متفرق مضامین

تکمیل اشاعت ہدایت میں پریس کا کردار

(اواب سعد حیات)

کاغذ کی ایجاد نے دنیا میں علم کے انتہائی سرعت سے پھیلنے کی راہ کھولی ہے۔ جہاں پہلے صرف چند ہزار کتابیں ہوا کرتی تھیں وہاں کاغذ کی وجہ سے بے شمار تعداد میں کتابیں لکھی جانے، شائع ہونے اور تقسیم ہونے لگیں۔ کاغذ کی عام دستیابی اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے موجد Gutenberg ایجاد کردہ پرنٹنگ پریس نے مختصر سے وقت میں کتابوں، اخباروں اور رسالوں کی طباعت کو ہزاروں کی تعدادتک پہنچا دیا۔

پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے قرآن کریم صدیوں تک ہاتھ سے لکھا جاتا رہا۔ ایک کاتب کو ہاتھ سے لکھ کر نقل تیار کرنے میں کتنا وقت لگتا ہوگا اور اب پرنٹنگ پریس کی ایجاد کی وجہ سے دنیا بھر میں قرآن کریم کے میسر نسخوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہواہے۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ ایک مثال پیش ہے۔ آپؑ نے ایک موقع پر کثیر تعداد میں اشاعت کتب کو اپنے زمانہ کے اہم امور میں شمار کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’کس قدر ترقیات ہوئی ہیں۔ کتابوں کی اشاعت ہی کی طرف دیکھو کیسی ہو رہی ہے۔ ایک شخص کمےّ شاہ نام کہنے لگا کہ میرے مرشد ہمیشہ صحیح بخاری کی تلاش میں رہا کرتے تھے اور پنج وقت اس کے ملنے کے لیے دعا کیا کرتے تھے اور کبھی کبھی مایوس ہو کر رونے لگتے تھے اور اس قدر روتے کہ ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور اب یہ حال ہے کہ صحیح بخاری تین چار روپے کو مل جاتی ہے۔ لیکن اُس وقت یہ حال تھا کہ کسی ملاں کے پاس بھی اگر کوئی کتاب ہوتو بس کنز، قدوری، کافیہ تک ہی اس کی تعداد ہو سکتی تھی اور اِس وقت اِس قدر خزانے نکل آئے ہیں کہ کوئی اُن کو گن بھی نہیں سکتا…۔اب غور کرکے دیکھ لو کہ یہ کیسے صاف صاف نشان ہیں۔ کتابوں کے ذخیرے نکل آئے۔ ان کے چھاپنے اور شائع کرنے میں ہر قسم کی آسانیاں ہوگئیں۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۱۴، ایڈیشن۱۹۸۸ء)آپؑ نے ایک دوسری جگہ تحریر فرمایا: ’’چھٹا نشان کتابوں اور نوشتوں کا بکثرت شائع ہونا، جیسا کہ آیت وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ بباعث چھاپہ کی کلوں کے جس قدر اس زمانہ میں کثرت سے اشاعت کتابوں کی ہوئی ہے اس کے بیان کی ضرورت نہیں‘‘۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۲۰۶، ایڈیشن۱۹۸۴ء)

اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے آکر مسلم امّہ کی ہدایت و راہنمائی کے لیے جو نہایت زبردست کام کیے ان میں سے ایک اہم کام یہ تھا کہ آپ نے مسلمانوں کو بتایا کہ اِس وقت دینِ اسلام پر حملہ دلائل و براہین کے ذریعہ سے ہورہا ہے۔اور چھاپہ خانہ کی مدد سے یہ حملےگویا گھر گھر پر ہورہے ہیں۔اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے دفاع میں دلائل و براہین یکجا کیے جائیں اور انہیں پرنٹنگ پریس سے کثیر تعداد میں طبع کرواکر عام کیا جائے۔

