خطاب حضور انور

مسجد فتحِ عظیم؛ حقیقی مذہبی آزادی کی علامت (ترجمہ خطاب از حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع افتتاح مسجد فتح عظیم زائن فرمودہ یکم اکتوبر ۲۰۲۲ء)

(امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے تاریخی دورۂ امریکہ کے دوران مورخہ یکم اکتوبر۲۰۲۲ء بروز ہفتہ مسجد فتح عظیم کی افتتاحی ریسپشن سے صدارتی خطاب فرمایا۔ حضورِ انور کے اس معرکہ آرا خطاب کا اردو ترجمہ ہدیۂ قارئین ہے۔ ادارہ)

(خطاب کا یہ ترجمہ ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

معزز مہمانان! السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہٗ

سب سے پہلے تو مَیں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ ہماری اس تقریب میں شامل ہوئے۔ یہ کوئی دنیاوی تقریب نہیں بلکہ ایک خالصتاً مذہبی تقریب ہے جس کاانعقاد ایک اسلامی جماعت کی طرف سے کیا گیا ہے۔ پس! آپ سب کااس تقریب میں شریک ہونا آپ کی وسعتِ قلبی، رواداری اور کشادہ ذہنی کو ظاہر کرتا ہے۔ لہٰذا مَیں آپ سب کا تہ دل سے شکرگزار ہوں کہ زائن شہر میں ہماری اس نئی مسجد کے افتتاح کےیادگار موقع پر آپ سب ہمارے ساتھ شریک ہورہے ہیں۔

اس شہر میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا قیام کئی دہائیوں قبل ہوا تھا تاہم اب تک ہماری کوئی باقاعدہ مسجد اس شہر میں نہ تھی۔ اس حوالے سے

آج کا دن ہماری جماعت کےلیے انتہائی مسرت اور خصوصی اہمیت کاحامل ہے۔

درحقیقت عبادت گاہیں، کہ جہاں لوگ اجتماعی طور پر عبادت کرسکیں تمام ہی مذہبی جماعتوں کےلیے انتہائی ناگزیراور اہم ہوا کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق،

مساجد کے قیام کی دو بنیادی اغراض اور فوائد

ہیں۔ اوّل یہ کہ مساجد کا قیام مسلمانوں کوایک ایسی جگہ فراہم کرتا ہے کہ جہاں وہ اکٹھےہوکر اجتماعی عبادات بجا لاسکیں اور اپنے اعتقاد اور تعلیمات کے مطابق مذہبی فرائض ادا کرسکیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو دن میں پانچ مرتبہ عبادت کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح مساجد کی تعمیر کی دوسری غرض یا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح معاشرے کا ایک وسیع حصّہ اسلام اور اُس کی تعلیمات سے رُوشناس اور متعارف ہوجاتا ہے۔ اگرمساجد میں عبادت کےلیے حاضر ہونے والے کامل سنجیدگی اور بھرپور کوشش کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا عملی اظہار کرنے والے ہوں تو یقیناً یہ چیز مقامی افراد میں اسلام کے متعلق قدرتی طور پر دلچسپی اور تجسس بڑھانے والی ہوگی۔ اسلام کے متعلق اُن کا عِلْم اور ادراک ترقی کرے گااور جب وہ مسلمانوں کو اپنے درمیان پُرامن طریق سےمعاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے دیکھیں گےتوخدا کے فضل سے اُن کولاحق ہر طرح کے تحفظات اور خدشات دُور ہوں گے۔ پس، یہ ہیں وہ دو مقاصد جن کو پورا کرنےکےلیے جماعت احمدیہ مسلمہ دنیا بھر میں مساجد تعمیر کرتی ہے۔

ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض یہ سوچ رہے ہوں کہ

احمدی مسلمانوں اور دیگر مسلمانوں میں کیا فرق ہے یا احمدی مسلمانوں کو کیا چیز دیگر مسلمانوں سے ممتازکرتی ہے

سو، اس حوالے سے مَیں بتاتا چلوں کہ قرآن کریم میں مذکور عظیم الشان پیش گوئی اور پیغمبرِ اسلامﷺ کی عطا کردہ پیش خبری کے عین مطابق یہ مقدّر تھا کہ اسلام پر صدیاں گزرنے کے ساتھ مسلمان رفتہ رفتہ حقیقی اسلام سے دُور جا پڑیں گے اور بالآخر مسلمانوں کی اکثریت اسلامی تعلیمات کو ترک کرکے برائے نام مسلمان رہ جائےگی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اور پیغمبرِ اسلامﷺ نے یہ بشارت بھی دے رکھی تھی کہ روحانی زوال کے اس زمانےمیں

