حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جرمنی کے فارغ التحصیل طلبہ اور طالبات کی(آن لائن) ملاقات

پہلی چیز تو نماز ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کے بعد پہلے یہی فرمایاکہ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کہ نمازوں کو قائم کرو، نماز پڑھو

مورخہ۲۸؍مئی۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۲ء کے درمیان جرمنی کی یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے والے ۲۵۸؍ طلبہ و طالبات کی آن لائن ملاقات ہوئی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ طلبہ اور طالبات نےپردے کی رعایت سےمسجد بیت السبوح ، فرانکفرٹ، جرمنی کے main ہال سے آن لائن شرکت کی۔

نشست کا آغاز تلاوت قرآن کریم مع جرمن ترجمہ سے ہوا۔

اس کے بعد ریاضی اور انگلش کی ایک خاتون ٹیچر نے اپنی پریزنٹیشن پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں آج ’’سماجی عدم مساوات کے سبب تعلیم حاصل کرنے کے مواقع میسر نہ آنے اور اس کو کس طرح دور کیا جائے ‘‘پر پریزنٹیشن پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

موصوفہ نے بتایا کہ جرمنی کے سکول سسٹم کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ طلبہ کے تعلیمی نتائج ایک جیسے ہوتے ہیں، ایک طالب علم کی سماجی و اقتصادی حیثیت اس کی تعلیمی کامیابی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اساتذہ مختلف معاشرتی طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو مختلف سکولز میں جانے کی تجویز دیتے ہیں ۔اس تناظر میںGymnasium یعنی ریاست کے زیر انتظام سیکنڈری سکولوں میں پڑھنے کے لیے سفارش حاصل کرنے کے امکان کے بارے میں وضاحت کی گئی جو طلبہ کے سماجی طبقات کو ذہن میں رکھتے ہوئےاعلیٰ تعلیم کے لیے تیار کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میں اونچے طبقے کے بچوں کا بہتر تعلیم حاصل کرنے کاامکان ۲.۶گنا زیادہ ہوتا ہے۔

حضور انور ایدہ الله نے اِس امر کا اظہار فرمایا کہ اس پریزنٹیشن میں نہیں بتایا گیا لیکن مجھے پتا ہےکہ اس سے پہلے Fachabitur (تکنیکی ڈپلومہ) کر کے Ausbildung وغیرہ کر لیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ جماعت میں کتنی فیملیاں ایسی ہیں اور ان میں سے کتنی لڑکیاں اور کتنے لڑکے ہائر ایجوکیشن حاصل کر رہے ہیں نیز کس کی percentageزیادہ ہے؟ پھر کتنے خاندان ایسے ہیں جو کم educatedہیں ؟ اب تو جو تیس، چالیس سال سے آئی ہوئی پرانی فیملیاں ہیں، ان کی بھی نسل ہے، ان کے آگے بچے بھی یونیورسٹیوں میں جانے والے ہو گئے۔وہ تو پڑھے لکھے ہو گئے۔تو اس لحاظ سے تو آج سے دس سال پہلے جو ایجوکیشن کا لیول تھا اس کی نسبت آج بہت زیادہ اچھا ہونا چاہیے لیکن اس ہائی لیول ایجوکیشن کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جماعت اور دین سے attachبھی ہیں یا صرف دنیا میں ہی پڑ گئے ہیں؟ ایجوکیشن میں جا کر صرف دور ہٹ گئے ہیں یا جماعت کے ساتھ ان کی attachmentبھی ہے؟لڑکیوں میں کتنی ایسی ہیں؟ یہ سارا ڈیٹا بھی آپ لوگوں کو لینے کی ضرور ت ہے ۔

سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کا کام ہے کہ یہ انفارمیشن بھی لے اور پھر اپنے ڈیٹا کوجماعت کے ساتھ correlateکرتے ہوئے اپنی انفارمیشن شیئر کرے۔پھر دیکھیں کیا حل نکالا جاسکتا ہے۔ان لوگوں کو جو کم educatedہیں کس طرح بہتر کیا جاسکتا ہے۔ان کے بھی بعض ایسے ذہین بچے ہوتے ہیں جو اچھی ایجوکیشن لے سکتے ہیں۔ان کو کس طرح ہمencourageکر سکتے ہیں۔پھر ان کو جماعت کے ساتھattach رکھیں اور جماعت کے کام میں بھی لے کر آئیں۔ یہ معلومات بھی سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن آرگنائزیشن کو اکٹھی کرنی چاہیے۔

اس پریزنٹیشن کے اختتام پر حضور انور نے موصوفہ کی ان الفاظ میںحوصلہ افزائی فرمائی کہ آپ نے بہترین تحقیق کی ہے۔