اسی تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند کا ایک اہم شہر لدھیانہ ہے۔پتا چلتا ہے کہ عیسائی مشنریوں نے پنجاب میں سب سے پہلے اس شہر لدھیانہ سے اخبار جاری کیا جو قلمی اخبار کی صورت میں تھااور بعد میں جب چھاپہ خانہ قائم ہوا تویہ اخبار ٹائپ میں چھپنے لگا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت لینے اور اپنے سلسلہ کی بنیاد رکھنے کےلیے لدھیانہ شہر کا انتخاب فرما کر علاوہ دیگر امور کے اسلام پر اس زبردست قلمی حملہ کے سدباب کا اعلان فرمایا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے مبعوث ہوکر امت کو سمجھایاہے کہ دور حاضر کی ایجادات پریس وغیرہ اور رسل و رسائل کے جملہ وسائل و انتظامات در اصل تواسلام کی اشاعت کی خاطر ہیں۔

تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا ظہور دنیا میں تکمیل ہدایت کے واسطے دو بروزوں کے طور پر تھا۔ ایک بروز موسوی اور دوسرے بروز عیسوی۔

اس کا ثبوت اور اظہار اس طرح پر ہے کہ آپﷺ پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب میں گذشتہ دونوں ہدایتوں یعنی توریت اور انجیل کا جامع اور کامل طور نزول ہوگیا ہے کیونکہ قرآن کریم نے’’ کتب قیّمہ ‘‘کو محفوظ کرتے ہوئے ہر ایک گذشتہ ہدایت کی پابندی اس کے موقع اور محل پر واجب ٹھہرائی ہے۔

یوں ہدایت الٰہی کی بابت ایک مرحلہ تو اپنے کمالِ تام کو پہنچا۔اب ضرورت تھی کہ آنحضورﷺ کے نفس نفیس سے ظہور میں آنے والی اس خاص ہدایت کی اشاعت کی تکمیل کے بھی سامان ہوں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تکمیل اشاعت ہدایت کے ضمن میں فرماتے ہیں :’’اور وہ [تکمیل اشاعت ہدایت] ایک ایسے زمانہ پر موقوف تھی جس میں تمام وسائل اشاعت احسن اور اکمل طور پر میسر ہوں۔ لہٰذا تکمیل اشاعت ہدایت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبروزوں کی حاجت پڑی (۱) ایک بروز محمدی موسوی (۲) دوسرا بروز احمدی عیسوی…اب میں دوبارہ یاد دلاتا ہوں کہ تکمیل ہدایت کے دن میں تو خود آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دنیا میں موجود تھے اور وہ روز یعنی جمعہ کا دن جو دنوں میں سے چھٹا دن تھا مسلمانوں کے لئے بڑی خوشی کا دن تھا جب آیت اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ نازل ہوئی اور قرآن جو تمام آسمانی کتابوں کا آدم اور جمیع معارف صحف سابقہ کا جامع تھا اور مظہر جمیع صفات الٰہیہ تھا اُس نے آدم کی طرح چھٹے دن یعنی جمعہ کے دن اپنے وجود باجود کو اتم اور اکمل طور پر ظاہر فرمایا۔

