متفرق مضامین

عیدا لاضحی کے مسائل (قسط دوم۔آخری)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

عید کے دن حضورﷺ کا خوبصورت لباس

حضرت جعفر اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ہر عید پر یمنی منقش چادر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔(کِتَابُ الْاُمّ ـ (لامام شافعی)کتاب صلوۃ العیدین ـ باب الزینۃ للعید)

عیدگاہ میں خواتین کا بھی حاضر ہونا

حضرت اُمِّ عَطِیَّہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کنواری لڑکیوں اور جوان لڑکیوں، پردہ نشین خواتین اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ کے لیے جانے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے البتہ حائضہ خواتین نماز پڑھنے والی جگہ پر نہیں جاتی تھیں مگر دعا میں شامل ہوتی تھیں۔ ایک عورت نے عرض کی اگر کسی خاتون کے پاس (پردہ کے لیے) چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ چاہیے کہ اس کی بہن اس کو عاریتاً چادر دے۔ (ترمذی ،کتاب العیدین۔ باب فی خروج النساء فی العیدین)

عورتوں کے ایام حیض میں مسجد میں آ کر بیٹھنے نیز ان ایام میں تلاوت قرآن کریم کرنے کے بارے میں ایک خاتون کی ایک تجویز پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۳؍ مارچ ۲۰۱۹ء میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:مذکورہ بالا دونوں امور کے بارےمیں علماء و فقہاء کی آراء مختلف رہی ہیں اور بزرگانِ دین نے بھی اپنی قرآن فہمی اور حدیث فہمی کے مطابق اس بارے میں مختلف جوابات دیے ہیں۔ اسی طرح جماعتی لٹریچر میں بھی خلفائے احمدیت کے حوالے سے نیز جماعتی علماء کی طرف سے مختلف جوابات موجود ہیں۔قرآن کریم، احادیث نبویہﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں، خواتین کے ایام حیض میں قرآن کریم پڑھنے کے متعلق میرا موقف ہے کہ ایام حیض میں عورت کوقرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو، وہ اسےایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہرا سکتی ہے۔ نیز بوقت ضرورت کسی صاف کپڑے میں قرآن کریم کو پکڑ بھی سکتی ہے اور کسی کو حوالہ وغیرہ بتانے کےلیے یا بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کےلیے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی۔اسی طرح ان ایام میں عورت کوکمپیوٹر وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا باقاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کےلیے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کےلیے کمپیوٹر وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ان ایام میں عورت مسجد سے کوئی چیز لانے کےلیے یا مسجد میں کوئی چیز رکھنے کےلیے تو مسجد میں جا سکتی ہے لیکن وہاں جا کر بیٹھ نہیں سکتی۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضورﷺ عید میں شامل ہونے والی ایسی خواتین کےلیے کیوں یہ ہدایت فرماتے کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ پس اس حالت میں عورتوں کو مسجد میں بیٹھنے کی اجازت نہیں۔اگر کوئی خاتون اس حالت میں مسجد میں آتی ہےیا کوئی بچی ایسی حالت میں اپنی والدہ کے ساتھ مسجد آئی ہے یا اچانک کسی کی یہ حالت شروع ہو گئی ہے تو ان تمام صورتوں میں ایسی خواتین اور بچیاں مسجد کی نماز پڑھنے والی جگہوں میں نہیں بیٹھ سکتیں۔ بلکہ کسی نماز نہ پڑھنے والی جگہ پر ان کے بیٹھنے کا انتظام کیا جائے۔(الفضل انٹرنیشنل ۵؍مارچ ۲۰۲۱ء۔صفحہ نمبر۱۱,.۔۱۲۔زیر عنوان : بنیادی مسائل کے جوابات۔ قسط نمبر۱۰)

عید کے خطبہ کے بعد آنحضرتﷺ کا خواتین میں تشریف لے جانا اور خواتین کا صدقات پیش کرنا

حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے ایک بار نماز (عید) پڑھائی۔ آپ کھڑے ہوئے اور نماز سے آغاز کیا اور پھر لوگوں سے خطاب کیا۔ جب آپ فارغ ہو گئے تو آپ منبر سے اترے اور عورتوں میں تشریف لے گئے اور انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت حضرت بلال کے بازو کا سہارا لیے ہوئے تھے اور حضرت بلال نے کپڑا پھیلایا ہوا تھا جس میں عورتیں صدقات ڈالتی جارہی تھیں۔( بخاری کتاب العیدین باب موعظۃ الامام النساء یوم العید)

عید کے دن پاکیزہ نغمات گانا

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے۔ اس وقت انصار کی دو لڑکیاں میرے ہاں جنگ بعاث کے متعلق شعر گا رہی تھیں۔ (اور یہ دونوں پیشہ ور گانے والیاں نہیں تھیں)۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا : کیا خدا کے رسول کے گھر میں شیطانی بانسریوں کے ساتھ (گانے گائے جارہے ہیں)۔ یہ واقعہ عید کے روز کا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا : اے ابو بکرؓ ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے۔ اور یہ ہماری عید ہے۔ (بخاری، کتاب العیدین، باب سنۃ العیدین لاھل الاسلام)حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ رسول پاکﷺ میرے پاس تشریف لائے اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث کے واقعات پر مشتمل نغمے گا رہی تھیں۔ آپؐ منہ دوسری طرف کر کے لیٹ گئے تھوڑی دیر میں حضرت ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ نبیﷺ کے پاس شیطانی آلات بجائے جا رہے ہیں۔ اس پر حضورؐ حضرت ابوبکر ؓکی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ان کو کچھ نہ کہو۔ جب حضور کی توجہ ہٹی تو میں نے اشارہ کیا تو وہ دونوں چلی گئیں۔ (بخاری کتاب العیدین۔ باب الحراب والدرق یوم العید)

عید کے دن مناسب کھیلوں کاانتظام اور ان کو دیکھنا

حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ عید کا دن تھا۔اوراسی روز کچھ حبشی نیزوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے۔ میرے پوچھنے پر یا از خود مجھے فرمایا کہ کیا تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے عرض کی، ہاں۔ اس پر آپ نے مجھے اپنی اوٹ میں کھڑا کر لیا میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ انہیں کہتے تھے کہ اے بنی اَرفَدَہ اپنا کھیل جاری رکھو۔ یہاں تک کہ جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا بس؟ میں نے عرض کی کہ ہاں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا تو جاؤ۔(بخاری کتاب العیدین۔ باب الحراب والدرق یوم العید)

عید الاضحی پر رکھے جانے والے روزہ کی کیا حقیقت ہے؟

روایات میں آتا ہے کہ ایک موقع پر حضرت عمر فاروق ؓ نے خطبہ عید کے موقع پر فرمایا:إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ صِیَامِ ہَذَیْنِ الْیَوْمَیْنِ، أَمَّا یَوْمُ الْأَضْحَی فَتَأْکُلُوْنَ مِنْ لَحْمِ نُسُکِکُمْ، وَأَمَّا یَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُکُمْ مِنْ صِیَامِکُمْ(سنن ابی داؤد کتاب الصوم باب فی صوم العیدین)رسول اللہﷺ نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا (یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کے دن)عید الاضحی کاروز تو قربانی کے گوشت کھانے کا دن ہے اور عید الفطر کا دن روزوں کے افطار کرنے کا دن ہے۔

عید الاضحی کے دن نمازعید سے قبل کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد قربانی کا گوشت کھانا مستحب ہے

حضرت عبداللہ بن بریدہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّی یَطْعَمَ، وَلَایَطْعَمُ یَوْمَ الْأَضْحَی حَتَّی یُصَلِّیَ(سنن ترمذی ابواب العیدین باب فی الأکل یوم الفطر قبل الخروج)نبی اکرمﷺ عید الفطر کے لیے اس وقت تک نہ جاتے جب تک کچھ کھا نہ لیتے جب کہ عید الاضحی میں اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک نماز نہ پڑھ لیتے۔