دوسری پریزنٹیشن پیش کرنے والے GeneticsمیںPh.D کرنے والے ایک خادم کی تھی جنہوں نے اپنی ریسرچ یونیورسٹی ہسپتال کولون (Köln)سے مکمل کی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ان کی پی ایچ ڈی کا عنوان Indol-3-carbinol یعنی ایک کیمیکل جوسبز سبزیوں میں پایا جاتا ہے۔یہ microglialکو کم کرتا ہے جو ایک خاص قسم کے خلیات ہیں جو بیماری کی حالت میں ایکٹیویٹ ہو جاتے ہیں۔Indol-3-carbinol ان سیلز کی ایکٹیویشن کو روکتا ہے۔موصوف نے اس thesisمیں اس بات پر تحقیق کی کہ کیا بروکلی ایکسٹریکٹ میں پایا جانے والا ایک خاص کیمیکل،انڈول تھری کاربینول،microglialایکٹیویشن کو روکتا ہے یا نہیں؟ نتیجہ یہ نکلا کہ سبز سبزیوں میں پایا جانے والا کمپاؤنڈI3Cریٹینا کے اندر مضر سیلز کی ایکٹیویشن کو روکتا ، ریٹینا کے سٹرکچر کو preserveکرتا اور اس کے ساتھlight damageسے بھی بچاتا ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس لیے balancedخوراک ضروری ہے۔جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں فرمایا کہ نہ گوشت زیادہ کھاؤ نہ سبزی بلکہ balanced dietہو۔

بعدازاں حضور انور ایدہ الله نے موصوف سے استفسار فرمایاکہ ویسٹرن سوسائٹی میں لائٹ کاexposure زیادہ ہےیا کسی اور چیز کا exposure زیادہ ہے جس کی وجہ سے ریٹینا damageہوتا ہے ؟ یہاں تو موسم ایسا رہتا ہے کہ بادل رہتے ہیں ۔اتنی کلیئر لائٹ بھی نہیں۔افریقہ اور ایشیا میں بعض مہینوں میں تو بہت زیادہ bright lightہوتی ہے۔ اگر لائٹ کی وجہ سے ہونا ہے تو وہاں ہونا چاہیے یا کوئی اور وجوہات ہیں؟اگر ہیں توپھر وہ کیا وجوہات ہیں جو ویسٹ میں ہیں اور ایسٹ میں اور افریقہ میں نہیں یا یہ کوئی جنیٹک کیریکٹر ہے؟

موصوف نے عرض کیا کہ اس میںgeneticsبھی involveہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو لوگ ستّر یا اسّی سال سے زائد عمر کے ہو جاتے ہیں ان میں یہ بیماری ہوتی ہے۔ان ملکوں میں لوگوں کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں اس وجہ سے ادھر یہ بیماری بھی زیادہ ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ ایشیا یا افریقہ میں جن کی عمر ستّر، اسّی سال کی ہوتی ہے ان میں یہ بیماری نہیں ہوتی۔ آپ نے وہاں کا سیمپل لیا ہے؟ وہاں بھی تو جا کے دیکھنا پڑے گا ۔یا ساؤتھ امریکہ یا امریکہ میں۔ ویسٹ میں بھی یورپ میں کن ملکوں میں زیادہ ہے اور کن ملکوں میں نہیں ہے؟یا اگر صرف وائٹ نسل میں زیادہ ہے تو ایسٹرن یورپ میں کتنا اور باقی یورپ میں کتنا ہے؟یا امریکہ میں رہنے والوں میں کتنا ہے یا جو آسٹریلیا وغیرہ میں جا کر آباد ہوئے ان میں وہاں کے حالات کے مطابق کتنا ہے؟تو اس پر کافی بڑی ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے۔

پریزنٹیشن کے اختتام پر حضور انور ایدہ الله کے دریافت کرنے پر کہ ریٹینل ڈی جنریشن سے متاثرہ لوگوں کی اوسط تعدادکیا ہے؟ موصوف نے بتایا کہ ۲۰۲۰ء تک دنیا بھر میں دو صد ملین لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے۔مزید برآں حضور انور نے فرمایا کہ بروکلی اورcabbageجیسی چیزیں اچھی ہوتی ہیں۔یہ کھانی چاہئیں۔اسی طرح پکا کر کھانی ہے تو پالک وغیرہ ، یہ سبزیاں بھی اچھی ہوتی ہیں۔وہ بھی کھانی چاہئیں۔

پریزنٹیشنز کے بعد شاملین کو حضور انور سے متفرق امورکے متعلق سوال کرنے کا موقع ملا۔

