متفرق مضامین

پنجاب کا نقش جمال اور میرا مقدمہ

(عرفان احمد خان۔ جرمنی)

ماضی قریب کا ایک بڑا نام محمد حنیف رامے جن کی شخصیت سے ان کا سیاسی دور منفی کر دیا جائے تو رامے صاحب اپنے وقت کے بہترین دانشور، ادیب، صحافی اور خطاط تھے۔ ۱۹۸۵ء میں ان کی ایک کاوش کو جنگ پبلشرز نے کتابی صورت میں ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا۔ ۳۸ سال پہلے یہ تحریر مظلوم پنجاب کی داستان محسوس ہوئی۔ عیدالاضحی پر احمدیوں کو نماز عید کی ممانعت اور ان کو قربانی کرنے سے روکنے کے لیے جس طرح پنجاب کے بعض طبقات معہ پنجاب پولیس جس زور شور سے حرکت میں تھے مجھے پنجاب کا مقدمہ نامی کتاب یاد آ گئی۔ دل دوبارہ اس کتاب کو پڑھنے کو چاہا۔چنانچہ فرینکفرٹ سے مانٹریال کی فلائٹ کے دوران یہ کتاب میری ہم سفر تھی۔

تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب وہ خطہ ارض ہے جس کی سوان وادی میں انسانی وجود کے اولین نشانات ملتے ہیں۔ اسی سرزمین پر ہڑپّہ کے نام سے دنیا کی سب سے پہلی انسانی تہذیب نے جنم لیا تھا۔ حضرت داتا گنج بخش، حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی، حضرت فرید الدین گنج شکر، حضرت میاں میر، امام بری لطیف وہ بزرگان دین ہیں جنہوں نے اس سرزمین میں اسلام کی محبت، مساوات اور رواداری کی تعلیم عام کی۔ پانچ صوفی شاعروں شاہ حسین، سلطان باہو، وارث شاہ، بلھے شاہ اور خواجہ فرید کے میٹھے اور دوستی کے گیت آج بھی پنجاب کی ثقافت کا حصہ مانے جاتے ہیں۔

حنیف رامے ننکانہ میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں پلے بڑھے۔ گورنمنٹ کالج سے سند یافتہ تھے۔اس لیے پنجاب کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’پنجاب کی گھنی چھاؤں اور اس کے جمال کا نقشہ ہی اور ہے۔ پنجاب کا وہ نقش جمال جو پہلے میں نے اپنے دل میں دیکھا، پھر اپنی آنکھوں میں بسایا اور اب ارباب وطن کے سامنے لا رہا ہوں۔ میں نے ایک عمر اس پنجاب کے شہروں،قصبوں،دیہاتوں، گلی محلوں اور بازاروں میں انسانوں کو محبت اور رواداری سے جیتے دیکھا ہے۔ یہ محبت اور رواداری پنجاب کے مزاج کا بنیادی اور لازمی جز ہے۔پنجاب خوبصورت ہے،طرح دار ہے، انسان دوست ہے،ملنسار ہے، خوددار ہے سخی ہے لیکن یہ محبت اور رواداری دوسروں کو نظر نہی آتی۔‘‘