خدا تعالیٰ ایک ایسےموعود مصلح کو مبعوث فرمائے گا کہ جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کااز سرِنَو احیا اور تجدیدِ دین کا فریضہ سرانجام دے گا،

اور اُس عظیم الشان مجدد کا خطاب اورنامِ نامی مسیح محمدی علیہ الصلوٰة والسلام ہوگا۔ وہ مبارک مسیح اسلام کی امن و سلامتی، پیار و محبت اور رواداری کی تعلیم کا پرچار کرے گا۔

وہ تمام دنیا کومحبت اور یگانگت کے بندھن میں باندھ کر،بلا تفریق مذہب و ملّت امن کےساتھ رہنے کا درس دےگا۔

بطور احمدی مسلمان ہم اس بات پر کامل ایمان رکھتے ہیں کہ بانی جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰة والسلام وہی موعود مسیح اور مصلح ہیں کہ جن کی خوش خبری قرآن کریم اور رسول اللہﷺ نے عطا فرمائی تھی۔

اپنی حیاتِ مبارکہ میں بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے اپنے متبعین کو یہی درس دیا کہ وہ اسلام کی محبت، احسان اور عام ہمدردی کی تعلیم پر از خودعمل پیرا ہوکر اپنے عمل کے ذریعے یہ پیغام دوسروں تک پہنچائیں اوریوں انسانیت کے قُلوب و اذہان کو فتح کرلیں۔درحقیقت سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نےیہی دعویٰ فرمایا تھا کہ وہ مسیح موسوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے طریق اورنقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات کوپھیلائیں گے۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نےبھی انسانیت کےلیے مروّت و احسان اور رحم دلی کا عملی نمونہ قائم فرمایا۔ آپؑ کاہرقول اور ہر عمل معاشرے میں امن و آشتی اور بھائی چارے کےفروغ کےلیے تھا۔ اپنے پیروکاروں کو آپؑ نے یہ درس دیا کہ اسلام کے معنی ہی امن و سلامتی کےہیں،اور یہ کہ آپؑ کی بعثت کے ذریعے ایک روزاسلام اپنی اس روحانی اصل کو ازسرِ نَو حاصل کرلے گا،

وہ دن دُور نہیں کہ جب اسلام دنیا بھر میں امن و سلامتی، رواداری اور پیار اور ہمدردی کے مذہب کے طور پر جانا جائے گا۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں واضح فرمایا کہ اسلام کے ابتدائی دَور میں ہونےوالی جنگیں تمام کی تمام دفاعی نوعیت کی تھیں جو حد سے بڑھے ہوئے ظلم وستم کے جواب میں بامرِ مجبوری لڑی گئیں۔ رسول اللہﷺ کےعہدِ مبارک اور آپؐ کے چاروں خلفائے راشدین کے ادوار میں کبھی کسی ایک موقعے پر بھی مسلمان افواج نے جنگ و جدل میں پہل نہیں کی اور نہ ہی کسی موقعے پر ناانصافی اور بےرحمی سے کام لیا۔ اس کےبرعکس ہر ایک جنگ اور معرکہ جو مسلمانوں کو درپیش ہواوہ وحشیانہ روش اورجبرکے خاتمے کےلیے تھا۔

عصرِ حاضر میں جبکہ جغرافیائی سیاسی تنازعات دنیا بھر میں تباہی مچارہے ہیں ایسے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے مذہبی جنگوں کے خاتمے کا عَلم بلند فرمایا ہے۔ پس اب مسلمانوں سمیت کسی بھی دین کےپیروکاروں کےلیے مذہب کے نام پر جنگیں لڑنے کا کوئی جواز باقی نہیں۔ لہٰذا یہ بات خوب اچھی طرح واضح ہوجانی چاہیے کہ جماعت احمدیہ کا مقصد زمینوں اور علاقوں پر قبضےکرنا اور شہروں اور قوموں کو فتح کرناہرگز نہیں۔ ہم نے تو اُن علاقوں اور اقوام میں بھی کہ جہاں ہمیں وسیع پیمانے پر قبولیت حاصل ہوئی کبھی سیاسی فوائد یا دنیاوی اثرورسوخ حاصل کرنےکی خواہش نہیں کی۔