جبکہ ایک روایت میں لکھا ہے کہ لَا یَغْدُو یَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّی یَأْکُلَ، وَلَا یَأْکُلُ یَوْمَ الْأَضْحَی حَتَّی یَرْجِعَ فَیَأْکُلَ مِنْ أُضْحِیَّتِہِ۔(مسند احمدتتمہ مسند الانصارحدیث بریدۃ الاسلمی) نبی کریمﷺ عید الفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پیئے بغیر نہیں نکلتے تھے اور عید الاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے پھر آپ اپنی قربانی کے گوشت سے تنا ول فرماتے تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’اسی طرح مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھا جاتا ہے وہ سنّت نہیں۔ اس کا اعلان کر دیا جائے۔ مگر رسول کریمﷺ کا یہ طریق ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کر کے کھاتے تھے۔ تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیںکہ کوئی نہ رکھے تو گنہگار ہو جائے۔ یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اور مستحب ہے۔ جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بیمار،بوڑھا یا دوسرا بھی نہ رکھ سکے تو وہ مکلف نہیں اور نہ رکھنے سے گنہگار نہیں ہو گا۔مگر یہ بالکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بقا پوری صاحب نے لکھا ہے۔ میں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے۔ پھر مسلمانوں میں یہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنا لیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کریمﷺ کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے وا لا ثواب پا تا ہے مگر جو نہ کرسکے اسے گناہ نہیں۔‘‘(خطبات محمود جلد دوم صفحہ۲۶۳)

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ آنحضرتﷺ کا طریق یہ تھا کہ عید کا خطبہ زیادہ لمبا نہیں کیا کرتے تھے اور اس کے بعد جلد قربانی کے لئے گھر روانہ ہو جایا کرتے تھے۔ اس میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ آپ اس وقت تک روزہ رکھتے تھے جب تک خود اپنی قربانی کے گوشت سے وہ روزہ نہ کھولیں اور اس سنت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ دستور بنا لیا ہے کہ عید کے دن ضرور روزہ رکھتے ہیں اور جب تک فارغ نہ ہوں وہ کچھ نہیں کھاتے لیکن مراد ہر گز یہ نہیں ہے کہ کچھ پہلے کھانا حرام ہو جاتا ہے مگر سنت کا مضمون یہ ہے کہ جس نے قربانی کرنی ہو، جس دن قربانی کرنی ہو،اس دن وہ قربانی کے گوشت کے حاصل ہونے سے پہلے روزہ رکھے …تو آنحضرتﷺ کی سنت حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتی، اس کو غور سے سمجھیں۔ جنہوں نے قربانی کسی اور جگہ کرنی ہو یا بعد میں کرنی ہو ان کے لئے عید والے دن پہلے کچھ کھانا حرام نہیں ہے لیکن چونکہ بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے،اس لئے یہاں کی جماعت (لندن) نے یہ انتظام فرمایا ہے کہ عید کے معاً بعد ابھی آپ سب کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے پیش کیا جائے گا۔‘‘(خطبہ عید الاضحیہ ۲۸؍مارچ ۱۹۹۹ء)

خطبہ عید

’’سوال:ایک دوست نے دریافت کیا کہ دارقطنی میں ایک حدیث ہے کہ حضورﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے،جو چاہے سننے کے لیے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، کیا یہ حدیث درست ہے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

جواب: خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث جسے آپ نے دارقطنی کے حوالہ سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے۔یہ بات درست ہے کہ حضورﷺ نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی بنا پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیےکہ حضورﷺ نے عید کے لیے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر عید کے لیے جائے۔ اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍ اکتوبر تا ۰۲؍ نومبر ۲۰۲۰ء (سیرت النبیﷺ نمبر ۲)زیر عنوان بنیادی مسائل کے جوابات از حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ۔صفحہ نمبر ۲۹)

اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہوجائیں تو نماز جمعہ کی ادائیگی کے متعلق کیاحکم ہے؟

