حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

مساجد کے قیام کے مقاصد

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء)

اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ۔(التوبۃ:18)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں ۔

دنیاوی عمارتوں یا وہ عمارتیں جو دنیاوی مفادات حاصل کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں ان کے افتتاحوں میں تو دنیا کے رواج کے مطابق ان ملکوں میں خاص طور پر اور دنیا میں عموماً دنیاوی ظاہری خوشیوں کے اظہار ہوتے ہیں اور یہ اعلان ہوتے ہیں کہ اس سے ہم یہ دنیاوی فائدہ اٹھائیں گے اور وہ دنیاوی فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن مسجد کا افتتاح جب ہم کرتے ہیں ، جب ہم مسجد تعمیر کرتے ہیں تو اس سوچ کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اور اللہ تعالیٰ کے اس گھر کی تعمیر سے ہم نے اپنا مدّعا اور مقصد جو رکھنا ہے وہ صرف اور صرف یہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان باتوں کا کرنا ضروری ہے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم عطا فرمایا ہے، اور اس میں سب سے پہلا اور اوّلین مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے، اور اس طرح ادا کرنا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے۔ یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں جیسا کہ ترجمہ بھی پڑھ دیا گیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ مسجد کی تعمیر کرنے والوں کا مقصد کیا ہونا چاہئے یا وہ کون لوگ ہیں جو مسجد کی تعمیر کا حق ادا کرتے ہیں ۔ وہ وہ لوگ ہیں جو اس کی آبادی کی فکر میں رہتے ہیں ، اس کو اچھی حالت میں رکھنے کی فکر میں رہتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہیں ۔ کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا عملی اظہار بھی ضروری ہے اور وہ اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب اقام الصلوٰۃ کا عملی نمونہ دکھایا جائے۔

اور اقام الصلوٰۃ کیا ہے؟ اس کا عملی اظہار کس طرح ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے؟ اس کا عملی اظہار ایک تو نماز باجماعت کی ادائیگی میں ہے، دوسرے نماز میں اللہ تعالیٰ کی حضوری اور توجہ کو قائم رکھنا ہے اور یہی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور تفسیر سے پتہ چلتا ہے۔ پس نماز کا حقیقی قیام کرنے والے وہ لوگ ہیں جو باجماعت نماز کے عادی ہوں اور اپنی توجہ خالص اللہ تعالیٰ کی طرف رکھتے ہوئے نمازیں پڑھنے والے ہوں ، دعا، استغفار اور توجہ سے نماز ادا کرنے والے ہوں ، توجہ ادھر ادھر ہو تو پھر اپنی توجہ کو خدا تعالیٰ کی طرف لے کر آئیں ۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ کس حد تک ہم اقام الصلوٰۃ کے اس معیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں ۔ اس مادی دنیا میں اکثریت اول تو باجماعت نماز کی ادائیگی کی طرف توجہ نہیں دیتی۔ اور اگر مسجد میں آ بھی جائیں تو نہ فرض نمازوں میں ، نہ سنتوں میں وہ توجہ رہتی ہے جو نماز کا حق ہے۔ ایسی حالت اگر ہے تو ہم خود ہی اپنی حالت کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا واقعی ہم ان لوگوں میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مساجد تعمیر کرنے والے اور اس کا حق ادا کرنے والے کہا ہے۔

پھر فرمایا کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں ۔ دین کی خاطر بھی مالی قربانی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بہتری کے لئے بھی، ان کے حق ادا کرنے کے لئے بھی مالی قربانی کرنے والے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کو سوائے اللہ تعالیٰ کے خوف کے اور کوئی خوف نہیں ہوتا۔ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے کسی عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے پیار سے ہم محروم نہ ہو جائیں ۔ اپنے اعمال ان ہدایات کے مطابق کرنے والے ہوتے ہیں ، ان حکموں کو اپنے پیش نظر ہر وقت رکھنے والے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی مسلمان کو حکم دیا ہے اور جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں ۔ پس یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے جو ایک مومن، مسلمان کی ہے۔ اور اس مسجد بننے کے بعد یہاں آنے والوں یا اس مسجد سے اپنے آپ کو منسوب کرنے والوں کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں ۔ آپ نے اپنی عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے ہیں تبھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جانے والے ہوں گے، تبھی ان لوگوں میں شمار ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر رہتی ہے۔ اس آیت سے پہلے کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ مشرکوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ مساجد کی تعمیر کریں یا ان کی آبادی کریں ، ان کے دل تو غیر اللہ سے بھرے پڑے ہیں ۔ اور جس کا دل غیر اللہ سے بھرا ہو وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا نہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کر سکتا ہے۔

اور شرک بھی کئی قسم کا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ

شرک کئی قسم کے ہیں ۔ ایک تو موٹا اور صحیح شرک ہے جس میں کسی انسان یا پتھر یا اور بے جان چیزوں یا قوتوں یا خیالی دیویوں اور دیوتاؤں کو خدا بنا لیا گیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ یہ شرک ابھی دنیا میں موجود ہے، ظاہری طور پر موجود ہے لیکن فرمایا کہ یہ زمانہ روشنی اور تعلیم کا ایسا زمانہ ہے کہ عقلیں اس قسم کے شرک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں ۔ گو یہ شرک ہے لیکن تعلیم نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ یہ پتھر کی مورتیاں اور بت جو ہیں یہ ہمارا کچھ کر سکتے ہیں ۔ لیکن فرمایا کہ مگر ایک اور قسم کا شرک ہے جو مخفی طورپر زہر کی طرح اثر کر رہا ہے اور وہ اس زمانے میں بہت بڑھتا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد بالکل نہیں رہا۔(ماخوذ از ملفوظات جلد3 صفحہ79-80۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان) اور اس بات کی آپ نے یہ وضاحت فرمائی کہ اَسباب اور دوسری چیزوں پر خدا تعالیٰ کی نسبت زیادہ بھروسہ ہے۔ اپنی نوکریوں، اپنے کاروباروں ، اپنی دنیاوی مصروفیات کی طرف زیادہ توجہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہے، مسجدیں آباد کرنے کی طرف توجہ نہیں ہے۔

پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے، اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ طور پر یہ مانگنا چاہئے کہ اے خدا ہمیں کامل مومن بندہ بنا۔ کیونکہ مومن بننا بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر منحصر ہے اس لئے اس کے مانگنے سے ہی یہ مقام حاصل ہو سکتا ہے۔

ہم صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم نے ایک بڑی خوبصورت مسجد فلاڈلفیا میں بنا دی ہے، اس شہر میں بنا دی ہے، بلکہ ہم اس کا حق ادا کرتے ہوئے جب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں تو ہم یہ سننے والے ہوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسجدیں خدا تعالیٰ کی خاطر بنائی ہیں اور پھر اس کا حق ادا کرنے کی بھی کوشش کی۔ چنانچہ انہی ہدایت یافتہ لوگوں میں اور ان لوگوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے جن سے اللہ راضی ہوتا ہے، جن سے خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ پس اس سوچ کو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب یہ سوچ ہو گی اور اس کے لئے کوشش ہو گی تو اس مسجد کے افضال اور برکات ہم اس دنیا میں بھی محسوس کریں گے، ہماری اولادیں اور نسلیں بھی دین سے جڑی ہوئی ہوں گی اور ہم اللہ تعالیٰ کے پیغام کو بھی اس علاقے اور اس شہر میں پھیلانے والے ہوں گے۔ توحید کو دنیا میں قائم کرنے والے ہوں گے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کو دنیا میں لہرانے والے ہوں گے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button