متفرق مضامین

پاکستان کے آئینی بحرانوں کا پنڈورا بکس کیسے کھلا؟

(ابو نائل)

پنڈورا بکس کیا تھا؟

آپ نے کئی مرتبہ ’پنڈورا باکس ‘ کا نام سنا ہوگا۔ فلاں نے مسائل کا پنڈوراباکس کھول دیا یا فلاں نے المیوں اور مصائب کا پنڈورا باکس کھول دیا وغیرہ وغیرہ۔ اس مثال کے پیچھے کیا کہانی ہے ؟ اس کہانی کا تعلق قدیم یونان سے ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قدیم یونان کی ہر کہانی میں کوئی نہ کوئی فرضی دیوتا مرکزی کردار ادا کر رہا ہوتا تھا۔اس کہانی میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ ایک دیوتا دو بھائیوں سے بالخصوص اور انسانوں سے بالعموم ناراض ہو گیا۔اس نے ایک بھائی کی شادی ایک بہت خوبصورت عورت پنڈورا سے کروادی اور تحفہ میں ایک بہت خوبصورت باکس دیا۔ اور تاکید کی کہ کبھی بھی اس باکس کو نہ کھولنا۔پنڈورا کوبہت تجسس تھا کہ اس باکس میں کیا ہے؟ آخر اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے اس باکس کو کھولنا شروع کیا۔ اسے امید تھی کہ اس کے اندر بہت قیمتی زیور یا پوشاک ہو گی۔ابھی اس کا ڈھکنا ذرا سا ہی کھلا تھا کہ خوفناک صورت کی مخلوقات کی صورت میں مصائب، بیماریاں اور پریشانیاں اس میں سے بر آمد ہو کر دنیا میں پھیل گئیں۔ پنڈورا نے گھبرا کر اس باکس کو بند کر دیا۔ مگر اندر سے بار بار آواز آ رہی تھی کہ مجھے بھی باہر نکالو۔ اس کہانی کا انجام کیا ہوا ؟ پاکستان کی تاریخ کا ایک افسوسناک باب بیان کرنے کے بعد اس مضمون کے آخر میں اس کہانی کا انجام بھی درج کر دیا جائے گا۔

پاکستان میں انواع و اقسام کے بحران

دن بدن پاکستان کا معاشی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔اقتصادی حالت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔روزمرہ کے اخراجات کے لیے بھی دست سوال دراز کرنا پڑ رہا ہے۔ کبھی اِس در پر اور کبھی اُس در پر۔مذہبی دہشت گردی اسی۸۰ ہزار سے زائد پاکستانیوں کا خون کر چکی ہے اور ایک بار پھر دہشت گرد نئے سرے سے سرگرم ہو رہے ہیں۔ سیاسی گروہ ایک دوسرے سے حالت جنگ میں ہیں۔ اور اراکین پارلیمنٹ میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ پارلیمان میں عدلیہ کے خلاف جوشیلی تقاریر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے اور یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ہم عدلیہ کا احتسا ب کریں گے۔ اور ملک کی اعلیٰ عدالتیں خود باہمی اختلافات کا شکار ہیں۔عدلیہ ایک کے بعد دوسرے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے چکی ہے۔ صوبائی اختلافات کا دیرینہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ملک کی افواج کا کام اپنے ملک اور اہل وطن کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔۹؍مئی ۲۰۲۳ء کو خود پاکستانیوں کی ٹولیوں نے مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر اور دیگر عمارات پر دھاوا بول دیا۔اور ملک بھر میں مسلح افواج کی عمارات سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک کو اتنے انواع و اقسام کے بحرانوں کا سامنا ہو۔

آئین کی بے بسی یا موت

کسی ملک کے نظام کو اس ملک کے آئین کے تحت چلایا جاتا ہے لیکن ریاست کے اداروں کی جنگ میں آئین ایک طرف بے بس کھڑا ہے۔اور ریاست کے ستون ایک دوسرے پر حملے کر رہے ہیں۔ صورت حال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال صاحب نے اپنے سیاسی پھپھولے پھوڑتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ آئین اور قانون اتنے بے بس کیوں ہوچکےہیں؟

(https://www.aaj.tv/news/30316729)

ملک کی سپریم کورٹ میں ایک اہم سیاسی مقدمہ کی کارروائی چل رہی تھی تو ملک کے چیف جسٹس عزت مآب عمر عطا بندیال صاحب نے کہا کہ لوگ سپریم کورٹ کا گیٹ پھلانگ رہے ہیں اور حکومت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ اس پر حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ایک لیڈر اور ان کے وکیل، سینیٹر علی ظفر صاحب نے سپریم کورٹ میں کہا کہ آئین کا انتقال ہو چکا ہے۔(روزنامہ پاکستان ۱۵؍مئی ۲۰۲۳ء)