حدیث شریف میں آیا ہے کہ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ اجْتَمَعَ عِیدَانِ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِؐ فَصَلَّی بِالنَّاسِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ شَاءَ أَنْ یَأْتِیَ الْجُمُعَۃَ فَلْیَأْتِہَا، وَمَنْ شَاءَ أَنْ یَتَخَلَّفَ فَلْیَتَخَلَّفْ(سنن ابن ماجہ۔کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیہَا۔بَابُ مَا جَاء َ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔روایتنمبر۱۳۱۲) حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول پاکﷺکے عہد مبارک میں دونوں عیدیں (جمعہ اور عید)جمع ہوگئیں تو آپﷺنے عید کی نماز پڑھا کرفرمایا جو جمعہ کی نماز کے لیے آناچاہے آجائے اور جو نہ آنا چاہے وہ نہ آئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ رَسُولِ اللّٰہِؐ أَنَّہُ قَالَ:اجْتَمَعَ عِیدَانِ فِی یَوْمِکُمْ ہَذَا، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَہُ مِنَ الْجُمُعَۃِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔ (سنن ابن ماجہ۔کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیہَا۔بَابُ مَا جَاء َ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔روایت نمبر۱۳۱۱) حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا آج کے دن دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں جو چاہے اس کے لیے جمعہ کی بجائے عید کافی ہوگی۔اور ہم تو انشاء اللہ جمعہ ضرور پڑھیں گے۔

عن إياس بن أبي رملة الشامي شَہِدْتُ مُعَاوِیَۃَ بْنَ أَبِی سُفْیَانَ، وَہُوَ یَسْأَلُ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ، قَالَ أَشَہِدْتَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِؐ عِیْدَیْنِ اجْتَمَعَا فِی یَوْمٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَکَیْفَ صَنَعَ؟ قَالَ: صَلَّی الْعِیدَ، ثُمَّ رَخَّصَ فِی الْجُمُعَۃِ، فَقَالَ: مَنْ شَاءَ أَنْ یُصَلِّیَ، فَلْیُصَلِّ۔ (سنن أبی داود،کِتَاب الصَّلَاۃِ،بَابٌ إِذَا وَافَقَ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ یَوْمَ عِیدٍ) اياس بن ابي رملة شامي سے مروی ہے کہ میں حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کے ساتھ تھا جب انہوں نے حضرت زید بن ارقمؓ سے پوچھا کہ کیاآپ نے کبھی حضرت رسول اکرمﷺکے ساتھ جمعہ اور عید ایک دن میں پایا ہے؟انہوں نے جواب دیا۔جی ہاں !حضرت معاویہؓ نے دریافت کیا کہ پھر آپﷺنے کیا طریق اختیار کیا؟حضرت زید ؓنے جواب دیا کہ آپﷺنے نماز عید ادا فرمائی۔ پھر اس کے بعد نماز جمعہ کے لیے رخصت دےدی اور ارشاد فرمایا کہ جس کا دل چاہے نماز جمعہ پڑھ لے۔

قَالَ أَبُو عُبَیْدٍ:شَہِدْتُ العِیْدَ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَکَانَ ذَالِکَ یَوْمَ الجُمُعَۃِ، فَصَلَّی قَبْلَ الخُطْبَۃِ، ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ، إِنَّ ہَذَا یَوْمٌ قَدِ اجْتَمَعَ لَکُمْ فِیْہِ عِیْدَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْتَظِرَ الجُمُعَۃَ مِنْ أَہْلِ العَوَالِی فَلْیَنْتَظِرْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَرْجِعَ فَقَدْ أَذِنْتُ لَہُ۔(صحیح بخاری، کِتَابُ الأَضَاحِیِّ.بَابُ مَا یُؤْکَلُ مِنْ لُحُومِ الأَضَاحِیِّ وَمَا یُتَزَوَّدُ مِنْہَا)ابوعبیدؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان ؓکے ساتھ عید کی نماز ادا کی۔اس دن جمعہ تھا۔آپؓ نے خطبہ عید سے پہلے نماز عید پڑھائی پھر خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگوآج کے دن تمہارے لیے دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں (یعنی عید اور جمعہ)پس عوالی (یعنی مدینہ کے اطراف کے رہنے والوں) میں سے جو شخص پسند کرے جمعہ کا بھی انتظار کرے اور اگر کوئی واپس جانا چاہے تو واپس جاسکتا ہے میں اسے اجازت دیتاہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں کہ’’عید میں تنگی نہیں کی بلکہ فرمایا کہ اگر جمعہ و عید اکٹھے ہو جائیں تو گاؤں کے لوگوں کو جو باہر سے شریک ہوئے ہیں جمعہ کے لئے انتظار کی تکلیف نہ دی جائے۔‘‘(بدر جلد ۹ نمبر ۱۰۔ ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱ تا ۳)

اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔ لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں ہی پڑھ لئے جائیں۔ کیونکہ ہماری شریعت نے ہر امر میں سہولت کو مدنظر رکھا ہے۔ چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح عید کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لئے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں توجمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں۔بہرحال اصل غرض شریعت کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ عرصہ کے لئے اکٹھے بیٹھ سکیں کیونکہ اسلام صرف دل کی صفائی کے لئے نہیں آیا۔ اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لئے بھی آیا ہے اور قوم اور معاشرت کا پتہ بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے نہیں لگ سکتا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍اگست ۱۹۵۳ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اور موقع پر فرمایا کہ’’رسول کریمﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کرلیں مگر فرمایا ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔

کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتویٰ آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے تو قربانیوں میں ہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ ہی بھجوا دی تھیں۔ میں نے ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریمﷺ نے کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دودو (عیدیں) دیں۔ … یعنی جمعہ بھی آیا اور عید الاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عیدیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جمع کر دیں۔ اب جس کو دو دو چُپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو کیوں ردّ کرے گا۔ وہ تو دونوں لے گا۔ سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے اور اسی لئے رسول کریمﷺ نے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہوں جنہیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘(خطبہ عید الاضحیہ مورخہ ۱۱؍فروری ۱۹۳۸ء بحوالہ الفضل ۱۵؍مارچ ۱۹۳۸ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’میں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر عید جمعہ کے دن ہو تو اگرچہ نماز ظہر ادا کرنی بھی جائز ہے مگر میں جمعہ ہی پڑھوں گا۔ جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دو سبق دئیے گئے ہیں۔ ایک قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف۔ خطبہ کے لئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کردی۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۱؍فروری ۱۹۳۹ء۔ الفضل ۱۹؍فروری ۱۹۳۹ء)

بروز عید نماز جمعہ کی ادائیگی اور نماز جمعہ کی بجائے نماز ظہر کی ادائیگی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کا نمونہ

(۱)مورخہ ۲۱؍جنوری ۲۰۰۵ءبروز عید الاضحی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اعلان فرمایا’’آج جمعہ بھی ہے۔جمعے کے لئے اعلان ہے آج جمعہ نہیں ہوگا۔صرف نماز ظہر ادا کی جائے گی۔ان شاء اللہ(الفضل انٹرنیشنل ۴؍فروری تا ۱۰؍فروری ۲۰۰۵ء صفحہ ۷)نیز (خطبات مسرور جلد ۳ صفحہ ۳۷)

