متفرق مضامین

اسلام آباد ٹلفورڈ میں پہلا یادگار جلسہ سالانہ

(ڈاکٹر عبدالباری ملک۔ یوکے)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی یوکے ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت کو سرے (Surrey)کے خوبصورت علاقہ ٹلفورڈ میں قطعہ زمین عطافرمایا جس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اسلام آباد رکھا۔ اسلام آباد میں پہلا جلسہ سالانہ مورخہ ۷,۶,۵؍اپریل ۱۹۸۵ء بروزجمعہ، ہفتہ، اتوار منعقد ہوا۔یہ یوکے جماعت کا بیسواں جلسہ سالانہ تھا۔

یوں تو یوکے جماعت کے جلسہ سالانہ سنہ ۱۹۶۴.ء سے مسجد فضل اور محمود ہال میں منعقد ہوتے تھے۔اسی طرح وانڈزورتھ ٹائون ہال، ومبلڈن ٹائون ہال، روہمپٹن،کرین فورڈ پارک اور ٹولورتھ میں بھی جلسہ سالانہ منعقد ہوئے لیکن یہ جلسہ ہر لحاظ سے ایک تاریخی جلسہ تھا۔

یہ یورپ کا پہلا جلسہ سالانہ تھا جو ربوہ کی طرز پر کیا گیا اور ربوہ سے محترم چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید تمام انتظامات کی نگرانی فرماتے تھے۔

آپ کئی ماہ پہلے ربوہ سے لندن تشریف لے آئے اور آپ نے تمام انتظامات کی براہ راست نگرانی کی اور ہدایات بھی دیتے رہے۔

اس جلسہ میںدنیا کے۴۸؍ممالک سے قریباََ پانچ ہزار احمدی شامل ہوئے۔یہ پہلا موقع تھا کہ یوکے کے علاوہ جرمنی، پاکستان، بھارت، ہالینڈ اور دوسرے ممالک کے خدام نے یوکے آکرجلسہ سالانہ یوکے پر ڈیوٹیاں دیں۔یہ یورپ میںپہلا موقع تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح نے تینوں دن خطاب فرمایا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے محترم ہدایت اللہ بنگوی صاحب کو افسر جلسہ سالانہ، محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب کو افسر جلسہ گاہ اور محترم میاں محمد صفی صاحب نیشنل قائد مجلس خدام الا حمدیہ یوکے کو افسر خدمت خلق مقرر فرمایاتھا۔محترمہ امۃ الحفیظ سلام صاحبہ بیگم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب صدر لجنہ اماء اللہ یوکے افسر لجنہ جلسہ گاہ تھیں۔محترمہ پروین رفیع صاحبہ نائب افسر لجنہ جلسہ گاہ تھیں۔محترم عبدالباقی ارشد صاحب نائب افسر جلسہ سالانہ تھے۔ افسر رابطہ امیر جماعت یوکے محترم انور کاہلوں صاحب تھے۔افسر حفاظت خاص محترم میجر محمود احمد صاحب تھے اور ان کے ساتھ خدام کی ایک ٹیم تھی۔محترم خواجہ رشید الدین صاحب قمر نائب افسر جلسہ گاہ تھے۔

ہنسلو جماعت کے صدر محترم لطیف خان صاحب ناظم استقبال و ٹر انسپورٹ تھے۔ان کے نائب سائوتھ آل جماعت کے صدر محترم سید صدق المرسلین خادم صاحب تھے۔ پہلی دفعہ ہیتھرو اور گیٹ وک ایئرپورٹ پر جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے استقبال کا باقاعدہ انتظام کیاگیا تھا۔مہمانوں کے استقبال کے لیے چوبیس گھنٹے ایئرپورٹ پر ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں۔ ایئرپورٹ سے منی بسیں اور کوچیں مہمانوں کو مسجد فضل لندن اور اسلام آبادلے کر جاتی تھیں۔

ایسٹ لندن کے صدر جماعت مرزا مجیب صاحب کی ڈیوٹی جلسہ گاہ کی صفائی کی تھی۔ان کے ساتھ خدام کی ایک ٹیم تھی جو چوبیس گھنٹے اسلام آباد کی صفائی کرتے تھے۔