کمپیوٹر سائنسز میں ماسٹر ڈگری کی حامل ایک خاتون نے سوال کیا کہ اگر عورتوں کو پڑھائی یا نوکری کے سلسلے میں اکیلے کچھ دن سفر کرنا پڑے تو اسلامی نقطہ ٔنظر سے اس بارے میں کیا ہدایت ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اگر تو صرف مردوں کے ساتھ سفر کرنا ہے تو avoidکرنا چاہیے۔نہیں کرنا چاہیے اور اگر آپ کی ٹیم میں کوئی دو تین عورتیں بھی شامل ہیں اور وہاں جا کر عورتوں نے علیحدہ رہنا ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ سفر کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔کر سکتی ہیں ۔ یہ اس پر بھی منحصر ہے کہ آپ کس قسم کی سٹڈی یا ریسرچ کر رہی ہیں۔اگر انسانی جانوں کے لیے جیسے ڈاکٹر ہے، میڈیکل ڈاکٹر ہے یا اسی طرح کوئی اَور ریسرچ جو انسانی زندگی کے فائدے کے لیے ہے اس میں سفر کر رہی ہیں تو وہاں تھوڑی بہت قربانی دی جا سکتی ہے۔لیکن صرف کمپیوٹر سائنس ریسرچ تو آپ کہیں بھی بیٹھ کے کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے کہنا کہ جب تک میں آسٹریلیا نہیں جاؤں گی یہاں سے اچھا کمپیوٹر مجھے نہیں مل سکتا حالانکہ اس سے بہتر کمپیوٹرfacilitiesآپ کو جرمنی میں مل جاتی ہیں۔اس لیے ان چیزوں کوavoidکرنا چاہیے۔

یہ ہر کیس اور حالات کے اوپر dependکرتا ہے اس کا کوئی اصول نہیں بنایا جا سکتا۔ہاںیہ اصول بہرحال ہے کہ جہاں انسانی زندگی کے لیے کوئی چیز کرنی ہے وہاں اگر کوئی تھوڑا بہت riskبھی لینا پڑے تو چلے جانے میں کوئی ہرج نہیں۔

انگلش اور فلاسفی کی سیکنڈری سکول کی خاتون ٹیچر نے سوال کیا کہ جرمنی میں مذہبی تعلیم سکولوں کے بنیادی نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے۔ایک ٹیچر کو اپنےسٹوڈنٹس میں ایسی کون سی خصوصیات اور خوبیاں پید اکرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو مؤثر طریق پر سمجھ سکیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اپنا عمل اوراپنا نمونہ دکھاؤ اور اپنی مثال قائم کریں۔ اپنے تجربات بیان کریں کہ اللہ تعالیٰ سے آپ کا کیا پرسنلexperienceہے۔کبھی کبھی سٹوڈنٹس میں بیٹھ کر جو casualگفتگو ہوتی ہے وہاں نارمل ڈسکشن میں باتوں باتوں میںexperience بیان کر دیا کریں یا لیکچر دیتے ہوئے بعض دفعہ کوئی مثال دینی پڑتی ہے تو ایسی مثال دیں جس سے لڑکوں کو خیال پیدا ہو کہ ہاں خدا تعالیٰ ہے اور پھر ان کی توجہ بھی آہستہ آہستہ اس طرف ہوتی ہے ۔

ساٹھ ستّر فیصدسٹوڈنٹس تومذہب کے معاملے میں ویسے ہیindifferentہیں۔وہ کہتے ہیں جب بڑے ہوں گے، اماں ابا کی عمر کو پہنچیں گے،تو دیکھیں اور سوچیں گے کہ مذہب کیا چیز ہے۔ ابھی تو ان کو مذہب سے تعلق ہی کوئی نہیں ، تو جب مذہب سے کوئی تعلق نہیں، نہ خدا سے ان کا کوئی تعلق ہے اور کچھ لوگ جو اگر مذہب اور خدا کو مانتے بھی ہیں تو وہ کبھی کبھی اتنے regular practicing مذہبی لوگ نہیں ہوتے۔خاص طور پر چودہ تا سولہ سالہ عمر میں ماحول دیکھ کر ایک چینج آ رہا ہوتا ہے۔تو اس حالت میں یہی ہے کہ اگر کسی کے پرسنل تجربات ہوں تو وہ بیان کرے۔اس سے لوگوں کا انٹرسٹ develop ہوتا ہے۔اس کے لیے یہی ہے کہ آپ پہلے اپنا خود اللہ سے تعلق پیدا کریں پھر باقیوں کو بھی کہانی کہانی میں بتا کر انٹرسٹ createکر سکتی ہیں۔

