تقریر جلسہ سالانہ

خلاصہ تقریر: دنیاوی طاقتوں کے قدم امن کی طرف بڑھانے کے لیے خلفائے احمدیت کی مساعی (انگریزی)

جلسہ سالانہ یوکے کے تیسرے دن کے صبح کے اجلاس کی آخری تقریری مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت یوکے کی تھی ۔آپ کی تقریر کا موضوع دنیا کی بڑی طاقتوں کی امن کی طرف راہنمائی میں خلفائےکرام کی کاوشوں کے متعلق تھا۔

محترم امیر صاحب نے بتایا کہ باوجو د امن کی مانگ کرنے کے ہم ایک ایسی دنیا میں ہیں جس کو جھگڑوں اور ناانصافی کا سامنا ہے۔یہ بات ہمیں اس سوال پر مجبور کرتی ہےکہ باوجود ہر پہلو میں شاندار ترقی کرنے کے ہم اپنی زندگیوں میں امن کی بنیادی ضرورت کے قیام میں ناکام کیوں ہیں؟

آ ج دنیا عالمی امن کے لیے اقوام متحدہ جیسے سیاسی نظام پر تکیہ کیے ہوئے ہے ۔تاہم موجودہ عالمی صورتحال اس نظام کی ناکامی پر شاہد ہے۔

یہ اس لیے ہے کیونکہ دنیا اپنے خالق سے دور ہو چکی ہے۔قرآن کریم تمام اقوام عالم کو انسانیت کی بنیاد پر مخاطب ہوتا ہے۔

’’اے لوگو! یقیناً ہم نے تم کو نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہےجو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والااور ہمیشہ باخبر ہے۔(الحجرات :۴۹)

اگر ہم دنیا کی تاریخ اور مذاہب پر معروضی طور پر نظر ڈالیں توہم دیکھتے ہیں کہ ہر مذہب کے پیروکار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقی تعلیمات سے دور ہوگئے اور یہ بات اندرونی تقسیم اور اختلافات کا موجب بنی۔یہ تقسیم اور اختلاف ہم نے ساری دنیا میں دیکھا۔

یہ اس لیے کہ چودہ سو سال پہلے اسلام کے بانی نے پہلے سے بتا دیا تھا کہ ایسے روحانی تاریکی کے وقت میں انسانیت کی واپس اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف راہنمائی کرنے کےلیے ایک مصلح مسیح موعود اور امام مہدی کی صورت میں خدا کی طرف سے بھیجا جائے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں اسلام کی حقیقی اور پر امن تعلیما ت سے روشناس کروایا۔یہی وجہ ہے کہ جماعت آج ’’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ‘‘ کے مضبوط لائحہ عمل پر عمل پیرا ہے۔

آپ کی راہنمائی آنحضورﷺ کی اس مثال سے کی گئی جس نے شاید معلوم سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی دستاویز تخلیق کی۔ مدینہ کا آئین یا عہد نامہ

یہ آئین انگریزی میگنا کارٹا سے بھی چھ سو سال پرانا ہے ۔ آنحضور ﷺ نے یہ عہد نامہ بطور اقلیتی فرمانروا کے لکھا۔یہ انسانی حقوق کےلیےلکھا گیا تاریخ کا پہلا عہد نامہ ہے اور قانون کی حکمرانی کی بنیادی شکل ہے جو آج تمام ترقی یافتہ اقوام استعمال کر رہی ہیں۔

ہم نے دیکھا ہےکہ جب اسلام پر اپنی حقیقی اور خوبصورت شکل میں عمل کیا جا رہا تھاتو دنیا کو تاریخ کا وہ حصہ دیکھنے کو ملا جس کو دریافتوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔اور اس وقت ہونے والی ترقی نے یورپ کی نشأۃ ثانیہ اور روشن خیالی کا راستہ بنایا۔

آنحضور ﷺ نے ایک بار فرمایا تھاکہ’’جو تمہارے ساتھ برا کرتا ہے اس کو معاف کردو،جو تم سے تعلق کاٹتا ہے اس کے ساتھ تعلق جوڑو،جو تمہارے ساتھ براسلوک کرتا ہے اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور سچ بولو اگرچہ وہ تمہارے اپنے خلاف کیوں نہ ہو‘‘۔ وہ ایک ایسا وجود تھے۔ جنہوں نے بہت سے مظالم کا سامنا کیا لیکن انہوں نے ہمیشہ امن اور انصاف کےلیے کوشش کی۔