گرین فورڈ جماعت کے صدر محترم بشیر احمد شیدا صاحب ناظم رہائش گاہ تھے۔ ان کے نائب بارکنگ جماعت کے صدر محترم مشتاق ڈار صاحب تھے۔سپلائی کے ناظم محترم نعیم عثمان صاحب تھے۔سٹیج کی تیاری کے ناظم محترم عباس خان صاحب تھے اور سٹیج کی سجاوٹ کے ناظم محترم مرزا عبدالشکور صاحب تھے۔ جلسہ گاہ کے ارد گرد سجاوٹ کے ناظم محترم مرزا عبد الرشید صاحب تھے۔

ناظم ضیافت محترم ڈاکٹر ولی شاہ صاحب سیکرٹری ضیافت یوکے جماعت تھے۔ان کی ٹیم میں، مرزاسلیم صاحب، اعجازبٹ صاحب اور حنیف الرحمٰن صاحب سنوری کچن میں ڈیوٹی کرتے تھے۔منصور بی ٹی صاحب کھانا تقسیم کرنے کی ڈیوٹی کرتے۔ لنگر میں ڈیوٹی کے لیے کراچی جماعت سے محترم ارشاد شادہ صاحب، محترم منظور شاد صاحب اور راجہ ناصراحمد صاحب خصوصی طور پر تشریف لائے۔ چوبیس گھنٹے چائے پیش کرنے کے لیے محترم صدر الدین صاحب کھوکھر بھی کراچی جماعت سے تشریف لائے۔کھانے کے ہال کے ساتھ ایک کچن بھی بن چکا تھا جہاںکھانا تیار ہوتا تھا۔ بھائی محمدحسن صاحب کچن کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں ہی دن رات رہتے تھے اور بے لوث خدمات سر انجام دیتے۔محدود وسائل کے باوجود چوبیس گھنٹے لنگر کا لذیذ کھانا ہر ایک کے لیے تیار ملتا۔اسی طرح مہمانوں کے لیے چائے بھی ہر وقت تیار ملتی۔محترم چودھری رشید صاحب پریس سیکرٹری نے کتب کا سٹال لگایا ہوا تھا۔محترم نذیر ڈار صاحب رجسٹریشن کے ناظم تھے۔ان کی مدد کے لیے محترم دائود ندیم صاحب اورجرمنی سے محترم شرافت اللہ صاحب آئے ہوئے تھے۔

آڈیو ویڈیو کے ناظم محترم مبارک لون صاحب، محترم عقیل میاں صاحب اور محترم رفیق جاوید صاحب تھےاور ان کے نائب محترم مشہود گلزار صاحب اور سردار نصیر احمد صاحب تھے۔فوٹو گرافی کی ڈیوٹی محترم اظہر تنویر مرزا صاحب اور شیخ صاحب کی تھی۔

یہ یورپ میں پہلا جلسہ سالانہ تھا جس میں تقاریر کے ترجمہ کے لیے باقاعدہ ہیڈفونز کا انتظا م مردانہ اور لجنہ کے جلسہ گاہ میں کیا گیا۔ اس کے لیے محترم منیر احمد فرخ صاحب اور ان کی ٹیم کے افرادباقاعدہ اسلام آباد پاکستان سے تشریف لائے۔ تقاریر کا ترجمہ انگریزی، عربی اور انڈونیشین زبانوں میں کیا گیا۔اس کام کے ناظم محترم خلیل الر حمٰن صاحب ملک تھے۔ان کے ساتھ محترم آفتاب خان صاحب انگریزی ترجمہ کرتے تھے۔جلسہ کی ساری کارروائی کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی۔

قادیان اور ربوہ کے بعد یہ پہلا جلسہ سالانہ تھا جہاں باقاعدہ پرچم کشائی کی گئی۔یہ پہلا موقع تھا کہ جلسہ گاہ میں لوائے احمدیت کے علاوہ جلسہ میںشامل ہونے والے احمدیوں کے ۴۸ممالک کے جھنڈے لہرائے گئے۔ جھنڈوں کی ڈیوٹی محترم مرزا عبدالباسط صاحب کی تھی۔اب ۴۸ممالک کے جھنڈے ڈھونڈنے کا مشکل کام تھا، اس کے لیے مختلف ممالک کے سفارت خانوں سے رابطہ کیا گیااور ان کے ممالک کے جھنڈے ادھار لیے گئے۔ بعض ممالک کے جھنڈے لیڈز اور لندن میں جھنڈے بنانے والی فیکٹریوں سے خریدے گئے۔زمین میں پول گاڑنے کے لیے سوراخ نکالنے کا کام بھی بہت بڑاتھا۔ اس کام کو بھی کئی دن وقار عمل کر کے مکمل کیا گیا۔