یہ تو تکمیل ہدایت کا دن تھا مگر تکمیل اشاعت کا دن اس دن کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتا تھاکیونکہ ابھی وہ وسائل پیدا نہیں ہوئے تھے جو تمام دنیا کے تعلقات کو باہم ملا دیتے اور برّی اور بحری سفروں کو مسافروں کے لئے سہل کر دیتے اور دینی کتابوں کی ایک کثیر مقدار قلمبند کرنے کے لئے جو تمام دنیا کے حصّہ میں آسکے آلات زود نویسی کے مہیا کر دیتے اور نہ مختلف زبانوں کا علم نوع انسان کو حاصل ہوا تھا اور نہ تمام مذاہب ایک دوسرے کے مقابل پر آشکارا طور پر ایک جگہ موجود تھے۔ اس لئے وہ حقیقی اشاعت جو اتمام حجت کے ساتھ ہر ایک قوم پر ہو سکتی ہے اور ہر ایک ملک تک پہنچ سکتی ہے نہ اس کا وجود تھا اور نہ معمولی اشاعت کے وسائل موجود تھے۔ لہٰذا تکمیل اشاعت کے لئے ایک اور زمانہ علمِ الٰہی نے مقرر فرمایا۔ جس میں کامل تبلیغ کے لئے کامل وسائل موجود تھے اور ضرور تھا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ہوئی ایسا ہی تکمیل اشاعتِ ہدایت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہو کیونکہ یہ دونوں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے منصبی کام تھے لیکن سنت اللہ کے لحاظ سے اس قدر خلود آپ کے لئے غیر ممکن تھا کہ آپ اُس آخری زمانہ کو پاتے اور نیز ایسا خلود شرک کے پھیلنے کا ایک ذریعہ تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خدمت منصبی کو ایک ایسے امتی کے ہاتھ سے پورا کیا کہ جو اپنی خو اور روحانیت کے رُو سے گویا آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ایک ٹکڑا تھا یا یوں کہو کہ وہی تھا اور آسمان پر ظلّی طور پر آپ کے نام کا شریک تھا…غرض خدا تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے اس بات کا التزام فرمایا کہ جیسا کہ تکمیل ہدایت قرآنی چھٹے دن ہوئی تھی ایسا ہی تکمیل اشاعت ہدایت قرآنی کے لئے الف ششم مقرر کیا گیا جو بموجب نص قرآنی چھٹے دن کے حکم میں ہے اور جیسا کہ تکمیل ہدایت قرآنی کا چھٹا دن جمعہ تھا ایسا ہی ہزار ششم میں بھی خداتعالیٰ کی طرف سے جمعہ کا مفہوم مخفی ہے یعنی جیسا کہ جمعہ کا دوسرا حصّہ تمام مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کرتا ہے اور متفرق ائمہ کو معطل کرکے ایک ہی امام کا تابع کر دیتا ہے اور تفرقہ کو درمیان سے اٹھاکر اجتماعی صورت مسلمانوں میں پیدا کر دیتا ہے یہی خاصیت الف ششم کے آخری حصہ میں ہے یعنی وہ بھی اجتماع کو چاہتا ہے

سو اگرچہ آنحضرؔت صلے اللہ علیہ وسلم کے عہد حیات میں وہ تمام متفرق ہدایتیں جو حضرت آدم سے حضرت عیسیٰ تک تھیں قرآن شریف میں جمع کی گئیں لیکن مضمون آیت قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں عملی طور پر پورا نہیں ہو سکا کیونکہ کامل اشاعت اس پر موقوف تھی کہ تمام ممالک مختلفہ یعنی ایشیا اور یورپ اور افریقہ اور امریکہ اور آبادی دنیا کے انتہائی گوشوں تک آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تبلیغ قرآن ہو جاتی اور یہ اس وقت غیر ممکن تھا بلکہ اسوقت تک تو دنیا کی کئی آبادیوں کا ابھی پتہ بھی نہیں لگا تھا اور دور دراز سفروں کے ذرائع ایسے مشکل تھے کہ گویا معدوم تھے۔ بلکہ اگر وہ ساٹھ برس الگ کر دیئے جائیں جو اس عاجز کی عمر کے ہیں تو۱۲۵۷ ہجری تک بھی اشاعت کے وسائل کاملہ گویا کالعدم تھے اور اس زمانہ تک امریکہ کل اور یورپ کا اکثر حصہ قرآنی تبلیغ اور اس کے دلائل سے بے نصیب رہا ہوا تھا بلکہ دُور دُور ملکوں کے گوشوں میں تو ایسی بے خبری تھی کہ گویا وہ لوگ اسلام کے نام سے بھی ناواقف تھے غرض آیت موصوفہ بالا میں جو فرمایا گیا تھا کہ اے زمین کے باشندو! مَیں تم سب کی طرف رسول ہوں عملی طور پر اس آیت کے مطابق تمام دنیاکو ان دنوں سے پہلے ہر گز تبلیغ نہیں ہو سکی اور نہ اتمام حجت ہوا کیونکہ وسائل اشاعت موجود نہیں تھے اور نیز زبانوں کی اجنبیت سخت روک تھی اور نیز یہ کہ دلائل حقانیت اسلام کی واقفیت اس پر موقوف تھی کہ اسلامی ہدایتیں غیر زبانوں میں ترجمہ ہوں اور یا وہ لوگ خود اسلام کی زبان سے واقفیت پیدا کر لیں اور یہ دونوں امر اس وقت غیر ممکن تھے…