Pharmacyمیں Ph.D کے حامل ایک موصوف نےسوال کیا کہ کیا ہمیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ابتدائی مرحلے میں جلدی ذاتی کام شروع کرنا چاہیے یا ایک محفوظ ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔حضور راہنمائی فرمائیں کہ نوجوان گریجوایٹس کو کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ بات یہ ہے کہ پہلے تجربہ حاصل کرنے کے لیے ملازمت بھی کر لو تو کوئی ہرج نہیں۔ ملازمت سے زندگیregulateہو جاتی ہے۔بعض دفعہ جب انسان خود کام کر رہا ہو تو بڑا relaxed ہو جاتا ہے۔سوائے اس کے کہ پہلے دن سے ہی پیسے آنے لگ جائیں تو پھر ٹھیک ہے۔نہیں تو بعض دفعہ پیسے نہ آ رہے ہوں تو انسان کہتا ہے کہ چلو ٹھیک ہے بعد میں چلے جائیں گے۔دوگھنٹے دکان لیٹ کھول لی تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔سوائے اس کے کہ پیچھے کوئی ایسا خوف ہو کہ ہاں ضرور جانا ہے۔ تو زندگی ریگولیٹ کرنے کے لیےایک دو سال ملازمت کریں اور پھر پیسے بھی کما لیں۔ پیسے اتنے ہوں کہ اپنی فارمیسی شروع کر سکتے ہیں تو پھر شروع کرنی چاہیے۔اصل بات یہی ہے کہ اپنا بزنس ہو لیکن اپنی زندگی کو ریگولیٹ کرنے کے لیے تھوڑا سا ایسا کام ضرور کرنا چاہیے جہاں آدمی کچھ پابندیوں کے اندر گزارا کر رہا ہو تو اس سے بہت سارے تجربات ہو جاتے ہیں ۔

ایک فزیشن نے سوال کیا کہ بطور ڈاکٹر اور موجودہ طب کے ساتھ اپنے مریضوں کے لیے قرآن پاک کو کیسے بطور شفا کے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ غیر احمدی پیروں کی طرح صرف یہ کہنا کہ میں نے یوں کر کے دَم کیا، پھونک ماری اور قرآن کریم کی کوئی آیت گھول کے مریض کو پلا دیا اور اس کو شفا ہو جائے تو وہ کچھ نہیں ہے۔وہ یونہی اپنے آپ کو اور مریضوں کو بھی آزمانے والی بات ہے اور اللہ تعالیٰ پر بھی پھر بدظنّیاں پیدا ہوتی ہیں۔

بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اسباب کو استعمال کرو۔ پہلے تو یہ کہ دعا کریں۔ایک ڈاکٹر کو یہ regular دعا ویسے ہی کرتے رہنا چاہیے کہ جو مریض آتے ہیں ان کے علاج کے لیے مجھے اللہ تعالیٰ صحیح راہنمائی کرے۔ان کی تشخیص میں صحیح طرح کر سکوں۔جب بیماری صحیح طرح diagnose ہو جاتی ہے تو اس کے بعد پھر اس کے لیے جو بہترینsuitableدوائی ہے وہ میرے دماغ میں آئےاور میں اس کا علاج کر سکوں۔ایک ڈاکٹر کواللہ تعالیٰ سے راہنمائی کےلیے مستقل دعا مانگنی چاہیے۔اس کے بعد مریض کو دیکھیں۔اپنے آپ کو نہ سمجھیں کہ میں کچھ چیز ہوں۔ھو الشّافی پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ شافی ہے۔اپنی prescriptionلکھیں تو اس میں بھی اوپر ھو الشّافی لکھ دیا کریں تا کہ ہر وقت آپ کے دماغ میں رہے کہ اللہ شافی ہے، اللہ تعالیٰ ہی شفا دینے والا ہے۔قرآن شریف یہی کہتا ہےکہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ شفا دیتا ہے۔تو اللہ کو شافی سمجھ کر اس کا نسخہ لکھیں اور پھر نمازوں ، سجدے میں بھی اس کے لیے دعا کریں۔یا مستقل ایک اصول بنا لیں کہ روزانہ میں نے دو نفل اپنے مریضوں کے لیے پڑھنے ہیں، اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈالتا ہے۔ تو باقی جب کلینک میں آتے ہیں یا جہاں بھی پریکٹس کر رہے ہیں وہاں آتے ہیں تو سورۂ فاتحہ پڑھ لیا کریں۔اس میں بھی شفا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ میں صحیح راہنمائی بھی کرتا رہے اور اس کو شفا بھی دے، وہ پڑھیں۔ اپنے دن کا آغاز دعا سے کریں ، سورۂ فاتحہ پڑھ کرکریں اور نمازوں میں دعا کریں اور اس سے پہلے بھی اور بعد میں بھی دعا کریں، اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے۔ یہ کہنا کہ میں فلاں چیز یاقرآن کریم کی کوئی آیت گھول کے پلا دوں یہ پیروں والی باتیں ہم میں نہیں ہیں۔