اسلام آباد کی صفائی کا کام چوبیس گھنٹے ہوتا تھا۔ اس کے لیے بھی خدام کی ٹیم بڑی محنت سے ڈیوٹیاں کر تی تھی۔ہر جگہ پوسٹر لگائے گئے تھے جن پر مہمانوں سے درخواست کی گئی تھی کہ اسلام آباد، جلسہ گاہ اور گردونواح کی صفائی کا خیال رکھیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔

اس عظیم الشان جلسہ کی تیاریاں کئی ماہ پہلے شروع ہوگئی تھیں۔خاکسار ان دنوں نارتھ ریجن کے ریجنل قائد کے طور پر خدمات سر انجام دے رہا تھا۔نیشنل قائد صاحب کے حکم پر ہم بریڈ فورڈ، ہڈرزفیلڈ،مانچسٹر اور دوسری مجالس کے خدام اسلام آباد جاکر وقار عمل کرتے اور جلسہ سالانہ کے لیے تیاری کرتے۔نئی جگہ اور جلسہ سالانہ کاا تنا شوق،جذبہ اورخوشی تھی کہ خدام بڑے جوش و خروش سے خدمات کے لیے نام پیش کرتے۔ہمارا راتوں کو قیام بھی اسلام آباد کی ڈارمٹریز میں ہی ہوتا۔صبح نماز فجر کےبعد ناشتہ کرتے ہی وقار عمل شروع ہو جاتا۔ جلسہ گاہ کی تیاری، حضور انور کی قیام گاہ کی تیاری،گیسٹ ہائوسز کی تیاری، قریبی عمارتوں کی مکمل صفائی کا کام، ڈائننگ ہال اور کچن کی مکمل صفائی،ہولی گرائونڈ جو ڈائننگ ہال کے ساتھ ملحق تھی اس کی مکمل صفائی، پیڈک کا علاقہ جہاں چھوٹا سا بازار بننا تھااس کی صفائی، ساری رہائش گاہوں کی مکمل صفائی، رنگ وروغن کاکام، بستروں کے لیے سٹور تیار کرنا، کچن کے سامان کے لیے سٹور تیار کرنا، اسلام آباد کی سجاوٹ کاکام اور اسی طرح اور بہت سے کام تھے جو وقار عمل کر کے مکمل کیے گئے۔ یہ وقار عمل صبح سے شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہتا۔ نمازوں اور کھانے کا مختصر وقفہ ہوتا۔

وقار عمل میں صرف خدام شامل نہیں تھے بلکہ بعض بزرگ انصار اور اطفال بھی بڑے شوق سے حصہ لے رہے تھے۔اطفال کا اتنا جوش تھا کہ وہ گھر جانا ہی نہیں چاہتے تھے۔اس کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔

ایک دن کر ائیڈن سے ایک والدہ اپنے دو بیٹوں کو لینے کے لیے آئیں تو دونوں بیٹے غائب ہو گئے۔ کافی دیر تک ان کو ڈھونڈنے کے باوجود وہ نہ ملے تو والدہ پریشان ہونے لگیں۔چند خدام نے ان کی مدد کی تو دونوں بھائی ایک ڈارمٹری میں بنک بیڈ کے اوپر رضائی میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کو ڈھونڈ کر جب نیچے بلایا گیا تو دونوں رونے لگے کہ ہم نے گھر نہیں جانا۔ بڑی مشکل سے ان کو منا کراس وعدہ پر ان کی والدہ کے ساتھ بھجوایا گیاکہ وہ ان کو دوبارہ ڈیوٹی کے لیے اسلام آباد لے کر آئیں گی۔

انہی دنوں ایک عمارت میںمسجد بھی بن چکی تھی۔ہم وہیں نماز باجماعت ادا کرتے۔اس مسجد کی محراب کے لیے ہم نے مربی سلسلہ محترم عبدالحفیظ کھوکھر صاحب کی قیادت میں مقامی دکانوں سے پلائی ووڈ خرید کر اس کو کاٹ کر خوبصورت محراب بنایا۔اس کو حضور انور نے بہت پسند فرمایا۔