ہمارا واحدمقصد اور مطمح نظر پیار اور محبت کے ذریعے دنیا کے دلوں کو فتح کرنااور انہیں خدائے یگانہ کےقریب لانا ہے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں اُس کے عبد بن سکیں اورباہم ایک دوسرے کےحقوق ادا کرنے والےہوں۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ دنیاوی جاہ و حشمت اور اختیار و اقتدار سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک خوب صورت شعر میں فرماتے ہیں:

مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا

مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار(1)

جماعت احمدیہ مسلمہ کے آغاز سے آج تک دنیاوی اور سیاسی طاقت کے حصول سے بُعد اوردُوری جماعت کا طرۂ امتیاز رہا ہے اور آئندہ مستقبل میں بھی یہی روش برقرار رہے گی۔گذشتہ ایک سَو تیس برس سے زائدعرصےسے ہماری واحد تمنا یہ ہے کہ اسلام کا امن اور محبت کا پیغام عام کیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سےدنیا بھرسے کئی ہزار لوگ ہرسال ہماری جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمیں کسی شخص اور کسی مذہب سے کوئی شکوہ،عناد یا عداوت نہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو خدااور اس کے دین کو مٹانےکے درپے ہیں اُن کے بالمقابل بھی ہمارا جواب کبھی ہتھیار اٹھانے یا تشددکی راہ اختیارکرنے کا نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس ہمارا ردِّعمل خدا کے حضورعاجزی کےساتھ جھکتے چلے جانا ہے۔

ہمارا واحد ہتھیار دعا ہے اورجماعت احمدیہ کی ایک سو تینتیس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہماراخدا ہماری التجاؤں کو سنتااور قبول کرتا ہے۔

جہاں تک مذہبی آزادی اور حریّتِ ضمیر کا تعلق ہے ہم اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ یہ ہرشخص کا ذاتی معاملہ ہےکہ وہ جو چاہے راستہ اختیار کرے۔ ایسا نہیں کہ ہم نے یہ عقیدہ کبھی بعد کےزمانےمیں ازخود بنالیا،نہیں بلکہ یہ عقیدہ کلیۃً قرآنی تعلیمات پرمبنی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ آپ کے عِلْم میں ہوگا کہ ابھی برطانوی فرماں روا ملکہ معظّمہ الزبیتھ دوم کی وفات ہوئی اور اُن کے صاحبزادے شاہ چارلس سوم بادشاہ بنے۔ برطانوی فرماں روا کے شاہی خطابات میں سے ایک خطاب Defender of the Faith (محافظِ دین) بھی ہے۔ شاہ چارلس کئی مواقع پر تمام مذاہب کےلیے اپنے احترام کا اظہار کرچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہاربھی فرمایا ہے کہ وہ محض دین کا محافظ کہلانے کے برخلاف تمام ادیان کا محافظ کہلانازیادہ پسند کریں گے۔ بےشک اُن کا یہ بیان سراہے جانے کےلائق اور اُن کی وسیع النظری اور فکری بالیدگی کا عکّاس ہے۔ تاہم اُن کے بادشاہ بننے کے ساتھ ہی بعض تجزیہ کاروں نے ان خدشات کا اظہار شروع کردیا ہے کہ اس قسم کی ترمیم مسیحی حلقوں میں بالخصوص اور چند دیگر طبقات میں بھی قابلِ پذیرائی خیال نہیں کی جاسکتی۔ ایک شہ سُرخی تو یہ جمائی گئی کہ تمام مذاہب کا محافظ اور بہبودکار بننے کی خواہش بادشاہ کی محض خام خیالی ثابت ہوگی۔ بےشک بعض لوگوں کے نزدیک مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی یہ کوششیں بےکار اور عبث ہوں گی لیکن میرے خیال میں تمام ادیان کا تحفظ اور مذہب اورعقیدے کی یہ آزادی ہی دراصل دنیا میں حقیقی امن کے قیام کی بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مَیں امریکی حکومت کو بھی سراہتا ہوں کہ جنہوں نے عالمی امن کےقیام کےلیے،محکمہ خارجہ کے زیرِ انتظام The Office of International Religious Freedom (ادارہ برائے عالَم گیر مذہبی آزادی)قائم کیا ہے، جو دنیابھرمیں مذہبی آزادی کے فروغ کےلیے ہرسال ایک بین الاقوامی سربراہی اجلاس منعقد کرتا ہے۔