ایک فارماسسٹ خاتون نےسوال کیا کہ اگر کسی کو اپنے تعلیمی شعبے میں کام کرنے کا موقع ملے تو کیا اپنےبچوں کو ڈے کیئر میں یا والدین کے گھر چھوڑنا جائز ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایاکہ اگر حالات اس بات کے متقاضی ہوں اور یہ لازم ہو جائے تو تب کوئی ایسا انتظام کرنا مجبور ی متصور ہو گی۔ بہت سے لوگ اس طریق کو اختیار کرتے ہیں، تاہم یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ بچوں کو آگاہ کیا جائے کہ انہیں چھوڑ نہیں دیا گیا۔بچوں کی بہبود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔خاص طور پر جب وہ سکول میں جا رہے ہوںتو انہیں توجہ دینا اور ان کی زندگیوں میں شامل ہونا بہت ضروری ہے۔

ایجوکیشن میں ماسٹرز ڈگری کی ایک سٹوڈنٹ خاتون نے سوال کیا کہ کیا خواتین سیاست میں حصہ لے سکتی ہیں؟موصوفہ نے سیاسی جماعت میں شامل ہونے پر غور طلب عوامل کے بارے میں دریافت کیانیز بتایا کہ انہیں اور ان کی بہن کو ایک خاتون سیاستدان نے اپنی سیاسی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی تھی؟

اس پر حضور انور نےپیشہ تدریس کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ واقعی یہ ایک عظیم اور قابل تعریف پیشہ ہے، اگر اس کے باوجود وہ سیاست میں آنے کی اتنی خواہش رکھتی ہیں تو وہ آگے بڑھ سکتی ہیں لیکن انہیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ سیاست صاف ستھری اور بااخلاق اصولوں کے مطابق ہو۔

حضور انور نےحجاب پہننے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تلقین فرمائی کہ لباس شائستہ ہونا چاہیے اور آپس میں میل جول اور سماجی تعلقات میں اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے۔اسی طرح حضور انور نےانہیں حقوق نسواں اور دیگر انسانی حقوق کے قائم کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کی ترغیب دی ۔

انڈسٹریل انجینئرنگ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے، آٹوموٹیو انڈسٹری میں ٹیکنیکل innovation مینجمنٹ سے وابستہ ایک صاحب کو حضور انور سے اپنے شعبہ کے حوالے سےبات کرنے کا موقع ملا۔موصوف نے ذکر کیا کہ artificial intelligence انڈسٹری کو نمایاں طور پر متاثر کر رہی ہے۔

اس پر حضورانور نے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے فرمایا کہ اگر سب کچھ صرف artificial intelligenceکے ذریعے ہی انجام پانا ہےتو انسانی ذہن کا کیا کرنا باقی رہ جائے گا۔ایسی صورت میں انسانی عقل رجعت اور جمود کا شکار ہو جائے گی۔

ایک سوال کیا گیا کہ کئی یونیورسٹیز کے طلبہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام کرتے ہیں اور پیسے کما رہے ہوتے ہیں اور پڑھائی کے بعد عموماً ان کی آمدنی اچھی ہو جاتی ہے۔یونیورسٹی میں زیر تعلیم احباب کو کس طرح مالی قربانی کے فوائد کی طرف بھی متوجہ کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ نے خود ہی قربانی کا لفظ بول دیا۔قربانی کا تو مطلب ہی یہی ہے کہ اپنے آپ کو کچھ تکلیف میں ڈالو اور پھر کوئی کام کرو۔ قربانی کسے کہتے ہیں؟قربانی کا مطلب یہی ہے کہ تکلیف میں ڈال کر کوئی کام کرنا۔ اگر آسانی سے کام ہوتا رہے تو اسے قربانی تو نہیں کہتے۔ ہم کہتے ہیں ہم نے عید قربان پہ بکرے یا گائے کی قربانی کی تو اس کے گلے پر چھری پھیر کے ہی قربانی کی ۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی قربانی پیش کی، حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو لٹا کے قربانی لینے لگے تو وہ اسی قربانی کے لیے تیار ہوئے تھے کہ چھری پھیریں۔تو پہلے تو قربانی کے لفظ کا فلسفہ پتا ہونا چاہیےکہ قربانی کیا ہے۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں قربانی، دوسری طرف یہ کہتے ہیں کہ میرےتو اپنے خرچ پورے نہیں ہو رہے میں کس طرح قربانی کروں۔ قربانی تو ہے ہی وہی کہ اپنے خرچوں، اپنی خواہشات، اپنی ضروریات کو کم کر کے اس کے دین یا غریبوں یا کسی دوسرے کی بہتری کے لیے کچھ خرچ کرنا ۔