حکومت اور آئین بے بس ہیں یا ملک کا آئین ہی انتقال کر چکا ہے ؟ یہ اعتراف ملک کی قیادت کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ کوئی ملک اس حالت زار تک چند دنوں یا چند مہینوں یا چند سالوں میں نہیں پہنچتا۔کئی دہائیوں کی غلطیوں کا نتیجہ ایسے روز سیاہ کی صورت میں برآمد ہوتا ہے کہ پورے ملک کا شیرازہ درہم برہم ہوجائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ جس آئین کو اتنے دعووں کے جھرمٹ میں نافذ کیا گیا تھا کہ یہ ایک متفقہ آئین ہے، اس کا یہ انجام کیوں ہوا؟کہ کبھی ایک آمر کی چیرہ دستیوں کا شکار ہو کر کئی سالوں کے لیے اسے معطل رہنا پڑا اور آخر کار اس حالت تک پہنچ گیا۔

اس مضمون میں ہم یہ تجزیہ پیش کریں گے کہ اس آئین کے نفاذ کے ساتھ کیا عوامل پیدا ہوئے کہ یہ آئین پاکستان کو ایک مستحکم نظام مہیا نہیں کر سکا۔آخر وہ کیا غلطیاں تھیں جن کے یہ نتائج برآمد ہوئے؟

مذہبی جماعتوں کو خوش کرنے کی کوششیں

الفضل انٹرنیشنل کی ۲۶؍اپریل ۲۰۲۳ء کی اشاعت میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’ ہم ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں ؟ (جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کا ایک سوال )‘ شائع ہوا تھا۔ اس میں یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ جب پاکستان ٹوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ ملک کی قانون ساز اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ہر صاحب شعور یہ امید کر رہا تھا کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد کچھ سبق حاصل کر کے باقی ماندہ ملک میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔لیکن بد قسمتی سے یہ کارروائی شروع ہوتے ہی ایک طبقہ نے جماعت احمدیہ کی مخالفت کا سہارا لے کر نفرت انگیزی شروع کی اور یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ آئین میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔اور ایک گھنٹہ گذرنے سے پہلے یہ واضح ہو گیاکہ انتشار کا یہ عمل صرف جماعت احمدیہ تک محدود نہیں رہے گا۔اور اسی اسمبلی میں ذاتی، سیاسی، لسانی، علاقائی اختلافات کا سہارا لے کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جا رہا تھا۔

بہر کیف آئین بنانے کا کام شروع ہوا۔ اور پہلے ایک کمیٹی نے آئین کا مسودہ تیار کیا اور پھر پوری آئین ساز اسمبلی نے اس پر بحث کی۔بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ آئین متفقہ طور پر منظور ہو۔ اس خواہش کی تکمیل کےلیے انہیں خاص طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کے بہت سے مطالبات جزوی طور پر ماننے پڑے۔ان تمام تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ قومی اسمبلی نے اس آئین کو ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ء کو منظور کیا اور ۱۴؍ا گست ۱۹۷۳ءکو یہ آئین ملک پر نافذ کر دیا گیا۔

ابھی آئین میں دوسری ترمیم کر کے احمدیوں کو اپنے زعم میں غیر مسلم نہیں قرار دیا گیا تھا لیکن اسی وقت سے آئین میں احمدیوں کے خلاف امتیازی سلوک کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔آئین میں صدر اور وزیر اعظم کےلیے یہ ضروری قرار دیا گیاہے کہ وہ مسلمان ہو۔ ہر آئین میں اہم عہدیداروں کےلیے حلف نامے شامل ہوتے ہیں۔

ختم نبوت کا حلف نامہ

۱۹۷۳ء کے آئین سے قبل پاکستان میں دو آئین نافذ ہو چکے تھے۔یعنی ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے آئین۔ لیکن ۱۹۷۳ء کے آئین میں ایک منفرد اضافہ یہ تھا کہ اس میں صدر اور وزیر اعظم کے جو حلف نامے شامل کیے گئے تھے، ان میں ختم نبوت کا حلف نامہ بھی شامل تھا۔یہ حلف نامہ ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:’’میں صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور وحدت و توحید قادر مطلق اللہ تبارک وتعالیٰ، کتب الٰہیہ، جن میں قرآن کریم خاتم الکتب ہے، نبوت حضرت محمد رسول اللہ ﷺبحیثیت خاتم النبیین جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا، روز قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ متقضیات و تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘

پوری دنیا میں سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت حلف اٹھاتے ہیں لیکن یہ کسی سیاسی عہدے کا حلف نامہ نہیں معلوم ہوتا۔ بلکہ اسے پڑھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ کسی غیر مسلم کو مشکوک حالات میں مسلمان بنایا جا رہا ہے اور یہ تسلی کی جا رہی ہے کہ کہیں بعد میں انکار نہ کر دے۔ اس مضمون میں یہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں کہ حقیقت میں احمدی ہی حقیقی معنوں میں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین سمجھتے ہیں۔ لیکن ملاحظہ فرمائیں اصل میں تو باقی فرقوں سے وابستہ مسلمانوں کو یہ حلف اٹھانے سے صاف انکار کر دینا چاہیے تھا۔ کیونکہ یہ حلف اٹھانے کے بعد ان کے عقائد پر تو پانی پھر گیا تھا۔ یہ احباب تو آنحضرتﷺ کے بعد بنی اسرائیل کے ایک ایسے نبی کی دوبارہ آمد پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں جسے آنحضرتﷺ کی شریعت کی پیروی کی وجہ سے نہیں بلکہ توریت کی پیروی میں نبوت کا مقام عطا ہوا تھا۔اور ظاہر ہے کہ ان کے عقائد کے مطابق اس نبی کی یہ آمدثانی آنحضرتﷺ کی وفات کے صدیوں بعد ہونی تھی۔ پھر یہ احباب یہ حلف کیسے اٹھا سکتے تھے کہ میں نبوت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ بحیثیت خاتم النبیین جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ایمان رکھتا ہوں۔ بہرحال حلف نامہ میں ان الفاظ کا اضافہ کر کے اپنی دانست میں احمدیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔اور اپنی طرف سے یہ پیش بندی کی گئی تھی کہ کوئی احمدی ان عہدوں پر فائز نہ ہو سکے۔

یہاں ایک اور تاریخی حقیقت کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ نیا آئین متفقہ طور پر منظور کیا جائے۔ اور اس غرض کے لیے تمام مذہبی سیاسی جماعتیں اپنی شرائط منوانے کی کوشش کر رہی تھیں۔جب آئین کو منظور کرنے کا وقت آیا تو ان جماعتوں سمیت اپوزیشن نے اسمبلی کا بائیکاٹ کر دیا۔بظاہر اب ممکن نظر نہیں آ رہا تھا کہ آئین متفقہ طور پر منظور ہو سکے گا۔اس مرحلہ پر اپوزیشن کو واپس اسمبلی میں لانے کے لیے حکمران جماعت کے قائدین نے دو شخصیات کی خدمات حاصل کیں۔ ایک تو مولوی ظفر احمد انصاری صاحب ممبر اسمبلی تھے اور دوسرے مصطفیٰ صادق صاحب ایڈیٹر وفاق تھے۔ یہ دونوں حضرات اس مرحلہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی جماعت احمدیہ کے اشد مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ان دونوں نےجماعت اسلامی کے قائد مودودی صاحب کو آمادہ کیا کہ وہ بھٹو صاحب کے ساتھی غلام مصطفیٰ کھر صاحب سے ملاقات کریں اور یہ خفیہ میٹنگ ہوئی۔ اس طرح اپوزیشن کا بائیکاٹ ختم ہوا اور لے دے کر ان مذہبی جماعتوں نے آئین کے حق میں ووٹ دیے۔اصولوں پر سودے بازی کر کے آئین پر دستخط کرالیے گئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ جب چند برسوں بعد جنرل ضیاء صاحب نے مارشل لاء لگا کر آئین معطل کر دیا اور بھٹو صاحب کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا تو یہی مصطفیٰ صادق صاحب اور مولوی ظفر احمد انصاری صاحب اور جماعت اسلامی جنرل ضیاء صاحب کے ساتھ مل گئے۔ مصطفیٰ صادق صاحب کو وزیر اطلاعات بنا دیا گیا۔ اور ضیاء صاحب نےظفر احمد انصاری صاحب کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ مارشل لاء کے دوران اس آئین کی مرمت کر کے اسے نام نہاد اسلامی آئین میں تبدیل کرنے کی تجاویز تیار کریں اور اس غیر آئینی غرض کےلیے انہوں نے ایک رپورٹ تیار کی جو کہ انصاری کمیشن رپورٹ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ اور رہی جماعت اسلامی تو جنرل ضیاء صاحب نے جماعت اسلامی کے کچھ لیڈروں کو وزارتوں سے نواز دیا۔

آئین کی منظوری کے دو ہفتہ بعدبھٹو صاحب نے ایک یادداشت تیار کرکے کابینہ کے سینئر وزراء کو بھجوائی تھی کہ اب اپوزیشن ’بیرونی طاقتوں ‘ کا آلہ کار بنی ہوئی ہے اور ان کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح رقص کر رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر اپوزیشن بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر یہ سب کچھ کر رہی تھی تو ان کے مطالبات تسلیم کرکے اصولوں پر سودے بازی کر کے کیا حاصل ہو سکتا تھا؟

(The Mirage of Power by Dr. Mubashar Hassan, published by Jamhoori Publication p211)

حلف ناموں کی ایک اور بوالعجبی

لیکن جب بھی احمدیت کی مخالفت سے مغلوب ہو کر اس قسم کے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں تو پھر یہ سلسلہ صرف احمدیوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ غلطیوں اور عجیب و غریب حرکات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔مثال کے طور پر پاکستان کے آئین میں صدر اور وزیر اعظم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو لیکن ممبر قومی اسمبلی یا ممبر سینیٹ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہو۔پاکستان کا کوئی بھی شہری خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو قومی اسمبلی یا سینیٹ کا ممبر بن سکتا ہے بلکہ کئی مسیحی، ہندو اور سکھ احباب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبر بنتے رہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں کہ آئین پاکستان میں ممبر قومی اسمبلی اور ممبر سینیٹ کے لیے جو حلف نامہ شامل کیا گیا ہے، اس میں یہ لکھا ہے:’’میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کےلیے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔‘‘