لیکن اس وقت تکمیل اشاعت ہدایت غیر ممکن تھی اور غیر زبانوں تک دین کو پہنچانے کے لئے اور پھر اس کے دلائل سمجھانے کے لئے اور پھر ان لوگوں کی ملاقات کے لئے کوئی احسن انتظام نہ تھا اور تمام دیار بلاد کے تعلقات ایسے ایک دوسرے سے الگ تھے کہ گویا ہر ایک قوم یہی سمجھتی تھی کہ اُن کے ملک کے بغیر اور کوئی ملک نہیں جیسا کہ ہندو بھی خیال کرتے تھے کہ کوہ ہمالہ کے پار اور کوئی آبادی نہیں اور نیز سفر کے ذریعے بھی سہل اور آسان نہیں تھے اور جہاز کا چلنا بھی صرف بادشرط پر موقوف تھا اِس لئے خدا تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کو ایک ایسے زمانہ پر ملتوی کر دیا جس میں قوموں کے باہم تعلقات پیدا ہو گئے اور بّری اور بحری مرکب ایسے نکل آئے جن سے بڑھ کر سہولت سواری کی ممکن نہیں۔ اور کثرت مطابع نے تالیفات کو ایک ایسی شیرینی کی طرح بنا دیا جو دنیا کے تمام مجمع میں تقسیم ہو سکے۔ سو اس وقت حسب منطوق آیت وَ ٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ اورنیز حسب منطوق آیت قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کے لئے بدل وجان سرگرم ہیں۔ آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجیئے کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لیےآیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ اُن تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں…

اُس نے اس بعث دوم کے لئے ہزار ششم کو پسند فرمایا اور وسائل اشاعت بھی اِسی ہزار ششم میں وسیع کئے گئے اور ہر ایک اشاعت کی راہ کھولی گئی۔ ہر ایک ملک کی طرف سفر آسان کئے گئے جابجا مطبع جاری ہو گئے۔ ڈاک خانہ جات کا احسن انتظام ہو گیا اکثر لوگ ایک دوسرے کی زبان سے بھی واقف ہو گئے اور یہ امور ہزار پنجم میں ہرگز نہ تھے بلکہ اس ساٹھ سال سے پہلے جو اس عاجز کی گذشتہ عمر کے دن ہیں ان تمام اشاعت کے وسیلوں سے ملک خالی پڑا ہوا تھا اور جو کچھ ان میں سے موجود تھا وہ ناتمام اور کم قدر اور شاذو نادر کے حکم میں تھا۔ ‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۲۵۷ تا ۲۶۴)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے طباعت و اشاعت کے لیے پریس اور چھاپہ خانوں کی ایجاد کو اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’ایک شاخ تالیف وتصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اس عاجز کے سپرد کیا گیا۔ اور وہ معارف ودقائق سکھائے گئے جو انسانی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں… دوسری شاخ اس کار خانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکم الٰہی اتمام حجت کے لیے جاری ہے‘‘۔(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۲)نیز فرمایا:’’پھر میں جہاں تک میرے امکان میں ہے تالیفا ت کے ذریعہ سے ان علوم اور برکات کو ایشیا اور یورپ کے ملکوں میں پھیلاؤں جو خدا کی پاک روح نے مجھے دیئے ہیں…‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد سوم صفحہ۵۱۶ )

آپؑ نے پرنٹنگ پریس سے پیدا ہونے والی آسانی کا اپنے ایک الہام میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سَھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍِ ‘‘یعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیرے لیے آسانی نہیں کر دی۔یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیرے لیے میسر نہیں کر دیے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لیے ضروری تھے جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لیے وہ سامان تبلیغ اور اشاعتِ حق کے میسر کر دیے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے۔ تمام قوموں کی آمد و رفت کی راہیں کھولی گئیں…۔طے مسافرت کے لیے وہ آسانیاں کر دی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں، اور خبر رسانی کے وہ ذریعے پیدا ہوئے کہ ہزاروں کوس کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں، ہر ایک قوم کی وہ کتابیں شائع ہوئیں جو مخفی اور مستور تھیں کتابوں کے لکھنے میں جو جو دقتیں تھیںوہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دور ہوگئیں۔ یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں دس سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آسکتا تھا ‘‘۔( براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۱۹، ۱۲۰)