آمدنی جب ہوتی ہے اس میں سٹوڈنٹ اپنی فیس اور اپنے کھانے پینے کے اخراجات بھی پورے کر رہا ہوتا ہے، بعض دفعہ والدین نہیں دے سکتے، بعض دفعہ دوسری جگہ یونیورسٹی میں رہ رہا ہے تو وہاں کہیں فلیٹ یا یونیورسٹی ہاسٹل میں رہتا ہے۔بعض دفعہ وہاں کے اخراجات ہو جاتے ہیں جو وہ پورے کر رہا ہوتا ہے۔تو یہ چیزیں آپ کی ایک ریگولر انکم نہیں ہیں۔اس عرصے میں آپ پڑھ رہے ہیں، اس میں سے کچھ savingsکر کے اگر آپ قربانی کرتے ہیں، چندہ دیتے ہیں یا کسی غریب کی مدد کرتے ہیں، کسی چیریٹی میں دیتے ہیں تو اچھی بات ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا کہ جو تمہارے لیے آسان ہے وہ دو،دوسری جگہ فرمایا کہ قربانی کر کے دو۔ تیسری جگہ فرمایا کہ قربانی اس وقت تک ہے ہی نہیں جب تک تم وہ چیز قربان نہ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو۔ تو حالات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف سبق دے دیے۔لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰي تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ کہ نیکی ہے ہی نہیں جب تک تم وہ خرچ نہ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو۔

یہ تو آپ کو سوچنا پڑے گا کہ کس حد تک ،کن حالات میں آپ نے قربانی کرنی ہے۔ باقی ریگولر چندہ بعض دفعہ نہیں دے سکتے توجو minimum requirement ہے مثلاً اگر ایک سٹوڈنٹ موصی ہے تو اس نے بہرحال اپنی پاکٹ منی سے چندہ دینا ہے۔ ظاہر ہے اگر وہ اتنا reasonableکما رہا ہے کہ اپنی فیس بھی دے رہا ہے اور گھر کے خرچے بھی پورے کر رہا ہے تو پھر اس کو اپنی انکم کے مطابق چندہ دینا چاہیے اور اگر موصی نہیں ہے تو جتنا وہ آسانی سے دے سکتا ہے وہ دے ۔ تو یہ ساری چیزیں حالات پر dependکرتی ہیں۔اسی طرح دوسری چیریٹیز ہیں ان میں جتنی آپ قربانی کر سکتے ہیں کریں۔

پہلی بات تربیت ہے۔اگر اچھی تربیت ہو ،خدا تعالیٰ پر یقین ہو، اعتماد ہو، اس پر توکل ہو، اس کے حق ادا کیے جارہے ہوں، انسان نمازیں پڑھنے والا ہو۔ پہلی چیز تو نماز ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایمان بالغیب کے بعد پہلے یہی فرمایاکہ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ کہ نمازوں کو قائم کرو، نماز پڑھو۔ پھر فرمایانمازیں جب پڑھ لو، اللہ سے تعلق پیدا ہو جائے پھر قربانی کرو۔ مِمَّا رَزَقۡنٰھُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ، جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ جب تربیت ہو جائے گی ، اللہ سے تعلق پیدا ہو جائے گا تو آپ خود آسانی سے خرچ کرنے کی طرف توجہ کرو گے یا ایسا کرنے کی خواہش پیدا ہو گی۔

پھر چندہ کیا چیز ہے؟ چندے کا فلسفہ ذہن میں آ جائے گا کہ چندہ قربانی ہے،یا صدقہ دینا قربانی ہے،یا کسی چیریٹی کو کچھ دینا قربانی ہے۔ قربانی کا فلسفہ جب سمجھ آجائے تبھی آدمی قربانی کر سکتا ہے۔ قربانی کا مطلب ہی تکلیف ہے ۔ اپنے آپ کوتھوڑی سی تکلیف میں ڈالو گے تو کام ہو گا ۔ اگر ایک دن برگر نہ کھاؤ تو کوئی بات نہیں،اتنے میں خدام الاحمدیہ کا چندہ ادا ہو جاتا ہے۔

ایک سوال کیا گیاکہ بحیثیت احمدی مسلمان میں نے جرمنی میں رہتے ہوئے دیکھا ہے کہ جرمن باشندےintegration پر بہت زور دیتے ہیں اور جرمن زبان میں مہارت کو ہی integrationکا ایک بنیادی پہلو سمجھا جاتا ہے جبکہ حضور انور نے اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ integrationمحض زبان سیکھنے تک محدود نہیں ہے بلکہ ملکی قواعد و قوانین کی پابندی کرنے جیسے کئی اہم پہلوؤں پر محیط ہے۔کیا حضور بعض ایسے نکات بتا سکتے ہیں جو میں یہاں کے باشندوں کو،خاص طور پر جو ساتھ کام کرتے ہیں،یا جن کو میں جانتا ہوں بتا کر سمجھا سکوں کہ محض ملکی زبان کی مہارت حاصل ہونے سے ہی لازمی طور پر integrationکے معیار کا اندازہ نہیں لگانا چاہیے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا کہ آپ کی پہلی بات ہی غلط ہے کہ مہارت حاصل کرنا۔زبان آنے اور مہارت حاصل کرنے میں بڑا فرق ہے۔لوکل جرمن لوگ جو یہاں پلے بڑھے ہیں ان کو اپنی زبان پر مہارت نہیں ہے تو آپ کو کہاں سےہے؟ آپ کو اردو پر کب مہارت ہے؟اس لیے مہارت بالکل علیحدہ چیز ہے۔