ذرا تصور فرمائیں کہ ایک صاحب یا محترمہ جو کہ مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ مسیحی یا ہندو یا سکھ ہیں، وہ یہ حلف اٹھائیں گے کہ میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کی کوششیں کرتا رہوں گا۔ صاحب ! اگر وہ اسلامی نظریہ کا قائل ہوتا تو مسلمان ہو چکا ہوتا لیکن اس کا تعلق تو کسی اور مذہب سے ہےوہ کس طرح اسلامی نظریہ کے لیے کاوشیں کر سکتا ہے۔اسی طرح سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیئرمین سینیٹ، وفاقی وزراء، وزراء اعلیٰ اورگورنر کےلیے بھی ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہوں لیکن آئین کی رو سے ان کے لیے یہ حلف اٹھانا ضروری ہے کہ میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرتا رہوں گا۔ اس سے زائد بوالعجبی کیا ہوگی۔

مذہبی شدت پسندی اورتنگ نظری کے ایک اونٹ کو ایک مرتبہ خیمہ میں داخل ہونے دیا جائے تو پھر جلد ہی یہ خیمہ کے مالک کو بے دخل کرنے کی کوششیں شروع کر دیتا ہے۔ یہی حال ۱۹۷۳ءکے آئین کا ہوا۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ بھٹو صاحب کی کوشش تھی کہ نیا آئین متفقہ طور پر منظور ہو۔اس کے لیے انہیں مذہبی سیاسی جماعتوں کو بہت سی رعایتیں دینی پڑیں۔ان میں سے ایک رعایت یہ تھی کہ آئین کی شق ۲۳۰ میں ایک اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کی سفارش کی گئی تھی۔آئین کی رو سے اس کونسل کےلیے صدر نے علماء مقرر کرنے تھے۔ اور ان علماء نے ایسی سفارشات پیش کرنی تھیں جن کا مقصد یہ ہو کہ موجودہ قوانین کو اسلامی قوانین میں تبدیل کیا جا سکے۔

اگر تنگ نظری کو کہیں پر داخل ہونے کا موقع دیا جائے تو اس کی مثال بدو کے اس اونٹ جیسی ہوتی ہے جس نے سرد رات میں اپنے مالک سے اجازت لی تھی کہ سردی بہت ہے مجھے اپنا سر خیمہ میں داخل کرنے دو۔پھر آہستہ آہستہ اس نے مالک کو خیمہ سے نکا ل باہر کیا اور خود خیمہ پر قبضہ کر لیا۔اسمبلی میں موجود مولوی صاحبان مسلسل یہ کوششیں کر تے رہے کہ ان کا اثر و رسوخ بڑھے اور ان کی مرضی کی ترامیم آئین میں شامل کی جائیں۔اور مذہبی تنگ نظری کی بنیاد پر پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کیے جائیں۔۲۸؍فروری ۱۹۷۳ء کی کارروائی کے دوران مولوی نعمت اللہ صاحب نے کہا کہ آئین سازی کےلیے اتنی بڑی کمیٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی، حکومت کی طرف سے مولانا کوثر نیازی صاحب اپوزیشن سے اکوڑہ خٹک کے مدرسہ کے مولانا عبدالحق صاحب اور مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب کے سپرد یہ کام کر دیا جائے تو یہ تین علماء تین ماہ میں اسلامی آئین بنا کر دے دیں گے۔

ھل من مزید کے مطالبات

۵؍مارچ ۱۹۷۳ءکی کارروائی کے دوران جمیعت العلماء اسلام کے قائد مفتی محمود صاحب نے یہ مطالبہ کیا کہ اس آئین میں لکھا ہے کہ سرکاری مذہب اسلام ہوگا۔لیکن اس کا کیا فائدہ جب تک آئین میں یہ طے نہ ہو کہ تمام کلیدی عہدوں پر صرف مسلمان مقرر ہوں گےاور قانون ساز ادارے کا ممبر ہونے کےلیے ضروری ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان ہو یعنی کوئی غیر مسلم ملک کی اسمبلیوں کا ممبر بھی نہیں بن سکتا۔اور یہ رائے بھی دی کہ اسلامی نظریاتی کونسل تو مقرر کر دی گئی ہے لیکن یہ قانون بننا چاہیے کہ جب تک علماء کسی قانون کے بارے میں اس کونسل میں غور کر رہے ہیں اس وقت تک اسمبلی اس قانون کے بارے میں بحث بند کردیں اور یہ شکوہ کیا کہ قومی اسمبلی کو اس کونسل کی رائے کا پابند کیوں نہیں بنایا گیا۔ اس رائے کا مطلب یہ تھا کہ ملک کے اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے کو مولوی حضرات کی رائے کا محکوم بنایا جائے۔اور تو اور وفاقی وزیر عبد الحفیظ پیرزادہ صاحب نےجو اس وقت اس کمیٹی کے صدر تھے جس نے آئین کا مسودہ تیار کیا تھا، ۳۱؍دسمبر ۱۹۷۲ءکواس بحث کے آغاز پر فخریہ طور پر کہا

The Islamic Ideology Council has been given the mandate to submit a report within seven years and propose ways and means how to bring all laws in consonance with Islam and to propose legislation -all those matters where legislation on basic tenets and basic injunctions of Islam is possible.