عالَم گیر مذہبی آزادی کی ضمانت کے متعلق ایک نہایت اہم اور بنیادی اصول قرآن کریم نے سورہ حج کی آیات ۴۰اور ۴۱ میں بیان فرمایا ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ۔ اَلَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ َنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَلَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ)’’اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جارہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہےکیونکہ ان پر ظلم کیے گئے۔ اور یقیناً اللہ اُن کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (یعنی) وہ لوگ جنہیں اُن کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے۔‘‘ مزید فرمایا کہ ’’اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کردیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقیناً اللہ ضرور اُس کی مدد کرے گاجو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقت ور (اور) کامل غلبے والا ہے۔‘‘

مذکورہ دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبرِ اسلامﷺ کو دفاعی جنگوں کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ خداتعالیٰ نے بالوضاحت فرمایا ہے کہ اجازت اس لیے دی گئی ہے کیونکہ جارحیت پسند حملہ آور دنیا سے مذہبی آزادی کو جڑسےمٹادینے کےدرپے ہیں۔ جنگ کی یہ اجازت محض مسلمانوں اور اُن کی مساجد یا اسلام کے دفاع کی خاطر نہیں دی گئی بلکہ قرآن کریم صراحتاً فرماتا ہے کہ اگر مسلمانوں کےساتھ روا رکھی جانےوالی اِن ناانصافیوں کا سخت ردِّعمل نہ دیاجاتا تو کوئی گرجاگھر، کوئی کلیسا، کوئی مندر، مسجد یا کسی قسم کا کوئی بھی معبد سلامت نہ رہتا۔ پس قرآن کریم ہی وہ واحد الہامی صحیفہ ہے جو مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت ہی نہیں دیتا بلکہ اس سے بڑھ کر وہ مسلمانوں اور مسجدوں میں داخل ہونے والوں کو غیرمسلموں کےمذہبی حقوق کی حفاظت کی تاکید بھی فرماتا ہے۔ یہ وہ آسمانی صحیفہ ہےکہ جو تمام مذاہب، عقائد اورمسالک کا محافظ اور نگہبان ہے۔ یہ ہیں وہ اصلی، حقیقی اور جامع اسلامی تعلیمات کہ جن کی دنیا کےگوشےگوشے میں ترویج و اشاعت کےلیے ہم کوشاں ہیں۔

اس مسجد کے حوالے سے شاید آپ میں سے بعض متعجب ہوں کہ

ہم نے مسجد کی تعمیر کےلیے زائن شہر کا انتخاب کیوں کیا؟

بےشک اس مسجد کی تعمیر کا بنیادی مقصد تو وہی ہے جو مَیں نے پہلے بیان کیا۔ دوسرا یہ کہ وہ لوگ جو اس شہر کی تاریخ سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ

اس شہر کا بانی ایک مسیحی مبلغ مسٹر الیگزینڈر ڈوئی تھا جس نے اس شہر زائن سے ہی مامور من اللہ ہونےکا دعویٰ کیا تھا۔

مسٹر ڈوئی نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سخت دشمنی اورنفرت کا اظہار کیا۔ بالآخر بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی اور آپؑ نے براہِ راست مسٹر ڈوئی کو جواب دیا۔ شایدآپ میں سے بعض یہ سوچیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے مسٹرڈوئی سےمخاطب ہوتے ہوئے تیززبان کا استعمال کیوں کیا اور یہ آپ کےہمدردی اورمحبتیں بانٹنےکے دعوں سےکیسےمطابقت رکھتا ہے؟ درحقیقت حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی پُرامن تعلیمات اور مسٹر ڈوئی کودیےگئے جوابات میں قطعاً کوئی تضاد نہیں۔حضرت اقدس مسیح موعودؑنے کبھی ایک دفعہ بھی کسی قسم کےشدید یا سخت ردِّعمل کا اظہار نہیں کیا؛بلکہ جب آپؑ کو پہلی بار مسٹر ڈوئی کے اسلام اور بانیٔ اسلامﷺ کےخلاف بغض اورعناد کا عِلْم ہوا تو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اسے بڑی عزت کےساتھ مباحثےکی دعوت دی اور مسلمانوں کے جذبات کا احترام اورتحمل کا مظاہرہ کرنےکا درس دیا۔ اس کےبرعکس یہ مسٹر ڈوئی تھا جس نے اسلام کے خلاف محاذ آرائی اور تصادم کی کوشش کی اور یہ اُس کی بڑی دلی تمنّا تھی۔ چنانچہ مسٹر ڈوئی لکھتا ہے کہ ’’مَیں خداوند سے دعا کرتا ہوں کہ جلد از جلد اسلام صفحۂ ہستی سے نابود ہوجائے۔ اےخدا وند خدا! تُو میری دعاسن، اے خدا! اسلام کو برباد کردے۔‘‘(2)