وہ یہاں یہ ضرور کہتے ہیں کہ کم از کم اتنی زبان تو آنی چاہیے کہ تم اپنا مدعا بیان کر سکو۔یہاں کئی جج ہیں،کورٹ میں احمدیوں کے اسائیلم کیسز جاتے ہیں ، وہ ان سے ایک دو لفظ پوچھتے ہیں کہ تم جرمن زبان میں کوئی فقرہ ہی بول دو، اگر کوئی جرمن میں فقرہ بولتا ہے یا دو سوال ہی کردے یا جواب د ے دے تو کہتے ہیں، ہاں چلو تم نے سیکھنے کی کوشش تو کی، تو انہوں نے ان کے کیس پاس کر دیے۔اس لیے ہر جگہ ایک اصول نہیں۔ہاں بعض rigidلوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ تمہیں زبان نہیں آتی، اس لفظ کا مطلب نہیں آتا ، اس کا استعمال نہیں آتا ، یہ فقرہ تم نے صحیح نہیں بنایا۔ ایسے کیسز بھی ہیں۔لیکن عمومی طور پر تھوڑی بہت ٹوٹی پھوٹی جرمن بھی جن کو آتی ہے ان کو لوگ کہتے ہیں واہ واہ کمال ہو گیا، تم جرمن بول لیتے ہو۔وہ اسی بات پر خوش ہو جاتے ہیں۔

کم از کم اتنا ہونا چاہیے کہ آپ جب یہاں اس ملک میں رہنے کے لیے آئے ہیں تو یہاں کی زبان تو سیکھیں۔زبان سیکھیں گے تو جہاں اپنا مدعا بیان کریں گے وہاں آپ کے لیے تبلیغ کے میدان کھلیں گے۔تبلیغ کے لیے بھی تو ضروری ہے کہ آپ کو اس جگہ کی زبان آنی چاہیے۔یہ بات تو اپنی جگہ ٹھیک ہے۔لیکن میں نے یہ بالکل نہیں کہا تھا کہ زبان نہ سیکھو اور باقی بہت سارے کام ہیں، ان پر توجہ کرو۔مَیں نے کہا تھا کہ صرف ایک چیز نہیں ہے۔ہاں!زبان بھی آنی چاہیے لیکنintegration یہ بھی ہے کہ ہم اس ملک میں رہ رہے ہیں، ہم باہر سے آئے ہیں، اس ملک کی زبان سیکھنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور اس ملک کے قانون اور قواعد کی پابندی بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے ہم یہاں آ کر اپنا علم بڑھانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں تا کہ ہم اس ملک کی خدمت کر سکیں۔

ایک شخص جوجرمن ہے،یہاں رہتا ہے اور اس کو بڑی اچھی زبان آتی ہے اور ملک کے قانون کی پاسداری نہیں کر رہا، اس کو توڑتا ہے،تو باوجود جرمن کہلانے کے وہ ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔لیکن اگر مجھے جرمن زبان کے دو چار لفظ آتے ہیں یا ٹوٹی پھوٹی جرمن زبان آتی ہے، میں ابھی صحیح طرح نہیں بیان کر سکتا کیونکہ میں نیا آیا ہوں لیکن حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِکے لحا ظ سے میرے اندر ملک کی خدمت کرنے کے جذبات ہیں اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ ملک و قوم کی خدمت کروں اور لوگوں کا ممنون احسان ہو جاؤں جنہوں نے مجھے یہاں رہنے کے لیے جگہ دی اور میں ان کی خدمت بھی کروں تو یہ integration ہے۔ ان کو بتاؤ کہ زبان سیکھنے کے لیے مجھے وقت چاہیے ،وہ میں سیکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ میری تعلیم مجھے یہ کہتی ہے کہ تم نے وطن سے محبت کرنی ہے اور وطن سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ میں ملک کے قانون کی پاسداری کروں اور ملک سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ملک کی بہتری کے لیے میرے اندر جو صلاحیتیں ہیں ان کو بروئے کار لاؤں ۔

ملک سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ میں جس حد تک ملک کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں پہنچاؤں۔ تو یہ چیزیں جب آپ لوگوں کو بتائیں گے تو ان کو سمجھ آ جاتی ہے اور ستّر ، اسّی بلکہ نوّے فیصد لوگ اس کو سمجھ جاتے ہیں ۔ باقی کچھ نہ سمجھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ضروری تو نہیں کہ آپ سو فیصد کسی کو قائل کر سکیں۔دنیا میں کہیں نہیں ہوا کہ سوشل تعلقات میں آپ سو فیصد نمبر حاصل کر لیں۔

