حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

ایک مومن کی نشانیاں

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۱۰؍ اگست ۲۰۰۷ء)

ایک مومن کی اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بتائی ہے کہ وہ اعمال صالحہ بجالانے والا ہوتا ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ پر ایمان ہوگا، اس کے فرشتوں پر ایمان ہوگا، اس کی کتابوں پر ایمان ہوگا، اس کے رسولوں پر ایمان ہوگا، یومِ آخرت پر ایمان ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا نام جب ایک مومن کے سامنے لیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں موجزن ہو گی اور اس کا دل اس بات سے بھی خوفزدہ ہو گا کہ کہیں مَیں کوئی ایسی بات نہ کروں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنے۔ تو لازماً پھر جب ایسی حالت ہوگی تو پھر اس کے دل میں یہ خیال ہر وقت غالب رہے گا کہ مَیں وہی اعمال بجالاؤں جو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اعمال ہیں، جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ پس ایک مومن کو ایسے صالح اعمال بجالانے چاہئیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ بندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہو۔ اگر یہ بات ایک انسان میں پیدا ہو جائے تو یہ اسے حقیقی مومن کی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ کامل الایمان کی تعریف کرتے ہوئے اور افرادِ جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’ اس کی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی ترکیب سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو، گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو، گو وہ گالی دیتا ہو۔ غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ۔ بہت ہیں جو حلم ظاہر کرتے ہیں مگر وہ اندر سے بھیڑیے ہیں۔ بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں۔ سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو۔ بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو، نہ ان کی تحقیر۔ عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرو نہ خودنمائی سے ان کی تذلیل۔ امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو، نہ خود پسندی سے ان پر تکبر۔ ہلاکت کی راہوں سے ڈرو۔ خدا سے ڈرتے رہو اور تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۱۱-۱۲)

یہ وہ چند باتیں ہیں، یہ وہ اعمال ہیں جن کے بجالانے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے اور ان کو بجالانے والا نیک اور صالح کہلا سکتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سلسلے میں شمولیت کرنے والوں کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ اور اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، اس بات پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخرین میں مبعوث ہونے والا آنحضرتﷺ کا غلام صادق یہی ہے جس کی ہم نے بیعت کی ہے، جس کی جماعت میں ہم شامل ہیں، جو تقویٰ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے نیک اعمال کے کرنے کی ہم سے توقع کررہا ہے تو پھر اپنے ایمان کی مضبوطی کے لئے بڑی سنجیدگی سے ہر احمدی کو ان باتوں کی طرف توجہ دینی ہوگی تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں۔ اور پہلی بات جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے وہ ہے توحید کو زمین پر پھیلانے کی کوشش۔ خداتعالیٰ پر ایمان صرف اسی بات کا نام نہیں کہ ہم نے اپنے منہ سے خداتعالیٰ پر اپنے ایمان کا اعلان کر دیا یا کہہ دیا کہ ہمارے دلوں میں اللہ کا بڑا خوف ہے بلکہ اس کی عملی شکل دکھانی ہو گی اور وہ کیا ہے؟ توحید کے قیام کی کوشش۔ اور توحید کے قیام کی عملی کوشش اس وقت ہوگی جب ہم سب سے پہلے اپنے دلوں کو غیراللہ سے پاک کریں گے۔ دنیاوی خواہشات کے چھوٹے چھوٹے بتوں کو اپنے دلوں سے نکال کر باہر پھینکیں گے۔ ذاتی منفعتیں حاصل کرنے کے لئے دنیاوی چالاکیوں اور جھوٹ کا سہارا نہیں لیں گے۔ اپنے کاموں کو، اپنے کاروباروں کو، اپنی نمازوں پر ترجیح نہیں دیں گے۔ اپنے بچوں کا خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے اپنے عمل سے اور اپنے قول سے ان کی تربیت کریں گے، ان کے لئے نمونہ بنیں گے۔ اپنے ماحول میں خداتعالیٰ کی توحید کا پرچار کریں گے۔ پس جب یہ باتیں ہم اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اور استعدادوں کے ساتھ کررہے ہوں گے تو تب ہی توحید کے قیام کی کوشش ہوگی اور تبھی ہم اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کر رہے ہوں گے۔

پھر نیک اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ بندوں پر رحم کرو‘‘۔ کوئی مومن نہ صرف دوسرے مومن پر بلکہ کسی انسان پر زبان سے یا ہاتھ سے یا کسی بھی طریق سے ظلم نہ کرے۔ آنحضرتﷺ نے تو مومن کی نشانی یہ بتائی ہے کہ (مومن وہ ہے) جس سے تمام دوسرے انسان محفوظ رہیں۔ پس مومن کی پہچان ہی رحم ہے۔ ظلم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ جب یہ رحم ایک مومن کے دل میں دوسروں کے لئے ہروقت موجزن ہوگا تبھی وہ رحمان خدا پر حقیقی ایمان لانے والے کہلا سکیں گے اور آپس کے تعلقات میں تو ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ اس طرح ہے جیسے ایک جسم کے اعضاء۔ پس جب تعلق کا یہ تصور ہر احمدی میں پیدا ہوگا تو بے رحمی اور ظلم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کو پہنچی ہوئی تکلیف، بلکہ ہلکی سی تکلیف بھی اپنی تکلیف لگے گی اور یہ ایک احمدی کی سوچ ہونی چاہئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ’مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو‘۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مومن دوسرے مومن کی تکلیف کو بھی اپنی تکلیف سمجھتا ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button