کوئی گمان کرسکتا ہے کہ یہ مذکورہ بالا خیالات اور تجزیات صرف جماعت احمدیہ کے اندر ہی پائے جاتے تھے اور امت محمدیہ کے اندر کسی اور مفکر نے تکمیل اشاعت ہدایت کے لیے موجودہ زمانہ کی ایجادات اور سہولیات کی دستیابی کے غیر معمولی پہلو کو محسوس ہی نہ کیا تھا۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ روزنامہ الفضل قادیان ۱۹؍اپریل ۱۹۴۶ء میں مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’اسلام کی نشاۃٔ ثانیہ کا مر کز ملک ہند اور اسکی عالمگیر اشاعت کا یہی ز مانہ ہے‘‘شائع ہوا، اس میں انہوں نے لکھا کہ ’’بے شک لوگ کہتے ہیں کہ کیا آج اس علمی زمانہ میں اسلام کو پھیلایا جاسکتا ہے؟… غیروں کو جانے دیجیے، خود مسلمان کہلانے والے اسے باور کرنے کو تیار نہ تھے۔ ورنہ کیاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نداء پر لبیک نہ کہتے۔ وہ تو اسے ایک انہونی بات سمجھتے تھے اور اس کے کہنے والے کو دیوانہ تصور کرتے تھے۔ مگر الحمدللہ کہ آج ان… صداقتوں کے اعتراف پر مجبور ہیں کہ اسلام… کی عالمگیر اشاعت کا یہی زمانہ ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے انگریزی اخبار ’’ڈان ‘‘ کے سابق ایڈیٹر جناب حسن احمد صاحب ایک قیمتی مضمون بعنوان ’’آب حیات‘‘ روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہواہے۔ سارا ہی مضمون اس قابل ہے کہ عام مسلمان اس پر غور کریں مگر بعض اقتباس تو خاص توجہ کے قابل ہیں…آج سے تیرہ سوبرس قبل ترسیل رسائل و نقل و حرکت کے وہ زود رساں ذرائع انسان کو میسر نہ تھے جو آج ہیں۔ مثلاً تار برقی۔ لاسلکی۔ ریل۔ موٹر۔ ہوائی جہاز وغیرہ۔ موجودہ زود رساں ذرائع کے ہوتے ہوئے دنیا میں فی زمانہ بُعد زمانی و مکانی اس قدر کم رہ گیا ہے کہ افکار و اخبار ایک جگہ سے دوسری جگہ بسرعت پہنچ سکتے اور پھیل سکتے ہیں۔ اب سے تیرہ سو برس قبل تو دنیا میں چند مقامات ایسے باقی بھی رہ گئے ہونگے جہاں اسلام کی آواز بوجہ بُعد مکانی شائد نہ پہنچ سکی ہو مگر آج دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں کوئی آواز نہ پہنچ سکے اور جہاں کےلوگ خود گوش بر آواز نہ ہوں۔ چنانچہ فی زمانہ دنیا میں اسلامی افکار و اعمال کی اشاعت کے اور اس اشاعت سے تمام اقوام اور جماعتوں کو یکساں مستفید کرنے کے مواقع و ذرائع بیشتر و بہتر موجود ہیں۔‘‘(صفحہ ۴)

الغرض اس شیخ المسیح علیہ السلام کے ایام سعد میں ہی قادیان میں چھاپہ خانے کی سہولت میسر ہوئی، اور ۱۸۹۵ء میں ضیاء الاسلام پریس قائم ہوا اور ایک نئی صبح طلوع ہوئی۔

لیکن سب کام آنا فاناً نہیں ہوئے اور نہ ہی ایسا تھا کہ کوئی مشکل درپیش ہی نہیں آتی تھی۔ ابتدا میں جماعت میں شامل ہونے والوں میں خریداری کی استعداد کم تھی۔ قادیان میں کاتب، پریس، اس کی مشینوں اور دیگر ٹیکنیکل امور سے تعلق رکھنے والے احباب قلیل تھے اور سارے اخبارات و رسائل مالی اور کئی قسم کے دباؤ کا شکار رہتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے کاموں اور مرمت کے لیے امرتسر یا لاہور جانا پڑتا تھا۔ متعدد مسائل سر اٹھاتے رہتے تھے۔ مگر سفر جاری رہا۔