ایسٹ لندن کے ایک مخلص دوست محترم تاج دین صاحب نے ایک چھوٹے سے کھوکھے میں اپنی ورکشاپ بنائی ہوئی تھی اور وہ ہر قسم کے مرمت کے کام دن رات کرتے تھے۔ وہ ہر فن مولیٰ تھے اورہمیں کسی قسم کے اوزار یا مرمت کے کام کی ضرورت پڑتی تو ہم ان سے درخواست کرتے تو وہ فوراََبخوشی کام کر دیتے۔وہ ہمیں مفید مشورے بھی دیتے۔انہوں نے اسلام آباد میں جتنے بھی چھوٹے بڑے مرمت کے کام تھے وہ سب بڑی محنت سے کیے۔

کاریگروں کی ایک ٹیم ربوہ سے منگوائی گئی تھی ان میں محترم احسان صاحب اور محترم عزیز صاحب تھے۔انہوں نے بھی بڑی محنت سے اسلام آباد میں مرمت کے تمام کام سر انجام دیے۔

گو ان دنوں خدام کی تعداد کم تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے فرشتہ سیرت خدمت گذار عطا فرمائے ہوئے تھے جو دن رات بڑے اخلاص کے ساتھ خدمات سر انجام دیتے تھے۔

لیوٹن جماعت کے بزرگ محترم میاں منو ر علی صاحب ہر وقت اپنی گاڑی لیے خدمات کے لیے حاضر رہتے۔ آپ دن میں کئی کئی چکر مسجد فضل کے لگاتے۔یوں آپ دن میں قریباََ تین سو میل کا سفر کرتے۔ایک دفعہ کچھ مہمان جلسہ میں شمولیت کے لیے آئے تو میاں منور علی صاحب نے ان کو لفٹ دی۔ انہوں نے بجائے Tilford کے Telfordکہہ دیا۔ یہ برمنگھم کے قریب تھا جو قریباََ ڈیڑھ سو میل کے فاصلہ پر تھا۔محترم میاں منور علی صاحب ان کو وہاں لے گئے۔وہاں جاکر پتا چلا کہ دراصل انہوں نے اسلام آباد جانا تھا۔ آپ ان کو واپس اسلام آباد لے آئے۔آپ کو اگر کوئی خادم بھی کوئی کام کہتا تو آپ بخوشی ان کی مدد کردیتے۔آپ لجنہ کو ایک منی بس میں لندن سے اسلام آباد اور واپس لند ن لے کر جاتے تھے۔لجنہ اسمبلی ہال میں بستر وغیرہ تیار کرتی تھیں۔

جلسہ گاہ میں دو بڑے شامیانے لگائے گئے۔ایک مردوں کا جلسہ گاہ اور ایک مستورات کا جلسہ گاہ۔اسی طرح کھانے کے لیے بھی دو شامیانے لگائے گئے۔لجنہ کے کھانے کا شامیانہ ان کے جلسہ گاہ کے ساتھ اور مردوں کے کھانے کا شامیانہ ہولی گرائونڈ میں ہوتے تھے۔

کار پارکنگ کے لیے ایک بڑا وسیع علاقہ مختص کیا گیا۔ بعض مہمانوں کی رہائش کے لیے چالیس کیراوان لگائے گئے جو کرائے پر دستیاب تھے۔ لندن اور نواح کے احمدیوں نے اپنے گھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معزز مہمانوں کے لیے پیش کیے ہوئے تھے۔ یوں بہت سے مہمان ان گھروں میں قیام پذیر تھے۔