ترجمہ: اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد یہ کام کیاگیا ہے کہ وہ سات سال میں ایک رپورٹ پیش کرے گی جس میں یہ سفارشات پیش کی جائیں گی کہ کس طرح تمام قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالا جائے۔اور اسلامی اصول اور ہدایات کے مطابق قانون سازی کی تجاویز پیش کرے گی۔

اس کے بعد ۱۴؍مارچ ۱۹۷۲ء کو مولوی عبد الحکیم صاحب نے یہ مطالبہ کیا کہ آئین میں یہ شق شامل کی جائے کہ کسی مسلمان کو مذہب تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔اس پر پیپلز پارٹی کےخورشید حسن میر صاحب نے کہا کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں کئی غیر مسلم اسلام قبول کرتے ہیں۔اگر ہم ایسا قانون بنائیں گے تو دوسرے ممالک ایسے قوانین بنا ئیں گے کہ ان ممالک میں اسلام کی تبلیغ نہیں کی جا سکتی یا وہاں پر کوئی اپنا مذہب ترک کر کے اسلام قبول نہیں کر سکتا۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ قانون بنا دیا گیا کہ پاکستان کا صدر اور وزیر اعظم صرف مسلمان ہی ہو سکتا ہے۔ پھر یہ دھڑکا لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی احمدی یہ عہدے حاصل کر لے، اس کے سد باب کےلیے حلف نامے میں ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کر لیا گیا۔اب ان مولوی صاحبان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ یہ تسلی کس طرح کی جائے کہ ایک شخص صدر یا وزیر اعظم بن کر صالح مسلمان رہا ہے کہ ان کے نظریات سے انحراف کر رہا ہے یا یہ عہدہ حاصل کرنے کے بعد مرتد تو نہیں ہو گیا۔ ان صاحبان نے اس بارے میں یہ تجاویز دینی شروع کیں۔۶؍مارچ ۱۹۷۳ء کی کارروائی میں جمعیت العلماء پاکستان کے صدر شاہ احمد نورانی صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ وزیر اعظم کےلیے اورصدر کےلیے یہ ضروری شرط ہونی چاہیے کہ وہ شرابی نہ ہو۔

انہوں نے یہ وضاحت پیش نہیں کی کہ کیا صدر اور وزیر اعظم کا ڈرنک ٹسٹ کر کے دیکھا جائے گا کہ اس نے شراب نوشی کی ہے کہ نہیں یا کوئی اور طریقہ کار استعمال کیا جائے گا۔

جب مذہبی آزادی کی شق پر بحث شروع ہوئی تو یہ شق اسمبلی میں موجود مولوی صاحبان کو بہت ناگوار گذری۔۱۴؍مارچ ۱۹۷۳ء کو مولوی عبد الحکیم صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ مذہبی آزادی تو بے شک دو لیکن مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت نہ ہو۔ مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب کو خیال آیا کہ کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی نے مسلمان رہنا ہے تو پھر اسےمولوی حضرات کی مرضی کے خیالات کا پابند ہو کر رہنا پڑے گا۔ اس لیے انہوں نے مسلمان کی تعریف پیش کرنے کی بجائے مرتد کی تعریف پیش کی اور کہا ’’کسی ایسے شخص کو مرتد کہا جائے گا اگر وہ اسلام قبول کرنے کے بعد قرآن پاک کی کسی آیت یا رسول ؐکی کسی مسلسل حدیث یا ان کی کسی مقبول عام تو ضیح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔‘‘

اس تجویز کے ذریعہ یہ علماء صاحبان ایسا پنڈورا باکس کھول رہے تھے کہ جس کے بعد ہر شخص کے مذہبی خیالات پر ان حضرات کی اجارہ داری قائم ہو جانی تھی۔ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون سی حدیث مسلسل ہے اور کون سی حدیث مسلسل نہیں ہے۔ایک مسلک حدیثوں کے ایک ذخیرہ کو مسلسل احادیث میں شمار کرتا ہے اور دوسرا مسلک اسے مسلسل نہیں قرار دیتا۔بلکہ ایک مسلک کے مختلف علماء احادیث کے مسلسل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں۔اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس معیار کے مطابق اگر کوئی کسی آیت کریمہ یا کسی مسلسل حدیث کی مقبول توضیح یعنی تشریح سے بھی انکار کرے تو وہ قانون کی روشنی میں مرتد اور غیر مسلم ہوجائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر مسلک آیات اور احادیث کی مختلف تشریح کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی صاحب صدر یا وزیر اعظم بن گئے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے کسی حدیث کے بارے میں علماء کی بیان کردہ توضیح یا تشریح سے اختلاف کیا ہے تو پھر قانون انہیں نہ صرف غیر مسلم قرار دے دے گا بلکہ انہیں عہدے سے بھی برطرف کر دیا جائے گا کیونکہ صدر یا وزیر اعظم تو صرف ایک مسلمان ہی ہو سکتا ہے۔ اور جب کسی شخص کو مرتد قرار دے دیا جائے تو یہ تو علماء کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ مرتد کی سزا موت ہونی چاہیے۔تو یہ صاحب جو کہ پہلے صدر یا وزیر اعظم تھے اب صرف ایک مسلسل حدیث کی تشریح کے اختلاف کے مسئلہ پر نہ صرف اپنے عہدے سے محروم کر دیے جائیں گے بلکہ اب ا نہیں اپنی جان بچانے کےلیے بھی کافی تگ و دو کرنی پڑے گی۔ اگر ان علماء کے یہ نظریات قبول کر لیے جائیں تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سارا ملک اور ملک کا سارا نظام ان حضرات کی چیرہ دستیوں کا غلام ہو جائے گا۔

