابستگی کو مضبوط رکھنے کا واحد ذریعہ رہا۔ بزرگان احمدیت کی سیرت و سوانح کا ریکارڈ ہے۔ عالمگیر جماعت میں ہونے والی ولادتوں، وفاتوں، نکاحوں اور شادیوں کا روز نامچہ ہے۔ علمی، ادبی، سائنسی، تاریخی، جغرافیائی اور طبی معلومات کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اختلافی مسائل اور ان کے حل کا ذخیرہ ہے۔ انقلابات زمانہ اور سیاسی خبروں کا خلاصہ ہے۔ شاعری کا گلستان ہے۔ باغ احمدیت کی وہ نہر ہے جو ہر صبح لاکھوں دلوں کی سیرابی کا باعث ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل کے مطالعہ اور اس کی قدر و قیمت کا متعدد بار ذکر کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’آج لوگوں کے نزدیک الفضل کوئی قیمتی چیز نہیں مگر وہ دن آرہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے جب الفضل کی ایک جلد کی قیمت کئی ہزار روپیہ ہو گی لیکن کوتاہ بین نگاہوں سے یہ بات ابھی پوشیدہ ہے۔‘‘(الفضل ۲۸؍مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۳)

الفضل پر آنے والے مختلف ادوار مختصراً جائزہ

الفضل نے اپنے صد سالہ دور میں کئی رنگ بدلے۔ آغاز میں یہ ہفت روزہ تھا۔ ایک سال کے بعد ہفتہ میں تین بار ہو گیا۔ ۱۹۲۵ء میں ہفتہ میں دو بار ہوا۔ ۸؍مارچ ۱۹۳۵ء وہ مبارک دن تھا جب یہ روزنامہ کی صورت میں جاری ہوا۔ ۱۹۵۳ء، ۱۹۸۴ء، ۱۹۹۰ءاور ۲۰۰۵ء میں جبری بندش ہوئی ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تاریخ دیکھیں یا آج کی،جبر بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالتی چلی آئی ہے۔ نفرتوں کے بوئے گئے بیج تناور درخت بن چکے ہیں۔اسی گھٹن زدہ فضا کا شکار روزنامہ الفضل بھی ہوا۔دسمبر ۲۰۱۶ء سے پنجاب حکومت کی طرف سےاس کے پرنٹ کرنے پر غیر قانونی پابندی لگا دی گئی۔

سہ روزہ سے روزنامہ تک کاسفر

دور حاضر میں سیدنا و امامنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دستِ مبارک سے روزنامہ الفضل لندن کے آن لائن ایڈیشن کا اجرا دسمبر ۲۰۱۹ء فرمایا جو تین سال کی قلیل مدت میں جماعتی لٹریچر میں ایک مفید اضافے کے بعد اب الفضل انٹرنیشنل میں ضم ہوچکا ہے۔ اب الفضل انٹرنیشنل اللہ تعالیٰ کے فضل سےروز نامہ کی صورت میں۲۳؍مارچ ۲۰۲۳ء سے لندن سے جاری ہے۔

امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے دعائیہ کلمات

امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ الودود بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍ مارچ ۲۰۲۳ءمیں الفضل انٹرنیشنل کے روزنامہ ہونے پر اسے پڑھنے اور خریدنے کی تحریک فرمائی نیز اس میں لکھنے والوں کے لیے دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’ایک یہ بھی اعلان کر دوں کہ کل ۲۳؍مارچ سے الفضل انٹرنیشنل جو ہفتے میں دو بار شروع ہو گیا تھا اب روزنامہ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اردو جاننے والے اور پڑھنے والوں کو اسے پڑھنا بھی چاہیے، خریدنا بھی چاہیے،subscribeکرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے فیض اٹھانے کی توفیق دے اور الفضل میں لکھنے والوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اعلیٰ مضامین لکھنے والے ہوں۔ ‘‘(آمین)(الفضل انٹرنیشنل ۱۴؍اپریل ۲۰۲۳ء صفحہ ۷)

الفضل انٹرنیشنل کے روزنامہ ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی پیغام

حضور انور نے الفضل کے روزنامہ ہونے پر ایک خصوصی پیغام عطا فرمایا:’’اخبار الفضل کے سن ۲۰۲۳ءکے آغاز سے روزنامہ کی شکل میں جاری ہونے پر آپ کی خواہش کے پیش نظر میرا یہ پیغام ہے کہ اس کے اجرا کے وقت شروع میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے حالات کے مطابق اسے ہفتہ وار جاری کیا تھا لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتظامی لحاظ سے اتنی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لکھنے والے بھی اتنے مہیا ہو رہے ہیں اور مواد بھی اس قدر میسر آ رہا ہے کہ ہم اس کو روزنامہ بنا کر اس کے مطابق اس کی اشاعت کر سکیں۔ اس لئے یہ اخبار جو ابتداء میں ہفتہ وار تھا اور کچھ عرصہ قبل ہفتہ میں دو شماروں میں تبدیل ہوا، اب یہ اللہ تعالیٰ کی مزید توفیق سے روزنامہ بن رہا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو بھی صحیح معنوں میں اس کو روزانہ جاری رکھنے کی ہمت اور صلاحیت عطا فرمائے اور الفضل کے قارئین کو بھی اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ توفیق بھی دے کہ وہ اس کے خریدار بن سکیں تاکہ اس سے وہ مقصد پورا ہو جس کی خواہش حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس کے اجرا کے وقت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو ہماری دینی اور اخلاقی اور روحانی اور علمی ترقی کا باعث بنائے۔ آمین‘‘ ( روز نامہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍مارچ ۲۰۲۳ء صفحہ ۳)

الفضل اخبار کا یہ طویل سفرجو ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے،کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں رہا،اس کی راہ میں طرح طرح کی مشکلات اور مسائل حائل رہے ہیں لیکن ان مشکلات کے باوجود اس کا روحانی سفر ہمیشہ ہر دن ایک نئی کامیابی کا سورج لے کر ہی طلوع ہوتا رہا ہے اور ان شاء اللہ ہوتا رہے گا۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس اپنے موقر جریدہ سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button