آپ نے ایک ایسا ورثہ چھوڑا جسے آج مذہبی اور دین سے تعلق نہ رکھنے والے دونوں طبقات تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے آخری خطبہ میں آنحضورﷺ نے تمام قوموں اور نسلوں کی برابری کی بات کی۔آپؐ نے فرمایا کہ اصل چیز جو سب کو ممتاز کرتی ہے وہ تقویٰ ہے۔

جیسے آپ ﷺ امن کےلیے کوشاں رہے اسی طرح آپ ﷺ کے جانشینوں نے بھی کیا۔آپﷺ کی وفات کے بعد خلاف کا نظام وجود میں آیا۔تا کہ صحیح اور حقیقی اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی یقین دہانی ہو سکے۔

امیر صاحب نےسورۃ نور کی آیت ۵۶ پیشکر سکے کہاکہپہلے خلیفہ جو منتخب ہوئے وہ حضرت ابوبکر ؓ تھے ۔انہوں نے اس مثال پر عمل کیا جو ان سے پہلے قائم کر دی گئی تھی اور وہ معاشرتی درجہ بندی کی تقسیم کرنے کےلیے اس حد تک گئے جہاں تک ممکن تھا۔انہوں نے نہایت ہی مہارت سے معاملہ فہمی اور پر امن طریقہ کار سے مسلمان معاشرے کو مضبوط کیا اور اس بات کو زیادہ فوقیت دی کہ غیر ضروری جھگڑوں کو ختم کیا جائے۔

ان کی خلافت صرف دو سال چلی لیکن اس وقت آپ نے اسلام کے پر امن پھیلاؤ کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کر دیا۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ اپنے انصاف کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔انہوں نے ایک جامع قانونی نظام تشکیل دیا اور اسلامی سلطنت کو وسعت دی۔

جو معاہدہ انہوں نے یروشلم کی اسلامی فتح کے بعد کیا اس نے حفاظت کی یقین دہانی کی ، مذہبی آزادی دی،اور مسیحی شہریوں کی سلامتی اور ان کے مالکانہ حقوق کوقائم رکھا۔اس بات نے مذہبی رواداری اور انصاف کی بہترین مثال قائم کی۔

انہوں نے غلامی کے معاہدوں میں بندھے لوگوں کی آزادی کے لیے عملی کام کیا تا کہ زیادہ انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو۔حضرت عمرؓ اس قدر لوگوں کی بھلائی کا خیال کرتے تھےکہ رات کو بھیس بدل کر مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاتے تھے کہ آیا کسی کو مدد کی ضرورت تو نہیں۔

حضرت عثمانؓ کی خلافت نے باوجود انتہائی مخالفت اور اندورنی انتشار کے انتظامی امورعوامی فلاح بہبوداور پرامن قراردادوں پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔حضرت علیؓ نے اعلان کیا کہ ان کی اولین ترجیح ریاست کے اندر امن کا قیام اور قانون کا نفاذ ہے۔

حضرت علیؓ نے ہر ممکن کوشش کی کہ لڑائی اور خون خرابہ سے بچا جائے، خاص طور پر جنگ جمل میں جب ان کے سپہ سالاروں نے جنگی کارروائیوں کے متعلق سوال کیا۔تو آ پ نے کہا کہ اس وقت تک جنگ کی بات نہ کی جائے جب تک کہ امن قائم کرنے کی ساری چارہ جوئیاں نہ کر لی جائیں۔امن کی بات چیت میں ناکامی کے بعدانہوں نے کہا پہل ہماری طرف سے ہرگز نہیں کی جائے گی۔انہوں نے نصیحت کی کہ ’’دوسری طرف سے ہی جنگ کا آغاز ہونے دو اگر وہ عقل و دانش کی بات سننے کو تیار نہیں ۔‘‘