لونڈیاں رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟

اگر ان نام نہاد علماء کے مطالبات قبول کر لیے جائیں تو اس کے کیا خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ اس تجویز سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ آئین سازی کے عمل کے دوران مولوی نعمت اللہ صاحب نے پیش کی۔مناسب ہو گا اگر آپ اس تجویز کو ان کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔انہوں نے آئین کی اس شق پر اعتراض کیا جس میں یہ لکھا تھا کہ غلامی معدوم ہے اور اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں ہو گی۔ مولوی نعمت اللہ صاحب نے۲۸؍ فروری ۱۹۷۳ء کی کارروائی میں کہا ’’آپ کہتے ہیں کہ غلامی جائز نہیں ہے قرآن پاک میں جناب والا جائز ہے۔یہ جنا ب والا ! قرآن کی مخالفت ہے اور یہ کس طریقہ سے کہتے ہیں کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور کہتے ہیں کہ غلامی کو ہم کبھی جائز نہیں کریں گے، انسانوں کی خرید و فروخت جائز نہیں ہو گی۔ بنیادی حصہ میں یہ الفاظ رکھ دیے اور یہ لفظ تو انگریز کے دیے ہوئے ہیں۔‘‘

گویا ان صاحب کے نزدیک اسلام پر عمل کرنے کےلیے سب سے ضروری قدم یہ تھا کہ غلام اور لونڈیاں رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اور سب سے بڑھ کر وہ اسلام پر یہ ظلم کر رہے تھے۔ اسلام نے تو سب سے زیادہ غلاموں کو آزادی دینے کی تلقین کی تھی اور یہ مولوی صاحب اسلام کے نام پر مطالبہ کر رہے تھے کہ دوبارہ غلامی کو رواج دیاجائے۔ جب کچھ ممبران نےاس خرافات پر احتجاج کیا تو یہ مولوی صاحب ناراض ہو کر کہنے لگے :’’ اگر ہم غلامی کو جائز رکھیں تو آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں شرمندہ ہو جائیں گے۔ میں خدا کی قسم آپ کے سامنے کہتا ہوں کہ آپ دنیا میں انتہائی درجہ تک سرخرو ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے شامل حال ہو گی اور پیپلز پارٹی دنیا میں انتہائی درجہ تک سرخرو ہو جائے گی۔‘‘

تو یہ تھے ان مولوی صاحبان کے خیالات کہ اگر دین و دنیا میں سرخرو ہونا ہے تو انہیں اس کا یہی طریقہ سوجھ رہا تھا کہ غلام اور لونڈیاں رکھنا شروع کردو۔ یہ تھا ان مبلغ کادینی علم کہ اس طریق پر اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوجائے گی۔شاید یہ عذر پیش کیا جائے کہ ان مولوی صاحبان نے یہ تجاویز پیش تو کی تھیں لیکن انہیں اسمبلی نے منظور تو نہیں کیا اور نہ ہی یہ معرکہ آراء خیالات آئین کا حصہ بن سکے۔لیکن ان مثالوں سے یہ تو اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس طبقہ کے خیالات کا رخ کس طرف ہے۔ خواہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کے نام پر یا کسی اور بہانے سے انہیں کھل کھیلنے کا موقع مل جائے تو یہ کیا قیامت برپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور دلچسپ بات یہ کہ اس وقت اسمبلی میں موجود مذہبی جماعتوں کے ممبران اسمبلی میں سے کسی نے اس اوٹ پٹانگ تجویز پر احتجاج نہیں کیا کہ یہ مولوی صاحب اسلام کو بد نام کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔

یہ صرف خیالات نہیں تھے۔ کئی دہائیوں بعد داعش اور بوکو حرام جیسی نام نہاد جہاد کی تنظیموں نے غلامی کو دوبارہ شروع کرکے اپنا نامہ اعمال سیاہ کیا۔جنرل ضیاء صاحب کے مارشل لاء کے دوران اس تنگ نظر طبقہ کو اپنے بعض مطالبات منوانے کا موقع ملا۔