(۲)حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں کہ’’آج صبح ہم نے عید بھی پڑھی ہے اور آج جمعہ بھی ہے۔ جب عید اور جمعہ ایک دن جمع ہو جائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ملتا ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعے کے بجائے ظہر کی نماز ادا کر لیں۔ اس کی اجازت ہے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی ہے ایک ایسے ہی موقعے پر آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم تو جمعہ پڑھیں گے۔ اور آپؐ نے جمعہ پڑھا تھا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوات باب ما جاء فیما اذا اجتمع العیدان فی یوم حدیث ۱۳۱۰، ۱۳۱۱، ۱۳۱۲)اِس لیے مَیں نے امیر صاحب کو اس کی روشنی میں یہی کہا تھا کہ جو ظہر کی نماز پڑھنا چاہیں بےشک ظہر کی نماز باجماعت پڑھ لیں اور جمعہ نہ پڑھیں۔ ویسے بھی آج کل کے حالات میں مسجد میں زیادہ لوگ جمع تو ہو نہیں سکتے۔ گھروں میں ہیں اور گھروں میں اگر فارغ ہیں تو پھر جمعہ جس طرح پہلے پڑھتے تھے اسی طرح اب بھی پڑھ سکتے ہیں پڑھ لیں اور جن کی مصروفیت ہے وہ ظہر کی نماز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ہم یہاں آنحضرتﷺ کے عمل کی پیروی میں آج جمعہ پڑھ رہے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں بھی اسی طرح ایک دفعہ عید الاضحی آئی اور جمعہ بھی۔ تو مختلف لوگوں نے اپنی دلیلیں پیش کیں کہ ظہر کی نمازپڑھنی چاہیے جمعہ نہیں ہونا چاہیے۔ تو جو لوگ ظہر کی نماز پڑھنے پر زور دے رہے تھے ان کو آپؓ نے اس کا بڑا اچھا جواب دیا۔ فرماتے ہیں کہ ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دو دو عیدیں دی ہیں۔ اب جس کو دو دو چپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں، گھی لگی ہوئی دو دو روٹیاں ملیں وہ ایک کو کیوں ردّ کرے گا۔ وہ تو دونوں لے لے گا۔ سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے۔ اور اسی لیے رسول کریمﷺ نے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہیے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہیں جنہیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو (یعنی نماز عید بھی اور نماز جمعہ بھی) تو دوسرے کو نہیں چاہیے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تو بہرحال رخصت تو ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ہم تو جمعہ پڑھیں گے۔(ماخوذ از خطباتِ محمود جلد۲ صفحہ ۲۰۸ تا ۲۱۰ خطبہ عید الاضحی بیان فرمودہ ۱۱؍فروری ۱۹۳۸ء)بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم آج جمعہ پڑھ رہے ہیں لیکن خطبہ مختصر دوں گا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۳۱؍جولائی ۲۰۲۰ء۔بحوالہ الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍اگست ۲۰۲۰ءصفحہ۵)

’’سوال: عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانےپر نماز عید کی ادائیگی کے بعد نماز جمعہ یا نماز ظہر پڑھنے کے بارہ میں محترم ناظم صاحب دارالافتاء کی ایک رپورٹ کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍ مئی ۲۰۲۱ء میں اس مسئلہ پر درج ذیل اصولی ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب: عید اور جمعہ کے ایک ہی دن جمع ہو جانےپر نماز عید کی ادائیگی کے بعد اس روز نماز جمعہ اور نماز ظہر دونوں نہ پڑھنے کے بارے میں تو صرف حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کاہی موقف اور عمل ملتا ہے اور وہ بھی ایک مقطوع روایت پر مبنی ہے، نیز اس روایت کے دو راویوں کے بیان میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ جبکہ مستند اور قابل اعتماد روایات میں تو حضورﷺ کی سنت اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ کا یہی مسلک ملتا ہے کہ ان سب نے یا تو اس روز نماز عید کی ادائیگی کے بعد جمعہ بھی اپنے وقت پر ادا کیا ہےاور دور کے علاقوں سے آنے والوں کو جمعہ سے رخصت دیتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ اپنے علاقوں میں ظہر کی نماز ادا کر لیں۔ اور بعض مواقع پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد جمعہ ادا نہیں کیا لیکن ظہر کی نماز ضرور اپنے وقت پر ادا کی گئی۔

یہی موقف اور عمل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کا بھی ملتا ہے۔ سوائے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ایک مرتبہ کے عمل کے کہ جب آپ نے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی اسی مذکورہ بالا روایت پر عمل کرتے ہوئے عید پڑھانے کے بعد نہ جمعہ اَدا کیا اور نہ ظہر کی نماز پڑھی۔

لیکن حضرت عبداللہ بن زبیرؓکی یہ روایت آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین کے کسی قول یا فعل پر مبنی نہیں ہے اس لیے صرف اس مقطوع روایت کی وجہ سےجس کے راویوں کے بیانات میں بھی تضاد موجود ہے فرض نماز کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس روایت پر مبنی حصہ کو فقہ احمدیہ سے حذف کر دیں۔ اور فقہ احمدیہ میں لکھیں کہ اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہوتے ہیں تو نماز عید کی ادائیگی کے بعد اگر جمعہ نہ پڑھا جائے تو ظہر کی نماز اپنے وقت پر ضرور ادا کی جائے گی۔‘‘(بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر۳۶)بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍ جون ۲۰۲۲ء۔بروز جمعۃ المبارک۔صفحہ نمبر۱۲)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button