حضرت علی ؓ خلافت راشدہ کے آخری خلیفہ تھے اور آپ کی وفات کے بعد یہ ملوکیت میں بدل گئی۔آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ ’’نبوت تم میں رہے گی جب تک اللہ چاہے گا،پھر اس کا اختتام ہو گا اور اس کے بعد خلافت علی منھاج النبوۃ ہو گی جب تک اللہ چاہے گاپھر اس کااختتام ہو گا اور ظالم بادشاہت آئے گی اوراس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔اس کے بعد جابرانہ آمریت آئے گی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گااور پھراس کے حکم پر اس کا اختتام ہو گا۔پھر خلافت علی منھاج النبوۃ قائم ہو گی پھر آپ خاموش ہوگئے۔‘‘

اس حدیث میں مسلم امہ سے وعدہ کیا گیا ہے کہ خلافت علی منھاج النبوۃ دوبارہ واپس آئے گی۔تاہم خلافت کے قیام کے احیائے نو کے لیے ایک نبی کا آنا ضروری ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا بنیادی مقصد اسلامی تعلیمات کو ان کی قدیم او ر اصلی صورت میں بحالی اور تمام انسانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ایک مذہب میں اگر عفو و درگزر نہیں ہے تو وہ مذہب نہیں ہے اسی طرح ایک انسان جس میں رحم نہیں ہے وہ انسان نہیں ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی زندگی میں مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کو اسلام کے پر امن پیغام کی طرف دعوت دی جن میں ملکہ وکٹوریہ بھی شامل ہے۔آپؑ نے مسلم امہ کو بتایا کہ اب یہ قلم کے جہاد کا وقت ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا امن کا یہ پیغام گذشتہ ایک سو پندرہ سال سے خلفائے احمدیت آگے بڑھا رہے ہیں۔حضرت مسیح موعودؑ کے پہلے جانشین حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدینؓ صاحب تھے۔ان کی اسلام کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اور ان کی تعریف حضورؑ نے ایک فارسی شعر میں کی ہے۔اس کے بعد مقرر نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی تفسیر قرآن کے اقتباس پیش کیے۔ آپ ؓ نے مبلغین کی ایک جماعت کو دنیا میں تبلیغ کے لیے بھیجا۔ان میں سے ایک چودھری فتح محمد صاحب سیال ؓ بھی ہیں۔ہماری یہاں موجودگی ان کی ہی کوششوں کا شاخسانہ ہے۔حضورؓ کا خلافت کاوقت قلیل تھا لیکن آپ کے دور میں جماعت میں اتحاد قائم ہوا۔

آپ کی وفات کے بعدمسند خلافت حضرت مسیح موعودؑ کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کے پاس آئی۔آپ ہی مصلح موعود ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ کی ایک صفت اسیروں کی رستگاری کرنے والا ہے۔اس کے بعد مقرر نے خطبات محمود سے اقتباس پیش کیے۔

بہت سے ایسے مواقع تھے جہاں حضورؓ نے امن کے قیام کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا۔ ۱۹۳۰ء میں جب کشمیر کے مسلمانوں پر ڈوگرہ راجہ کے دور میں ظلم و ستم ہوا تو اس وقت کے تمام نوابوں اور مسلم لیگ کے راہنماؤں نے حضورؓ سے درخواست کی کہ اس ظلم و ستم کے خلاف مدد کریں۔چنانچہ آپ ؓ کی کوششوں سے ہی کشمیری مسلمانوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک ایسا وقت آیا جب یہ لگ رہا تھا کہ یہ جنگ ارض مقدس تک جا پہنچے گی۔ چنانچہ آپؓ نے جنگ کے اس پھیلاؤ کو روکنے کےلیے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور ایک مشہور اخبار ‘‘زم زم’’ نے آپ کی کوششوں کو خوب سراہا۔اس کے بعد مقرر نے اس اخبار کا اقتباس پیش کیا۔

۱۹۴۸ءمیں جب فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں چل رہا تھا تو عربوں کی درخواست پر حضورؓ نے حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کو امریکہ میں رکنے اور ان کا مقدمہ پیش کرنے کو کہا۔اور عربوں نے آپ کا بےحد شکریہ ادا کیا۔اس کے علاوہ حضرت چودھری ظفر اللہ خانؓ نے بہت سے عرب ممالک کی آزادی کےلیے کام کیا۔اس بات کا اظہار مصری راہنماء السید مصطفیٰ مومن نے کیا۔