جب ۱۹۷۳ء کا آئین منظور ہوا تو اس میں ممبر پارلیمنٹ بننے کےلیے آئین کی شق ۶۲میں یہ شرائط درج تھیں کہ ایسا شخص پاکستان کا شہری ہوگا اور اس کا نام ووٹر لسٹ میں درج ہوگا اور قومی اسمبلی کےلیے کم از کم عمر ۲۵ سال اور ممبر سینیٹ بننے کےلیے اس کی کم از کم عمر تیس سال ہو گی۔

لیکن جب جنرل ضیاء صاحب کے دور میں نام نہاد مذہبی طبقہ نے اس شق میں اپنی مرضی کی کچھ مزید شرائط شامل کرائیں۔اور ان کے مطابق کوئی شخص اس وقت ممبر پارلیمنٹ بننے کا اہل نہیں ہوتا اگر وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام کی خلاف ورزی میں مشہور ہو۔وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔ وہ سمجھدار اور پارسا نہ ہو یا فاسق ہو یا ایماندار اور امین نہ ہو۔

یہ تبدیلیاں کرتے ہوئے ان احباب کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ فیصلہ کس طرح ہوگا کہ کون اچھے کردار کا حامل ہے اور کون نہیں۔ اور اگر کوئی احکام اسلام کی خلاف ورزی میں مشہور ہوگیا ہے، خواہ یہ شہرت غلط الزامات کی بنیاد پر ہے پھر بھی وہ بیچارہ ممبر پارلیمنٹ بننے کا اہل نہیں ہوگا۔اور کس امتحان سے یہ پتا چلایا جائے گا کہ کسی شخص کو اسلامی تعلیمات کا علم ہے کہ نہیں۔یہ تحقیقات کس طرح ہوں گی کہ کون سا شخص فرائض پر عمل پیرا ہے اور کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہے۔اور ان تبدیلیوں کی وجہ سے عدالتوں نے کئی ایسے فیصلےلیے جو کہ نہ صرف متنازعہ تھے بلکہ ان کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی پیدا ہوا۔

آئین کی منظوری کےلیے رشوت کا استعمال

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے اس وقت ملک کے صدر ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ پاکستان کا نیا آئین متفقہ طور پر منظور ہو۔ اور اس وقت ملک کی مذہبی سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں تھیں۔ ان کو نئے آئین پر راضی کرنے کےلیے بھٹو صاحب کو بہت سی رعایتیں دینی پڑیں۔ اور صدر اور وزیر اعظم کے حلف نامے میںختم نبوت سمیت دوسرے عقائد کا حلف بھی شامل کرنا پڑا۔اور اس کےلیے کس طرح ہر اصول کو قربان کیا گیا اس کا اندازہ ڈاکٹر مبشر حسن صاحب کی کتاب میں اس اعتراف سے لگایا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر مبشر حسن صاحب بھٹو صاحب کی کابینہ کےایک سینئر وزیر ہونے کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں سے بھی تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

“Bhutto was keen that the Constitution be adapted unanimously. There was one member of the assembly, however, a maulana, who wanted money in lieu of his vote. The amount was settled and Bhutto described the scene to me how when the fellow came to the President house to collect the money, Bhutto threw the packets of notes on the floor in front of him and ordered him to pick it up. There the man was, moving over the carpets on all four, picking a bundle from here and a bundle from there, Bhutto was mightily amused.”

(The Mirage of Power, An Inquiry Into The Bhutto Years 1971 – 1977, By Dr. Mubashir Hasan, Published by Jamhoori Pulications, 2016 p 214)

ترجمہ : بھٹو صاحب کی خواہش تھی کہ آئین کو متفقہ طور پر منظور کیا جائے۔ البتہ اسمبلی کے ایک ممبر تھے جو کہ ایک مولانا تھے، وہ اپنے ووٹ کے عوض رقم کا مطالبہ کر رہے تھے۔یہ طے ہو گیا کہ کتنی رقم دینی ہے اور بھٹو صاحب نے یہ منظر مجھے بیان کیا کہ کس طرح یہ صاحب رقم لینے کےلیے ایوان صدر آئے۔بھٹو صاحب نے اپنے سامنے قالین پرنوٹوں کی گڈیاں پھینک دیں اور انہیں حکم دیا کہ انہیں اٹھائیں۔ وہ شخص اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں پر چل کر نوٹوں کی کوئی گڈی ادھر سے اٹھاتا تھا اور کوئی گڈی ادھر سے اٹھاتا تھا، بھٹو صاحب تکبرکےساتھ اس سے بہت لطف اندوز ہوئے۔