مزید برآں اپنی تحریرات میں مسٹر ڈوئی نے نہایت تمسخرانہ انداز میں اس امکان پر بات کی جسے وہ بزعمِ خودعیسائیت اور اسلام کےمابین جنگ قرار دیتا تھا۔ اس نے لکھا کہ اگر مسلمان عیسائیت قبول نہ کریں گے تو یقیناً وہ ہلاک اور تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔ ایسی زہرآلود شعلہ بیانی پر ردِّعمل دیتےہوئے

حضرت بانی جماعت احمدیہ مسلمہ علیہ السلام نے اس امرکو یقینی بنایاکہ ہزاروں بلکہ لاکھوں معصوم لوگ اسلام اور عیسائیت کی اس ممکنہ مذہبی جنگ کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں جو مسٹر ڈوئی کے جنگی جنون کےسبب حقیقت کا رُوپ دھارسکتی تھی۔

پس آپؑ نے مسٹر ڈوئی کو مباہلے کا چیلنج دیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں کی ہلاکت اورتباہی کی پیش گوئی کرنے کے بجائےآسان طریق یہ ہے کہ آپؑ اور مسٹر ڈوئی دونوں خدا سے پورے یقین کے ساتھ یہ دعاکریں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچّے کی زندگی میں ہلاک ہوجائے۔ آپؑ کی یہ تجویز دراصل اُس نازک صورتِ حال کے حل کے ساتھ ساتھ عام ہمدردی پر بھی مشتمل تھی یعنی تمام مسلمانوں اور عیسائیوں کوباہم تصادم کے خطرے میں ڈالنےکے بجائے حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس بات پر زور دیا کہ آپؑ اور مسٹر ڈوئی دعا کا سہارالیں اور اس معاملےکا فیصلہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ حق و صداقت کےتعین کےلیےیہ نہایت معقول اور پُرامن تجویز تھی۔ بےپناہ اشتعال انگیزی اور عداوت کےجواب میں یہ بلامبالغہ تحمل کی ایک شاندار مثال ہے۔ مسٹر ڈوئی نے اس چیلنج کا انتہائی جارحانہ رنگ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو جواب دیا۔

مسٹر ڈوئی کا یہ جواب ریکارڈ کا حصّہ ہے، اُس نےکہا کہ ’ہندوستان میں ایک بےوقوف محمدی مسیح ہےجو مجھے بار بار لکھتا ہے۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ مَیں ان مچھروں اور مکھیوں کا جواب دوں گا اگرمَیں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو مَیں ان کو کچل کر مارڈالوں۔‘‘(3)اس پر حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنا چیلنج دوبارہ پیش فرمایااور اس بار اس چیلنج کو امریکہ سمیت ہرجگہ بھرپور شہرت حاصل ہوئی۔ اپنے مریدوں کے حلقے میں قدآور حیثیت اور دولت و طاقت کے باعث صحافیوں نے مسٹر ڈوئی اور حضرت مسیح موعودؑ کا موازنہ بالکل بےحقیقت گمان کیا۔ ان کے نزدیک آپؑ ہندوستان کےایک دُور افتادہ گاؤں کے ایسےباشندے تھےکہ جن کی ظاہری دولت اور دنیاوی طاقت کا مسٹر ڈوئی سے ہرگز کوئی مقابلہ نہ تھا۔ پھر یہ کہ جسمانی صحت کے اعتبار سے بھی حضرت مسیح موعودؑ کےبالمقابل مسٹر ڈوئی زیادہ جوان اور زیادہ صحت مند تھا۔ مگران

ظاہری وجوہات میں حد درجہ تفاوت کے باوجود سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ ایک لمحے کے لیے بھی نہ ہچکچائے، نہ ذرّہ برابر آپ کے قدم ڈگمگائےاور آپؑ نے اپنےاس چیلنج سے پیچھے ہٹنے کا خیال تک نہ کیا۔