اس کےعلاوہ حضورؓ نے برطانیہ میں مذاہب عالم کی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔

حضورؓ کی ہدایت کے مطابق اس وقت کے لندن مسجد کے امام عبدالرحیم دردصاحب نے قائد اعظم کو واپس انڈیا جانے پر رضامند کیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی آمد بہت سارے انسانی خدمت کے کاموں کا پیش خیمہ بنی خاص طور پر افریقہ میں۔ آپ نے دو عظیم الشان سکیموں فضل عمر فاؤنڈیشن ( جو کہ حضرت مصلح موعود ؓ کے کاموں کو آگے لے کر چل رہی ہے) اور نصرت جہاں سکیم کا آغاز کیا۔جو مغربی افریقہ میں مستقل بنیادوں پر انسانی خدمات کا کام کر رہی ہے۔اس وقت کے گیمبیا کے برطانوی ہائی کمشنر نے نصرت جہاں سکیم کی کامیابی کا ذکر بھی کیا۔

ترقی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور وہ ۱۹۷۴ء کے فسادات کی صورت میں جماعت نے سارے پاکستان میں ادا کی۔جماعت مخالف آئین سازی کے بعد احمدیوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔یہ اسی وقت کی بات ہے جب حضورؒ نے مسجد بشارت سپین کا بنیادی پتھر رکھتے ہوئے مشہور احمدیہ ماٹو’’محبت سب کےلیے نفرت کسی سے نہیں ‘‘ کا اعلان کیا تھا۔

افریقہ کے چھ ملکوں کے دورے کے دوران حضورؒ نے فرمایا کہ اگر دنیا یہ بات سمجھ لےکہ سب انسان برابر ہیں تو دنیا سے بہت سی مشکلات کم ہو جائیں۔

۱۹۶۷ء کی وانڈزورتھ ہال کی تاریخی تقریر میں حضورؒ نے امن کا پیغام پہنچایا اور دنیا کو حضرت مصلح موعودؓ کی تیسری جنگ سے متعلق پیشگوئی کے متعلق متنبہ کیا۔

چوتھے خلیفہؒ کے ذریعہ خلافت آگے بڑھی ۔ وہ ایسا وقت تھا جب پاکستان میں ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حضورؒ کے لیے بطور جماعت کے سربراہ کام کرنا ناممکن بنا دیا تھا۔چنانچہ خلافت کو پاکستان سے برطانیہ ہجرت کرنا پڑی۔

آپؓ کےبرطانیہ آنے سے جماعتی کاموں میں اتنی ترقی ہوئی جو تصور سے بھی باہر ہے۔حضور انورؒ نے بہت ساری سکیموں کا اجرا کیا۔اس کے بعد امیر صاحب نے حضورؒ کی کتاب Absolute Justiceسے ایک حوالہ پیش کیا۔

انسانیت کی خدمت حضور ؒکی مختلف سکیموں کا مرکز رہا۔انسانیت کی خدمت کےلیے ایک خیراتی ادارہ ہیومینٹی فرسٹ کے نام سے قائم ہوا۔یہ ادارہ رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر ہر کسی کی خدمت کرتا ہے۔۱۹۹۲ء میں بلقان کی ریاستوں خاص طور پر یوگوسلاویہ میں امدادی ٹیموں کو روانہ کیا گیا۔جہاں پناہ گزینوں کے لیے خوارک ،دواؤں اور کپڑوں کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔یہ ادارہ اب ساٹھ ممالک میں کام کر رہا ہے۔

حضورؒ نے دنیا میں امن کے قیام پر بات کی خاص طور پر گلف کرائسس کے دوران اسلام میں برابری پر بات کی۔اس عظیم ورثہ کے سبب آپ کو اک مردِخدا کہا گیا۔

۲۲؍ اپریل ۲۰۰۳ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ حضرت مسیح موعودؑ کے پانچویں جانشین بنے۔حضور انور ایدہ اللہ نے نمازوں کے قیام پر زور دیا۔