یہ خواہش کہ آئین متفقہ طور پر منظور ہونا چاہیے، ہر جرم کا جواز نہیں بن سکتی۔سیاست میں مفاہمت بھی کرنی پڑتی ہے مگر یہ مفاہمت بنیادی اصولوں پر قائم رہ کر کی جاتی ہے۔خواہ اس کےلیے مخالفت ہی کیوں نہ مول لینی پڑے۔ اگر اس طرح گرے ہوئے انداز میں رشوتیں دی جائیں اور اس انداز میں خاص طور پر دینی علماء رشوتیں لیں تو کیا ایسے سیاسی عمل سےکسی خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کیا اس طرز پر ملک میں اسلامی آئین نافذ کیا جا سکتا ہے؟ کچھ حقائق درج کر دیے گئے ہیں۔ اس بارے میں پڑھنے والےاپنی رائے خود قائم کر سکتے ہیں کہ کس طریق پر مذہبی جماعتوں کورعایتیں دی جا رہی تھیں۔

کیا صرف احمدیوں کے حقوق متاثر ہوئے؟

اسمبلی نے یہ آئین اپریل میں منظور کر لیا تھا۔تین چار کے علاوہ تمام ممبران نے اس پر دستخط کر دیے۔لیکن کیا جس آئین کو متفقہ بنانے کے شوق میں اس طرح بنیادی حقوق کو پامال کیاجائے اس سےکیاخیر برآمد ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کےلیے ہمیں مرحلہ وار تاریخ کا جائزہ لینا پڑے گا۔اس آئین کو ۱۴؍ اگست ۱۹۷۳ءکو نافذ کیا گیا۔ فضل الٰہی چودھری صاحب نے ملک کے صدر کی حیثیت سے اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اس آئین کے تحت پہلے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔ کیا اس نفاذ کے بعد پاکستان کے شہریوں کو اپنے تمام بنیادی حقوق مل گئے ؟ ابھی آئین کو نافذ ہوئے چند گھنٹے ہی گذرے تھے کہ وزیر اعظم کی سفارش پر صدر مملکت نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔اور اس کے ساتھ آئین میں دیے گئے بہت سے بنیادی حقوق معطل کر دیے گئے۔اس ایمرجنسی کے ذریعہ آئین کی شق ۱۰، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸ ،۱۹ ،۲۳، ۲۴، ۲۵، اور ۲۷ کو معطل کر دیا گیا۔ آئین کی ان شقوں میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی تھی۔ملاحظہ فرمائیں کہ ان شقوں میں مذکور کن کن حقوق کو معطل کر دیا گیا۔غیر قانونی گرفتاری پر پابندی، نقل و حرکت کی آزادی، اجتماع کی آزادی، تنظیم سازی کی آزادی، تجارت اور پیشہ اختیار کرنے کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، جائیداد رکھنے کی آزادی اور تمام شہریوں میں مساوات۔ اس قدم کا مطلب یہ تھا کہ اگر حکومت کسی شہری کے یہ حقوق پامال کرے تو وہ عدالت سے رجوع نہیں کر سکتا کیونکہ ملک میں ایمرجنسی لگی ہوئی ہے۔اور اس کے بعد اس ایمر جنسی میں توسیع ہوتی رہی یہاں تک کہ ۱۹۷۷ء میں ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ جونہی اس ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا بلوچستان میں اپوزیشن کے بہت سے سیاسی لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا۔(روزنامہ ڈان ۱۷؍اگست۱۹۷۳ء)

اور ایسے اقدامات کے نتائج ہم اب تک ملاحظہ کر رہے ہیں۔اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ جب کسی ملک میں جماعت احمدیہ کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے کام کا آغاز ہوتا ہے تو جلد ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہ سلسلہ صرف احمدیوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ جلد ہی دوسرے گروہ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ملک میں احمدیوں کے حقوق سلب ہو رہے تھے اور خاموشی اختیار کی گئی تو جلد ہی دوسرے طبقات بھی اس لہر کی لپیٹ میں آ گئے۔اس مضمون میں صرف اس مرحلہ کا جائزہ لیا گیا ہے جب آئین بنا کر نافذ کیا گیا تھا۔ ابھی دوسری آئینی ترمیم کے ذریعہ اپنے زعم میں احمدیوں کو قانون کی اغراض کےلیے غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا تھا۔

مضمون کے آخر میں ’پنڈورا باکس ‘کی کہانی کا آخری حصہ درج کرنا ضروری ہے۔ جب پنڈورا نے اس جادوئی باکس کا ڈھکنا اٹھایا اور اس میں سے غم اور المیے اور بیماریاں برآمد ہوئیں تو پنڈورا نے گھبرا کر اس ڈھکنے کو بند کر دیا۔ لیکن اس میں سے مسلسل کسی کی آواز آرہی تھی کہ مجھے بھی باہر نکالو۔ لیکن پنڈورا کو ایک مرتبہ پھر اس باکس کو کھولنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن جب یہ آواز مسلسل آ تی رہی تو آخر اس نے ایک بار پھر اس باکس کو کھول دیا۔ جو آخری چیز اس میں سے نکلی وہ ’امید‘تھی۔ اسی طرح ایک مرتبہ پھر پاکستان کے آئین اور قوانین پر نظر ثانی کرنی پڑے گی لیکن اس مرتبہ حقوق سلب کرنے کےلیے نہیں بلکہ ماضی کی تمام غلطیوں کو درست کرنے کےلیے یہ عمل شروع کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button