پیڈک میں چھوٹا سا بازار بھی لگایا گیا جہاں مختلف کھانے کی اشیاء فروخت ہوتی تھیں۔ بریڈفورڈ جماعت کے ایک مخلص دوست محترم مبارک لون صاحب کی بیکری تھی۔ آپ مہمانوں کے لیے لذیذ کیک رس لے کر آئے جو مہمانوں کو چائے کے ساتھ پیش کیے جاتے۔ مانچسٹر جماعت کے ایک مخلص دوست جناب عبید اللہ میر صاحب حلوہ پوریاں فروخت کرتے۔محترم بھائی شیر محمد صاحب کے بیٹے محترم خیر محمد پاشا صاحب نے سیخ کباب اور چکن تکہ کا سٹال لگا یا تھا۔محترم ظفر بٹ صاحب نے مکئی کے دانوں اور آئس کریم کا سٹال لگایا تھا۔خدام الاحمدیہ کا سٹال محترم اعزازالحق صاحب چلاتے تھے۔ایک دوست نے مٹھائیوں کا سٹال لگایا تھا۔لجنہ کے جلسہ گاہ میں بھی ایک چھوٹا سا بازار بنایا گیا تھا جہاں مختلف اشیاء کے سٹال لگائے گئے تھے۔جلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے بعد بازار کا حصہ مہمانوں سے کھچا کھچ بھر جاتا۔ ایک شام حضور انور بھی بازار میں تشریف لائے اور ہر سٹال پر تشریف لے گئے۔

محترم منیر الدین صاحب شمس نے ایک بڑے ہال میں نمائش کا اہتمام کیا تھا جہاں دنیا بھر سے جماعت کی مساعی اور تقریبات کی خوبصورت تصاویر آویزاں کی گئی تھیں۔اسی طرح جماعتی لٹریچر اور نئی شائع ہونے والی کتب بھی لگا ئی گئی تھیں۔مہمان اس نمائش کو دیکھ کر بھی خوش ہوتے تھے۔

اس جلسہ میں مندرجہ ذیل ممالک کے احمدی احباب شامل ہوئے؛

انڈونیشیا، ملائیشیا، جاپان، فجی، سنگاپور، بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، عراق، اردن، متحدہ عرب امارات، شام، سعودی عرب، کویت، لیبیا، گیمبیا، سیرالیون، گھانا،کینیا، یوگنڈا، کانگو، سائوتھ افریقہ، ناروے، تنزانیہ، سویڈن، ڈنمارک، ہالینڈ، بیلجیم، فرانس، جرمنی، سویٹزرلینڈ، سپین، کینیڈا، امریکہ، ٹرینیڈاڈ، گیانا، لائبیریا، آسٹریلیا،ماریشش، آئرلینڈ، ایران،قطر، زیمبیا، زمبابوے اور نائیجیریا۔

بیرونی ممالک سے آنے والوں کا جوش وخروش بھی دیدنی تھا۔ پاکستان سے آنے والے مہمان خلیفہ وقت کے دیدار کو ترسے ہوئے تھے۔ ہر ایک کی صرف ایک خواہش تھی کہ پیارے آقا کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں۔ ہر شخص حضور انور کے پیچھے نماز باجماعت ادا کرنے کی خواہش لے کر آیا تھا۔ہرشخص اسلام آباد کو دیکھنا چاہتا تھا۔ہر مہمان کی ایک ہی خواہش تھی کہ ہوئی اڈے سے سیدھے مسجد فضل لندن پہنچیں تاکہ حضور انور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ ادھر حضور انور بھی ہر نماز پر مسجد تشریف لاتے تو نئے آنے والے مہمانوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے۔ملاقات کے دوران ان کے سفر کا احوال دریافت فرماتے۔پاکستان کے احمدیوں کا حال دریافت فرماتے۔بعض دفعہ بڑے رقت آمیز مناظر نظر آتے تھے۔خلیفہ وقت سے عقیدت اور محبت کے ایمان افروز نظارے روزانہ نظر آتے۔

جلسہ سے ایک ہفتہ قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے معائنہ فرمایا اوراسلام آباد کے ہر کونے میں اور ہرعمارت میں تشریف لے گئے۔ کچن میں حضورؒ نے کھانا بھی چکھا۔ حضورؒ نے ہر ناظم کو مصافحہ کا شرف عطا فرمایا۔حضورؒ نے رضاکاران کو خطاب اور قیمتی نصائح بھی فرمائیں۔

جلسہ کے پہلے دن صبح سویرے مہمان بہت بڑی تعداد میں اسلام آباد پہنچنا شروع ہوگئے اور دوپہر سے پہلے ہی اسلام آباد مہمانوں سے مکمل بھر چکا تھا۔لندن اور نواحی علاقوں سے مہمانوں سے بھری کوچیں اسلام آباد پہنچنا شروع ہو گئیں۔سارا کار پارک کاروں، منی بسوں اور کوچوں سے بھر گیا۔