۱۹۳۶ء میں جلسہ سالانہ پر پہلی بار لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا گیا جس سے ۲۵؍ ہزار احباب نے استفادہ کیا۔ اس موقع پر حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا:’’مَیں سمجھتا ہوں یہ بھی حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے؛ کیونکہ رسولِ کریمﷺ نے خبر دی تھی کہ مسیحِ موعود اشاعت کے ذریعے دینِ اسلام کو کامیاب کرے گا۔ اور قرآنِ کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحِ موعود کا زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نشان کی صداقت کے لیے پریس جاری کر دئیے اور پھر آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ سپیکر اور وائر لیس وغیرہ ایجاد کرائے۔ اور اب تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسا دن بھی آسکتا ہے کہ مسجد میں وائر لیس کا سیٹ لگا ہوا ہو اور قادیان میں جمعہ کے روز جو خطبہ پڑھا جا رہا ہو وہی تمام دنیا کے لوگ سن کر بعد میں نماز پڑھ لیا کریں۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان ۲۹ ؍دسمبر ۱۹۳۶ء)

یوں ایک طرف جہاں دیگر ایجادات تکمیل اشاعت ہدایت میں خادم اور سہولت کار بن کر اپنا کام کرتی رہیں وہاں پرنٹنگ پریس سے بھی کام لیا جاتا رہا۔ قادیان میں پرنٹنگ پریس کے ارتقاء کا ذکر ہوچکا، اسی طرح قیام پاکستان کے بعد ہجرت ہوئی اور ربوہ میں جدید پریس قائم ہوا۔

۱۹۸۴ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے بعد لندن میں رقیم پریس کا قیام عمل میں آیا، اس پریس نے حقانیت اسلام کے لیے تاریخ ساز لٹریچر پرنٹ کرکے نئی تاریخ رقم کی۔

خلافت خامسہ کے عظیم الشان دور میں یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ مختلف ممالک میں پرنٹنگ پریس کے قیام سے خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ حقہ کے لیے نئی سہولتیں پیدا ہوتی چلی جارہی ہیں۔اس بابت چندمتفرق جھلکیاں پیش ہیں۔

جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۱۵ء کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے فرمایا: ’’رقیم پریس اور افریقن ممالک کے جو مختلف احمدیہ پریس ہیں ان میں صرف ایک سال کے مختصر سے عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے رقیم پریس لندن کے ذریعہ چھپنے والی کتب کی تعدا د دولاکھ نوّے ہزار سے اوپر ہے۔ الفضل انٹرنیشنل، چھو ٹے پمفلٹ، لیف لیٹ اور جماعتی دفاتر کی سٹیشنری اس کے علاوہ ہے۔فارنہم (Farnham)میں رقیم پریس کے لیے ایک نئی عمارت خریدی گئی ہے۔ ان شاء اللہ یہ اسلام آباد سے وہاں شفٹ ہو جائے گا۔افریقن ممالک کے پرنٹنگ پریس بھی کام کررہے ہیں جن میں گھانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، آئیوری کوسٹ، بورکینا فاسو، کینیااور تنزانیہ شامل ہیں۔ اس سال وہاں جو لٹریچر طبع ہوا ہے اس کی تعداد دس لاکھ پچاسی ہزار ہے۔ فضلِ عمر پریس قادیان کے لیے جدید اور تیز رفتار بائنڈنگ اور فولڈنگ مشین خرید کر بھجوائی گئی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اس مشین کے ذریعہ کام ہورہا ہے۔ گیمبیا میں پہلا جدید کمپیوٹرائزڈ پریس سسٹم لگایا گیا‘‘۔(الفضل انٹرنیشنل ۵؍فروری ۲۰۱۶ء صفحہ ۱۳)

اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۱۷ء کے دوسرے دن کے خطاب میں فرمایا:’’رقیم پریس یوکے کے ذریعہ چھپنے والی کتب کی تعداد اس سال چھ لاکھ چھبیس ہزار تین سو تیس ہے۔الفضل انٹرنیشنل، جماعتی رسائل اور میگزین،پمفلٹس، لیف لیٹس،جماعتی دفاتر کی سٹیشنری وغیرہ اس کے علاوہ ہے۔افریقہ کے نو ممالک میں جماعت کے پریس کام کر رہے ہیں۔ جو کتب شائع ہوتی ہیں انہیں مختلف جماعتوں اور ممالک میں بھجوایا جاتا ہے، اس سال لندن سے مختلف ۵۲زبانوں میں تین لاکھ پانچ سو سے زائد تعداد میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد مالیت کی کتب دنیا کے مختلف ممالک کو بھجوائی گئیں۔قادیان سے بیرونی ممالک کو کتب بھجوائی جاتی ہیں۔ دوران سال قادیان سے بیرونی ممالک کی لائبریریزاور دیگر ضروریات کے لیے اڑتالیس ہزار سے زائد کتب بھجوائی گئیں‘‘۔( الفضل انٹر نیشنل ۱۴؍ستمبر ۲۰۱۸ء صفحہ ۱۴)

سال گذشتہ کی مثال دیکھیں تو جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۲ء کے موقع پر دوسرے دن بعد دوپہر کے اجلاس سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایمان افروز اور دل نشین خطاب میں رقیم پریس اور افریقن ممالک کے احمدیہ پرنٹنگ پریس کے ضمن میں فرمایا:’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے رقیم پریس فارنہم کو اس سال بڑی تعدادمیں جماعتی کتب اور لٹریچر طبع کرنے کی توفیق ملی۔ اس سال رقیم پریس فارنہم کے ذریعہ چھپنے والی کتب کی تعداد دو لاکھ انتیس ہزار سے اوپر ہے۔ اس طرح رسالہ موازنہ مذاہب، انصار الدین اور النصرت، وقف نو کے رسالہ جات مریم اور اسماعیل، چھوٹے پمفلٹس، لیف لیٹس اور جماعتی دفاتر کی سٹیشنری وغیرہ کو شائع کرنے کی یا چھاپنے کی توفیق ملی۔ خطِ منظور کے ساتھ قرآن کریم کا انگلش ترجمہ نہایت دلکش اور دیدہ زیب جلد کے ساتھ شائع کیا گیا ہے…۔رقیم پریس میں جدید دو کلر مشین کی تنصیب کی گئی ہے۔احمدیہ پرنٹنگ پریس افریقہ کے سات ممالک میں ہیں۔ گھانا، نائیجیریا، تنزانیہ، سیرالیون، آئیوری کوسٹ، گیمبیا اور برکینا فاسو۔ انہوں نے بھی پانچ لاکھ اکہتر ہزار سے اوپر لٹریچر شائع کیا ہے، کتب شائع کیں۔ گیمبیا میں پہلی جدید فائیو کلر مشین کی تنصیب ہوئی اور یہ وہاں بڑا ماڈرن پریس بن گیا ہے۔‘‘(ماخوذ از رپورٹ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن۔ ۱۰؍نومبر ۲۰۲۲ء)

الغرض خلافت خامسہ کے آغاز پر پریس میں الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میںبھی انقلاب برپا ہوا۔ چنانچہ اس دور میں اعلائے کلمہ اسلام کے لیے جماعتی لٹریچر کی اشاعت کی ایک الگ شان نظر آتی ہے۔اسلام آبادبرطانیہ کے ساتھ ساتھ آج درجن بھر ممالک میں رقیم پریس کی جدید سہولتوں سے آراستہ شاخیں قائم ہیں جہاں ہر سال لاکھوں کتب کی اشاعت ہوتی ہے۔اور بطور خاص مسیح موعود کی مقدس بستی قادیان میں ’’فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان‘‘ بھی جدید پرنٹنگ و بائنڈنگ مشینری سے آراستہ ہے۔اور تکمیل اشاعت ہدایت میں اپنا فرض نبھا رہا ہے اور دنیا پر ظاہر ہورہا ہے کہ نام نہاد علماء اور مخالف مولویوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں ہے۔ کیونکہ بعثتِ مسیح موعودؑ کا مقصدتکمیلِ دین نہیں بلکہ تکمیلِ اشاعتِ دین ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button