کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اصل غرض ذکر ِالٰہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے

اصل غرض ذکر ِالٰہی سے یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے۔ اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔ تذکرۃ الاولیا ء میں لکھا ہے کہ ایک تاجر نے ستر ہزار کا سودا لیا اور ستر ہزار کا دیا۔ مگر وہ ایک آن بھی خدا سے جدا نہیں ہوا۔ پس یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایاہے۔ لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ (النور:۳۸) جب دل خداتعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے،کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے۔ وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے۔ یہی مفہوم اور غرض اسلام کی ہے کہ وہ آستانۂ الوہیت پر اپنا سر رکھ دیتاہے۔(ملفوظات جلد ۷صفحہ ۲۱،۲۰ایڈیشن ۱۹۸۴ء)؎

آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں
کوئی ہو جائے اگر بندئہ فرماں تیرا
جس نے دل تجھ کو دیا، ہو گیا سب کچھ اُس کا
سب ثنا کرتے ہیں جب ہووے ثناخواں تیرا

(درثمین اردو صفحہ ۴۹)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button