عیدالاضحی پر پنجاب نے جو سلوک مجھ سے اور میرے پیاروں کے ساتھ کیا اس کا نقش جمال اس سے یکسر مختلف ہے جو رامے صاحب نے بیان کیا ہے۔ گھروں میں داخل ہوکر قربانی کے جانور کھول کر لے جانا، فرج سے قربانی کا گوشت زبردستی نکال کر لے جانا یہ ہے وہ محبت اور رواداری جو بقول حنیف رامے دوسروں کو نظر نہیں آتی۔ایسی رواداری پر تو ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔ جس محبت اور رواداری کو پنجاب کے مزاج کا بنیادی اور لازمی جز بتایا جا رہا ہے اس مزاج نے پولیس کو مجبور کیا کہ وہ مساجد سے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کرے کہ احمدی عید کی نماز پڑھنے کے لیے جمع نہ ہوں۔ پنجاب کا نقش جمال ۱۹۵۳ء میں گہنا گیا اور اب تک گھناؤنا ہو چکا ہے۔ پورے پنجاب میں احمدیوں نے خوف کے سائے تلے عید کا دن گزرا۔ کیسی خوشی اور کیسی مسرتیں۔ اپنے وطن میں زمین اس قدر تنگ کر دی گئی ہے کہ احمدی لوگوں کے ایک دوسرے کو مبارک باد دینے میں سینکڑوں مشکلات حائل تھیں۔ کالم میں گنجائش نہیں کہ میں بی بی سی اور وائس آف امریکہ پر جاری ہونے والی رپورٹس کی تفصیل بتا کر قارئین کے سامنے اہل پنجاب کی رواداری کا بھانڈاپھوڑ سکوں۔ انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق آٹھ قصبات میں پولیس آفیسرز نے ڈرا دھمکا کر احمدیوں سے تحریر پر دستخط حاصل کیےکہ وہ عید کا تہوار نہیں منایں گے۔ اس نوعیت کی خبروں سے سوشل میڈیا،فیس بک اور ٹویٹر بھرے پڑے ہیں۔ بزرگان دین اور صوفی شعراء کی سرزمین سے ایک آواز بھی اس ظلم جبرو استبداد کے خلاف سنائی نہیں دی۔ جبکہ دعویٰ ہے انسان دوست اور ملنساری کا۔ امرتا پریتم نے تو وارث شاہ سے فریاد کی تھی:

آج آکھاں وارث شاہ نوں کتے قبراں وچوں بول

تے آج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقا پھول

میرا دل کرتا ہے کہ کتاب پنجاب کا مقدمہ ہاتھ میں تھامے میانی قبرستان میں حنیف رامے کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر پوچھوں:

اٹھ درد منداں دیا دردیا تک اپنا پنجاب

آج بیلے لاشاں و چھیاں لہو دی بھری چناب

احمدی جنہوں نے اس وطن کو بنانے اور سنوارنے میں بھرپور کردار ادا کیا ان کے ارمانوں کا خون ستّر سال سے پنجاب کے دریاؤں میں بہایا جا رہا ہے۔ عید کے بعد پنجاب کے جن احمدیوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئیں ان کی تفصیل کالم کے چھپنے تک دوسرے ذرائع ابلاغ سے قارئین کے علم میں آ چکی ہو گی۔ جو پنجاب کی رواداری کی اصل تصویر ہے۔

مذہب کی آڑ لے کر احمدیوں کے خلاف جبرواستبداد کے جس کلچر کو فروغ دیا گیا اس سے ملک دشمنی کی راہیں بھی کھلیں اور انسانوں کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے والوں کو بھی میدان ہاتھ آ گیا۔ عید پر ۸۴؍ایسی کلعدم تنظیموں کے نام سامنے اے ہیں جن کو قربانی کی کھالیں دینے کی ممانعت کی گئی ہے اور ان میں وہ کلعدم تنظیم بھی شامل ہے جس کے کارکنوں نے پنجاب پولیس کے ہم قدم بن کر احمدیوں کو قربانی نہ کرنے کی وارنگ جاری کیں۔آئندہ الیکشن میں اس تنظیم کا تعاون حاصل کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور سابق چیئرمین سینٹ سردار ایاز صادق نے مزاکرات کیے اور ایک مشترکہ معاہدہ طے پایا۔ جس کی بازگشت ذرائع ابلاغ پر بھی سنی گئی۔ یہ اسی معاہدہ کا نتیجہ ہے کہ تحریک لبیک اس بار عید پر زیادہ کھل کر احمدیوں کی مخالفت پر میدان میں اتری۔میرا مقدمہ ایسی لالچی اور کمزور حکومت کے سامنے نہیں بلکہ میری التجا اپنے خالق حقیقی کے سامنے ہے کیونکہ مخالفت کو نہ پہلے کبھی احمدی خاطر میں لائے ہیں اور نہ آئندہ ان مخالفتوں سے خوف کھائیں گے۔ کیونکہ وہ پورے یقین کے ساتھ اس دامن سے وابستہ ہو چکے ہیں جس نے تمہیں بھی یہ بتلا کر سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

’’یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونےوالی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیںمجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا۔ میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گاکبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا۔ دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ میں اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی… ‘‘

نیز فرمایا: ’’کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہوں۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے‘‘۔

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ۲۳)

ہے سر راہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم

پس نہ بیٹھو میری راہ میں اے شریران دیار

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button