حضور انورایدہ اللہ نے دنیا میں قیام امن پر بہت زور دیا۔ آج حضور انور ایدہ اللہ کو دنیاکے امن کے قیام کے لیے کوشان سرفہرست مسلمان راہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اپنی کتب، خطبات اور خطابات کے ذریعے حضور انور ایدہ اللہ، اللہ کی عبادت اور انسانیت کی خدمت کا درس دیتے ہیں۔

حضورانورایدہ اللہ نے کوئی موقع جانے نہیں دیا جہاں آپ نے اسلام کی امن کی تعلیمات کو بیان نہ کیا ہو۔چاہے یورپی پارلیمنٹ ہو یا کیپیٹل ہل ۔آپ کے کارناموں کے سبب آپ کو امن کا علمبردار کہا جا سکتا ہے۔

۴؍ دسمبر ۲۰۱۲ء کو حضور انور ایدہ اللہ نے تیس ملکوں کے تین سو پچاس مہمانوں کے سامنے یورپی پارلیمنٹ میں خطاب فرمایا۔اس خطاب کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے برابری اور عالمی انصا ف کی بات کی۔

۱۱؍فروری ۲۰۱۴ء کو حضور انور ایدہ اللہ نے عالمی مذاہب کی کانفرنس سے خطاب فرمایا جو گلڈ ہال لندن میں منعقد ہوئی تھی۔اس خطاب کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی زندگی سے باہمی افہام و تفہیم ، درگزر اور عزت و تکریم کے متعلق بات کی۔

حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے ہر خطاب کے ذریعے نیوکلیئر ہتھیاروںاور نیوکلیئر جنگ کے اندیشہ سے متنبہ کیا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ کی راہنمائی میں جماعت نے بہت سے سکول ،ہسپتال اور دنیا کے دور دراز علاقوں میں سہولیات مہیا کی ہیں۔

حضور انورایدہ اللہ نے بگڑتی عالمی صورتحال کے پیش نظر مختلف ممالک کے راہنماؤں کو خطوط بھی لکھے ہیں جن میں اسرائیل ،ایران،امریکہ ،روس اور فرانس وغیرہ شامل ہیں۔

بطورایک ماہر زراعت حضور انور ایدہ اللہ نے ترقی پذیر ممالک میں خوراک ،صاف پانی اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔اس مقصد کے لیے (IAAAE) بہت سارے پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔معاشی استحکام کے لئےبرکینا فاسو میں مسرور انٹرنیشنل ٹیکنیکل کالج تعمیر کیا گیا ہے۔

۲۰۰۴ء میں حضور انور ایدہ اللہ نے نیشنل پیس سمپوزیم کا آغا ز کیا جس میں زندگی کے ہر شعبے سے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ نیز وزراء،ممبران اسمبلی اور مذہبی راہنما بھی شامل ہوتے ہیں۔

۲۰۰۹ء میں حضور انورایدہ اللہ نے قیام امن کی کوششوں کے لیے احمدیہ مسلم پرائز کا آغاز کیا۔

دنیا کی کئی نامور شخصیات نےحضور انور ایدہ اللہ کو مین آف پیس(امن کےلیے کوشاں شخصیت) کا خطاب دیا گیا ہے۔

امیر صاحب نے نینسی پیلوسی کا حضور انورایدہ اللہ کے متعلق بیان شامل کیا۔وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے قیام امن کےلیے حضور انورایدہ اللہ کی خدمات کو خوب سراہا۔

حضور انورایدہ اللہ نے جماعت کو بھی نصیحت کی کہ اسلام کے امن کےپیغام کو پھیلانا آپ سب کی بھی ذمہ داری ہے۔

غیر یقینی صورتحال میں خلافت دنیا میں امن کے قیام کے لیے ایک روشن مینارے کی طرح ہے۔یہ ہر احمدی کی ذمہ داری ہےکہ خلافت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھے۔تا کہ وہ روحانی راہنمائی اور دنیا میں امن حاصل کر سکے۔

آخر میں میری دعا ہے کہ آنے والی نسلیں ہمیں پیار اور محبت سے یاد رکھیں ۔ اللہ کرے کہ ہر شخص اور قوم ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔اور انصاف اور رحم ہر قسم کی ناانصافی اور اختلاف پر غالب آجائے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button