متفرق مضامین

لجنہ کی تنظیم اخوت اور بھائی چارے کا جذبہ پیدا کرتی ہے

(درثمین احمد۔جرمنی)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ (الحجرات:۱۱)کہ مومن تو بھائی بھائی ہیں۔اسلام وہ آفاقی مذہب ہے جس کی اساس احترام انسانیت اور آپس کے بھائی چارے پر ہے۔انسانی حقوق کا جتنا پاس اسلامی تعلیمات میں ملتاہے اس کی مثال، اس کی نظیر اور کسی تعلیم میں نہیں ہے۔ اسلام سے قبل معاشرہ خلفشار اور افتراق کا شکار تھا۔ ہر طرف ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرکا دور دورہ تھا۔ احترام آدمیت کا نام ونشان تک نہ تھا۔ مگر آنحضورﷺ کی بعثت کے بعد اسی معاشرہ میں بسنے والے لوگ بااخلاق ہوتے گئے، باخدا بنے اور خدا نما بن گئے۔ طبقاتی نظام ختم ہوا اور آنحضور ﷺ نے ان تمام کو بھائی بھائی بنا دیا۔

ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچا رہا ہوتا ہے۔ پھر آپؐ نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں خوب اچھی طرح سے پیوست کرکے بتایا کہ ایک حصہ دوسرے کے لیے اس طرح تقویت کا باعث ہوتا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب تشبیک الاصابع فی المسجد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کے آپس کے تعلقات اور اخوت و محبت کو ایک جسم کے مختلف اعضاء سے تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: تُو مومنوں کو ان کے آپس کے رحم، محبت و شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا۔ جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہےتو اس کا سارا جسم اس کے لیے بےخوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الأدب باب رحمۃ الناس والبھائم)

پھر اللہ تعالیٰ مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا ۪ وَاذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِہٖۤ اِخۡوَانًا (آل عمران :۱۰۴)اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔

اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی ہدایت اور وحدت کا ذریعہ حبل اللہ کی صورت میں اتارا ہے۔یہ حبل اللہ کیا ہے؟ اس سے مراد دینِ اسلام اور محمد رسول اللہﷺ کا مقدس وجود بھی ہے اور مسیح پاکؑ کا وجود بھی جن کو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں ساری دنیا کے لیے مبعوث کیا گیا۔ جنہوں نے اپنی پاکیزہ تعلیم میں ہمیں نصیحت کی’’ تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی۔ تم میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے۔ اور بدبخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشتا۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۲-۱۳)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:’’میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں۔ میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۸۲-۸۳ایڈیشن۱۹۸۸ء)

پھر اس سے مراد خلافت احمدیہ بھی ہے جس کے ساتھ ایک مضبوط تعلق ہماری ترقی اوروحدت کا واحد ذریعہ ہے اور اسی کی بدولت جماعت کی خواتین کوایک ایسا انتظامی ڈھانچہ ملا جس نے جماعت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ کیونکہ خواتین کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ کی تنظیم کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا:’’اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفۂ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مدنظر رکھ کر تمام کارروائیاںہوں۔

اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحادِ جماعت کے بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر فرمایا ہے اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہو۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۴ صفحہ ۳۰۵)

آج بلاشبہ تنظیم لجنہ پوری جانفشانی کے ساتھ ان مقاصد کےحصول کے لیے بلا تخصیص رنگ و نسل، قوم وملت،زبان و ثقافت وحدت کی لڑی میں جُڑ کر بہترین خدمات سر انجام دے رہی ہے۔اس کا عملی اظہار ہمیں جماعتی اجلاسات،میٹنگز اجتماعات اور جلسہ سالانہ میں بارہا دیکھنے کو ملتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کے امن و سکون کو قائم رکھنے اور محبت اور پیار اور بھائی چارے کو بڑھانے کے لیے بہت ساری نصائح فرمائی ہیں۔ ایک موقع پر فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے اکیلا اور تنہا چھوڑتا ہے۔ فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں لگا رہتا ہے اس کی ضروریات پورا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجات پوری کردیتا ہے اور جس نے کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے مصائب میں سے ایک مصیبت اس کی کم کر دے گا اور جو کسی کی ستاری کرتا ہے پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس کی ستاری فرمائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب المظالم باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ حدیث2442)

اس مادیت اور نفسانفسی کے دور میں جہاں پر بسااوقات ہمیں انسانیت سے گرے ہوئے معیار دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے انفرادی سطح پر گھروں اور اجتماعی طور پر معاشروں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج احمدی خواتین نہ صرف اپنی آئندہ نسلوں کی بہترین رنگ میں تربیت کرنے والی ہیں بلکہ لجنہ اماء اللہ کے تحت مختلف شعبہ جات میں ایک دوسرے کے ساتھ امداد باہمی سے فلاح و بہبود کے کاموں میں نہایت مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں جو کہ بھائی چارے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس بارے میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’لجنہ کی تنظیم کے قیام سے آپ کو، احمدی عورت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مواقع میسر فرما دیے جہاں آپ اپنے علم اور تجربے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو مزید چمکا سکتی ہیں۔ پس اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۱۹؍جون ۲۰۱۵ء صفحہ۲۰)

آج ضرورت اس امرکی ہےکہ ہم مزیدآپس میں اخوت اور بھائی چارہ کے نظام کو فروغ دیں۔ ایک دوسرے کے لیے قربانی اور ایثار کرنا سیکھیں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ خلافت کے زیر سایہ اس حبل اللہ کو تھامے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے دلوں میں تفرقہ نہ پیدا ہو۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button