تمام تر دنیاوی حالات کی ناموافقت کے باوجود فیصلہ جلد ہی آپؑ کےحق میں آگیا۔ ذرا سی مدّت کے اندر اندر ڈوئی کے مرید اسے چھوڑ گئے، وہ اپنی بےپناہ دولت سے ہاتھ دھو بیٹھا، اور اس کی جسمانی اور ذہنی حالت دگرگوں ہوگئی۔ بالآخر اس کی ناگفتہ بہ حالت کو امریکی میڈیا نے ’عبرت ناک انجام‘ سے تعبیرکیا۔ اس وقت کے امریکی میڈیا کو بہرحال اس بات پرداد دی جانی چاہیے کہ ان کےصحافیوں نے نہایت دیانت داری کےساتھ سارے معاملے کو رپورٹ کیا۔ مثلاً مشہور اخبار ’بوسٹن ہیرلڈ‘ نے یہ سُرخی جمائی کہ ’’Great is Mirza Ghulam Ahmad The Missiah‘‘یعنی ’مرزاغلام احمدالمسیح عظیم الشان انسان ہے‘

غرض حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نےاپنے نظریات یا عقائد کی ترویج کےلیے کبھی بھی جبر سے کام نہیں لیا، اور نہ ہی کبھی آپؑ نے مسٹر ڈوئی یا کسی دوسرے دشمن ِ اسلام کی نفرت کے جواب میں ظاہری اسباب وغیرہ کا سہارا لیا۔

احمدی مسلمانوں کےلیے یہ واقعہ ہمارے بانی سلسلہ کی صداقت کا ایک زبردست نشان ہے اور اس وجہ سے زائن شہر کو ہماری تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔

وقت کی کمی کے پیشِ نظر مَیں مزید تفاصیل میں نہیں جاتا۔ بہرحال اس مباہلے کے متعلق یہاں مسجد میں ایک خصوصی نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ پس اگر آپ یہ نمائش پہلے نہیں دیکھ چکے اور اس حوالے سے مزید معلومات حاصل کرنا چاہتےہیں تو جانےسے قبل آپ اس نمائش سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

اب آخر میں مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ

آج سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودومہدی معہودعلیہ الصلوٰة و السلام کےمتبعین خداتعالیٰ کےحضور اس کا شکر بجالاتے ہیں کہ ہم زائن شہر میں اس مسجد یعنی ’مسجد فتح عظیم‘ کے افتتاح کی توفیق پارہے ہیں جو دراصل حقیقی مذہبی آزادی کی علامت ہے۔

اس مسجد کے دروازے اس روشن اور واضح پیغام کے ساتھ کھلے ہیں کہ تمام لوگوں اور گروہوں کے مذہبی حقوق اور پُرامن عقائد کا تحفظ اور احترام ہمیشہ کیا جاتا رہےگا۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کا نصب العین بنی نوع انسان کو روحانی بقا کی راہوں پر گامزن کرنا اور اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ تمام بنی نوع انسان بلا تفریق رنگ و نسل ہم آہنگی اور باہم عزت و احترام کے ساتھ حقیقی امن اور سلامتی کے سائے تلے زندگی بسر کرسکیں۔

مَیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا کرتاہوں کہ یہ مسجدتمام بنی نوع انسان کے لیےہمیشہ امن و سلامتی، محبت اور رواداری کا تابندہ نشان بنی رہے۔ میری دعا ہے کہ یہ وہ مقام ثابت ہو کہ جہاں لوگ مکمل خلوص اورعاجزی کے ساتھ اپنے خالق خدا کی معرفت اور اُس کے حضور سجدہ ریز ہونے اور بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی کا سبق سیکھنےکےلیے ہمیشہ جمع ہوتے رہیں، کیونکہ ہمارا کامل اور پختہ ایمان ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کے بنا فلاح و کامیابی کا تصور ناممکن ہے۔ ان الفاظ کےساتھ مَیں ایک مرتبہ پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ یہاں تشریف لائے اور ہمارے ساتھ اس تقریب میں شامل ہوئے۔ خدا تعالیٰ آپ کو اس کی جزا دے۔ آمین

حواشی:

۱. براہینِ احمدیہ حصّہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ۱۴۱

۲. Leaves of Healing, February 14,1903

۳. Leaves of Healing, December 27, 1903

(ترجمہ:’نون۔الف۔خان‘)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button