آپ زبان سیکھیں، زبان سیکھنے کے ساتھ باقی باتیں بھی کریں۔مَیں نے تو یہ کبھی نہیں کہا کہ زبان سیکھنا ضروری نہیں۔البتہ جہاں تک مجھے یاد ہے مَیں ہر جگہ یہ ضرور کہتا ہوں کہ integrationصرف یہ نہیں کہ مَیں ان کی روایات پر عمل نہیں کرتا، شراب نہیں پیتا ، کلب میں نہیں جاتا، عورت سے مصافحہ نہیں کرتا یا عورت مرد سے مصافحہ نہیں کرتی۔integrationیہ ہے کہ ملک کی بہتری کے لیے جو کچھ میری صلاحیتیں ہیں ان کو میں بروئے کار لا رہا ہوں اور میرے اچھے اخلاق ہیں۔مَیں ہر جرمن،مرد ہو یا عورت اس کی بہتری اور اس کو فائدہ پہنچانے کے لیے کام کرتا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ جہاں تک زبان سیکھنے کا تعلق ہے وہ بھی سیکھ سکتا ہوں اور سیکھ رہا ہوں۔

میں نے اگر برائیاں بیان کی ہیں تو ان باتوں کی کی ہیں جہاں ان لوگوں کی برائیاں تھیں۔یہ میں نے ضرور کہا ہےکہ کلب میں جانا ، ڈانس کرنا یا ننگے لباس پہننا integrationنہیں ہے۔ زبان نہ سیکھنے کی تو میں نے بہت کم بات کی ہے۔اگر کہیں کی ہے تو شاید ایک آدھا فقرہ کبھی کہیں کہہ دیا ہو اور وہ بھی سرسری۔ ہاںجو برائیاں ہیں ان کو میں نے ضرور ہائی لائٹ کیا ہے کہ یہ برائیاں کرنے سے مطلب یہ نہیں ہے کہ میں ننگا ہو کر پھرنا شروع کر دوں یا عورتوں کے ساتھ ڈانس کرنا شروع کر دوں یا شراب پینا شروع کر دوں تو میں انٹگریٹ ہو گیا۔

یہ تو خود اب ماننے لگ گئے ہیں۔ان کی اپنی ریسرچ آگئی ہے کہ پہلے کہتے تھے ہفتے میں ایک دن شراب پینے سے کچھ نہیں ہوتا، اب یہ کہتے ہیں نئی ریسرچ آئی ہے کہ شراب پینا ہی انسان کے لیے تباہی ہے۔اس پریہ لوگ خود ریسرچ کرنے لگ گئے ہیں۔ پہلے کہتے تھے مرد عورت اکٹھے ہو جائیں توکچھ نہیں ہوتا۔اب عورتوں نے شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں اس قسم کی integrationنہیں چاہیے۔مرد تو ہمارے حق مارنے لگ گئے ہیں۔مرد عورت بن کے عورتوں میں آ گیا تو عورتوں نے شور مچا دیا کہ ہم نے اب ان کو شامل نہیں کرنا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ٹورنامنٹ علیحدہ ہوں گے، انہوں نے اپنے کلب ہی علیحدہ بنانے شروع کر دیے ہیں۔ جرمنی اور یوکے میں بھی بعض ایسے کیس ہیں ۔تو یہ ایسی باتیں ہیں جو برائیاں پیدا کر سکتی ہیں اور جو قانون قدرت کے خلاف ہیں وہ خود ان کے اندر پیدا ہو رہی ہیں اور اگلے دس سے پچیس سال میں ان کو احساس ہو جائے گا۔یا ان کی نسلیں ختم ہو جائیں گی یا یہ برائیاں چھوڑ دیں گے۔اس لیے آپ آرام سے اپنا کام کیے جائیں اور خاموشی سے پیار سے سمجھا کر کرتے جائیں اور ہر دفعہ جب آپ کو کسی نہ کسی سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہاں اگر آپ نیک نیتی سے اس بات پر قائم ہیں کہ میں نے فائدہ پہنچانے کے لیے کام کرنا ہے تو کوئی نہ کوئی راستہ اللہ تعالیٰ سوجھا دیتا ہے اور آپ کو جواب بھی سوجھا دے گا کہ اس situationمیں کس طرح کا جواب دینا ہے۔اللہ کو راضی کرو باقی سب راضی ہو جائیں گے۔

حضور انور کےاستفسار پر بتایا گیا کہ یہاں موجود سٹوڈنٹس میں سے ۱۱۴؍لڑکے اور ۱۴۴؍لڑکیاں ہیں۔اس پر حضور انور نے فرمایاکہ لڑکیاں زیادہ پڑھ رہی ہیں،لڑکوں کو پڑھایا کریں!

ملاقات کے آخر پرحضور انورنے فرمایا کہ چلو پھر۔ السلام علیکم

(مرتبہ: قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button