نماز جمعہ ادا کی گئی۔ حضور انور نے خطبہ جمعہ ارشا د فرمایا۔نماز جمعہ کے بعد دوپہر کے کھانے کا وقفہ تھا اور جلسہ کا افتتاحی اجلاس ہونا تھا۔ افتتاحی اجلاس سے بہت پہلے جلسہ گاہ مہمانوں سے کھچاکھچ بھر چکا تھا۔ افتتاحی اجلاس سے پہلے حضور انور نے لوائے احمدیت لہرایااور امیر صاحب یوکے نے برطانیہ کے جھنڈے کی پرچم کشائی کی۔ اس دوران پورا اسلام آباد نعرہ ہائے تکبیر، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد، حضرت خاتم الانبیاءؐ زندہ باد، خلافت احمدیہ زندہ باد اور غلام احمد کی جے سے گونج اٹھا۔اس جلسہ پر مرکزی نعروں کا انتظام نہیں تھا۔ حضور انور کے جلسہ گاہ میں تشریف لاتے ہی پر جوش نعروں سے فضا گونج اٹھی۔ خصوصاََ پاکستان اور جرمنی سے آنے والے احمدی بڑے جوش وخروش سے نعرے لگوا رہے تھے۔

تلاوت قرآن مجید کے بعد محترم ثاقب زیروی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام ترنم سے پڑھا۔ اس نظم نے ربوہ کے جلسہ سالانہ کی یادیں تازہ کر دیں۔نعرہ ہائے تکبیر سے سارا جلسہ گاہ گونجتا رہا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے افتتاحی خطاب ارشاد فرمایا۔ اس خطاب میں حضور انور نے حکومت پاکستان کے بہیمانہ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد جماعت احمدیہ پر ہونے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا ذکر فرمایا۔

دوسرے دن حضور انور نے مستورات سے ان کے جلسہ گاہ میں خطاب فرمایا۔ حضور کا خطاب مردوں کے جلسہ گاہ میں بھی سنایا گیا۔ حضور نے اپنے خطاب میںدنیا بھر کی احمدی مستورات کی بے مثال جانی، مالی اور عزتوں کی قربانیوںکے ایمان افروزواقعات بیان فرمائے۔

حضور نے جلسہ کا اختتامی خطاب اتوار کی دوپہر ارشاد فرمایا۔ یہ حضور کا ایک تاریخی خطاب تھا۔ حضور نے پورے پانچ گھنٹے خطاب فرمایا۔اس میں حضور نے حکومت پاکستان کی طرف سے جماعت احمدیہ پر لگائے جانے والے بے بنیاد اور ناپاک الزامات کے تفصیلی جوابات دیے اور معروف اصطلاح خاتم النبیین ؐکی صحیح تشریح فرمائی۔اس دوران حاضرین پر جوش اور پر جلال نعروں سے اپنی محبت، عقیدت اور جوش کا اظہار کرتے رہے۔

اتوار کی شام اسلام آباد میں موسلادھار بارش ہوئی اور حضور انور کے خطاب کے دوران بھی مسلسل بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران چند منٹوں کے لیے بجلی بھی چلی گئی اورجلسہ گاہ میں مکمل اندھیرا ہو گیا لیکن جلسہ کے حاضرین نے نظم و ضبط کا بے مثال نمونہ پیش کیا۔ ڈیوٹیوں پر کھڑے خدام نے بھی بے مثال قربانیاں پیش کیں اور شدید بارش کے دوران اپنی جگہوں سے نہیں ہلے۔ یہ منتظمین اور ڈیوٹیاں سرانجام دینے والے انصار، خدام، اطفال، لجنہ اور ناصرات کا نظم و ضبط اور قربانی کا زبردست مظاہرہ تھا کہ اپریل کے مہینہ کی یو کے کی سردی کے باوجود ڈیوٹیوں پر موجود رضاکاران اپنی ڈیوٹیوں پر کھڑے رہے۔

جلسہ کی اختتامی دعا تک پورا اسلام آباد موسلادھار بارش سے جل تھل ہو چکا تھا۔ کار پارک کا میدان تو بہت سالوں کے بعد استعمال کی وجہ سے ہر طرف کیچڑ سے بھر چکا تھا۔اس وجہ سے ہر کار کیچڑ میں بُری طرح پھنس چکی تھی۔ کار پارک کی ڈیوٹیوں پر مامور خدام نے کاروں کو دھکے لگانے شروع کیے جس کی وجہ سے کار کے پچھلے ٹائروں کے نیچے سے کیچڑ اُڑ کران کے کپڑوں پر پڑنا شروع ہو گیا۔ لیکن انہوں نے اس کی پروا کیے بغیر اپنی ذمہ داریوں کو پوری محنت سے جاری رکھا۔ اس دوران اور خدام بھی ان کی مدد کو پہنچ گئے اور کئی گھنٹوں تک کاروں کو دھکے لگا کر نکالتے رہے۔ ہر طفل اور خادم کے کپڑے کیچڑ سے بھر چکے تھے لیکن ان خدام نے بے مثال خدمت کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔

جب سب کاریں نکل گئیں تو سب خدام ڈائننگ ہال میں اکٹھے ہو گئے۔ اسی دوران اچانک حضرت امیر المومنین بھی تشریف لے آئے اور ہر خادم کو گلے ملنا شروع کر دیا۔ جب حضور انور پہلے خادم کو گلے لگانے لگے تو اس نے اشارہ کر کے کہا حضور میرے کپڑے تو کیچڑ سے گندے ہیں۔ حضور نے اس کو گلے لگا لیا اور فرمایا کہ مجھے ان گندے کیچڑ والے کپڑوں سے ہی تو پیار ہے۔ حضور نے ہر خادم کو گلے لگایا۔ بہت سے خدام اس اعزاز پر آبدیدہ ہو رہے تھے۔ خدام کوملنے کے بعد حضور انور کے کپڑے بھی کیچڑ سے بھر چکے تھے۔اس کے بعد حضور نے محترم نذیر ڈار صاحب کو فرمایا ان سب کو کچن سے دار چینی اور الائچی والی چائے بنوا کر پلائو۔

جلسہ کے اختتام پر ہر شخص کا دل غمگین تھا اور ایک اداسی کی فضا چھا گئی تھی۔ بعض خدام اور اطفال تو رو رہے تھے۔ان کو حوصلہ دیا گیا کہ انشاء اللہ اگلے سال اس سے بھی بڑاجلسہ ہو گا اور پھر رونقیں لگیں گی۔

جلسہ سے اگلے دو دن تک انٹر نیشنل مجلس شوریٰ جلسہ گاہ میں ہی منعقد ہوئی اور دونوں دن حضور انور مجلس شوریٰ میں رونق افروز رہے۔اس شوریٰ میں تمام دنیا سے آنےوالے نمائندگان شامل ہوئے۔ شوریٰ کے بعد دنیا بھر سے آئے ہوئے مربیان کے ساتھ خصوصی شوریٰ ہوئی جس میں حضور انور سارا وقت رونق افروز رہے۔

مجلس شوریٰ کے دوران بھی خدام اور اطفال ڈیوٹیاں سرانجام دیتے رہے اور نمائندگان کو کھانا اور مشروبات پیش کرتے رہے۔

اس تاریخی جلسہ سالانہ کو اڑتیس سال بیت چکے ہیں لیکن اس کی حسین یادیں آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں سے جماعت بھی دن دوگنی اور رات چوگنی ترقیات کے سفر پر گامزن ہے اور دنیا بھر میں عظیم الشان جلسے منعقد ہو رہے ہیں۔ اب اللہ کے فضلوں سے اسلام آباد میں ہمارے پیارے آقا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مستقل قیام فرما ہیں اور مرکزی دفاتر بھی قائم ہو چکے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی موسلادھار بارشیں دن رات برس رہی ہیں۔ پہلے جلسہ سالانہ میں جتنے کل مہمان تھے ان سے کہیں زیادہ اب جلسہ سالانہ پر رضاکاران ڈیوٹیوں پر مامور ہوتے ہیں۔

اسلام آباد کے پہلے جلسہ کے بہت سے افسران اور رضاکاران اب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بہت بلند فرمائے اور ان کواجر عظیم عطا فرمائے۔ اس جلسہ پر جو اطفال تھے وہ اب خدام بن چکے ہیں اور خدام انصار بن چکے ہیں۔ بچیاں بھی لجنہ کی ممبر بن چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button